وہ نجات پائیں

Eastern View of Jerusalem

They may be saved

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Noor-e-Afshan 25 Jan,1895

نور افشاں مطبوعہ ۲۵جنوری ۱۸۹۵ء

پوری آیت اس طرح پر ہے۔’’ اے بھائیو ، میرے دل کی خواہش ۔ اور خدا سے میری دعا اسرائیل کی بابت یہ  ہے کہ۔ وہ نجات پائیں‘‘۔

 ہم مسیحیوں میں یہ  دستور العمل ہے۔ کہ نئے سال کے شروع میں بماہ جنوری ایک ہفتہ برابر مختلف مقاصد و مطالب پر خدا سے دعا مانگیں۔ مثلاً اپنے گناہوں کا اقرار‘‘۔’’ خدا کی نعمتو ں کا شکریہ ‘‘۔ ’’روح القدس کی بھرپوری‘‘ ۔’’اس کے کلام کے پھیلائےجانے کی خواہش‘‘ ۔ ’’حاکموں پر برکت‘‘۔ ’’ہندو مسلمان کی نجات وغیرہ ‘‘۔ اسی سلسلہ میں خدا کی برگزیدہ قوم بنی اسرائیل کے لیے بھی دعائیں مانگی جای ہیں۔ چنانچہ ہمارے یہاں فرخ آبادکے گرجہ گھر میں بھی بتاریخ دہم ماہ جنوری ۹۵ء یہ قرار پایا ۔ کہ یہودیوں کے لیے دعا و مناجات کی جائے۔ اور تاریخ مندرجہ صدر کے  لیے بندہ قرار پایاتھا۔لہذا ۴ بجے شام کو مندرجہ عنوان آیت پر کچھ تھوڑی دیر تک بیان ہوا۔ اور خط روم ۹ باب پڑھا گیا۔ اس بات کو پہلی آیت سے پڑھتے ہوئے جب ۵ویں آیت کے اس آخری فقرہ پر ۔ کہ ’’جو سب کا خدا ہمیشہ ’’مبارک ہے‘‘ پہنچا۔ تب بندہ کو خیال ہوا کہ رسول کا اس فقرہ سے کیا مطلب ہے اور خیال پیدا ہونے کا سبب یہ تھا۔ کہ عرصہ سے باوقات مختلف ایک رسالہ موسومہ الوہیت(ربانیت) مسیح معنوتہ و مولفہ مسٹر اکبر مسیح مختارباندہ بندہ کے زیر نظر رہتاہے ۔ رسالہ مذکور میں بھی صفحہ ۹۷ پر اسی فقرہ کی بابت کچھ بحث ہے۔ چونکہ مختار صاحب الوہیت مسیح کے منکر ہیں۔ لہذا انہوں نے اپنے خیال کی تائید میں پولوس رسول کی افضل التفضیل دلیل کو ۔ جو بنی اسرائیل کی فضیلت اور دینا کی تمام اقوام پر ثابت کرتی ہے۔ بحث کی صورت میں لانا اپنا فرض سمجھا ۔ آپ کی مثال وہی ہے جو ایک حکیم سے نکلی ہے۔  کہ جس نے بغیر پڑھے اور تعلیم حاصل کئے چند جہلا دیہات کو دھوکے دےرکھا تھا ۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ حکیم موصوف کے پاس ایک ایسا مریض لایا گیا۔ جس کی دوا آپ کےذہن شریف میں نہ آسکی اورا نہ مرض کی تشخیص ہو سکی۔ اب اگر کہتے ہیں کہ اور حکیم کے پاس جاؤ تو پیٹ کا دھندلا جاتاہے ۔ بدنامی ہوتی ہے ۔ لوگ کہینگے ۔ کہ پورے حکیم نہیں ہیں۔ پس کچھ سوچ ساچ کر آئیں بائیں شائیں تین پڑیاں خا ک دھول بلاکی بنا کر مریض کے حوالہ کیں۔ اور فرمایا کہ ان پڑھیوں کو استعمال کرتے ہوئے۔ اونٹ کا خیال نہ کرنا ۔ مطلب یہ کہ اگر مریض نے کبھی اونٹ دیکھا بھی نہ ہو ۔ تو بھی جب ان پڑیوں کے کھانے کا ارادہ کرے گا۔ فوراً اونٹ کا خیال پیدا ہوگا۔ غرضیکہ ان پڑیوں سے مریض کو فائدہ نہ ہوا۔ اس لیے کہ مریض اونٹ کے خیال  کو اپنے دماغ سے باہر نہ کر سکا۔ یہی سبب تھا کہ بندہ کو ورد پرھتے ہوئے بھی مختار صاحب کی دلیل نہ بھولی ۔ بلکہ خود بخود خیال سب آموجود ہوئے۔ اور اچھا ہوا۔  کہ ایسے وقت میں خیال پیدا ہوا۔ کیونہ چند سببو ں کا بیان کرنا ضروری تھا۔ تاکہ کل شرکا ءِ عبادت کے دل اس بات پر متوجہ ہو جائیں۔ کہ کیوں بنی اسرائیل کے لیے آج دعا مانگنا چاہیے۔

