مسیح کا جی اُٹھنا

Eastern View of Jerusalem

Resolution of Jesus Christ

By

Lateef

لطیف

Published in Noor-e-Afshan Feb 15, 1895

نور افشاں مطبوعہ ۱۵فرورفروی  ۱۸۹۵ ء بروز جمعہ

مسیح کے جی اُٹھنے کے بارے میں( ۹ نومبر ۹۴ سے ۱۴ ماہ دسمبر ۹۴ء )تک کے نور افشاں کے ایڈٹیوریل کا لموں میں کافی بحث ہو چکی ہے۔ اورمسیحی شہادتوں کے مشاہدات کے پانچویں باب میں یہ بیان واضح طور پر لکھا جا چکا ہے۔ مگر اس کے متعلق دو ایک باتیں ہم اور عرض کرنا چاہیے ہیں۔

پیشتر اس کے کہ ہم مسیح کے جی اُٹھنے کو قبول کریں ہم کو لازم ہے کہ اس کی موت پرکامل یقین کریں۔ بہت لوگ اس با ت کے قائل نہیں ۔ کوئی تو کہتا ہے کہ مسیح خود غائب ہوگیا۔ اور اس کی جگہ ابلیس نے  اس کی صورت میں حلول(ایک چیز کا دوسری چیز میں اس طرح داخل ہونا کہ دونوں میں تمیز نہ رہے) کیا اور صلیبی موت اُٹھائی۔ بھئی یہ بھی خوب ہی کہی۔ بھلا کسی کو کیا غرض ہے کہ دوسرے  کے بدلے میں جان دے (کفارہ اس سے مستثنی ہے) اور اگر بفرض محال اس کو تسلیم بھی کر لیا جائے۔ تو مناسب تھاکہ شیطان کا نام و نشان ہی مارا جاتاہے ۔ اور اس واقعہ کے بعد اس کی کاروائیاں معدوم (ناپید، نابود)  ہو جاتیں مگر وہ کمبخت ابھی  تک خدا کے بندوں  کو راہ راست پر آنے  اور چلنے سے بہکاتاہے  اور قیامت تک بہکاتا رہےگا۔ اور تب باز آئے گا۔ جب فرشتے اس کو آگ میں جھونک دیں گے۔

اور بعض کا خیال ہے۔ کہ مسیح مرا نہیں ۔ بلکہ خون کے بہہ جانے سے غش میں آگیا۔ اور خوشبو کے زور سے ہوش میں آکر قبر سے نکل گیا۔ یہ خیال بھی محض لغو(بیہودہ) معلوم ہوتاہے۔ یہودیوں میں جو خوشبوئیں مُردوں کے جسموں پر ملی جاتی تھیں۔ یا قبروں میں رکھی جاتی تھیں۔ اس سے ان کا یہ مطلب نہ تھا کہ مُردہ اگر غشی کی حالت میں ہے۔ تو ان کی تاثیر سے ہوش میں آجائے بلکہ ان کی یہ غرض تھی کہ بدن جلد نہ سڑے ۔ مصریوں میں لاش کو امبام کرنا( مصالح  و خوشبو لگانا) ایک عام دستور تھا۔ مگر کیا کبھی کوئی مُردہ ان کے زور سے ہوش میں آکر قبر سے نکل کر چلا گیا؟ کیا تواریخ اس بات  کی شاہد ہے؟ یا یہ کوئی خاص غشی تھی۔ جو مسیح کو ہی بے ہوش کرتی ؟ لاکھوں مصریوں کی لاشیں امبام کی گئیں۔ مگر کوئی خوشبو کی تاثیر سے زندہ نہ ہوا۔ لاکھوں آدمی مرے مگر  خون کے بہہ جانے سے کسی کو غشی نہ ہوئی۔

وہ ادوایات جو کہ سٹرن کی مانع میں طبی اصطلاح میں اینٹی سپکٹس   (Antiseptics) کہلاتی  ہیں۔ ان میں بعض کے نام یہ ہیں۔ ایک کوہل  (شرابِ خالص ) نمک ، شورہ، پھٹکری، کریا زوٹ، آرسنک (سنکھیا) کروزیو سبلی میٹ (رسکپور) سلیفٹ آف کائپر۔( نیلا طوطیا) کلورائڈ آف زنک، کلورائڈآف لائم اور کار بالک ایسڈ۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے۔ کہ ان ادویات میں سے کوئی دوا سنگھانے  سے بےہوش آدمی ہوش میں آسکتا ہے؟

جہاں تک ہمارا خیال پہنچ سکتاہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں۔ کہ دافع سڑن دوا دافع غشی نہیں ہو سکتی ۔ اور پھر کیا کوئی آدمی جو کہ تین روز تک غشی کی حالت میں  قبر میں رہے۔ ہوش میں آنے سے کئی من کا پتھر قبر پر سے ہٹا کر نکل آئے؟

ایک سو چھیالیس(۱۴۶) آدمی ایک دفعہ ایک تنگ مکان میں بند کر دئے گئے تھے۔ جن میں دوسری صبح کو ایک سو تیئس(۱۲۳) تو مردہ نکلے ۔ اور باقی تیئس (۲۳)سسکتے ہوئے ۔ اگرچہ قبر میں ایک آدمی تین روز تک غشی  کی حالت میں بند رہے۔ اورپھر سلامت نکلے ۔ بے ہوش کو ہوش میں لانے کے لیے کیا علاج کیا جاتا ہے؟ صاف ہوا کا سانس کے ذریعہ میں پہنچانا پہلا اصول ہے۔ آرٹی فیشل رسپائریشن (تنفس مصنوعی ) کا طریقہ اس ہی مطلب کے واسطے استعمال کیا جاتاہے ۔

