میرے پیچھے آنا

Eastern View of Jerusalem

Follow Me

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published In Noor i Afshan 12 April 1895

نور افشاں مطبوعہ ۱۲ اپریل ۱۸۹۵ء

 ’’اُس وقت یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی کا انکار کرے اور اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہو لے‘‘(متی ۱۶ : ۲۴ )۔مسیحی مذہب انسان کو پوری آزادگی میں چھوڑتا ہے ۔دو قسم کی باتیں یہ بخوبی واضح کر کے انسان کے روبرو رکھ دیتا ہے ۔

اول۔ وہ باتیں جو اُس کے گنہگار ہونے اور سزائے الہٰی کے لائق ٹھہرنے کے بارے میں ہیں ۔ اور اُس کی بُری اور خوفناک حالت کا نقشہ کھینچ کر بخوبی دکھلاتا ہے۔اور صاف طور سے گنہگار انسان کو جتاتا ہے۔کہ گناہ کے سبب سے الہٰی قربت جاتی رہتی ہے ۔اور قہر الہٰی سر پر جھوم رہا ہے اور جہنم نے اپنا منہ کھولا ہوا ہے اور فوراً نگلنے کو تیار ہے ۔

دوئم۔ وہ باتیں جو مذہب انسان کو بتاتا ہے جو انسان کو اُس کی بگڑی حالت سے نکالنے والی اور اُس کو بچانے والی ہیں ۔یہ کسی کی حالت میں ایک مدد گار کی ضرورت بتاتا اور خبر دیتا ہے کہ ایک ایسا مدد گار آیا ہے جو خُدا کے حضور گنہگار کا ضامن (ذمہ دار)ہے۔اور اپنی جان کی قربانی دے کر خُدا کے عدل کے تقاضے کو پورا کر چُکا ہے ۔اور اپنے اوپر ایمان لانے والے کو اپنی راستبازی اور سلامتی دیتا ہے اور اُس کا اعلان عام دیتا اور کہتا ہے جو مجھ پر ایمان لاتا ہے ہمیشہ کی زندگی اُسی کی ہے (یوحنا ۶ : ۴۷)۔

ان سب باتوں کا تمام وکل بیان کر کے مسیحی مذہب آدمی کو اُس کی مرضی کی آزادگی پر چھوڑ دیتا ہے ۔دیگر مذاہب کی طرح سے ظلم اور جبر سے اس بات کا مقتضی(تقاضا کرنے والا)نہیں کہ زبردستی لوگ اس طریق پر لائے جائیں ۔پر وہ کہتا ہے ’’اگر کوئی چاہے‘‘تو آئے اور راہِ نجات کو اختیار کرے اور اگر نہ چاہے تو نہ آئے۔یہ زبردستی سے کسی کو بہشت میں نہیں لے جانا چاہتا بلکہ اُس آزاد مرضی والے دیندار کو جو اُس کی ایمانی باتوں کو قبول کر کے اس کا مرید بنتا ہے صاف کہتا ہے کہ مجھ پر ایمان لانے کی ایک شرط ہے۔اگر قبول کر سکتا ہے تو سوچ سمجھ کر دیکھ اور اُس پر قائم ہو۔’’اپنا انکار‘‘ کر یہ شرط بڑی بھاری ہے ۔اپنا انکار کرنا آدمی کے لئے نہایت مشکل ہے۔خودی انکاری انسان کی دُنیا کی نسبت مر جانے کے برابر ہے۔لیکن اسی بڑی شرط پر مسیح آدمی کو اپنا شاگرد بناتا ہے اور اگر کوئی مسیح پر ایمان لایا ہے اور اُس نے اپنا انکار نہیں کیا تو وہ حقیقت میں مسیح کا شاگرد نہیں بنا۔چاہے وہ دُنیا میں ظاہری  طور پر مسیحی بھی کہلاتا رہے ۔لیکن اس شرط کے بغیر مسیح خُداوند اُس کو اپنا شاگرد نہ کہے گا ۔جو لوگ نا واقفی سے اعتراض کیا کرتے اور کہتے ہیں کہ اگر صرف مسیح پر ایمان لانے کے سبب سے نجات ہے تو اُس پر ایمان لاکر پھر جو چاہے انسان کرے کچھ مضائقہ(ہرج) نہیں ۔ان کو سوچنا چاہیے کہ مسیحی ایمان کے ساتھ خود انکاری کی بڑی بھاری قید ہے۔اور اپنا انکار کرنے والا پھر کیوں کر اپنے نفس ِبد کا محکوم(غلام) ہوگا۔

مندرجہ بالا آیت میں جو شرط مسیحی ہونے کی خُداوند یسوع مسیح نے ٹھہرائی ہے صرف خود انکاری ہی پر مکتفی(کافی)نہیں ہوتی ۔بلکہ اس سے بڑھ کر مسیحی ایماندار کو لازم ہے کہ روز بروز دکھ و تکلیف اور لعن طعن جو اس طریق پر ہونے کے سبب سے اُس کی راہ میں آئیں وہ اُن کو بخوشی اُٹھائے اور ثابت قدم رہے۔اور اعلیٰ درجے کا صابر(صبر کرنے والا) بن کر ان سب تکلیفات کی صلیب کو اُٹھا کر مسیح کی پیروی کرے۔

پھر شاید کوئی خیال کرے کہ یہ تو نہایت مشکل باتیں ہیں ۔اور ان کا ہونا دشوار (مشکل)ہے۔لیکن سچے مسیحی کے لئے یہ کچھ مشکل نہیں کیونکہ سچے ایماندار کو روح کی برکت بخشی جاتی ہے ۔جس نعمتِ عظمیٰ(سب سے بڑی نعمت)سے وہ اس قسم کی تمام مشکلات سے رہائی پانے اور اُن پر غالب(فتح مند) آنے کی قوت اور طاقت پاتا ہے۔اور آخر کار نجات ابدی کا مستحق (حق دار )ٹھہرتا ہے ۔

اب جو کوئی چاہے مسیح خُداوند کے پاس آئے اور اس شرط کو قبول کرے ۔تو وہ روح القدس کا انعام پائے گا اور تمام مشکلات میں اُس کی مدد پا کر اور شیطان ،گناہ اور دُنیا پر غالب آکر ہمیشہ کی زندگی کا وارث ہو گا۔

Leave a Comment