Hajj of Khana Kabat
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan Mar 1, 1895
نور افشاں مطبوعہ یکم مارچ ۱۸۹۵ ء بروز جمعہ
رسالہ انجمن حمایت اسلام لاہور، جلد ۱۲ نمبر ۱۰ ماہ جنوری ۹۵ء کے صفحہ ۲ سے ۲۱ تک ایک مضمون بعنوان ’’ ایک بے جوڑا اعتراض اسلام پر ‘‘ بابت فرض حج اور بعض رسومات متعلق عبادت کعبہ کے درج ہے۔ جس میں ایک محمدی صاحب نے کسی آریہ کے بعض اعتراضوں ( شاپد خیالی ) کے جوابات میں اپنے مذہبی اصول کے موافق گفتگو کے پیرا یہ میں فرض حج کو ثابت کر نے کی کمال کوشش کی ہے۔ جن جوابوں کے باعث جناب لیکچر ارصاحب اپنے ہم خیال لوگوں میں قابلِ تحسین خیال کئے گئے۔ چنانچہ شروع مضمون مذکورہ میں درج ہے۔
’’ یہ مضمون ایک لیکچر ہے مولوی شمش الدین خان صاحب کا جو مسلم ایسوسی ایشن آگرہ میں دیا گیا۔ چشم بددور آپ بہت عمدہ لیکچرار بنیں گے۔ جس طرح ہونہار درخت کے چکنے چکنے پتے ہوتے ہیں۔ اسی طرح تمام کمیٹی میں آپ کے بیان پر وہ رنگ ہوتا ہے۔ کہ جلسہ کی قسمت کھل جاتی ہے۔ یہ صاحب اجلاس کمیٹی میں جو کچھ بیان کرتے ہیں وہ انگریزی میں کرتے ہیں ۔ خدا کے فضل سے اس غیر زبان پروہ رنگت ہوتی ہے کہ دوسرے کی اردو پر بھی ہونا مشکل ہے۔ یہ اعتراض جس کا جواب دیا جاتا ہے شاید کسی آریہ صاحب نے کالب میں کر دیا تھا‘‘۔
ہمیں ہر دو صاحبان کے اعتراضوں اور جوابوں مندرجہ مضمون مذکور پر تو بحث کر نے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ ہر شخص صرف اپنے ہی خیال کو چاہیے وہ کیسا ہی ہو برترو اعلیٰ سمجھتا ہے اور اس کے ثابت کرنے کی حتی المقدور کوشش بھی کرتا ہے۔ مگر ہاں جب وہ خیال کلام خدا بائبل مقدس کی کسوٹی پر بلا تعصب پر کھا جاتا ہے تو اس خیال کی پوری و اصلی حقیقت برملا ظاہر ہو جاتی ہے۔
پس اس فرض حج محمدی اور اس کی عبادت کے متعلق جس کو کل اہل ِاسلام ایک فرمان الہٰی خیال کر رہے ہیں۔ کئی باتیں قابل غور ہیں۔ جن کا فیصلہ بموجب کلام خدا بائبل مقدس ایک عرصہ دراز سے ہو چکا ہے کہ ایسی عبادتوں کے ذریعہ قربت الہٰی تو کیا۔ کوئی طرح کا روحانی فائدہ با دِلی اطمینان بھی حاصل ہونا امر ِمحال ہے۔ کیونکہ کلامِ خدا ان کے محض فضول و بے سود ظاہر کرتاہے۔ چنانچہ
اولاً۔جناب محمد صاحب نے ہر مسلمان مردو عورت پر جو آزاد ،عاقل و بالغ ہوں اور سوار ی و خوراک پر قادر ہوں ساری عمر میں ایک دفعہ حج کرنا فرض بتایا ہے مگر اپنی مرضی سے جب چاہے کیا کرے ۔ حج کا ثواب یہ ہے کہ آدمی گناہوں سے پاک ہو جاتاہے اور یہ حج اس کے گناہاں ما قبل کا کفارہ ہے۔ وہ آدمی جس پر حج فرض ہے اگر آپ نہ جائے تو کوئی دوسرا آدمی اس کے عوض حج کر کے بعوض روپیہ کے اسے ثواب دلوا سکتاہے۔
