TEST OF BELIEF
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Noor-e-Afshan Mar 8, 1895
(متی ۲۸: ۱۸)’’اور یسوع نے پاس آکر ا ن سے کہا کہ آسمان اور زمین کا سارا اختیار مجھے دیا گیا ‘‘۔
دن کے ۳ بجے کا وقت ہے۔ آسمان پر قدرے ابر چھایا(گھٹا یا بدلی چھانا) ہوا ہے۔ آفتاب(سورج) کی تیزی بہت کم ہے۔ نگاہ کی چاروں طرف خشک کھیت نظر آتے ہیں۔ اور میں خاموشی کے عالم میں حیران اور رنجیدہ( مایوس) ایک چھوٹے گرجا گھر کے قریب جہاں سے کچھ فاصلہ پر ایک باغ بھی ہے مگر ویران جس کے مرجھائے ہوئے درخت دل کو اور بھی زیادہ پژمردہ(کملایا، مرجھایا ہوا) کرتے ہیں کھڑاہوں۔
مسلمان دشمنوں نے چاروں سمت (اطراف) سے گھیر لیا ہے۔ میں ایک انگلش سولجر (فوجی)سے بزبان انگریزی(انگریزی زبان میں) کہہ رہاہوں کہ مجھے نیؔنی تال جہاں میرے والدین اور عزیز حفاظت سے ہیں پہنچا دو۔ لیکن سولجرایک عجیب غمناک اور دل گیر آواز سے جواب دیتا ہے کہ اب کسی صورت سے رہائی ممکن نہیں۔ قریب ہے کہ دشمن جلد ہمیں نیزوں پر اُٹھالیں گے۔ میں چاہتا ہوں کہ کہیں بھاگ کر اپنی جان بچاؤں کہ یکا یک ایک آواز گرجے کے اندر سے سنائی دی۔ کہ کوئی عربی زبان میں پڑھ رہا ہے کہ کافروں کو مارو اور قتل کروجب تک کہ وہ مسلمان نہ ہو جائیں۔ میں گو کہ زبان عربی سے محض نا واقف ہوں تو بھی گویا صاف سمجھتا ہوں کہ مطلب کیا ہے ۔ اب میں رکا اور خیال کرنے لگا کہ گرجا گھر میں کون ہیں۔
جب دروازہ سے جھانکا تو معلوم ہوا کہ سینکڑوں مسلمان ایک بڑی جماعت مسیحی مرد عورت اور بچوں کے گرد تلواریں لیے چاروں طرف سے محاصرہ کئے (گھیرے ڈالنا )ہوئے کھڑے ہیں۔ یہ بھاگ کر بچ نہ سکے اور قید ہو گئے ۔ پولپٹ(منبر) پر ایک مسلمان مولوی سفید درویش موٹا تازہ پگڑی باندھے ٹخنوں تک ڈھیلا پاجامہ پہنے کھڑا ہوا درس د ے رہا ہے۔ اب میں نے بھی مصمم (پکا، مضبوط) ارادہ کر لیا کہ کہیں نہ بھاگوں گا۔ اور جو کچھ سلوک ان بےچاروں کے ساتھ کیا جائے گا شریک ہو ں گا۔ جب مولوی اپنا درس تمام کر چکا تو بندوق جو میز پر رکھی تھی اُٹھا کر سب سے پہلے چھوٹے بچوں پر فائز کرنے لگا جو اپنے والدین کی گود سے علیحدہ کر کے بیٹھائے گئے تھے۔ میں بندوق کی آواز سن کر گھبرایا اور کیا دیکھتا ہوں کہ جس بچہ کے گولی مارتا ہے وہ بےچارہ تڑپ تڑپ کر بنچ (تختہ)ہی پر مر جاتاہے۔ بعد اس کے جب سب بچوں کو قتل کر چکا تو مرد اور عورتوں کو ہلاک کرنا شروع کیا۔ پولپٹ کے نزدیک ایک بنچ پر چنداور مسیحی بیٹھے ہیں جب اُن کی باری آئی تو ایک محمدی نے جو ان کا دوست معلوم ہوتاہے مولوی سے سفارش کی کہ ان کو قتل نہ کیجئے یہ تو مسلمان ہیں۔ اور میں ان سے خوب واقف ہوں۔ مولوی بندوق ہاتھ میں لیے ہوئے ان سے دریافت کرنے لگا ۔ کہ تم کون ہو؟ افسوس کہ بو جہ کمزور ایمان انہوں نے جواب دیا کہ ہم مسلمان ہیں ہم کو ان عیسائیوں نے جو قتل ہوئے عیسائی مشہور کر رکھا ہے۔ ’’ایمان کو چھوڑ دیا‘‘ (متی ۲۳:۲۳)۔اس جماعت میں میرا ایک کم سن بھائی بھی مقید( قید ہونا) ہے۔ جب مولوی نے کہا کہ اگر یہ مسلمان ہیں تو جانے دو۔ جب ان کو ہلاک کرنے سے چھوڑا تو میرا بھائی بہت خوش ہوا۔ اورجن آنکھوں سے ابھی آنسو جاری تھے اور خوف سے روتاتھا۔ وہ چہرہ اب بشاش (خوش ) نظر آتا ہے کہ جان بچی۔ اُس وقت ایک ایسا جوش دل میں اُٹھا اور اندر جا کر چاہا کہ باآواز بلند کہوں۔ کہ گو کہ ان کمزور بھائیوں نے مسیح کا انکار کیا اور ڈر گئے۔ پر میں سچا مسیحی ہوں جو اس بندوق سے جو تیرے ہاتھ میں ہے نہیں ڈرتا ۔ اور جیسے ہی کہ چلایا میری آنکھیں کھل گئی۔
