مسیح پر ایمان لانا

Eastern View of Jerusalem

Have Faith On Jesus Christ

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Noor-e-Afshan Dec 28, 1895

نور افشاں مطبوعہ۱۱ جنوری ۱۸۹۵ء

ہم جو پیدائش سے یہودی ہیں ۔ اور غیر قوموں میں سے گنہگار نہیں۔ یہ جان کر کہ ٓدمی نہ شریعت کے کاموں سے بلکہ یسوع مسیح پر ایمان لانے سے راستباز گنا جاتاہے۔ ہم یسوع مسیح پر ایمان لائے ۔ تاکہ ہم مسیح پر ایمان لانے سے ۔ نہ کہ شریعت کے کاموں سے راستباز گنے جائیں۔ کیونکہ کوئی بشرشریعت کے کاموں سےراستباز گنانہ جائے گا(گلتیوں ۳: ۱۵،۱۴)۔

مسیحی مذہب اور دیگر مذاہب دنیا میں یہ ایک نہایت عظیم فرق ہے۔ کہ وہ گنہگار انسان کی مخلصی و نجات اور حصول قربت و رضامندی الہٰی کو اس کے اعمال حسنہ کا اجر و جزا نہیں ٹھہراتا۔ بلکہ ا س کو صرف الہی ٰ فضل و بخشش ظاہر کرتاہے۔ جبکہ دیگر مذاہب تعلیم دیتے ہیں۔ کہ پہلے کام اور بعد ہ انعام مسیحی مذہب تعلیم دیتاہے۔ کہ پہلے انعام اور بعد کام ۔ یہ تعلیم گنہگار لاچار و خوار انسان کے لیے جس میں نیک کام کرنے کی طاقت مردہ اور قوائے نفسانی  و جسمانی زندگی اور زور آور ہیں کہ  ’’ تو پہلے نیک کام کر تو نجات پائے گا‘‘ کیسی ناممکن التعمیل اور سخت و ناگوار معلوم ہوتی ہے! کیا کوئی طبیت حاذق کسی مریض کو جو عرصہ دراز (کافی وقت سے) ایک مرض جانستاں میں مبتلا رہ کر یہاں تک نحیف و ناتواں ہوگیا۔ کہ وہ اٹھنے بیٹھنے ۔ اور چلنے پھرنے کےبالکل نا قابل ہو۔ قبل صحت یہ حکم  دے سکتا ۔ کہ تو  چہل قدمی کیا کر۔ اور ترش دبادی اغذیہ سے محترزرہ ؟ پس وہ مذہبی ہادی و معلم جو اپنے پیروؤں کو۔ جو محتاج  نجات ہیں۔ یہ تعلیم دیتا ۔ کہ اگر تم نیک کام کرو  تو آخر کو نجات پاؤ گے۔  اسی طبیب کی مانند ہیں جو مریض کو قبل شفا یابی حصول طاقت  و توانائی کے لیے چہل قدمی کرنے  اور تند رستی رہنے کے لیے نا موافق  و ثقیل اغذیہ سے پرہیز کرنے کی صلاح دیتا ہے۔ اس میں شک نہیں۔ کہ وہ جو بذریعہ  اعمال حصول نجات  کی تعلیم دیتے۔اور جو ایسی تعلیم کو پسند قبول کرتے ہیں انسان کی دلی خراب حالت ۔ اور پیدائشی بگڑی ہوئی طبیعت سے بالکل نا واقف اور محض نا آشنا ہیں نہ  مگر یہ بھی سچ ہے۔ کہ جنہوں نے کلام اللہ سے بگڑی ہوئ انسانیت کے  حال کو معلوم نہ کیا ہو۔ وہ کیونکر اس کی برائی کوبخوبی سمجھ سکتے ہیں۔کیونکہ کلام اللہ ہی صرف ایک ایسا آئینہ مصفیٰ و مجلی  ہے۔ کہ جس میں بگڑی ہوئی انسانیت اور اس کے دل  کی صحیح تصویر معہ اس کے عیوب (عیب کی جمع) و قبایح کے صاف طور پر کھینچی اور دکھائی گئی ہے۔ ہر چند کہ خود پسند انسان ایسی کر یہ المنظر تصویر کو دیکھنا پسند نہیں کرتے ۔ تاہم  نہایت ہی مناسب اور ضروری ہوتاہے۔ کہ ان فریب خوردہ اشخاص کے لیے جو ’’ پہلے کام۔ اور پیچھے انعام‘‘ کی تعلیم پا کر نجات اُخروی کے امید وار ہیں اس کے ہر دو تاریک پہلو کسی قدر کتاب اللہ سے دکھائے جائیں۔

پیدائش کی کتاب کے ۶ باب ۵ آیت میں قبل طوفان یوں لکھا ہے کہ ’’ خداوند نے دیکھا۔ کہ زمین پر انسان کی بدی(بُرائی) بہت بڑھ گئی ۔ اور ا سکے دل کے تصور اور خیال روز بروز سر ف بد ہی ہوتے ہیں‘‘۔ اور یہ کہ خدا نے زمین پر نظر کی اور دیکھا کہ وہ بگڑ گئی۔ کیونہ ایک بشر نے اپنے اپنے طریق (طرز زندگی، ڈھنگ)  کو زمین پر بگاڑا تھا‘‘ (پیدائش ۱۶:۶) ۔

