یہ شخص گنہگاروں کو قبول کرتاہے

Eastern View of Jerusalem

This man welcomes sinners

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Noor-e-Afshan 25 Jan,1895

نور افشاں مطبوعہ۲۵جنوری ۱۸۹۵ء

اور فریسی اور فقیہ کڑکڑا کر کہتے تھے ۔ کہ یہ شخص گنہگاروں کو قبول کرتا۔ اور ان کے ساتھ کھاتاہے۔ (لوقا۲:۱۵)

اگرچہ خداوند یسوع مسیح جسم کی نسبت قوم ِیہود میں سے تھا ۔ جو اپنی قوم کے سوا تمام آدم زاد کو گنہگار ۔ ناپاک  بلکہ مثل سگ سمجھتے تھے۔ مگر چونکہ وہ تمام نبی آدم کا نجات دہندہ ار سارے گنہگاروں کا۔ خواہ یہودی ہوں۔ یا غیر قوم ،بچانے والا تھا۔ اس نے یہودیا  نہ تعصب و تنفر کے خلاف یونانیوں ، رومیوں، سامریوں، خراج گیروں ۔ اور ایسے لوگوں کے ساتھ جنہیں یہودی گنہگار سمجھتے تھے۔ میل جول رکھ۔ اور  انہیں نجات کی خوشخبری پہنچانے میں دریغ نہ کیا۔ ’’ کیونکہ سبھوں نے گناہ کیا۔ اور خدا کے جلال سے محروم تھے‘‘۔ مسیح کا غیر یہودیوں کےساتھ ایسا برتاؤ یہودیوں کی سمجھ میں نہایت مذموم تھا۔ اور وہ اکثر ایسے موقعوں پر اس پر کڑکڑاتے۔ اور الزاماً کہتےا تھے۔ کہ ’’یہ شخص گنہگاروں کو قبول کرتاہے۔ اور ان کے ساتھ کھاتاہے‘‘۔ اور بحقارت اس کو ’’ خراج گیروں اور گنہگاروں کا دوست‘‘نام دیتے تھے۔ مگر اس نے جو فی الحقیقت ’’گنہگاروں کا دوست‘‘ تھا۔ یہودیوں کے ایسے بیہودہ  خیالات کی کچھ پروا نہ کی۔ اور انہیں ہمیشہ یہ معقول جواب  دیا کہ ’’ بھلے چنگوں کو حکیم درکار نہیں۔ بلکہ بیماروں کو ۔ میں راستبازوں کو نہیں ۔ بلکہ گنہگاروں کو توبہ کے لیے بلانے آیا ہوں‘‘۔

اسی اصول اور طبیعت کے مطابق ا سکے خدمتگذار اور دیندار بندے ہمیشہ چلتے رہے۔  اور اب بھی چلتے ہیں۔  اور ان لوگوں کےساتھ ہمدردی کرنے اور انہیں  نجات کی خوشخبری سنانے میں۔ جو اہل دنیا کی نظر میں نیچ اور ناچیز ہیں ۔ کوتاہی کرنا نہیں چاہتے ۔ اگرچہ ان کی یہ کاروائی خود پسند اور مغرور انسانوں کے خیال میں نہایت بری اور قابل ملامت ہے۔ ہم دیکھتے ہیں۔ کہ فی زمانہ ہندوستان میں نیچ اقوام کے مسیحی کلیساہ میں شامل  ہونے پر ہندو اور  محمدی لوگ مسیحیوں پر کیسی طنز کرتے ۔ اور مشنری صاحبان کےان کے پاس جانے۔ اور میل ملاپ رکھنے پر کس طرح زبان طعن و تشنیع دراز کرتے ہیں۔ مگر یہ    مسیحیوں کی بناوٹی عادت نہیں۔ بلکہ مسیحیت کی تعلیم  کا اثر ہے۔ کیونکہ جیسا وہ خدا کی الوہیت۔ اور بنی آدم کی اخوت کا اظہار کرتی ۔ کسی  اور  مذہب میں ایسا اظہار نہیں کیا گیا۔ اور یہی سبب ہے کہ مذاہب مذکورہ کے پیرو کسی غیر مذہب وغیرقوم۔ اپنے سے کمتر۔ اور ادنی ٰ بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی اور  مددہی میں قاصر رہتے ہیں۔ اور یہ قصور ان کا نہیں۔ بلکہ ان کے مقبولہ مذاہب کا ہے۔ جو بنی آدم ی اخوت ۔ اور خدا تعالیٰ کی ابویت کی تعلیم سے خالی ہیں۔ اورجن میں بصفائی یہ تعلیم نہیں ملتی۔کہ:۔          

         ’’ خدا نے ایک ہی لہو سے آدمیوں کی سب قوم تمام زمین پر بسنے کے لیے پیدا کی ‘‘۔               (اعمال ۲۶:۱۷ )

اور یہ کہ :۔

’’ ایک خداہے جو سب کا باپ ، سب کے اوپر  اور سب کے درمیان اور تم سب میں ہے‘‘۔               (افسیوں ۶:۴)

 پس ادنیٰ درجہ کے لوگوں سے ہمکلام نہ ہونا ۔ اور انہیں  بنظر حقارت و نفرت دیکھنا اس  ملک کے امرا ہی کا خاصہ اور نشا ن نہیں۔ جیسا کہ برہمہ پر چارک لکھتا ہے۔ بلکہ امرا و غربائے اہل ہنودو اسلام کا یہی حال ہے۔ چنانچہ برہمہ پر چارک لکھتاہے۔ کہ :۔’’ ہمارے ملک میں عموماً بڑے آدمی یا امیر ہونے کی پہچان ہے۔ کہ وہ  ادنی درجہ کے آدمیوں سے بولنے تک نہیں۔ اور انہیں نفرت کی نگاہ  سے دیکھتے ہیں۔   شاذونادر ہی  کوئی امیر آدمی ایسا ہوگا۔ کہ جو کسی مہتر کے گھر بیمار پرسی کے  لیے جاؤ۔ لیکن  ایسی حالت میں اس کو کسی دہرم پستک کا پڑھ کر سنانا ہمارے ملک کے امیروں سے اگرناممکن نہ مانا جائے۔ تو پر لے درجہ کا مشکل ضرور ہے ۔ مگر دوسر ے ممالک میں کیا حال ہے؟ مسٹر گلیڈسٹون صاحب سابق وزیر اعظم انگلستان کے بارےمیں بیان کیا جاتاہے کہ جب وہ گرجا گھر میں  نماز پڑھنے جایا کرتے تھے۔ تو راستہ میں انہیں  ایک مہتر پھاٹک پر ملا کرتاتھا۔ ایک دن حسب معمول گرجا گھر جاتے وقت پھاٹک پر بجائے اس مہتر کے کسی اور شخص کو پایا۔ اور دریافت کرنے سے معلوم ہوا ۔ کہ وہ مہتر گھر  میں بیمار پڑا ہے۔ مسٹر گلیڈسٹون نے اس مہتر کے گھر کا پتہ پوچھ کر پاکٹ بک میں لکھ لیا اور دوسرے دن اس مہتر کے مکان کو تلاش کے کے اس کے پاس گئے ۔ اس کی بیمار پرسی کی اور تسلی دی۔ اور بائبل پڑھ کر اُسے سنائی‘‘۔

Leave a Comment