سلطنتِ عثمانیہ اور مسیحیوں کے ساتھ برتاؤ

Eastern View of Jerusalem


The Attidude Of The Ottoman Empire With Christains

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published In Noor i Afshan 19 April,1895

نور افشاں مطبوعہ ۱۹ اپریل ۱۸۹۵ء

  سب پر روشن(ظاہر) ہے کہ آج کل اخباروں میں آرمینیا کا (جو سلطان روم کے ماتحت ایشیا کوچک کا ایک صوبہ ہے)بہت ذکر ہو رہا ہے اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہاں کے مسیحی باشندوں پر سُلطان روم کے سپاہیوں نے بہت سخت ظلم کئے۔اور ہزاروں کی ہر طرح کی بے حُرمتی اور ایذا (تکلیف)کے ساتھ جان سے مارا ہے۔چنانچہ اس امر کی نسبت انگلستان کے جو وزیرِاعظم اس صدی میں شاید سب سے زیادہ مشہور گزرے ہیں یعنی مسٹر گلیڈسٹون اُنہوں نے اپنی رائے بڑی صفائی کے ساتھ ظاہر کی ہے ۔اور چند ایسے الفاظ کہے ہیں کہ سُننے سے سلطان کو بہت رنج پہنچا ہے ۔اور نیز یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ انگلستان کی پارلیمنٹ کا یہ ارادہ ہے کہ آئندہ اُس صوبے کے مسیحیوں کو ایسے ظلم سے بچانے کے لئے کسی نہ کسی طرح کا پختہ انتظام کیا جائے۔

ان باتوں کا ذکر بہتوں نے سُنا ہوگا ۔لیکن واضح ہے کہ اس خط میں جس کا ترجمہ اس کے ساتھ شائع ہوتا ہے نہ اُن ظلموں کا کوئی خاص ذکر ہے اور نہ پارلیمنٹ کے ارادہ یا کسی طرح کی سرکاری کاروائی کی طرف اشارہ ہے اُس کا مضمون کچھ اور ہے یعنی چند مسلمان جو ہندوستان سے جاکے لندن میں مقیم ہیں۔یہ کہتے ہیں کہ فرض کرو ایسے ظلم ہوئے ۔لیکن اس سے ہمارے مذہب پر کچھ دھبہ نہیں لگتا ۔ہر سلطنت میں ایسا ہو سکتا ہے۔کہ اہلکار یا سرکاری مہتمم (منتظم، مینیجر)سخت دل اور ظالم ہوں اور رعایاپر ظلم کر بیٹھیں ۔انگریزوں کی عملداری میں اکثر ایسا ہوا ہے۔اور اگر فرض کیا جائے کہ اُس وقت آرمینیا میں کوئی ایسی ظالمانہ کاروائی ظہور میں آئی تو بھی اس سے ہمارے مذہب کا کچھ بھی واسطہ نہیں ہے۔چنانچہ اس بات پر ایک بڑی بحث لندن کے اخبار ٹایمز میں جو دُنیا بھر میں سب سے مشہور اور غیر متعصب اخبار ہےہوئی ہے ۔بحث یہ تھی آیا ایسے ظلم اسلامی شریعت کے مطابق ہیں یا فقط چند ظالم اہلکاروں کے ذمہ پر ہیں ۔اس بحث میں مسڑ رفیع الدین احمد نے مسلمانوں کی طرف سے وکیل ہو کے شریعتِ اسلامیہ کو اس داغ سے مُبرا (پاک)ٹھہرانا چاہا۔اور دوسری طرف سے خصوصاً ایک انگریز نے جو انگلینڈ میں بہت مشہور اور عالم ہیں بہت سی دلیلیں پیش کیں ۔جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی شریعت میں ظالمانہ سلوک مسیحیوں کے ساتھ کرنا بالکل جائز اور درست ہے۔اس مضمون کے کئی ایک خط اُنہوں نے اخبارِ مذکور میں چھپوائے۔لیکن آخر یہ خط جو بہت سنجیدہ اور پُر زور معلوم ہوتا ہے نکلا اور اس کا کوئی جواب مسڑ رفیع الدین احمد کی طرف سے اب تک نہیں چھپا۔یہ خط لندن میں جنوری کی ۲ تاریخ کے اخبار میں چھپا تھا۔

