Constantly in Prayer
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan Dec 14, 1894
نور افشاں مطبوعہ۷دسمبر۱۸۹۴ ء
یہ سب عورتوں اور یسوع کی ماں مریم اور اس کے بھائیوں کےساتھ ایک دل ہو کے دعا اور منت کر رہے تھے۔ یہ ایک تواریخی وقوعہ ہے۔ جو کہ اعمال کی کتاب میں مندرج ہے۔ وہ یہ ظاہر کرتاہے کہ ان شاگردوں نے جو روز شب مسیح کے ساتھ رہے۔ مسیحی ترقی میں ایک بڑی بھاری منزل طے کر لی تھی۔ اور ان کا اس وقت اکھٹے ہونا۔ نہ صرف اکھٹے ہونا۔ بلکہ دعا اور منت کے لیے یک دل ہونا یاک وقوعہ ہے جو قابل غور ہے۔ اول ہے اول جب وہ مسیح کے مقلد ہوئے ان کی یہ حالت نہ تھی۔ انکو دعا مانگنے تک نہ آتا تھا۔ بلکہ ایک دفعہ خداوند کے پاس آئے۔ اور اس سے درخواست کی کہ ہم کو دعا مانگنا سکھا۔ ان میں کمزوریاں پائی جاتی تھیں۔ بل کے بسا اوقات فیما بین نفاق بھی ہوتارہا۔ لہذا یہ نئی صورت ان کی صاف ظاہر کرتی ہے۔ کہ وہ بہت کچھ مسیحی ترقی کر گئے تھے۔ یہاں پر یہ سوال لازم آتا ہے کہ وہ کون سی شرائط تھیں جن کو انہوں نے پورا کیا۔ اور اس لیے اب اس مرتبہ تک پہنچے ۔ کہ خداوند کے نئے ظہور یعنی روح پاک کو حاصل کریں؟
(الف) ابتداً ان کی طبیعت کا میلان دین کی طرف تھا۔ یعنی وہ متلاشی دین تھے ۔ جب ہندوستان کےلوگوں کی طرف دیکھا جاتاہے ۔ ایسے بہت کم لوگ نظر آتے ہیں جو متلاشی دین ہیں۔ بلکہ بہتوں کی زندگی بے فکری اور دنیا داری میں صرف (خرچ ) ہوتی ہے۔ مگر ان شاگردوں کی طبعیت شروع ہی سے مذہب کی طرف مائل و راغب تھی ۔ چنانچہ جب مسیح نے ان کو ہدایت کی تو انہوں نے بخوشی تمام اس کے کلام کو سنا بلکہ درخواست کی ۔ کہ اے ربی تو کہاں رہتا ہے؟ مسیح نے کہا آؤ ۔ اوردیکھو اور فیلبوس نے بھی نتھانیل سے مسیح کی نسبت ذکر کیا۔ اور وہ حیران ہوا کہ کیا ناصرہ سے کوئی عمدہ چیز نکل سکتی ہے۔ تو فیلبوس سے کہا ۔ آؤ اور دیکھ وہ آیا اور دیکھا اور ایمان لایا۔ اس وقت سے انہوں نے سب کچھ ترک کر کے مسیح کی پیروی کی ۔ اور اس سے تعلیم پاتے رہے۔ ہمارے ہندوستان کے لوگوں کی یہ حالت ہے۔ کہ تعصب سے بہرے ہوئے اور تعلیم سے یہی کنارہ کش ہوتے ہیں۔ مگر وہ شاگرد جو ں جوں مسیح سے آشنا(جان پہچان / واقف ) ہوتے گئے۔ اور اس کی قدرت و معجزات کو دیکھا تووہ مسیح کو اپنا ربی اور نبی اور استاد کہنے لگے۔ اور آیندہ ترقی کرتے ہوئے اس کی اطاعت کو قبول کیا حتی کہ جب مسیح نے حکم دیا۔ وہ تمام گردو نواح میں جاکر منادی کریں۔ تو وہ اس کے حکم کو بطوع خاطر بجا لائے۔ اور توبہ و استغفار کی منادی جا بجاکی۔ اور پہر جب مسیح نے ان سے خدا کی بادشاہت کا ذکر آغاز کیا۔ اور نیز اس بشارت کا بھی۔ کہ اس بادشاہت میں تمہارا بھی ایک بڑا حصہ ہے۔ تو وہ اس بات پر اعتقادلائے کہ تو زندہ خدا کابیٹا ہے۔
