اتفاق
For To Me To Live Is Christ
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published In Noor i Afshan 24 May1895
نور افشاں مطبوعہ ۲۴ مئی ۱۸۹۵ء
آہا ۔آج ہمارے ناظرین حیران ہوں گے کہ یہ کہاں سے آنکلا۔جناب ذرا تحمل کیجیے گا ۔سب کچھ پتہ لگ جاتا ہے۔یہ عربی لفظ ہے۔جس کے معنی’’ ملاپ،دوستی،ایکا‘‘ کے ہیں۔اس کے سُننے سے ہر ایک کے کلیجہ میں ٹھنڈک اور دل میں اُمنگ پیدا ہوتی ہے۔کہ درحقیقت اس کے حاصل کرنے میں سچی خوشی و راحت ملتی ہے۔اور معنی کے لحاظ سے بھی یہ بڑی عزت و وقار کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔آدمی کا مدنی الطبع(شہری پن، فطرتاً اپنے ساتھیوں سے مل جل کر رہنے والا) ہونا ہی اس امر کا شاہد (گواہ)ہے ۔وہ ملکوں ،شہروں اورگاؤں میں ہمیشہ اس بات کا منتظر رہتا ہے کہ مجھے کوئی بغیر دام (قیمت)لے ۔وہ قوموں،فرقوں اورسوسائٹیوں میں پکارتا ہے کہ مجھے مفت لو۔اور تب ہی اپنے مقصدوں میں کامیاب ہوگے ورنہ مایوسی کا سر ٹیفکیٹ ملے گا ۔غرض کہ اُس نے اپنی زندگی کا اعلیٰ مقصد یہی ٹھہر ایا ہے کہ میں ہر ایک کے سامنے اچھا اور بھلا اور مقبول ِنظر ہو ں ۔ہم سب کو با آواز بلند پکار پکار کر کہتا ہے کہ سونے والواُٹھو۔ٹوٹے جاتے ہو ۔کیوں خوابِ غفلت میں ڈوبے ہو ۔جاگو اور باہم اتفاق سے رہو۔ورنہ تکلیف اُٹھاؤ گے۔دوسروں کے غلام بنو گے۔صاحبان،چیونٹیوں ،کووّں اور شہد کی مکھیوں کو دیکھئے وہ مل جل کر رہتے ہیں ۔
تو کیا اَے بنی آدم اشرف المخلوقات ہو کر بھی آپس میں ہمدردی،ملاپ،محبت سے نہ رہو تو کیا یہ شرم کی بات ہے یا کہ نہیں ۔ذرا اُوپر نظر اُٹھا کر قدرت کے بنائے سورج چاند کو تو دیکھو۔کیسے اپنی اپنی باری پر ہماری طرف تک رہے ہیں ۔نہ شکایت ہے نہ حسدنہ بخل(کنجوسی) ۔مکھیاں جو زہریلی ننھی ننھی جان ہیں باہمی اتفاق سے انسانوں کے لئے دن رات محنت کرنے کے بعد عمدہ اور لذیذ شہد پیدا کرتی ہیں ۔جس کو ہر ملک میں خوشی سے استعمال کرتے ہیں۔کیا یہ نااتفاقی کا نتیجہ ہے یا کہ اتفاق کا؟صاحب یہ تو اتفاق ہی کی بدولت ہے ۔اسی طرح اگر آدمیوں میں اتفاق ہو۔تو خُدا معلوم کیا کیا نتیجے ظہور میں آئیں ۔