یہ سچ ہے کہ توریت مقدس میں بھی بعض رسمی باتوں کا ذکر مذکور ہے ۔ جن کا ماننا و عمل میں لانا بفر مان الہٰی قوم یہود کو ضروری تھا۔ چنانچہ یہودی لوگ سال بسال بعض عیدوں کی عبادت اور بعض رسمیں ادا کرنے خصوصاً بعض تشخیص کئے ہوئے بے عیب جانور کی قربانی گذراننے کے لیے جو سال میں صرف ایک دفعہ کل قوم یہود کی خطا ؤں کی معافی کے لیے یروشلیم کی ہیکل میں گذرانی جاتی تھی جمع ہو اکرتے تھے۔ (خروج ۳۰: ۱۰ ؛احبار ۱۶: ۳۴ )مگر ان سب رسموں کا اشارہ روحانی باتوں پر مبنی تھاخصوصاً قربانی کا جو خداوند یسوع مسیح کی کامل و حقیقی قربانی کا ایک خاص نمونہ با علامت تھی۔
(عبرانیوں ۹: ۶۔۱۵، ۲۸ تک) کہ جس کی قربانی نہ صرف کسی ایک شخص یا صرف قوم ایک قوم یہود کے لیے بلکہ بنی آدم کے گناہوں کا کفارہ ٹھہرائی گئی تھی۔ پس جب وہ کامل قربانی عمل میں آچکی تو ان عیدوں اور قربانیوں کی کیا ضرورت رہی ۔ جس کا فیصلہ خداوند یسوع مسیح نے خود اپنی زبان مبارک سے انجیل مقدس میں یوں فرمادیا ’’ عورت نے اس سے ( مسیح سے ) کہا اے خداوند مجھے معلوم ہوتاہے کہ آپ نبی ہیں ہمارے باپ دادوں نے اس پہاڑ پر پرستش کی اور تم یہودی کہتے ہو کہ وہ جگہ جہاں پر ستش کرنی چاہیے یروشلیم میں ہے ۔ یسوع نے اس سے کہا’’ اے عورت میری بات کو یقین رکھ کہ وہ گھڑی آتی ہے کہ جس میں تم نہ تو اس پہاڑ پر نہ یروشلیم میں باپ کی پرستش کرو گے ۔ تم اس کی جسے نہیں جانتے پرستش کرتے ہو ہم اس کے جسے جانتے ہیں پرستش کرتے ہیں کیوں کہ نجات یہودیوں میں سے ہے۔ پر وہ گھڑی آتی ہے بلکہ ابھی ہے کہ جس میں سچے پر ستاروں و راستی سے باپ کی پرستش کریں گے کیونکہ با پ بھی اپنے پرستاروں کو چاہتا کہ ایسے ہوئیں۔ خدا رو ح ہے اور اس کے پرستاروں کو فرض ہے کہ روح و راستی سے پرستش کریں عورت نے اس سے کہا میں جانتی ہوں کہ مسیح ( جس کا ترجمہ کرستس ہے) آتا ہے جب وہ آئے گا تو ہمیں سب باتوں کی خبر دے گا۔ یسوع نے اس سے کہا میں جو تجھ سے بولتا ہوں وہی ہوں‘‘( یوحنا ۴: ۱۹ سے ۲۵ تک) ۔ اب ذرا غور فرمائے کہ اس حج محمدی کی کیا ضرورت رہی ۔
ثانیاً۔ قرآن میں لکھا ہے کہ کعبہ ابراہیم نے بنایا یعنی ’’ جب ابراہیم نے بنیاد کعبہ ڈالی اور اسمعیل نے ‘‘الخ (سورۃ البقر رکوع ۱۵) ۔
’’ تحقیق پہلا گھر مقرر کیا گیا واسطے لوگوں کے بیچ مکہ کے برکت والا اور ہدایت واسطے عالموں کے ‘‘ (سورۃ العمران رکوع ۱۰)۔