ایک عجیب حادثہ دل پر گزرا جس کا بیان تحریر سے باہر ہے

پس میں نے اس خط کا ترجمہ کر کے اس غرض سے شائع کیا کہ سب منصف دل آدمی (خصوصاً اہلِ اسلام میں سے وہ لوگ جو حق پسند ہیں اور متعصب اور طرف دار نہیں ہیں اور بسبب اس بات کے کہ وہ ایک ملک میں رہتے ہیں جہاں انگریزوں کی عملداری اور قانون ہیں سلطنتِ اسلامیہ کی اصلی تعلیم سے ناواقف ہیں )ان باتوں کو پڑھیں اور معلوم کریں کہ آیا یہ باتیں صحیح ہیں یا غلط۔قابلِ غور بات ہے کہ پادری صاحب نے اپنی رائے پیش نہیں کی ،بلکہ یا سرکاری آدمیوں کی رپورٹوں کے اور یا مسلمانوں کی بڑی مستند کتابوں کے حوالے دئیے جو اس موقع پر بہت کام دیتے ہیں ۔آگے ہم خُدا تعالی ٰ کی ہدایت چاہتے ہیں کہ وہ اس امر میں اور اس جیسے سارے امور میں ہمیں بھی تمیز بخشےاور حق کو ظاہر کرے ۔

یاد رکھنا چاہیئے کہ ہند میں اسلام کی سلطنت نہیں اور یہاں پر فقط اسلام کی عبادت اور عبادت کے متعلق دیگر دستورات عمل میں آتے ہیں۔لیکن جہاں اسلام کی سلطنت ہے وہاں مذہبی حکومت ہوتی ہے ۔اور عدالت اسلامی شرع کے مطابق کی جاتی ہے ۔مفتوح قوموں کی بابت شرع کا یہ حکم ہے کافروں کے تین گروہوں کے علاوہ باقی سب کو دو باتیں پیش کی جاتی ہیں ۔یعنی قرآن یا موت ۔تین گروہ جو مستثنیٰ ہیں مسیحی ،یہودی اور گبر(آتش پرست) ہیں۔جو اہلِ کتاب کہلاتے ہیں ۔ان کو تین باتیں پیش کی جاتی ہیں ۔ یعنی قرآن یا موت یا جزیہ۔اور اس قانون کے مطابق یہودی اور مسیحی سلطان دوم کی سلطنت میں جزیہ دیتے ہیں ۔ لیکن اب ہم دیکھیں گے کہ ذمی یا جزیہ دینے والے کا مرتبہ یا درجہ کیسا سمجھا جاتا ہے۔ خلیفہ عمر نے جو عہد نامہ یروشلم پر قبضہ کرتے وقت مسیحیوں کے ساتھ کیا تھا ۔اس میں مسیحیوں کی حالت چنداں (کچھ)سخت نہ کی گی تھی ۔عمر ہی کی تصنیف سے یہ باتیں معلوم ہوتی ہیں ۔مسیحی کو حکم ہے کہ کسی مسلمان کو مسیحی ہونے کی ترغیب (راغب کرنا،راضی کرنا)نہ دے اور نہ کسی مسلمان کو بپتسمہ دے۔اگر اُس کا کوئی رشتہ دار مسلمان ہونا چاہے تو ہرگز کسی طرح اُس کو اُس خواہش کے خلاف ترغیب نہ دے۔ان حکموں کو توڑنے کی سزا موت ہے۔مسیحی کا فرض ہے کہ اگر وہ کسی مسلمان کو دیکھے خواہ وہ مسلمان کیسے ہی درجے کا ہو تو اُس کے سامنے کھڑا ہو جائے۔مسیحی نواب یا آرچ بشپ مسلمان بھیک منگے کے سامنے ادب کے لئے کھڑا ہو ۔کوئی مسیحی گھوڑے پر زین ڈال کر سوار نہ ہو۔اُس کو اجازت نہیں کہ تلوار یا لڑائی کا کوئی اور ہتھیار رکھے۔مسیحی کوئی نیا گرجا یا راہب خانہ یا کوئی اور مکان مذہبی غرض سے نہ بنائے۔شہر میں یا شہر کے گردونواح میں ۔اگر کسی ایسی گلی میں جس میں مسلمان رہتے ہوں۔ کوئی گرجا پُرانا ہو جائے تو مسیحی اُس کی مرمت نہ کریں۔دوسری جگہ میں ان کو اجازت ہے کہ اپنی مقدس عمارتوں کی مرمت کریں ۔لیکن یہ عمارتیں پُرانی جگہ پر اور بعد مرمت پُرانی قدر اور مقدار کی ہوں ۔وہ صلیب کا نشان نہ بنائیں اور اپنے مُردوں کے لئے ماتم نہ کریں ۔اگر کوئی مسلمان مسافر ان کے پاس آئے تو تین دن تک اُس کی مہمانی کریں ۔اور اگر سال بھر مسافر آتے ہیں تو سال بھر مہمان داری جاری رہے۔