ایک عجیب حادثہ دل پر گذرا جس کا بیان تحریر سے باہر ہے۔ فوراً رات ہی کو مقدس انجیل پڑھنے لگا اور خدا کا شکر کیا کہ خواب تھا۔ لیکن معلوم ہو اکہ ایمان کی آزمائش تھی ۔ گو کہ اب وہم کو بھی دخل نہیں کہ پھر ایسا پُرخطر(خطرہ سے بھرا ہوا) وقت آئے اور ہم ایسی آسانی سے قید ہو جائیں جیسا گرجا گھر میں تو بھی ان بھائیوں کی طرف سے جو مسیح کی صلیب نہ اُٹھا سکے اور اس کا انکار کیا جی دُکھا۔ جب دن ہوا تو میں اپنے دل سے پوچھنے لگا کہ اے دل یہ تو صرف خواب تھا اگر ایسا وقت آئے بھی تو تو مسیح کے لیے کیا کرے گا؟ دل نے جواب دیاکہ فوراً جان دوں گا۔ اس کے ساتھ ہی یہ خیال بھی دل میں گذرا کہ کیا تیر اایمان باعمل ہے ۔ ( اس کی نسبت میں تحریر کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ پھر کسی وقت اگر ہو سکا لکھوں گا) اُسی روز میرے نجات دہندہ(نجات دینے والا) کی عجیب صورت میرے روبرو (سامنے)صلیب ہاتھ میں لیے ہوئے نظر آئی( یہ صرف خیال تھا کہ مسیح سامنے کھڑا ہے پر کچھ شک نہیں کہ روح القدس کا دل پر بڑا اثر تھا) کہ میں بے اختیار آنکھوں سے آنسو بھر لایا اور ایک کمرہ میں جا کر سجدہ کیا کہ’’اے مسیح ہمارے ایمان کو بڑھا ‘‘( لوقا ۱۷: ۵)۔’’اورہماری بے ایمانی کا چارہ کر ‘‘ (مرقس ۹: ۲۴)۔اور دیر تک خداوند یسوع مسیح کے سامنے سجدہ سے اُٹھنے کو جی نہ چاہا۔
اے ناظرین گو کہ میں ایک بڑا گنہگار اور سب سے حقیر مسیح کا شاگرد ہوں تو بھی آپ سے ایک سوال کرتا ہوں جس کا جواب دل ہی میں رکھیئے ۔ کیا ہمارا ایسا قوی اور پختہ ایمان مسیح پر ہے کہ اگر اس وقت ہمارے ایمان کی آزمائش کی جائے تو ہم اپنی جان اس کے لیے دریغ نہ کریں گے؟ اگرچہ سوال مشکل ہے تو بھی بڑی اُمید ہے کہ بہت کہیں گے’’ کون ہم کو مسیح کی محبت سے جُدا کرے گا؟ مصیبت یا تنگی یا ظلم یا کال یا ننگائی یا خطرہ یا تلوار‘‘ (رومیوں ۸: ۳۵) ۔اور دل یہ جواب بھی دے گا۔ کہ’’ رو ح تو مستعد پر جسم کمزور ہے‘‘(متی ۲۶: ۴۱)۔ ’’اس وقت بہتیرے ٹھوکر کھائیں گے ‘‘ ( متی ۲۴: ۱۰) ۔’’اور بہتوں کی محبت ٹھنڈی ہو جائے گی‘‘ ( متی ۲۴: ۱۲)۔
اس مولوی کی طرح جب ہم دنیا کی مکرو ہات میں پھنس کر مسیح سے دور ہو جاتے تو فوراً شیطان ’’ کیونکہ شیطان تم میں سے کئی ایک کو قید میں ڈالے گا تاکہ تم آزمائے جاؤ‘‘(مکاشفہ ۲: ۱۰) ۔ہم سے یہ سوال کرتاہے کہ’’ کیا تو بھی یسوع ناصری کے ساتھ ہے‘‘ ( متی ۲۶: ۶۹)۔تو بعض کم اعتقاد جن کو پورا بھروسہ اب تک مسیح پر نہیں گوکہ اس کی کلیسیا میں شامل ہیں ’’ کیونکہ بلائے ہوئے بہت پر برگذیدہ تھوڑے ہیں‘‘ ( متی ۲۲: ۱۴) ۔ اندیشہ ہے کہ پطرس رسول کی طرح کہنے لگیں کہ’’ میں اس سے واقف نہیں ‘‘(متی۲۶: ۷۲) ۔پر وہ ہی پطرس رسول مسیح کے لیے ایسا سرگرم اور قوی ایمان بہادر شاگرد ہوا کہ جب یہ سوال اس سے کیا گیا تو جواب دیا کہ میرے خداوند کو تم نے سیدھا صلیب دیا مجھے اس کے لیے اُلٹا لٹکاؤ یہ رسول بھی ہماری طرح انسان تھا جو اس دلیری سے اپنی جان دے کر ہمارے لیے نمونہ چھوڑ گیا۔ نہ صرف پطرس اس امتحان میں پورا نکلا بلکہ ہزاروں ۔ کیونکہ بعض اس امتحان میں پڑے کہ ’’ٹھٹھوں(مذاق اُڑانا) میں اُڑائے گئے۔ کوڑے کھائے اور زنجیر اور قید میں پھنسے ۔ پتھراؤ کئے گئے ۔ آرے سے چیرے گئے شکنجے (جال ) میں کھینچے گئے ۔تلوار سے مارے گئے ۔ بھیڑ اور بکریوں کی کھال اوڑھے ہوئے تنگی میں ، مصیبت میں ،دُکھ میں مارے مارےپھرے ، دنیا ان کے لائق نہ تھی ،بیابانوں اور پہاڑوں اور گڑھوں اور زمین کی غاروں میں آوارہ پھرا کئے ‘‘( عبرانیوں ۱۱: ۳۶۔۳۸)۔ ’’اور بڑی برداشت سے ، مصیبتوں سے ،احتیاجوں(ضرورت) سے، تنگیوں سے ، کوڑے کھانے سے ، قید سے ، ہنگاموں سے، بیداریوں سے ، فاقوں سے ‘‘ ( ۲۔ کرنتھیوں۶: ۴۔۵)۔سب کچھ برداشت کر کے آزمائش میں پورے ہوئے ۔ پولُس رسول فرماتاہے کہ ہم اس گھڑی تک بھوکے پیاسے ننگے ہیں۔ مار کھاتے اور آوارہ پھرتے ہیں۔ اور اپنے ہاتھوں سے محنتیں کرتے ۔ وہ بُڑا کہتے ہم بھلا مناتے ہیں۔ وہ ستاتے ہم سہتے ہیں۔ وہ گالیاں دیتے ہم گڑِ گِڑاتے ہیں۔ ہم دُنیا میں کوڑے کی اور سب چیزوں کے جھڑن کی مانند آج تک ہیں (۱۔کرنتھیوں ۴: ۱۱۔۱۳)۔
یہ امتحان نجات کی راہ ہے جو نہایت دشوار اور پر خطر ہے۔ طرح طرح کے امتحان اور آزمائش چاروں طرف سے محاصرہ کئے ہوئے ہیں جس سے ہم سب کو جو مسیح کے شاگرد ہیں گذرنا ہے۔ یہ بھی تو انسان تھے جو کمال استقلال(قیام، استحکام) سے سب کچھ برداشت کر کے اس راہ سے گذر گئے۔ دیکھئے اب میرا لہو ڈھالا جاتا ہے۔ اور میرے کوچ کا وقت آپہنچا ہے۔ ( یہ ایمان کی آزمائش کی آخری منزل ہے) میں اچھی لڑائی لڑچکا ۔دوڑ کو تمام کیا۔ میں نے ایمان کو قائم رکھا۔ باقی راستبازی ( سچائی) کا تاج میرے لیے دہراہے۔ (۲۔ تیمتھیس ۴: ۶۔۸) جس کا ا س مسافر اور امتحان بردار کو کہ ’’مرنے تک ایماندار رہ تو میں زندگی کا تاج تجھے دوں گا‘‘( مکاشفہ ۲: ۱۰)۔ پورا بھروسا تھا وعدہ کو پہنچا۔ ہمارا خداوند جو خوداس امتحان کو ہماری جان بچانے کے لیے اپنا خون بہا کر پورا کر گیا فرماتا ہے کہ اب ’’جو کوئی اپنی صلیب اُٹھا کر میرے پیچھے نہیں آتا میرے لائق نہیں‘‘ ( متی ۱۰: ۳۸) ۔
اے ناظرین اگر ہم مسیحی ہیں تو ضرور ہے کہ اس کی صلیب اُٹھا ئیں اور ہر امتحان کو جس میں شیطان ہمیں ڈالے بہادری سے قائم رہ کر ایمان کو نہ چھوڑیں۔ کیونکہ ہم جو اس کے خون خریدے ہیں یہ ہی فرض ہے۔ اس لیے ڈھیلے ہاتھوں اور سُست گھٹنوں کو مستعد (مضبوط ) کرو ( عبرانیوں ۱۲: ۱۲)۔ کہ ہم ہرگز مسیح کا انکار نہ کریں اور ایمان کو ہاتھ سے نہ دیں۔ یہ توصرف ایک خواب تھا جو نیند کی غفلت میں دیکھا ۔ اس لیے۔ آرے آ۔ تو جو سوتا ہے جاگ اور مردوں میں سے اُٹھ کہ مسیح تجھے روشن کرے گا (افسیوں ۵: ۱۴)۔
راقم
ایس مسیح