A Bright Cloud
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in noor i afshan 5 April 1895 Friday
نور افشاں مطبوعہ ۱۲ اپریل ۱۸۹۵ء
’’وہ یہ کہتا تھا کہ دیکھو ایک نورانی بدلی نے اُن پر سایہ کیا ہے اور دیکھو اس بادل سے ایک آواز اس مضمون کی آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں ۔تم اُس کی سُنو‘‘(متی ۱۷: ۵ )۔
اس نورانی بدلی میں خُدا جلوہ نماہوا ۔کیونکہ خُدا نُور ہے اور نُور میں رہتا ہے ۔(۱ تیمُتھیس۔۶ : ۱۶ )اور اُس نے اُن شاگردوں پر خُداوند یسوع مسیح کی قدر و منزلت اور الہیٰ اعلیٰ درجہ ظاہر کرنے کے لئے کہ جن پر مسیحی مذہب کی اشاعت اور آئندہ ترقی بہت کچھ موقوف و منحصر تھی اپنی آسمانی آواز سے اُس رازِمخفی و اسرارِ غیبی (پوشیدہ باتیں )اور بھید ازلی کو ظاہر کیا۔جس کا جاننا بنی انسان کے لئے ضرور تھا۔کیونکہ یہ کوئی عقلی مسٔلہ نہیں تھا کہ جس کو انسان اپنی عقل سے دریافت کر لیتا۔اس لئے اگرچہ اس سے پیشتر مسیح خداوند نے زبانِ مبارک سے اپنے آپ کو خُدا کا بیٹا کہا تھا ۔لیکن اشد ضرورت تھی کہ عالمِ بالا کی طرف سے آسمانی آواز اس پر گواہی دے اور بنی آدم کو یقین دلائے تاکہ وہ اس کے ماننے میں تامل(دیر) نہ کریں یہ واقعہ شاگردوں کے ایمان کے مضبوط کرنے اور اُن کے اعتقاد کو قائم کرنے کے لئے ضرور تھا ۔ہم چاہتے ہیں کہ ناظرین ذرا اس پر غور کریں ۔
مضمون آواز
یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں ۔تم اُس کی سُنو۔اس مضمون کے دو حصّے ہیں ۔
۱۔ خُداوند یسوع مسیح کی الہیٰ ذات کو شاگردوں پر ظاہر کرنا کہ وہ خُدا کا پیارا بیٹا ہے۔
۲۔شاگردوں کو متوجہ کرنا کہ وہ سُنیں کہ خُدا کا پیارا بیٹا اُن سے کیا کہتا ہے۔
پہلے امر کی نسبت ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب سے خُدا نے اپنے پاک کلام میں جس کو عہد ِ عتیق کہتے ہیں پہلے ایمانداروں کو اپنے بیٹے کی خبر دی اور مختلف کتابوں اور اشاروں میں اس کی آمد کا مژدہ(خبر)دیا اور پھر اپنے کلام ِ مقدس میں جس کو عہدِ جدید کہتے ہیں اپنے بیٹے کے کل حالات مشتہر (اعلان کرنا)کروائے اُس کے دُنیا میں مجسم ہو کر آنے سے لے کر اُس کے مصلوب ہونے تک کے تمام احوال جو بے کم وکاست(بغیر کمی بیشی )درج ہیں ۔تب سے تمام مسیحی مومنوں نے اس ایمانی مسٔلہ کو بالکل سچ و حق سمجھا اور مانا ہے ۔اور آج تک ایسے ہی مانتے چلے آئے ہیں ۔لیکن دُنیا کے لوگوں نے جتنی کہ اس مسٔلہ دقیق(مشکل )اور رازِعمیق (گہرا ئی)سے مخالفت کی اور اُس سے ٹھوکر کھائی ہے کسی اور مسٔلہ سے نہیں کھائی۔بلکہ اس نے گویا ثابت کر دکھایا کہ خُداوند یسوع مسیح بہت لوگوں کے لئے ٹھوکر کھلانے والا پتھر اور ٹھیس دلانے والی چٹان ہے ۔
محمدیوں اور ہندؤوں نے بھی اس سے ٹھوکر کھائی جس طرح کہ یہودیوں نے کھائی تھی۔ اور بہت اب تک ٹھوکریں کھاتے جاتے ہیں ۔لیکن جب کہ خُدا نے اس بات کا اظہار آسمانی آواز سے کیا ہے ہم کیوں اس پر مخالفت کریں اور کیوں اس آواز کے شنوا(سننے والے ) نہ ہوں جو صاف صاف لفظوں میں کہہ رہی ہے کہ مسیح خُدا کا پیارا بیٹا ہے۔
لفظ بیٹا سُن کر فوراً لوگوں کے دل میں جسمانی خیالات آ جاتے اور خلافِ تہذہب اور عقل باتیں کہتے اور بے ہودہ بکواس کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں ۔لیکن یہ صرف انسانی عقل کی کمزوری ہے۔الہیٰ بھید میں خُدا وند یسوع مسیح جو خُدا کا بیٹا کہلاتا ہےالہیٰ ذات کا دوسرا اقنوم ہے اور مجسم ہو کر دُنیا میں آنے پر اس بات کا اظہار ہوا کہ وہ اُس کا بیٹا بھی کہلاتا ہے تب انسان کی کیا مجال ہے کہ خُدا کی بات کو ٹالےاور اپنی عقل ناقص سے اس میں حجت(بحث۔دلیل) نکالے ۔ہماری سمجھ میں جو خُدا کے کسی کلام کی مخالفت کرتا ہے وہ خدا کے ساتھ گویا مقابلہ کرتا ہے اور خُدا سے زیادہ دانا ٹھہرنے کی کوشش کرتا ہے جو ایک بالکل ناممکن امر اور محض بے وقوفی میں داخل ہے۔
دوسر ی بات کی نسبت ہم صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ جو خُدا کے پیارے بیٹے نے قول و فعل اور رفتار و گفتار(گفتگو و چال چلن) سے کہا اور سکھلایا ہے وہ نصیحت اور تعلیم عام پسند ہے جس کو نا صرف اس کے ایماندار قبول کرتے ہیں بلکہ دیگر مذاہب کے لوگ بلا حجت مان لیتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں ۔اور خود مقر(اقرار کرنا ) ہیں کہ تعلیم بہت عمدہ ہے ۔لیکن صرف ایمان لانا ناگوار ہے اس کے شاگرد اس کے کلام کو سُنتے اور قبول کرتے ہیں کیونکہ اس نے خود کہا کہ اس کی بھیڑیں اس کی آواز سُنتی ہیں (یوحنا۱۰: ۴) ۔