جائے تعجب ہے کیا کبھی ابراہیم مکہ میں گیا اور اس نے کعبہ کو تعمیر کیا؟ قدیم اور مستند تواریخ یعنی توریت مقدس میں ابراہیم کے سفروں کا احوال حسب ذیل درج ہے۔ جس بیان سے ابراہیم کا مکہ میں جاکر کعبہ کی بنیا د اُٹھانا تو در کنار اس کا اس طرف جانا بھی بعید القیاس ہے۔ چنانچہ جب ابراہیم اپنا وطن چھوڑ کر کنعان میں وارد ہوا توسکم کی بستی اور مورہ کے بلوط تک گذرا اور وہاں اس نے خداوند کے لیے ایک قربان گاہ بنائی۔ یہ عبادت کا پہلا گھر ہے جو ابراہیم نے تعمیر کیا ۔ بعد اس کے روانہ ہوکر اس نے بیت ایل کے پہاڑ کے پاس اپنا ڈیرہ کھڑا کیا۔ اور یہاں بھی اس نے خدا وند کے لیے ایک قربان گاہ بنائی جو دوسری عبادت گاہ ٹھہر۔ (پیدائش ۱۲: ۶۔ ۸ ) اب جائے غور ہے کہ کعبہ عبادت کا پہلا گھر کس طرح ثابت ہوسکتا تھا۔ کیونکہ ہنوز ابراہیم کنعان ہی میں تھا اور اسماعیل ابھی تک پیدا بھی نہ ہوا تھا؟ بعد اس کے ابراہیم رفتہ رفتہ دکھن کی طرف گیا اور جب کنعان میں کال پڑا تو وہ مصر کی طرف روانہ ہوا ( ۱۲: ۱۰) مصر سے روانہ ہونے کے بعد وہ پھر بیت ایل میں جہاں پہلے اس کا ڈیرہ تھا گیا۔ اور یہاں سے روانہ ہو کر اس نے ممری یا حبرون میں ڈیرہ کیا (۱۳: ۱۔۴، ۱۸) اس کے بعد لوط اس کے دشمنوں سے چھڑایا اور ملک ِصدق سے ملاقات کی (پیدائش ۱۴ باب ) اسی جگہ حاجرہ سے اسماعیل پیدا ہوا۔ (پیدائش۱۶: ۱۶) اور ابراہیم کے ساتھ خدا نے اپنا عہد قائم کیا (پیدائش۱۷ باب) پھر اس کا فلستی میں جانے کا ذکر اور اسماعیل و اس کی ماں حاجرہ کا گھر سے نکالا جانا مذکور ہے۔ (۲۰، ۲۱ باب ) ابراہیم کے آخری دنوں میں اس کے ایمان کی آزمائش یعنی اس کے حقیقی بیٹے اسحاق کو قربان کرنے کا حکم ہوا اور اس لیے خداوند نے ابراہیم کو برکت کا باعث ٹھہرایا۔ بس یہ سب کچھ کنعان اور زمین موریاؔہ میں واقع ہوا (پیدائش۲۲باب)۔ اس کے بعد بھی ابراہیم کنعان ہی میں تھا جہاں اس کی بیوی سرہ اور وہ دونوں انتقال کر گئے اور مکفیلہ کے غار میں جو ممری کے سامنے ہی دفن کئے گئے۔
پس اس الہٰامی تواریخ توریت مقدس سے صاف ظاہر ہے کہ ابراہیم اپنی تمام زندگی میں کبھی مکہ کی طرف نہیں گیا اور نہ وہاں جا کر اسماعیل کے ساتھ کسی کعبہ کی اس نے بنیاد ڈالی[1] البتہ یہ روایت محمد صاحب سے پہلے کی ہے کہ ابراہیم اور اسماعیل نے کعبہ کو تعمیر کیا اغلب ہے کہ اسمعیلیوں نے اپنی پتھریلی پرستش سے زیر بار ہو کر یہ روایت گھڑلی ہو تاکہ اس روایت کے باعث کعبہ کی تعظیم ہو اور سنگِ اسود کی پرستش زیادہ تو قیر(عزت) پائے ۔