ان دونوں چوروں کی ٹانگیں جو مسیح کے ساتھ صلیب دیئے گئے تھے ۔ توڑی گئیں۔ مگر مسیح کی ٹانگیں نہ توڑی گئیں۔ اس کا سبب یہی ہے کہ وہ چور اس وقت تک نہ مرے تھے۔  اور مسیح مرچکا تھا۔ مصلوبوں کی ٹانگیں توڑنے سے یہ غرض تھی ۔ کہ اگر وہ مرنہ گئے ہوں۔ تو اس صدمہ سے رہی سہی رمق حیات (رہی سہی جان)نکل جائے ۔ اس سے صاف ثابت  ہوتاہے۔ کہ مسیح مر چکا تھا۔ یا کیا وہ لوگ اندھے  ہو گئے تھے۔ جو زندہ کو دفن کر دیتے ؟ یا ان کے ہاتھوں کی حس جاتی رہی تھی کہ وہ حرارت عزیزی کی موجودگی وعدم موجودگی  کی تمیز نہ کر سکے؟ اور پھر  ایک ایسے شخص کی موت سے وہ غافل ہوجاتے  کہ جس کے لیے ایک عالم نے ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر شور وغل مچایا  کہ ’’ اس کو صلیب دے۔ اس کو صلیب دے‘‘۔ یا ایک ایسے شخص کی موت قابل فردگذاشت ہوتی  کہ ایک بھیڑ جس کا تماشہ دیکھنے والےتھے۔ یا ایک ایسے شخص کی موت کی جانچ پڑتال میں کوئی دقیقہ (باریکی،معمولی بات)اُٹھا رکھا جاتا جس کی قبر پر پہرہ رکھنے کا منصوبہ کیا گیا تھا؟

مسیح کے پہلو پر جب بر چھا مارا گیا۔ تو پانی ملا ہوا خون نکلا۔ موت کی یہ ایک کافی   دلیل ہے۔ زندگی میں خون کی حالت ایسی نہیں ہوتی ۔ہم نے بیسوں آپریشن دیکھے اور کئی کئے بھی۔  مگر کبھی پانی ملا ہواخون  کسی کے جسم سے نکلتا نہیں دیکھا۔ البتہ پوسٹمارٹم ( امتحان نعش) کے وقت بہ کیفیت ضرور ہوتی ہے۔ یہ تجربہ اور مشاہد ہ کی بات ہے۔ ضرورت نہیں کہ اس کے ثبوت میں ہم کچھ ڈاکٹر ی چھانیں۔

صاحبو خداوند یسوع مسیح صلیب پر مرا۔ اور میرے اور آپ کے اور سب کے لیے اس نے اپنی جان کو قربان کیا۔  کہ ہم گنہگار اس  کی موت کے باعث عذاب ابدی سے بچیں۔

جب مسیح کے جی اُٹھنے کی منادی کی گئی ۔ تو اس کاآغاز کس مقام سے ہوا؟ کیا ہندو ستان سے یا افریقہ سے ، یا امریکہ سے ۔ یا یورپ سے ، یالنکا۔ چین جاپان  یا کوہ قاف سے؟نہیں بلکہ اُسی جگہ سے  جہاں کہ دہ ماہ پیشتر اس پر تھو کا گیا۔ اس پر ٹھٹھے کئے گئے ۔ اس کے سرپر کانٹوں کا تاج رکھا گیا۔ اس کو مارا اور آخر کو صلیب پر چڑھا یا ۔ ہاں سب سے پہلے یروشلیم   میں ہی اس کی قیامت کی منادی کی گئی۔ کیا اس وقت کے علماء فضلا ، شعرا، مورخین ، و فلاسفر مثلاًس سسؔرو، درچلؔ، سالسٹ۔سنیکاؔ۔اسٹیبوؔ۔اودڈؔ۔ہوریس لدیوؔی۔ ٹے سی ٹس۔ پلوٹارکؔ، فتوؔ، اور جوزی ؔفس محض بے وقوف تھے؟ یا وہ تین ہزار آدمی جو اسی وقت ایمان لائے پاگل تھے؟  یا ان سب کے سروں پر جنہوں نے مختلف مقامات میں اس کے جی اُٹھنے کے بعد اس کو دیکھا وہم کا بھوت سوار تھا؟ کہ ہر جگہ وہ ہی نظر آتا ہے۔ باتیں کرتا ہے اور کھانا کھاتا۔ اور کوئی دوسرا نہیں؟ یا سب کے اعصاب میں اس قدر فتور آگیا تھا۔ کہ ہر جگہ وہ ایک ہی صورت دیکھتے ؟ اگر یہ واقعہ غلط ہوتاہے۔ تو اس کی تردید میں کتابیں نہ لکھی جاتیں؟ رسالے یا اشتہارات نہ پھیلائے جاتے ؟  وہ زمانہِ جہالت  و بے وقوفی کا زمانہ نہ تھا ۔ بلکہ علم و ہنر کا ۔ مذکورہ بالا علما ءاس ہی زمانہ میں تھے۔

صاحب مسیح کا جی اُٹھنا ایک سچا واقعہ ہے ایک  تواریخی ماجرا ہے۔ اس واقعہ نے ہماری عقلوں کو روشن کیا ہے۔ ہم کو ایک نئی فلا سفی کی عین تعلیم دی ہے اور اس ہی واقعہ سے ہم موت کی کچھ حقیقت نہیں سمجھتے ۔

Leave a Comment