When the sentence for a crime is not quickly carried out
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Noor-i-Afshan 29 March 1895
نور افشاں مطبوعہ ۲۹ مارچ ۱۸۹۵ء
چونکہ بُرے کام پر سزا کا حُکم فوراً نہیں دیا جاتا اس لئے بنی آدم کا دل اُن میں بدی پر بہ شدت مائل ہے (واعظ۸ : ۱۱ )۔
یہ امر پوشیدہ(چھپا ہوا ) نہیں ہے کہ اس دُنیا کی دو عدالتیں ہیں ۔ایک عدالت کے حاکم انسان ہیں جو بنی آدم کی اس زندگی کے افعال ظاہرہ (نظر آنے والے کام )کے نگران ہیں اور اپنے قوانین کی رو سے جو وہ اپنی عقل و مرضی کے مطابق مرتب کرتے ،مواخذہ (جواب طلبی۔گرفت)کرتے ہیں اور سزا اور جزا دیتے ہیں ۔اگرچہ وہ بھی خدا ہی کی طرف سے مقرر ہوتے ہیں کیونکہ دُنیا کی تمام بادشاہتیں خُدا کے ہاتھ میں ہیں ۔دوسری عدالت کا حاکم احکم الحاکمین (سب حاکموں سے بڑا حاکم )اکیلا اور سچا اور زندہ خُدا تعالیٰ ہے۔جو بنی انسا ن کے ظاہر و باطن کے نیک و بد افعال (اچھے بُرے کام ) کی باز پُرس (پوچھ گچھ ) کرنے والا ہے ۔وہ خُدا وند یسوع مسیح کے وسیلہ سے آدمیوں کی پوشیدہ باتوں کا انصاف کرے گا (رومیوں ۲ : ۱۶ )۔انسان تو اپنے مجرموں کی عدالت فوراً خطا کے سر زد ہونے کے بعد کرتا ہے اور سزا دیتا ہے ۔جس سے اکثروں کو عبرت(نصیحت پکڑنا ) بھی ہوتی ہے اور وہ قانون کے بر خلاف عمل کرنے سے ڈر کے مارے بچ جاتے ہیں لیکن خُدا اپنے ملزموں کو فی الفور (فوراً)سزا نہیں دیتا بلکہ اُس نے ایک دن ٹھہرایا ہے کہ جس میں وہ دُنیا کی عدالت کے گا (اعمال۵:۳۱)۔
اس پر بعض لو گ اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ واہ کیا عدالت ہے کہ لوگ گناہ کرتے کرتے مرتے جائیں اور ایک جگہ جمع ہو کر سینکڑوں اور ہزاروں برسوں کے بعد اُ ن کا انصاف ہو اور اُن کی عدالت اور سزا میں اتنی تاخیر ہو ۔نہیں بلکہ یوں درست ہے کہ خُدا ایک جنم کے بعد دوسرے جنم میں لے جا کر فوراً گناہ کی سزا دیتا ہے اور سلسلہ تناسخ( روح کا ایک جسم سے دوسرے جسم میں جانا)جاری رہتا ہے۔چنداں ضرورت نہیں کہ اس مسٔلہ کا ردّاس موقعہ پر کیا جائے کیونکہ نورِافشاں کے بہت سے پرچوں میں اکثر دفعہ اس کی تردید (رد کرنا)کی جا چُکی ہے ۔اتنا کہنا کافی ہے کہ یہ خیال بے بنیاد ہے۔ خُدا اپنے تمام کام بے حد دانائی اور حکمت سے کرتا ہے ۔خُدا کی حکمت نے یہ پسند کیا کہ ایک مقررہ وقت پر تمام دُنیا کی عدالت ہو اور دیندار اور بے دین اپنی اپنی جزا اور سزا ایک ہی وقت پر پائیں ۔لیکن چونکہ بنی آدم کو تاہ اندیش(کم فہم ) اور جسمانی خیالات والے ہو گئے اپنے خیالات نفسانی اور جسمانی میں خُدا کی عدالت کو فراموش کر دیتے ہیں اور خوفِ الہٰی سےجو ایک ضروری امر ہے گریز کرتے ہیں اور اسی لئے ان میں دانشمندی(حکمت) نہیں جیسا کہ امثال ۱: ۷ میں لکھا ہے خُداوند کا خوف دانش کی ابتدا ہے ۔جس حال میں ان میں خوفِ خُدا نہیں اور اس کی عدالت کا خیال اُن کے دل میں نہیں وہ بد کاری پر بہ شدت مائل ہیں ۔
دُنیا میں گناہ کی کثرت کا یہ سبب نہیں کہ لوگ نا واقفی سے گناہ کرتے ہیں کیونکہ دیکھا جاتا ہے کہ عالم سے جاہل تک تمام گناہ کی شناخت رکھتے ہیں اور ساتھ ہی عدالت کے ہونے کے مقر(حامی۔اقرار کرنے والے) ہیں ۔سبب یہ ہی ہے کہ ان کے بُرے کاموں پر سزاکا حکم فی الفور دیا نہیں جاتا اس لیے وہ گناہ میں زیادہ مبتلا ہو رہے ہیں ۔مگر ایسے لوگوں کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ خُدا کی عدالت نہ ہو گی بلکہ اس دیر کو اپنی نجات کا باعث سمجھیں اور خُدا کی عدالت کا خوف دل میں رکھیں اور اُس خوف ناک دن میں پناہ لینے کے لیے خُداوند یسوع مسیح کے پاس اب آئیں کیونکہ ا س عدالت کی سزا سے بچنے کا موقعہ اب ہے نہ کہ اس وقت جبکہ وہ عدالت شروع ہو گی ۔اس کی بابت صاف لکھا ہے کہ جو ناراست ہے سو ناراست ہی رہے ۔اور جو نجس ہے سو نجس ہی رہے اور جو راستباز ہے سو راستباز ہی رہے ۔اور جو مقدس ہے سو مقدس ہی رہے (مکاشفہ ۲۲ : ۱۱ )۔