ثالثاً۔ اس فرض حج محمدی کے عبادتی دستورات بھی عجیب خیالات سے مرکب اور عنقریب بت پرستی کے دستور اور ہندو تیر تھوں کی پرستش کے ہمشکل ہیں جن کا ذکر مختصر مقابلہ کے ساتھ درج ذیل ہے۔
۱۔ جب محمدی حاجی کسی میقات [2]سے چل کر مقام بلند پر پہنچتے یا نشیب میں اترتے یا کسی سے ملتے یا مکہ یا مسجد حرام میں داخل ہوتے ہیں تو وہ باربار تلبیہ ( لبیک[3] لبیک) پکارتے ہیں مگر جب کعبہ نظر آتا تو تکبیر اورتحلیل پڑھتے ہیں۔
ہندو جاتری بھی اپنے تیرتھ کے کل راستہ میں خواہ کسی سے ملتے یا نہ ملتے جے جے پکارتے چلے جاتے ہیں۔
۲۔محمدی حاجیوں کو بعد احرام باندھےکے دنیوی کاروبار سے پرہیز کرنا ضروری ہے ۔ شکار کھیلنے کی مطلق ممانعت ہے ۔ مگر مچھلی پکڑنے کی اجازت ہے۔بلکہ حاجی کو بدن کھجانا بھی منع ہوتا کہ کوئی جون نہ مرجائے ۔ یا بدن کا کوئی بال نہ اُکھڑ جائے ۔
ہندو جاتری بھی اپنے تیرتھ کے کل راستہ میں کیڑے مکوڑے کا مارنا مہاپاپ ( بہت بڑا گناہ ) سمجھتے ہیں۔
۳۔ محمدی حاجی سراورڈاڑھی کے بال نہ دھوتے نہ تراشتے نہ حجامت بنواتے جب تک کہ قربانی اپنے ٹھکانے نہ پہنچ چکے ۔
ہندو جاتری بھی اپنے تیرتھ کے راستے میں حجامت وغیرہ نہیں بنواتے ہیں۔
۴۔ محمدی حاجی حرم میں داخل ہو کر حجر اسود ( سنگ سیاہ ) کے پاس پہنچ کر اور تکبیر اور تحلیل پڑھ کر اس کو بوسہ دیتے ۔ اگر کثرت ہجوم کے باعث پاس جاکر بوسہ دینے کا موقعہ نہ ملے تو ہاتھ یا لکڑی سے مس کر کے اس ہاتھ یا لکڑی کو بوسہ دیتے ہیں۔
ہندو جاتری بھی اپنے تیرتھوں کے مندروں میں پہنچ کر اور مورتوں کے درشن کر کے ان کو ہاتھ جوڑ کر ڈھونڈتے ہیں۔
۵۔ محمدی حاجی صفا ۔ مردہ کے درمیان سات مرتبہ اپنے مونڈی ہلا کر ( سر ہلا کر) اور سرو چھاتی ابھار کر دوڑتے جس کو طواف کہتے ہیں۔ یعنی تین مرتبہ عجلت سے جس کو ترمل کہتے اور چار مرتبہ آہستگی سے جس کو تامل کہتے ہیں۔
ہندو جاتری بھی بعض تیرتھ کے بعض شہر یا مندروں کی پر کمّا دیتے یعنی ان کے گرد گھومتے ہیں۔
۶۔ محمدی حاجی مقام ابراہیم پر جا کر چاہ زمزم کا تھوڑا سا پانی متبر ک سمجھ کر پیتے ۔
ہندو جاتری بھی گنگا کے تیرتھ میں اس کا پانی اوتم و افضل سمجھ کر پیتے ہیں۔
۷۔ محمدی حاجی کعبہ میں کوئی شرعی جانور کی قربانی کرنا فرض سمجھتے ہیں۔
ہندو بھی کسی دیوی درگا کے مندرپر کسی جانور کو چڑھانا یا س کا خون بہانا بہتر خیال کرتے ہیں۔
۸۔ محمدی حاجی کعبہ میں اپنا سر منڈواتے ۔