ایک عجیب حادثہ دل پر گزرا جس کا بیان تحریر سے باہر ہے

خلیفہ عمر کی امان بہت ہی پُر ازرحم سمجھنی چاہیےاور عمر کے بعد جو ملک مسلمانوں نے بہت فتح کیے ان میں مسیحیوں پر اُن سے کہیں زیادہ سختیاں کی جاتی تھیں ۔یہ قانون سسلی،ہسپانیہ اور ہند میں پوری طرح جاری رہ چکا ہے۔اور اب سلطان کی سلطنت میں جاری ہے ۔اگر کوئی مسلمان کہے کہ یہ قوانین قرآن سے ثابت نہیں ہو سکتے تو جاننا چاہیے کہ ایسا کہنے والا ناواقف ہے۔کیونکہ قرآن اسلامی دُنیا پر حاکم نہیں بلکہ وہ اجتماعی قوائد اور قوانین جو کہ اماموں نے قرآن اور حدیث سے استنباط (چُننا، نتیجہ اخذ کرنا)کئے ہیں ۔تُرکوں کا کوڈ جس کے مطابق اُن کی سلطنت میں حکومت ہوتی ہے بنام مُلتقہ مشہور ہے ۔اور ایک شخص بنام ابی سینی جو سلطان کے سول سروس میں بیس (۲۰)برس سے ملازم تھا۔اُس کا یوں بیان کرتا ہے ۔

’’اس کتاب میں مسائل عبادت و اخلاق اور سلطنت کے تمام امور فیصل ہو چُکے ہیں ۔اور آیندہ تبدیل یا تفسیر کی جگہ باقی چھوڑی نہیں گئی۔یہ کتاب ایک محکمہ ہے جس کے بعد کوئی اور جائے اپیل(درخواست کرنے کی جگہ) باقی نہیں اس کتاب میں پوری طرح سے بیان کیا گیا ہے کہ مسیحیوں کے ساتھ کیسا اور کس طرح برتاؤ کرنا چاہیئے۔اور اس کتاب کے قانون اس بارے میں ایسے پُر جفا اور خالی از رحم ہیں کہ ان سے بڑھ کر خیال کرنا بھی محال ہے۔علاوہ اِن سختیوں کے جو عمر نے مسیحیوں پر جائز رکھی تھیں یہ کتاب چنداور بھی مقرر کرتی ہے ۔اِس کتاب میں حکم ہے کہ مسلمان کے خلاف مسیحی کی گواہی کبھی نہ سُنی جائے ۔اور ذلت کے چند اور بھی سامان بہم کیے گئے ہیں ۔مسیحی کو حکم ہے کہ اپنے دروازے پر ایک نشان لگادے جس سے سب کو اُس کا گھر معلوم ہو جائے اور جس کو دیکھ کر بھیک منگے بھی اُس کو خُدا کے نام سے دعائیں دینے سے باز رہیں ۔اگر سڑک پر چلتے وقت اُس کو کوئی مسلمان ملے تو مسیحی کو لازم ہے کہ سڑک کے تنگ حصّے کی طرف ہوجائے ۔جزیہ لینے والا جزیہ لیتے وقت اُس کے ساتھ بڑی بے رحمی کے ساتھ پیش آئے ۔یعنی اُس کو جھنجھوڑے اور اُس کی چھاتی پر مارے یا زمین پر گھسیٹے اور کہے اے ذمّی اے اللہ کے دشمن جزیہ دے۔یہ اِس واسطے کرے کہ مسیحی بے عزت ہوجائے‘‘۔

