If sinners entice you
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Noor-i- Afshan 18 April 1895
نور افشاں مطبوعہ ۱۸اپریل ۱۸۹۵ء
’’اے میرے بیٹے !اگر گنہگار تجھے پُھسلائیں تو رضا مند نہ ہونا ‘‘ (امثال ۱ باب ۱۰ آیت) ۔
مذکورہ بالا آیت میں مختصراً مگر نہایت روشن طور پر نوجوانوں کو اُن کے دشمن اور اُن سے مقابلہ کرنے کا ڈھنگ(طریقہ) بتایا گیا ہے ۔راقم والدین کی سُریلی آواز میں بچوں کی طرح پدرانہ(باپ کی طرح) شفقت اور دانائی سے ہر ایک نوجوان کو اُس کے خطروں سے آگاہ کرتا ہے اور بچاؤ کا طریقہ بتاتا ہے ۔وہ کہتا ہے کہ ہر ایک نوجوان کی راہ میں خطرے ہیں ۔ پُھسلانے والے اور پُھسلانے والی چیزیں ہر قوم پر موجود ہیں جال بچھانے والا اور جال ہر جگہ اُس کے سامنے موجود ہیں ۔
غور کا مقام ہے نوجوانوں کے پُھسلانے والے دو طرح کے ہوتے ہیں ۔ایک اندرونی اور دوسرے ظاہری ۔اُس کے باطن میں ہزارہا طرح کے بد اور بُرے خیالات ہیں جو اُس کو برباد کرتے ہیں اور اس کے علاوہ اِس کے اِس دُنیا میں ہزارہا طرح کے بد اور شریر لوگ ہیں جو اُس کو ہلاکت کی راہ گھسیٹتے ہیں ۔کیا ہی راست (درست)کہا گیا ہے کہ وہ باتیں جو منہ سے نکلتی ہیں دل سے آتی ہیں وہ آدمی کو ناپاک کرتی ہیں ۔کیونکہ بُرے خیال ۔خون۔ زنا۔حرام کاری۔چوری ۔جھوٹی گواہی ۔ کفر دل ہی سے نکلتے ہیں ۔یہ ہی باتیں آدمی کو ناپاک کرنے والی ہیں ۔ سچ ہے اگر چشمہ بگڑا ہوا ہے تو اُس میں سے ضرور بالضرور خرابی ہی نکلے گی ۔اس ہی خیال سے داؤد اپنی کوششو ں سے مایوس ہو کر بڑے رنج سے چلایا۔اے خُدا میرے اندر ایک صاف دل پیدا کر۔یہی تمام بُرائی کی جڑ ہے اور کوئی علاج کافی نہ ہوگاجو دل تک نہ پہنچےاور اُس کو تبدیل نہ کرے ایک اور طرح کے پُھسلانے والے ہیں ۔جو نوجوانوں کو برباد کرتے ہیں۔اور یہ وہ لوگ ہیں جو اکثر اوقات دوست متّر(یار) کے نام سے ملقب(لقب دینا) کیے جاتے ہیں مگر دوستی کے بھیس میں ایسے بد نتائج پیدا کرتے ہیں کہ سوائے بربادی کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔
نوجوانوں کو دھوکہ دینے والی چیزیں بھی اس دنیا میں بہت نظر پڑتی ہیں ۔بسا اوقات یہ دھوکہ دلانے والی چیزیں نیکی کے لباس میں آکر دل کو لبھاتی ہیں۔ پیاری صورت میں پیش کی جاتی ہیں نفع کی صورت میں اپنا جال بچھاتی ہیں ۔آہستہ آہستہ رفتہ رفتہ اپنے قابو میں کرکے بربادی کا لقمہ بنالیتی ہیں ۔اس جگہ بچاؤ کی صورت جو پیش کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ تُو مت مان ۔اگر کوئی پوچھے کہ ایسے زبردست دشمنوں کا مقابلہ کس طرح کیا جائے تو ہمیں یہ جواب دیا جاتاہے کہ اگر گناہ گار لوگ تجھے پُھسلائیں تو مت مان ۔دشمن کا طریقہ تجھ پر حملہ کرنے کا یہ ہے کہ وہ آہستہ آہستہ اور رفتہ رفتہ بے معلوم تجھ کو قابو میں لے آئے ۔ تیرا بچاؤ اس میں ہی ہوگا کہ دفعتاً(فوراً) اُس کا مقابلہ کرے ایک قدم بھی نہ ہٹے ۔کیونکہ اگر تُو ایک قدم بھی ہٹا تو دشمن نے کسی قدر تجھ پر غلبہ پا یا اور تُو کسی قدر کمزور ہوا ۔اگر خیا ل کرکے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اسی طرح لوگ شرارت کے قابو میں آتے جاتے ہیں ۔ہر ایک قسم کی بُرائی ایسی جڑ پکڑتی ہے اور عادت بن جاتی ہے ۔
لیکن یہ امر محال ہے کہ کوئی شخص محض اپنی طاقت سے اپنے دشمنوں کا اس طرح مقابلہ کر سکے ۔جب تک مسیح جو ہماری نجات کا کپتان ہے ایمان سے دل میں نہ بسے اور ہمیں مقابلہ کی قوت نہ دے ہم ہرگز ہرگز فتح یاب نہیں ہو سکتے ۔خُداوند یسوع مسیح فرماتا ہے کہ ’’دیکھو میں دروازہ پر کھڑا ہوں اور کھٹکھٹاتا ہوں ۔اگر کوئی دروازہ کھولے تو میں اندر آؤں گا‘‘ ۔چاہیے کہ ہمارا جواب ہو ’’ ہاں اَے خُداوند یسوع آ‘‘