ہندو جاتری بھی کسی تیرتھ میں اپنے سر کی بھدرا کراتے ہیں۔
علاوہ ازیں ۔ محمدی حاجی کعبہ کے پہاڑ پر جا کر سات کنکریاں پھینکتے ۔ اپنا پیٹ و سینہ اور داہنا رخسارہ مکہ کی دیوار الملنزم سے لگا کر اور آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا کر التجا کرتے ۔ الفاظ پرستی بکثرت کرتے ۔ حجاج دروازہ کو بوسہ دے کر اور کعبہ کے غلاف کو پکڑ کر اور زار زار رو کر نہایت عجز سے دعا مانگتے ہیں۔
ان سب امور کے بعد مدینہ میں جا کر روضہ پیغمبر صاحب کی زیارت کرتے ہیں۔ اور اس وقت سے مسافر کو حاجی کا معزز لقب حاصل ہوتاہے۔
ہندو جاتری بھی اپنے تیرتھ میں بعض رسمیں مدنی حرکات سے ادا کرتے اور بعض مندروں کی چوکھٹ وغیرہ کو چومنے میں وغیرہ وغیرہ ۔
دستورات و حرکات عبادتی مذکورہ بالا حج کعبہ پر غور کرنے سے عجیب حیرت پیدا ہوتی ہے کہ باوجود محمدی صاحبا ن اپنے تئیں خدا پرست سمجھنے کے ان حرکات عجوبہ کو عبادت الہٰی میں خیال کر کے ان کے ادا کرنے کے لیے اس قدر سرگردانی اختیار کرتے ہیں کہ جن میں سے ایک بھی خدا کے پاک نام اور اس کی صفات الہٰیہ کے لائق نظر نہیں آتی ۔ کہ جس کے ذریعہ انسان کو کوئی روحانی فائدہ حاصل ہو سکے کیونکہ ان میں سے بہت کچھ قدیم اہل ِعرب کی بت پرستی کےدستورات ہیں جو پہلے سے بھی وہاں جاری تھے ۔اور جن کو جناب محمد صاحب نے بد ستور قائم و جاری رکھا۔ کلام ِخدا انجیل ِمقدس سے ہم سیکھتے کہ ’’ خدا رو ح ہے اور اس کے پرستاروں کو بھی فرض ہے کہ روح ور استی سے اس کی پرستش کریں‘‘۔ کیونکہ وہ خداپاک کسی کے ظاہر یا کسی کی صرف زبانی تعریف پر نظر نہیں کرتا۔ بلکہ وہ دلی حرکت اور دلی تعریف اور دلی عبادت چاہتا ہے اور اس کے موافق ہر ایک کو بدلہ دیتا ہے ۔ پس وہ روحانی و دلی عبادت صرف انجیل مقدس کی تعلیم اور خداوند یسوع مسیح کی کامل قربانی پر ایمان لانے اور اس کی نیکی پر بھروسہ کرنے سے حاصل ہو سکتی ہے ۔ پس اس حقیقی منجی کے پاس جلد آؤ اور اس کے وسیلہ سے دلی اطمینان اور پوری تسلی حاصل کرو۔آمین
[1] ۔اگرچہ بعض محمدی صاحبان نے ابراہیم کا مکہ میں جانا اور کعبہ کی بنیاد ڈالنا اپنی خیالی دلیلوں سے ثابت کرنےکی کمال کوشش بھی کی ہے ۔مگر ان دلیلوں کے جوابات رسالہ ادعائے اسمعیل مصنف مسٹر اکبر مسیح صاحب صفحہ ۴۰ سے ۴۴ تک ملاحظہ فرمائے۔
[2] ۔میقات ۔مکہ سے ۵ یا ۶ کوس کے فاصلہ پر ۵مقام ہیں ۔جن کو پڑاؤ کہتے ہیں ۔جہاں سے حاجی احکام حج میں مصروف ہوتا ۔
[3] ۔لبیک میں حاضر ہوں۔