ایک عجیب حادثہ دل پر گزرا جس کا بیان تحریر سے باہر ہے

بعض کونسل اس برتاؤ کا چشم دید بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسا کرنے والے حاکم اپنی طبیعت کی سختی کے باعث ایسا کرتے ہیں ۔لیکن وہ اس بات میں غلطی پر ہیں کیونکہ یہ حکم تو شرع ہے۔ ایک کونسل لکھتا ہے کہ

’’مسیحیوں کو بے خطر ہر قسم کی گالیاں دی جاتی ہیں ۔اور دوسرے بےعزتی کے الفاظ کہے جاتے ہیں ۔اور اِس امر میں خاص کر حکام بڑے مشاق (آرزو مند)ہیں کمیٹیوں اور عدالتوں میں جو گالیاں تُرکوں کی زبان میں مرکب ہو سکتی ہیں مسیحیوں کو دی جاتی ہیں ۔اور ان کے مذہب کی توہین کی جاتی ہے۔ سلطنت کے حاکم اور جج ہر گھنٹہ حقیر اور ذلیل مسیحیوں کو گالیاں دیتے ہیں‘‘ ۔

اگر کوئی مسیحی مر جاتا ہے تو اہلکاروں کی اصطلاح میں کہا جاتاہے کہ وہ جہنم رسیدہ ہوا ہے۔ آرمینیہ کے ایک قاضی نے ایک مسیحی مُردے کے دفن کے لئے سرٹیفیکٹ دیا جس کو میں نے خُود پڑھا ۔اُس کے الفاظ یہ تھے ۔’’مریم کے گرجا کے پادری کو ہم اجازت دیتے ہیں کہ فلاں شخص کی ناپاک سڑی گلی ،بدبو دار لاش کو جو آج واصل جہنم ہوا زمین میں چُھپادے ‘‘۔

یاد رکھنا چاہیے کہ مذکورہ بالا قوانین ہنوز(ابھی تک) پرانے نہیں ہوئے ۔احکامِ شرع نہ موقوف (ختم ہونا )ہوسکتے ہیں اور نہ بدل سکتے ہیں۔ سلطان بھی اُن پر کچھ اختیار نہیں رکھتا۔اگر سلطان چاہے کہ ان قوانین میں سے کسی کو موقوف کرے تو لوگوں کا اختیار ہے کہ اُس کی تابعداری چھوڑ دیں ۔اور شیخ الاسلام کے فتویٰ سے وہ تخت سے معزول(تخت سے اُتارنا) کیا جاسکتا ہے ۔محکمہ عدالت کا مختار سلطان نہیں بلکہ شیخ الاسلام ہے ۔اور شیخ الاسلام کے فتویٰ کے بغیر سلطان کا کوئی ملکی حکم کچھ بھی زور نہیں رکھتا ۔پیرس ۔برلن اور سائرپرس کے عہد ناموں میں جو وعدے سلطان نے مسیحیوں کے ساتھ منصفانہ برتاؤ کرنے کی بابت کئے اُن پر شیخ الاسلام نے کبھی اپنی مہر نہیں کی ۔اس لئے وہ تمام وعدے جو سلطان کر چُکا ہے ، خاک کی مانند ہیں جو سلطان نے یورپ کی آنکھوں میں ڈال رکھی ہے ۔اور کوئی مسلمان سلطان کے علاقہ میں اُن کا ذرہ بھی پابند نہیں ۔کسی سلطان نے آج تک اِن وعدوں کے پورا کرنے کی کوشش نہیں کی ۔اور اگر سلطان ان کو پورا کرنے کی کوشش کرے تو اس کا تخت جاتا رہے گا ۔گویا خلاصہ یہ ہے کہ زبردستی اگر یورپ والے چاہیں تو سلطان کو انصاف سکھا سکتے ہیں ۔