(ب) صورت ترقی کی یہ تھی ۔ کہ انہوں نے اپنے آپ کو دنیا سے علیحدہ کر لیا تھا۔ چنانچہ مسیح کی جلیلی خدمت گذاری کے وقت اس کے شاگردوں نے بہ نسبت سابقہ خدمت گذاری کے جو اس سے یہودیہ میں سر زد ہوئی تھی۔ اب زیادہ ترمسیح کے ساتھ رفاقت اختیار کی ۔ چنانچہ وہ اس کے ساتھ کھانے اور پینے میں شامل ہوتے تھے۔ اور اکثر ایک ہی گہر میں قیام کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ ان کا انس و پیار مسیح کے ساتھ اس قدر بڑھ گیا ۔ کہ ایک موقع پر پطرس نے علانیہ کہا کہ ” دیکھ اے خداوند ہم نے تیری پیروی کرنے میں سب کچھ ترک کر دیا”۔ بے شک یہی بڑی بات تھی۔ اول ہے اول مسیح نے انکو کہا۔ میرے پیچھے آؤ۔ لیکن اب جب کہ مسیح سے ان کی زیادہ آشنائی ہوئی۔ اور اس کی بے بہا قدر کو پہچانا۔ تو بے اختیار ان کے منہ سے یہ کلام نکلا کہ دیکھ اے خداوند ہم نے تیری پیروی کرنے میں سب کچھ ترک کر دیا۔ اور مسیح نے اس کلام کی قدر کی اور کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں۔ کہ جس نے گھر ۔ ماں باپ ۔ میری خاطر چھوڑا اس کا سو گنا راس جہان اور اس جہان میں پائے گا۔ انہوں نے اپنے تئیں بخاطر مسیح دنیا سے علیحدہ کر لیا تھا۔ چنانچہ پولوس رسول یہی کرنتھس کی کلیسیاہ کو خط۶:۲۔۱۷۔۱۸آیت میں اس بات کی ہدایت کر کے کہ تم بے ایمانوں کے ساتھ نالائق جوئے میں مست جتے جاؤ۔ کہ راستی اور ناراستی میں کونسا سا جھا ہے۔اور روشنی کو تاریکی سے کونسا میل ہے۔ اور مسیح کو بعل کے ساتھ کونسی موافقت ہے ۔ یوں کہتا ہے۔ اس لیے تم ان کے درمیان سے نکل آؤ اور جدا رہو۔ اور ناپاک کو مت چھو۔ او ر میں تم کو قبول کروں گا۔ اور میں تمہارا باپ ہوں گا۔ اور تم میرے بیٹے اور بیٹیاں۔
الغرض کہ مسیح کے شاگرد ختنوں کے روحانی مطلب کو پہنچ گئے تھے۔ کیونہ انہوں نے اپنے تئیں دنیا کے جوئے سے ہٹا لیا تھا ۔ بنی اسرائیل جب بیابان میں تھے ۔ وہ ختنے و فسح کی رسم کو جو موسوی شریعت کے موافق ان کے لیے ضروری تھی۔ چالیس برس تک ان کی ادائیگی سے باز رہے۔ غرض یہ کہ وہ بغاوت کی حالت میں تھے۔ اور ان کی روحانی حالت نہایت ہی ابتر تھی۔ مگر شاگردوں نے ختنے کے روحانی مطلب کو بخوبی ادا کیا۔ اس وقت سے جب کہ انہوں نے مسیح کی خاطر دنیا کو ترک کیا۔