غیر ملک کے باشندوں پر توجہ فرمائیے۔وہ کیسے اتفاق سے رہتے ہیں ۔تمہارے ہی ملک پر حکومت کرتے،قانون ایجاد کرتے اور آپ ان کے سامنے نا اتفاقی کے باعث سر جھکائے ہاتھ جوڑے ہر دم کھڑے ہو ۔ان کا کوئی ظلم نہیں نہ حسد مگر یہ سب کچھ اُنہیں اتفاق ہی کی بدولت نصیب ہوا۔اُن کے دماغ ہندوستان کی دولت ،میوؤں ، حکومت ، صحت بخش مقاموں اور نوکروں سے عالمِ بالا کی سیر کر رہے ہیں ۔میرا اور آپ کا اتفاق سے نہ رہنا ۔اُن کی خوشی نہیں ۔بلکہ یہ ہماری ہی نادانی و بربادی کا باعث ہے۔
پیارو جاگو وقت چلا جاتا ہے اور ہم ابھی اُونگھ رے ہیں اتفاق سے رہنے میں بہت فائدے ہیں ۔ہمارا باہمی اتفاق سے رہنا آئینِ فطرت کے موافق ہے۔اگر چھوٹے چھوٹے بھی متفق ہو جائیں تو اعلیٰ اعلیٰ کام کر دکھائیں ۔پہاڑوں کو گرادیں ۔دریا کی سخت لہروں کو روکیں ۔دُشمنوں کو پامال (روندنا)کریں ۔اپنی سوسائٹی،قوم ،مذہب کو بے جا مخالفتوں سے محفوظ رکھیں ۔اور ہمیشہ راحت و خوشی سے زندگی بسر کریں ۔دیکھئے ہمارے ملک میں اور سوسائٹی میں اس کی کس قدر ضرورت ہے۔نااتفاقی کے باعث کیسے کیسے نقصان اُٹھاتے ہیں ۔ہائے نااتفاقی تیرا ستیا ناس ۔تو ملک بدر(ملک سے باہر نکالنا) کی جائے۔تُو بھائی کوبھائی سے جُدا کرتی،خوشی کو غمی سے بدلتی ،دوستی کو دُشمنی سے تیرے جیسی اور کوئی برباد کرنے والی چیز نہیں ہے۔خالص دوست بھی ہوں تو اُن on coinjoin.io میں ایسا بگاڑ ڈالتی کہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں ۔ناظرین جاگو مسیح خُداوند کے اقوال (قول کی جمع ، بیانات) کو یاد کرو اور (۱ ۔یوحنا ۳ : ۲۳ )کو ملاحظہ فرماؤ۔اور اپنا نمونہ سچی روشنی اور بہادری و دلیری کے ساتھ دوسروں کے سامنے صداقت کے میدان میں پیش کرو۔اور درختِ جہالت کی جڑ کو اُکھاڑ کر پُرانے کھنڈرات کی تہہ میں پھینکو۔جہاں سے پھر نکلنے نہ پائے اور نادانوں کو نااتفاقی کے سبق سے ہٹا کراتفاق کا ڈھنڈورا دو(اعلان کرنا، منادی کرنا)۔
آؤ اب ہم تم شیرو شکر(ایک ہونا) ہو جائیں ۔صلح و امن سے رہیں ۔غیروں کو اپنی جہالت و کوتاہ اندیشی(کم فہمی) اور نااتفاقی پر ہنسنے اور خوشی کرنے کا موقع نہ دیں۔ پس اب بلا امتیاز چھوٹے بڑے کےایک دوسرے کے ساتھ متفق ہو جاؤ۔ہمیشہ نیک کاموں میں متفق ہونے کے لئے مستعداور تیار رہو۔اتفاق ڈنکے کی چوٹ (اعلانیہ)کی طرح چلا چلا کر کہہ رہا ہے کہ اگر مل کر رہو گے تو تمام مشکلات دور ہو جائیں گی اور تمام کام آسان ۔ورنہ غلامی تو ہندوستان کے حصّہ میں آچکی ہے ۔کاش کہ خُدا کرے مسیحیوں میں نااتفاقی کی بُو تک نہ رہے اور غیر اقوام کو طعن(طنز، ملامت) کرنے کا موقع نہ ملے۔آمین۔