منجملہ ان اسباب کے پہلا سبب قوی یہ ہے۔ کہ وہ اسرائیلی ہیں۔ اور فرزندی اور جلال اور عیدیں اور شریعت اور عباد ت کی رسمیں اور عدے ان ہی کے ہیں۔ اور دوسرا سبب یہ ہے کہ باپ دادا ان ہی میں کے  ہیں۔ اور تیسرا سبب یہ ہے کہ جسم کی نسبت مسیح بھی ان ہیں میں سے ہوا۔ لیکن اس تیسرے سبب پر ہم کو اعتراض ہے۔ اگر جسم کے معنی کچھ اور نہ ہوں ۔ اس لیے کہ باپ ددا سے یعنی ابراہام ، اضحاق اور یعقوب وغیرہ کیا جسم نہیں رکھتے  تھے؟ پھر مسیح کو باپ دادؤں سے علیحدہ کر کے بیان کرنے میں رسول کا کیا مطلب  ہے ؟ مختار صاحب ہم کو سمجھا دیں۔ آیا وہی مطلب ہے جو قرآن کی سورۃ انا انزلنا کے اس فقرہ میں ہے ’’ تنزل الملایکتہ  و الروح‘‘۔ (اترتے ہیں فرشتے اورروح) اگر روح سے روح القدس خدا مراد نہیں تو کیا ہے؟ اگر جبرئیل کا نام روؔح ہے۔ تو کیا جبرئیل فرشتہ نہیں ہے؟ اور فرشتوں کے اترنے میں جبرئیل کو اترا ہوا نہیں سمجھے گے؟ یا اس کا  وہ مطلب ہے۔ جو قرآن کی ان آیتوں میں ہے۔ فارسلنا الیھاروحنا۔ فنضخنا فیھا من روحنا ۔ (پس بھیجا ہم نے اس کی طرف اپنی روح کو کہ پس پھونک دی ہم نے اسمیں اپنی روح میں سے ) کہا یہاں ان دونوں روحوں میں کچھ مغائرت ہے۔ یا نہیں؟ ۔ اگر ہے۔ تو قرآن سے خدا کی روح کی شخصیت ثابت ہو گئی ۔ اور اگر مغائرت نہیں ہے ۔ تو کیا جبرائیل نے جبرائیل کو پھونک دیا؟ یہ کیسی بات ہے! ناظرین ناراض نہ ہو۔ اور نہ کہیں کہ انجیل سے مسیح کی الوہیت (ربانیت) کابیان پیش کرنا چہ معنی ؟ جناب من بے  معنی نہیں۔ بلکہ یہ دکھانا چاہا ہے۔ کہ یونی ٹفین دلائل محمدی دلائل کے سگے بھائی ہیں جو وہاں  ہے۔ سو یہا ں ہے۔ جو یہاں ہے۔ سو وہاں ہے ۔ لیکن ہمارے اعتراض کا جواب خود پولوس رسول سے ہمکو یہ ملتاہے۔ کہ پیارے بھائی۔ اگرچہ خداوند مسیح جسم کی نسبت باپ دادوں سے کچھ بھی مغائرت نہیں رکھتا۔   ( اور میرے دوسرے سبب ہی میں یہ تیسرا سبب  بھی مل جاتاہے) پر تو بھی زمانہ آئندہ میں مسیح کے مخالف اُٹھینگے اور لوگوں کے دلوں میں شبہ پیدا کریں گے۔ اس لیے میں نے تم کو صاف بتا دیا۔  کہ جسم کی نسبت مسیح بھی ان ہی میں سے ہوا۔ جو سب کا خدا ہمیشہ مبارک ہے۔ مطلب یہ کہ مسیح خداوند جب مجسم ہوا۔ تب غیر اقوام میں نہیں۔ بلکہ خدا  کی برگزیدہ قوم اسرائیل میں۔ کیونکہ نجات یہودیوں میں سے  ہے۔ اور  اگر زیادہ  اطمینان خاطر منظور ہو۔ تو مرقس کی انجیل میں سردار کاہم سے دریافت کرو۔ وہ تمہیں بتائے گا ۔ کیونکہ(۲۱:۱۴ )میں پھر سردار کاہن نے اس سے پوچھا۔ کہ کیا تو مسیح اس مبارک کا بیٹا ہے؟ تب ۶۲ ویں آیت میں یسوع نے اس سے کہا ۔ میں وہی ہوں۔ مختار صاحب اگر مسیح میں الوہیت نہ تھی۔ تو باپ دادوں سے بلاوجہ موجہد علیحدہ کرنا خلل دماغ کے سوا اور کیا ہو سکتاہے؟ لیکن ملہم شخص کی بابت ایسا بدگمان نہ تو آپ کر سکتے ہیں۔ اور نہ میں پھر آپکی یہ دلیل کہ ’’ مقدس پولوس  نے کسی ایک جگہ بھی مسیح کے حق میں یہ خطاب استعمال نہیں کیا‘‘۔ اس کا جواب یہ ہے۔ کہ اس آیت میں استعمال کیا ہے۔ اگر دوسری جگہ  بھی انہی الفاظ کو استعمال کرتا۔ تب آپ کیا کہتے ؟ اور تیسری جگہ بھی استعمال کرتا۔ اور چوتھی جگہ بھی استعمال کرتا۔ تو آپ کیا کہتے ؟ پھر آپ ہی تو کہتے ہیں۔ کہ بجنسہ یہ وہی فقرہ ہے۔ جو (روم ۴۵:۱ )میں ہے۔ اور خالق کی نسبت لکھا ہے۔ واہ جناب یہی  تو دلیل ہی کہ خدا کے کلام میں مسیح کے حق میں اکثر ایسے خطاب پائے جاتے ہیں۔ جو خدا کی نسبت  ہیں۔ پس باوجود ان صافات کے جو خداکے معرف ہیں۔ مسیح کی الوہیت کو رد کرنا کس قانون کے  روسے درست ہے؟ اب آخری فیصلہ سنیے خدا باپ کی  الوہیت کے آپ بھی قائل ہیں۔ اور روح القدس کی الوہیت قرآن سے ظاہر ہو چکی ہے۔ اور مسیح کی الوہیت اس افضل تفصیل دلیل پولوس سے آپ کو دکھائی گئی۔  براہ مہربانی تثلیث کی پھرتتفیح فرمائے ۔ا ور اپنے رسالہ کا جواب جلد چھپوائے۔                             زیادہ نیاز ۔

Leave a Comment