Testimony
By
Bajwa
باجوہ
Published in Noor-i-Afshan 26
نور افشاں مطبوعہ ۲۶جنوری ۱۸۹۵ء
پُرانے زمانے کے مسیحیوں کی قبروں پر جو کتبے کندہ ہیں اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیحیوں نے شروع میں ہی پولُس کی تعلیم کو قبول کرلیا تھاجو اُس نے تھسلنیکیوں کو لکھی تھی کہ وہ غیر قوموں کی مانند غم نہ کریں بلکہ یاد رکھیں کہ جیسے یسوع مرگیا اور جی اُٹھا ویسے ہی خُدا اُن کو جو مسیح میں سوئے ہیں جلائے(دوبارہ زندہ کرنا) گا ۔کیونکہ پُرانی قبروں میں حسبِ ذیل کتبے پائے گئے ۔ سلامتی میں۔ وہ سلامتی میں سوتا ہے ۔خُدا میں زندہ ۔مسیح میں زندہ۔ہمیشہ تک جیتا۔وہ خوب آرام کرتا ہے۔خُداوند تیری رُوح کو جِلائے ۔اے میرے لڑکے مت رو موت ابدی نہیں ہے ۔سکندر مُردہ نہیں بلکہ ستاروں کے اوپر زندہ ہے۔
بر خلاف اس کے پُرانے زمانہ اور حال کے زمانے کے بُت پرست کسی کے مر جانے پر نا اُمیدی ظاہر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ موت ابدی نیند ہے ۔اور قبر آخری گھر ہے ۔مگر پُرانے زمانہ اور حال کے مسیحی گواہی دیتے ہیں کہ دیندار مُردے ابھی سلامتی کی خوشی میں ہیں وہ اپنے خُداوند کے اُس وعدہ کو یاد رکھتے ہیں جو اُس نے تائب (توبہ کرنے والا)چور سے کہا تھا کہ آج ہی تو میرے ساتھ بہشت(جنت) میں ہوگا ۔
یہی وجہ ہے کہ پولُس رسول یہ آرزو کرتا ہے کہ یہ بہت بہتر ہے کہ میں رخصت پاؤں اور مسیح کے ساتھ جارہوں ۔بہت سے مسیحیوں نے ایذا رسانی کے دنوں اور اکثر معمولی موت کے وقت اپنی خوشی کا اظہار کیا ہے جس سے یہ سنجیدہ سوال قابل ِ غور ہر ایک انسان کے واسطے ہے کہ آیا غیر مسیحیوں کوبعد مت کے خوشی کی اُمید ہے ۔اور اگر ہے تو اس کا عملی ثبوت بکار (نقص)ہے ۔جیسا کہ مسیحیوں کی حالت سے ظاہر ہے ۔اگر کوئی شخص موت کے واسطے تیار نہیں ہے تو بے شک وہ خطرہ میں ہے اور اُس کے واسطے موقع ہے کہ اپنے آپ کو اس خطرہ سے نکالے اور اُس کا صرف یہی طریقہ اور علاج ہے کہ اپنے آپ کو مسیح کے آگے ڈال دے ۔جو کہتا ہے کہ’’ راہ حق اور زندگی میں ہوں ‘‘۔اور اپنے دعویٰ پر وہ اس طرح سے مہر کرتا ہے کہ ’’آسمان اور زمین ٹل جائیں گے پر میری باتیں ہرگز نہ ٹلیں گی ‘‘۔کیا یہ کم قدر گو اہی ہے کہ اس نے دُنیاوی کمزوری اور ناتوانی کی حالت میں (جبکہ وہ کہتا ہے کہ چڑیوں کے واسطے بسیرہ ہے پر میرے واسطے سر رکھنے کو جگہ نہیں ) حکم دیا کہ اس کلام کی منادی زمین کی حدوّں تک کرو ( جس کی تعمیل ہو رہی ہے) ایسا ہی اُس کا یہ قول ہے کہ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے ہمیشہ کی زندگی اُس کی ہے ۔
پس جو کوئی اس ظاہری موت کے بعد زندگی چاہتا ہے اس کے واسطے یہی مناسب ہے کہ اس پر ایمان لائے جو اُس پر ایمان نہیں لاتا وہ اگرچہ جیتا ہے پر مُردہ ہے۔اور اس ظاہری موت کے بعد فی الحقیقت مُردہ ہوگا ۔ مگر جو مسیح پر ایمان لاکر زندگی پا چکا ہے وہ موت کے وقت کہہ سکتا ہے ۔
’’اے موت تیرا ڈنگ کہا ں
اے قبر تیری فتح کہاں ‘‘۔