پہلے کام اور بعد انعام مسیحی مذہب تعلیم دیتاہے کہ پہلے انعام اور بعد کام

پھر اسی کتاب کے۸ باب ۳۱ آیت میں لکھا ہے ۔ کہ ’’انسان کے دل کا خیال لڑکپن سے برا ہے۔ ایوب کی کتاب کے ۱۵ باب ۱۴ ٓیت میں مرقوم ہے کہ’’انسان کو ن ہے کہ پاک ہو سکے۔ اور وہ جو عورت سے پیدا ہوا کیا ہے کہ صادق ٹھہرے‘‘۔ راقم زبور ناقل ہے کہ ’’ دیکھ میں نے برائی میں صورت پکڑی اور گناہ کے ساتھ میری ماں نے مجھے پیٹ میں لیا‘‘۔ زبور ۵:۵۱) پھر وہ فرماتاہے کہ خداوند انسان کے خیالات کو جانتا ہے کہ وہ باطل ہیں‘‘۔

(زبور ۱۱:۹۴)   یرمیاہ نبی نے انسانی خراب دل کی نسبت یوں لکھا ہے۔ ’’ دل سب چیزوں سے زیادہ حیلہ باز ہے۔ ہاں وہ نہایت فاسد ہے۔ اس کوکون دریافت کر سکتا ہے‘‘؟ یرمیاہ ۹:۱۴) خداوند مسیح نے جس  بہتر انسان کی ماہیت کو جاننے والا کوئی نہیں ہوا۔ یوں فرمایا ہے کہ ’’ بُرے خیال ، خیال ، خون ، زنا حرام کاری ، چوری ، جھوٹھی گواہی ، کفر دل  ہی سے نکلتے ‘‘۔(متی ۱۹:۱۵) بالا خر پولوس چودہویں زبور کی پہلی آیت کی تائید کر کے بو ضاحت تشریح کرتا اور انسان کے سراپا کی یوں تصویر کھینچتا ہے۔ کہ ’’ کوئی راستباز نہیں ایک بھی نہیں۔ کوئی سمجھنے ولا نہیں۔ کوئی خدا کا طالب نہیں سب گمراہ ہیں ۔ سب کے سب نکمے ہیں کوئی نیکو کار نہیں ایک  بھی  نہیں  ۔ ان کا گلا کھلی ہوئی گور ہے۔ انہوں نے اپنی زبان  سے فریب دیا ہے۔ ان کے ہونٹوں میں سانپ کا زہر ہے۔ ان کا منہ میں لعنت اور کڑواہٹ بھری ہیں۔ ان کے  قدم خون کرنے میں تیز ہیں۔ ان کی راہوں میں تباہی اور پریشانی ہے۔ اور انہوں نے سلامتی کی راہ نہیں پہچانی ۔ ان کی آنکھوں کے سامنے خدا کا خوف نہیں‘‘              (رومیوں ۱۰:۳ سے ۱۸ تک )۔

انسان کی نسبت کتب  مقدسہ میں ایسے صاف اور بے لاگ بیانات کا مذکور ہونا بھی ان کے من جانب اللہ  ہونے کی ایک دلیل منجملہ دیگر دلائل ہے۔ کیونکہ کوئی انسان اپنی تصنیف میں انسانی بری حالت اور دلی خرابی کی ایسی بد ہیت تصویر ہرگز نہیں کھینچ سکتا۔ کیونکہ بقول راقم  زبور ’’اپنی بھول چوکوں کو کون جان سکتاہے ‘‘۔ اور یہی  سبب ہے کہ دیگر اہل مذاہب گناہ کو ایک خفیف بات جان کر ظاہری شکست و شو اور  ادائے رسمیات و دستورات  مذہبی کے ذریعہ معاف و محو ہو جانے کے خیال میں مطمئن پائے جاتے ہیں۔ پس جبکہ انسان کی طبیعت و فطرت گناہ کے باعث اس قدر بگڑ گئی ہے۔ کہ بقول یسعیساہ نبی ’’ تمام سر بیمار ہے۔ اور دل بالکل سست ہے تلوے سے لے کر چاندی تک اس میں کہیں صحت نہیں۔ بلکہ زخم ، اور چوٹ اور سڑے ہوئے گھاؤں ہیں۔ جو نہ دبائے گئے۔ نہ باندھے گئے ۔ نہ تیل سے نرم کئے گئے ہیں‘‘۔ تو اس کو اعمال حسنہ  کے ذریعہ  حصول مغفرت و نجات کی تعلیم دینا۔ اس کو دھوکے اور امید باطل میں رکھ کر  ہلاک کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ ضرور ہے کہ پہلے وہ نئی پیدائش جس کو نیقو دیموس جیسا ذی علم یہودی نہ سمجھ سکا۔ حاصل کرے۔ اور ایک مستقیم روح اس کے باطن میں نئے سرے ڈالی جائے۔ اور ایک پاک دل اس کے اندر پیدا کیاجائے۔ تب اعمال حسنہ کے اس سے سرزد ہونے کی امید ہو سکتی ہے۔ ورنہ بقول ایؔوب’’ کون ہے جو ناپاک سے پاک نکالے ؟ کوئی نہیں ‘‘ (ایوب۱۴:۴)۔

تاہم یاد رکھنا چاہیے کہ موجودہ بگڑی ہوئی اور  گری ہوئی انسانیت کے سدھارنے اور اس کو اُٹھانے کے لیے صرف تعلیم ہی کافی نہیں ہو سکتی ۔بلکہ ایک کامل نمونہ کی ضرورت ہے۔ جس کی نسبت پھر لکھیں گے۔

Leave a Comment