مسلمانوں کی شرع کی رو سے تُرکوں کی عدالتوں میں مسیحی گواہی ہرگز منظور نہیں ہو سکتی ۔علاوہ اس کے لبنان کے صوبہ کے علاوہ باقی صوبوں میں مسیحیوں کو ہتھیار رکھنےکی بھی اجازت نہیں ۔لبنان کا صوبہ اس واسطے مستثنیٰ ہے کہ ۱۸۶۰ء سے وہ صوبہ سلطان کے اختیار سے کسی قدر نکال لیا گیا ہے ۔ایک اور ظلم یہ ہے کہ شرع حکم کرتی ہے کہ مسیحی مسلمان اہلکاروں اور مسافروں کی تین دن تک مفت مہمان داری کریں ۔اگر کوئی مسیحی کسی مسلمان کو اپنے مذہب میں لانے کی کوشش کرے تو اُس کے واسطے موت کی سزا ہے اور جو مسلمان مسیحی ہو جائے اُس کے لئے بھی موت کا حکم ہے۔ اِن احکام پر سلطان کی سلطنت میں پوری طرح عمل کیا جاتا ہے ۔۱۸۸۰ء میں چرچ مشن کے ایک پادری بنام ڈاکٹر کالر نے تُرکوں کے کسی کالج کے ایک پروفیسر سے دُعائے عمیم کی کتاب کے چند صفحوں کی تصحیح میں مدد لی یہ جُرم سمجھا گیا اور پادری گرفتار کیا گیا ۔لیکن چُونکہ وہ جرمنی کا باشندہ اور انگریزوں کا مشنری تھا ۔اس لئے وہ تو رہا ہوگیا ۔لیکن شیخ الاسلام نے مسلمان پروفیسر پر موت کا فتویٰ دیا۔ یورپ والوں نے مزاحمت کی۔ سلطان نے اس ساری واردات کا الزام اپنی پولیس کے ذمہ لگایا ۔سر ہنری لیرڈ نے لارڈ سالس بری کے حکم سے درخواست کی کہ وہ پولس کا آفیسر جس نے یہ ظلم کیا تھا وہ موقوف(ختم کرنا) کیا جائے چند دنوں کے بعد سر ہنری لیرڈ نے انگلستان تار بھیجا کہ ساری کارستانی سلطان کی ہے اس لئے پولیس کا آفیسر موقوف نہیں ہو سکتا ۔ خلاصہ یہ ہوا کہ یورپ کی چھ بڑی سلطنتوں نے بڑی کوشش سے چار مہینوں میں سلطان کے دروغ(جھوٹ)اور تاخیر(دیر کرنا) اور بہانوں پر غالب آکر اس بیچارے مسلمان پروفیسر کی جان بچائی ۔جب بہت زور دیا گیا تو سلطان اور اس کے اہلکاروں نے اقرار کیا کہ جب یہ پروفیسر اپنے فعل سے از روئے شرع موت کا سزا وار ہوچکا ہے تو سلطان بھی اُس کی جان نہیں بچا سکتا ۔اُس کی جان فقط مسیحی زبر دستی کرکے بچا سکتے ہیں ۔یہ تمام واردات ۱۸۸۰ میں پارلیمنٹ کی طرف سے چھپ چکی ہے ۔۱۸۷۷ء میں شیخ الاسلام نے قسطنطنیہ میں عُلما کی ایک کونسل منقعد کی اور اُن سے دریافت کیا کہ کیا کسی طرح شرع کا حکم ڈھیلا ہو سکتا ہے یا نہیں ۔ تاکہ آیندہ مسیحیوں کی شہادت قبول ہوا کرے اور ان کو ہتھیار رکھنے کی اجازت ملے ۔ مشورہ کے بعد فتویٰ نکلا کہ ہرگز ایسا نہیں ہو سکتا ۔

میجر کالس ایل انجنیئر جس کو فارین آفس نے مسیحیوں کی حالت دریافت کرنے کو سلطان کے علاقہ میں بھیجا یوں لکھتا ہے ۔

’’مسیحیوں کو حکم ہے کہ اجنبی مسلمانوں کی مہمان داری کریں ۔اور اس حکم سے مسلمان بالکل آزاد ہیں ۔اور حکم ہے کہ جب کسی مسیحی کے گھر میں کوئی مسلمان مہمان ہو تو مسیحی مرد اپنے گھرسے باہر رات کاٹے اور اپنی جورو(بیوی) اور بیٹیوں کو اس مسلمان کے سپرد کردے۔ اس حکم سے مسیحی ہرگز بچ نہیں سکتا ۔اُس کے پاس ہتھیار نہیں اور کچہری میں اُس کی نالش(دعویٰ،فریاد) مسلمان کے خلاف سُنی نہیں جاتی۔اُس کی زندگی اور اُس کے عزیزوں کی زندگی مسلمان کے اختیار میں ہے ۔اس قانون سے سلطان کی پولیس کے سپاہی اکثر فائدہ اُٹھاتے ہیں‘‘ ۔

Leave a Comment