CHRIST MUST SUFFER
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan Nov 9,1894
نور افشاں مطبوعہ ۹نومبر ۱۸۹۴ ء
اور (یسوع نے) ان سے (عماؤس بستی دو شاگردوں سے) کہا کہ یوں لکھا ہے اور یوں ہی ضرور تھا۔ کہ مسیح دکھ اُٹھائے اور تیسرے دن مردوں میں سے جی اُٹھے(لوقا۴۶:۲۴)۔
مسیح کا مصلوب ہوکر ماراجانا اور تیسرے جی اُٹھنا کوئی قصہ کہانی کی مصنوعی یا فرضی بات نہیں بلکہ ایک معتبر و مستند تواریخی ماجرا ہے۔ پھر یہ تواریخی ماجرا بھی ایسا ہے ۔ کہ جس کو کسی بت پرست یا ملحدو اُحد مورخ نے نہیں بلکہ خدا پرست قوم کے متعدد اشخاص مُلہم نے قلمبند کیا ہے۔ جو نہ صرف اس ماجرے کی کیفیت کو کانوں سے سننےوالے۔ بلکہ آنکھوں سے دیکھنے والے تھے ۔ کیونکہ ’’ یہ ماجرا کونے میں نہیں ہوا‘‘ بلکہ ایک پبلک منظر تھا۔ اگر علم تواریخ اس انیسویں صدی میں کچھ قابل ِ یقین اور انسان کے لئے کار آمد متصور ہو سکتا تو ہم کوئی وجہ نہیں پاتے کہ ایک ایسے تورایخی ماجرے کی صحت و صداقت میں۔ جس کی نہایت دقیق (مشکل ، کٹھن)و موشگاف (باریک بین)تحقیقات دوستانہ اور مخالفانہ ہر ایک پہلو سے کی گئی ہے۔ کسی شک و شبہ کو دخل دیں اور موافقین و مخالفین کی ان بکثرت شہادتوں کو جو اس کی نسبت قلمبند کی گئی یک قلم نظر انداز کر دیں۔ اس عجیب ماجرے کی نسبت ڈاکڑ ارنلڈ صاحب جو معقولی تحقیقات و تلاش کے باعث بڑے مشہور و معروف عالم میں یوں بیان کرتے ہیں کہ’’ میں بہت برسوں سے زمانہائے دیگر کی تاریخ کے مطالعہ میں مشغول رہا۔ تاکہ ان لوگوں کی شہادتوں کو جنہوں نے ان زمانوں کی بابت لکھا ہے آزماؤں اور ان کا موازنہ کروں اور میں انسان کی تاریخ میں ایک بھی ایسے ماجرے کو نہیں جانتا جو اس بڑے نشان کی بہ نسبت خدا نے ہمیں دیا ہے کہ مسیح مردوں میں سے جی اُٹھا ایک صاف دل متلاشی حق کے دل میں ہر قسم کی کامل تر اور بہتر شہادت سے ثابت کیا گیا ہے‘‘۔ اگرچہ خداوند مسیح نے اپنے مصلوب ہونے اور پھر تیسرے روز جی اُٹھنے کی نسبت چند مرتبہ اپنے شاگردوں سے پیشین گوئی کی تھی( دیکھومتی۱۸:۲۰۔۱۹ مرقس۳۳:۱۰۔۳۴) لیکن وہ اس امر سے۔ کہ یہ کیونکر ہوگا بالکل نا واقف تھے اور ’’وہ اس کلام کو آپس میں رکھ کر چرچا کرتے تھے کہ مردوں میں سے جی اُٹھنے کے کیا معنی ہیں‘‘۔ انہوں نے عہد عتیق سے معلوم کیا تھا کہ الیشع نبی نے ایک دولت مند عورت باشندہ شونیم کے مردہ بیٹے کو کس طرح زندہ کیا کہ اس نے خدا سے دعا مانگی اور اس لڑکے کے منہ پر اپنا منہ۔ اور ا س کی آنکھوں پر اپنی آنکھیں اور اس کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھے۔ اور اس کا بدن گرم ہوا اور وہ جی اُٹھا۔ اور مسیح کا عبادت خانہ کا سردار یایر کی بیٹی کو اس کا ہاتھ پکڑ کر تلیتا قومی ( ا ے لڑکی میں تجھے کہتا ہوں اُٹھ) کہہ کر زندہ کر دینا اور نائن شہر کی بیوہ کے نوجوان بیٹے کے تابوت کو چھو کر فرمایاکہ ’’ اے جوان میں تجھ سے کہتاہوں اُٹھ‘‘ اور اس کا اُٹھ بیٹھنا۔ بیت عنیا ہ کے قبر ستان میں چاروں کے مدفون مردہ لعزر کی قبر کو کھلوا کر بلند آوز سے مسیح کا چلانا کہ ’’ اے لعزر باہر نکل آ‘‘ اور اس کا کفن سے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے قبر سے باہر نکل آیا۔ یہ سب کچھ تو انہیں بخوبی تمام معلوم تھا۔ اور ان سب قدرت کے کاموں کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے۔ لیکن مسیح کا خود بخود مردوں میں سے جی اُٹھنا ان کے لیے ایک نہایت حل طلب معما تھا کیونکہ ان کی انسانی عقل کے نزدیک یہ مطلق غیر ممکن معلوم ہوتا تھا۔ کہ مسیح اس صورت و حالت میں جو اس پر واقع ہوئی کہ اس کے ہاتھ پاؤں چھیدنے سے تمام بدن کا خون نکل جائے اور پسلی کے زخم نیزہ سے اس کا دل چھید جائے تاہم وہ پھر صحیح و سالم اور زندہ ہو کر اس قبر سے خود بخود نکل آئے۔ جس کے منہ پر ایک پہاڑی پتھر رکھا ہوا ہے اور مہر کر دی گئی ہو۔ اور جس کی نگہبانی کے لیے مسلح رومی گارڈ متعین ہو۔ وہ ابھی مسیح کی اس قدرت کاملہ سے بخوبی آگاہ نہ ہوئے تھے کہ ’’اس کو اپنی جان دے دینے کا اختیار ہے اورا سکے پھرسے لینے کا اختیار ہے‘‘کہ’’ عالم ِ ارواح اور موت کی کنجیاں (چابیاں) اس کے پاس ہیں‘‘۔
اب اوپر تو مسیح کے شاگردوں کا اسکے مردوں میں سے جی اُٹھنے کی نسبت کم فہمی کا یہ عالم تھا۔ اور اوپر اس کا جی اُٹھنا ہے اس کی الہٰی رسالت، الوہیت، ابنیت اور مسیحائی بلکہ اس کی تمام باتوں پر ایک ایسی مہر تھی کہ جس کے بغیر یہ سب کچھ نا مکمل و مشکوک رہ جاتا۔ اس نے اپنے مسیحائی اقتدار واختیار کے ثبوت میں ابتدا ہی میں ان یہودیوں کو جو اس سے ایک اختیاری و قدرتی نشان کے طالب تھے فرمایا تھا۔ کہ ’’ اس ہیکل کو ڈھا دو اور میں اسے تین دن میں کھڑا کروں گا‘‘ جس سے اس کی یہ مراد تھی کہ تم مجھے مصلوب کرو اور میں تیسرے روز پھر جی اُٹھوں گا۔ پس اگر اس کی یہ پیشین گوئی جو اس نے بارہا اپنے موافقین و مخالفین کے سامنے کی تھی پوری نہ ہوتی تو اس کے تمام اعجازی کام اور عمدہ تعلیمات وغیرہ ایک بڑے خدا رسیدہ اور مصلح و خیر خواہ انسان کے کاموں اور تعلیمات کی فہرست میں درج ہونے کے سوا اور زیادہ کچھ درجہ نہ رکھتے ۔ مگر یہ غیر ممکن تھا۔ کہ اس صدق الصادقین (سب سے بڑا سچا) کی ایسی اہم اور ضروری پیشین گوئی(مستقبل کے بارے میں کچھ بتانا) کے پورا ہونے میں سر موفرق پڑے۔ آسمان و زمین ٹل جائیں ۔ مگر جو کلام اس کے منہ سے نکلا ہرگز نہیں ٹل سکتا۔
اگرچہ مسیح کے مخالف یہودیوں کے سردار کاہنوں اور فریسیوں نے جو اس پیشین گوئی (آنے والے وقت کا علم ہونا) کو سن چکے تھے۔ مگر اس میں مسیح اور اس کے شاگردوں کی کسی سازش کا گمان کرتے تھے۔ اس کے روکنے کے لیے مقدور بھر کوشش کی جیسا لکھا ہے کہ ’’ انہوں نے پلاطوس کے پاس جمع ہو کر کہا اے خداوند ہمیں یاد ہے کہ وہ دغا باز (دھوکے باز، فریبی) اپنے جیتے جی کہتا تھا کہ میں تین دن بعد جی اُٹھوں گا۔ اس لیے حکم کر کہ تیسرے دن تک قبر کی نگہبانی کریں۔ نہ ہو کہ اس کے شاگرد رات کو آکر اسے چرُا لے جائیں اور لوگوں سے کہیں کہ وہ مردوں میں سے جی اُٹھا ہے۔تو یہ پچھلا فریب پہلے سے بد تر ہوگا۔ پلاطوس نے ان سے کہا تمہارے پاس پہرے والے ہیں۔ جا کر مقدور بھر اس کی نگہبانی کرو۔ انہوں نے جاکر اس پتھر پر مہر کر دی اورپہرے بیٹھا کر قبر کی نگہبانی کی ‘‘(متی۶۲:۲۷۔۶۶)۔