Turn Away My Eyes
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in noor i afshan 12th April, 1895
نور افشاں مطبوعہ ۱۲ اپریل ۱۸۹۵ء
میری آنکھوں کو پھیر دے کہ بطلان پر نظر نہ کریں ۔(زبور ۔۱۱۹: ۳۷)
اس عالم میں جدھر نظر ڈالو آنکھ کے لئے ایک دلکش نظارہ دکھائی دیتا ہے ۔اور اس دُنیا کی ہر ایک شے اِنسان کی نظر میں پسندیدہ معلوم ہوتی ہے اور اِنسان کے دل کو فریفتہ(دیوانہ ۔عاشق) کر دیتی ہے ۔اگرچہ خلقت کی کسی چیز کو پائیداری(ہمیشہ رہنا) نہیں اور جس شے کو آنکھ دیکھ کر ایک وقت حظ(لُطف)اُٹھاتی تھی وہ دم بھر میں بگڑ کر ایسی بد شکل اور گھنونی ہو جاتی ہے کہ آنکھ اُس کے دیکھنے سے بیزار (نا خوش ) ہو جاتی ہے۔لیکن موجودہ حالت میں کچھ وقت کے لئے تو اِنسان اشیاء کی ظاہرہ رونق اور خوبصورتی کو دیکھ کر غلطاں و پیچاں (اُلجھا ہوا ۔پریشان) ہو جاتا ہے ۔ اور اپنے خالق اور مالک اور دین و عقبیٰ (مذہب و آخرت)کو بالکل بھول جاتا ہے ۔اور اس طرح سے اس دُنیا کی لُبھانے والی چیزوں پر اپنا دل لگا کر اپنی قلیل(مختصر) زندگی کو خطرے میں ڈالتاہے۔
بڑے عالم اور دانا سلیمان نے جس کا ثانی دُنیا میں نہیں ہوا اپنا تجربہ یوں ظاہر کیا ہے ۔کہ سب کچھ میری آنکھیں چاہتی ہیں میں نے ان سے باز نہیں رکھا ۔میں نے اپنے دل کو کسی طرح کی خوشی سے نہیں روکا ۔کیونکہ میرا دل میری ساری محنت سے شادمان ہوا ۔اور میری ساری محنت سے میرا بخرہ(حصّہ ) یہ ہی تھا بعد اس کے میں نے اُن سب کاموں پر جو میرے ہاتھوں نے کئے ہیں اور اس محنت پر جو میں نے کام پر کھینچی تھی نظر کی اور دیکھا کہ سب بطلان(ضائع ہونا۔باطل ہونا ) اور ہواکی چران ہے اور آسمان کے تلے کچھ فائدہ نہیں ۔(واعظ ۔۲ :۱۰ تا ۱۱ )اسی تجربہ پر اُس کا یہ مقولہ قائم ہوا بُطلانوں کی بطلان واعظ کہتا ہے سب بطلا ن ہیں ۔(واعظ۔۱۲: ۸ )
سلیمان کا تجربہ اور مقولہ بالکل درست ہے لیکن اس دُنیا میں آدم کی نسل سے کوئی ایسا انسان پیدا نہیں ہوا جس نے دُنیا کی چیزوں کو دیکھا اور اُن میں نہیں اُلجھا ۔مگر ایک عورت کی نسل سے پیداہوا جس نے دُنیا کی ساری بادشاہتیں اور اُن کی شان و شوکت دیکھی لیکن ان سب دلفریب چیزوں کو بُطلان سمجھا۔(متی۔۴: ۹ تا ۱۰ )اور عبادتِ الہیٰ کا مقام ٹھہرایا ۔
آیت مندرجہ صدر داؤد کی دُعا ایک فقرہ ہے جس میں داؤد بادشاہ خُدا کی درگاہ میں منت کرتا ہے کہ اُس کی آنکھیں پھیری جائیں تاکہ وہ بُطلان پر نظر نہ کرے۔اگرچہ انسان کی طبیعت کا میلان(رجحان)ان چیزوں کی طرف زیادہ ہے مگر ہو سکتا ہے کہ مدد ایزدی(خُدائی مدد)اور طاقت الہیٰ پا کر انسان کی آنکھیں اس طرف سے گھمائی جائیں اور آسمانی اور غیر فانی چیزوں کی طرف لگائی جائیں ۔اس کے نہایت ضرور ہے کہ خُدا سے دُعا کی جائے جس طرح کہ داؤد نے کی۔اور خُدا قادر ہے کہ اس خرابی سے انسان کو بچائے۔
اور اُس کو اُن آسمانی اور روحانی نعمتوں کے ایمان کی آنکھوں سے دیکھنے کے لائق بنا دے جو اس دُنیا کے گذر جانے کے بعد ہمیشہ کے لئے رہیں گی۔جن کی خوبصورتی اور رونق اُن کے مقابلہ میں کچھ حقیقت نہیں رکھتی۔