(ج) صورت ترقی کی یہ تھی۔ کہ وہ مسیح کے ساتھ فسح کی آخری رسم میں شریک ہوئے جس میں انہوں نے یہ ظاہر کیا کہ وہ گذشتہ علامتاً رسم شریعت موسوع کو پورا کر کے مسیح میں شامل ہونے کو تھے۔ یعنی اس کی مو ت میں چنانچہ مسیح کے مصلوب ہونے کے بعد جب وہ ان پر ظاہر ہوا۔ اور نوشتوں کو ان پر منکشف کیا۔ کہ اس کا مرنا اور جی اٹھنا لازمی تھا تو وہ فی الفور اس پر ایمان لائے ۔ اور لکھا ہے کہ ان کی آنکھیں منور(روشن ) ہو گئی اور مسیح کو جانا۔ کیا وہ مسیح کو پہلے نہیں جانتے تھے ۔ کیا اس کے ساتھ کھاتے پیتے ، اٹھتے بیٹھتے نہ تھے؟ کیا اس کے بڑے بڑے کاموں کو نہیں دیکھا تھا؟ کیا اس کو زندہ خدا کا بیٹا نہیں کہا؟ بے شک تاہم وہ مسیح کی موت سے اب تک نا آشنا(ناواقف) تھے؟لیکن اب وہ مسیح کی صلیبی موت سےآگاہ ہوئے ۔ اور اسکا فداکاری پر ایمان لائے ۔
(د) صورت ترقی کی یہ تھی ۔ کہ وہ مسیح کے صعود فرمانے کے بعد اس بات سے بخوبی آگاہ ہوگئے تھے۔ کہ ہم اپنے نہیں بلکہ خاص مسیح کے ہیں۔یعنی مسیح کے کہو کے خریدے ہوئے ہیں۔ اب وہ بالکل تبدیل ہوگئے تھے ۔ چنانچہ اعمال کے پہلے باب سے ظاہر ہوتاہے کہ کس قدر انہوں نے اپنا تعلق خداوند مسیح کے ساتھ کر لیا تھا۔ جب انہوں نےدو شخصوں کو انتخاب کیا۔ کہ ان میں سے ایک ان کے ساتھ رسولوں میں شامل ہو۔ تو انہوں نے اس کا انتخاب خداوند پر چھوڑا۔ اور لکھا ہے کہ انہوں نے دعا کی۔ مسیح کے ساتھ اپنا تعلق پہچان کر ان کی طبیعت دعا کرنے کی عادی ہو گئی تھی۔ہر ایک بات میں خداوند سے استفسار کرتے تھے۔ مسیح کی حین و حیات میں وہ ان کے لیے جلال و فخر کا باعث تھا۔ اور مسیح کی فتحیابی ان کی خوشی کا باعث ۔ مسیح ہی سب کچھ ان کےلیے تھا۔ غم و اضطرار کے وقت اور امتحان و آزمائش کے وقت ۔ اور خوشی و خرمی میں بھی مسیح ہی سب کچھ ان کےلیے تھا۔ مگر مسیح کی وفات کے وقت سب پر عالم مایوسی چھا گیا تھا۔ اور وہ اس حالت یا س میں ایک دوسرے کے ساتھ غمگساری کرتے ۔ اور غمخواری میں شریک ہوتے تھے۔ ایک گروہ ان میں سے ایک کوٹھری میں اکٹھا تھا۔ اور دو ان میں سے عماؔوس کی طرف باہم باتیں کرتے ہوئے جاتے تھے۔ اور ان کے دل مغموم تھے۔ مگر مسیح کے جی اٹھنے پر ان کی امیدیں بر آئیں۔ اورمسیح کے صعود فرمانے پر جیسا کہ لوقا کی انجیل میں مسطور (لکھا گیا) ہے۔ وہ یروشلم کو واپس ہوئے اور ان کے دل خوشی سے معمور تھے۔ یہ بات غور طلب ہے۔ کہ اولاً جب مسیح نے اپنے شاگردوں سے اپنی جدائی کا ذکر کیا اور کہا ۔ کہ کس ذلت و رسوائی کے ساتھ اسکو صلیب دے گے ۔ تو وہ ناراض ہوئے بلکہ پطرس نے مسیح کو علیحدہ کر کے سنا دیا۔ کہ اے خداوند ایسی بات تیرے حق میں ہر گز نہ ہو۔ اور جب مسیح پکڑاویا گیا۔ تو سب اسکو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ لیکن اس وقت جب مسیح ان کی آنکھوں سےزیتون کے پہاڑ پر سے غائب ہو گیا۔ تو وہ یروشلم کو واپس آئے ۔ مگر غم و مایوسی کی حالت میں نہیں ۔ بلکہ ان کے دل خوشی سے معمور تھے۔ گویا اب انہوں نے اس اطمینان کو حاصل کر لیا تھا۔ جس کا مسیح نے مصلوب ہونے سے پیشتر ذکر کیا تھا۔ یوحنا۱۴ باب۔ پس جب کہ وہ یروشلم کو واپس آئے۔ تو ان کی آرزو ایک ہی تھی۔ اور ان کی غرض کی ایک۔ ان کے دل تیار ہو گئے تھے۔ اور جب انہوں نے دعا کی تو یک دل و یکجاں ہو کر کی۔ بلکہ لکھا ہے کہ دعا میں لگے رہے۔ اس دن سے جب وہ یروشلم میں واپس آئے اور پنتیکوست کے دن تک یعنی بارہ دن کے عرصہ تک برابر دعا میں مصروف رہے ۔ اگر پوچھا جائے کہ وہ ایک دل ہو کے کس طرح دعا مانگ سکے۔ اور اس فعل میں کیا بھید تھا۔ تو اس کا جواب یہ ہے۔ کہ ہر ایک ان میں سے فرداً اور مجموعاً متوجہرالی اللہ تھا۔ اور جبکہ خدا کے ساتھ ایک تھے۔ تو آپس میں بھی یک دل ہو سکے۔
نتیجہ ۔ اتحاد قوت کا باعث ہے۔ اور باہمی اتحاد میں زیادہ تر خداوند ہماری سنتا ہے۔ چنانچہ رسول بھی اس بات کا ذکر بار بار کرتاہے۔کہ محبت میں گھٹے رہو۔ پلاطوس کی دارالعدالت میں مسیح کے دشمن یک آواز( ایک آواز میں) بولے۔ کہ اس کو صلیب دو۔ اس کو صلیب دو۔ حتی کے پلاطوس نے ان کی سن لی ۔ اسٹیفنس جب اپنی تقریری بزرگوں کے سامنے کر چکا ۔ تو لکھا ہے کہ وہ کٹ گئے۔ اور دانت پیستے تھے۔ ایک دل ہو کر اس پر لپکے ۔ کاش کہ ہمارے دل بھی باہمی محبت میں ایسے ہی بستہ و پیوستہ (جڑ جانا، مل جل جانا) ہوجائیں۔ اور مسیح کو اپنا منجی اور مالک تسلیم کرکے رو ح کی بارش کےلیے یک دل ہو کر دعا کریں۔ کیونہ وہ وعدہ آج کے دن ہمارا ہے۔ اور ہم اس وعدے کے مستحق ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ اعمال ۲۹:۲میں مرقوم ہے۔ کیونکہ یہ وعدہ تمہارے اور تمہارے لڑکوں کےلیے ہے اور سب کے لیے جو دور ہیں جتنوں کو ہمارا خداوند خدا بلائے۔