پیغمبر ِاسلام اور مغفرت

Eastern View of Jerusalem

Prophet of Islam and Forgiveness

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan Nov 2,1894

نور افشاں مطبوعہ ۲نومبر ۱۸۹۴ ء

(لفظ پرستی)

 روایت ہے فرمایا حضرت نے  ’’اے لوگوں توبہ کرو کہ خدا کی طرف ۔ کیونکہ میں بھی توبہ کرتاہوں ایک دن میں سو دفعہ۔  سو دفعہ توبہ کرنے کا یہ مطلب ہے کہ لفظ توبہ سو دفعہ ہو روز پڑھتا ہوں۔ پس اسی دستور پر اکثر محمدی تسبیح ہاتھ میں لے کر  یا انگلیوں پر شمار کر کے سو دفعہ یا کم و بیش  استغفر اللہ ربی واثواب الیہ پڑھا کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ یوں مغفرت حاصل ہوگی‘‘۔

ہندو بھی خیال کرتے ہیں کہ “اُونگ بھووہ، بھواہ سواہ ” اور گائتری کے تینوں چرنوں کو دونوں سیندھیا میں وید پڑھنے ولا برہمن جاپ کرے تو سمپورن (مقرر کیا گیا) پُن (ثواب) پراپت ( حاصل) ہو۔ انہیں تینوں الفاظ کو باہر جا کر ہزار بار ایک مہینے تک پڑھے تو بڑے پاپ سے چھوٹ جائے جس طرح سانپ کینچلی سے چھوٹتا ہے ۔ جو برہمن ، کشتری،ویش ان تینوں کو اپنے  وقت پر نہیں پڑھتا ہے اس کی سادھو  لوگ نندا کرتے ہیں۔ یہہ ہی تینوں یعنی اونگ بھوہ ، بھواو سواہ ُ گائتری کا وید کا لکھا ہے اور پرم آتما کے ملنے کا دروازہ ہے۔ جو شخص کا ہلی چھوڑ کر تین برس تک ہر روز انہیں تینوں کو پڑھے وہ بشکل ہوا ہوکر برہم پردی کو حاسل کرے گا”۔                (شاستر منوادھیائے۱۔ اشلوک ۷۸ سے ۸۲ تک) ۔

مگر کلام خدا انجیل مقدس میں کوئی لفظ یا جملہ ایسا نہیں ٹھہرایا گیا ۔ کہ جس کے سو۱۰۰ یا ہزار بار صرف بولنے سے  یا کہنے سے انسان کو کوئی فائدہ حاصل ہو سکے بلکہ یہ کہ انسان نئے جنم کے وسیلے  دل کی تبدیلی حاصل کرے(یوحنا۳:۳) اور خدا سے مدد پا کر  (زبور۱۱:۱۱۵) تمام عمر اس کی مرضی کے موافق اپنی زندگی بسرکرے تو وہ زندگی کا تاج (ابدی خوشی) حاصل کر لے گا(مکاشفہ۱۰:۲)۔

(قبر پرستی )

سو دفعہ توبہ کرنے کا یہ مطلب ہے کہ لفظ توبہ سو دفعہ ہو روز پڑھتا ہوں۔

’’حضرت نے شروع میں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا مگربعدکو حکم دیا کہ قبروں کی زیارت کیا  کریں۔ اور قبروں پر جا کر مردوں سے کہیں۔ اسلام علیکم یا اہل القبور (اے قبروں میں رہنے والوتم پر سلام) اور ان کے لیے دعا کریں۔ اور  قرآن کی عبارتیں پڑھ کر انہیں ثواب بخشیں۔ بلکہ یہ بھی فرمایا۔ کہ کعبہ کے حج کے بعد اگر کوئی میری قبر پر آئے گا۔ تو ایسا ہوگا۔ جیسے زندگی میں وہ مجھ سے ملا۔ اور ایک حج کے عوض دو حجوں کا ثواب ملے گا۔ لیکن جس نے حج کیا۔ اور میری قبر پر نہ آیا وہ   ظالم ہے”۔

اسی خیال پر بعض محمدی صاحبان اکثر مشہور قبروں پر جانا اور  ان پر میلے وروشنی اور انکی زیارت کرنا۔ اور چڑھاوے چڑھانا  ضروری سمجھتے ہیں۔ اور خیال کرتے ہیں کہ ان  پیروں اور ولیوں کی رضا مندی کے ذریعہ ان کو کچھ فائدہ حاصل  ہوگا۔ اور نادانوں کو سمجھانے کے لیے ان کی فضیلت میں بڑی بڑی روائتیں گھڑ رکھی ہیں۔ جن کو عوام بڑے شوق سے سنتے اور راست خیال کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کی کچھ بھی اصل نہیں بلکہ صرف خیالی باتیں ہیں (کتاب افیش الاولیا کو  پڑھو اور دیکھو) جن کے سبب انسان کا تو کل خدا سے علیحدہ ہو کرصرف ایک خاک کی ڈھیری پر لگ جاتاہے  جو اسکی مرضی کے بالکل خلاف ہے۔

ہندو بھی بعض فقیروں اور  سادہوں کی سمادی (قبر) بناتے ہیں۔ اور انکی تعظیم کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ بلکہ بعض مشہور آدمیوں اور اکثر دیوی درگا اور بہو اپنوں کے نام پر مٹہ و مندر بنا کر بعض میں ان کی مورتیں بھی بناکر رکھتے ہیں۔ اور مٹہ اور مندروں پر جا کر بعض دفعہ روشنی اور میلے بھی کرتے۔ ان پر چڑھاوے چڑھائے  جاتے ہیں۔ اور ان  سے منتیں مانگتے ہیں۔اور نہ صرف ان سے بلکہ محمدیوں کی دیکھادیکھی ان کے نامزد پیروں اور ولیوں کی قبروں پر جا کر ان کے خیالوں اور باتوں میں شریک ہر کر ان کے موافق وہ بھی مانتے اور عمل میں لاتے ہیں۔

مگر کلام خدا بائبل مقدس کے کسی مقام میں قبر پرستی کو کوئی تعلیم کا اشارہ بھی ظاہر نہیں ہوتا۔ اورنہ کسی خدا کے نبی نے کہیں یہ فرمایا کہ۔ میری قبر پر آنے اور زیارت کرنے سے تم کو یہ ۔ یا وہ  فائدہ حاصل ہو گا۔ ورنہ ظالم ٹھہر و گے۔ بلکہ فعل مذکور کو صریح بت پرستی میں ظاہر کیا گیاہے۔ جو عین گمراہی اور خدا کی نظر میں نہایت نجس (گندہ ) کام ہے۔ ایسے کام سے بچنے کےلیے خداوند تعالیٰ نے حضرت موسی ٰ کی قبر کو ایسا غائب کر دیا کہ  جس کا آج تک کہیں پتہ نہیں لگا ( استثنا ۵:۳۴۔۶)اور یہ  اس لیے ہواکہ مبادا بنی اسرائیل اس کی قبر کی پرستش کرنے لگ جائیں ( یہوداہ ۱:۹) اور اگرچہ بعض نبیوں اور اکثر بزرگوں کی قبریں بعض جگہ  آج تک بھی نامزد ہیں مگر کوئی مسیحی ان کی قبروں پر ان کو ثواب پہنچانے  یا ان کے ذریعہ  کوئی ثواب پہنچانے یا ان کے ذریعہ کوئی ثواب یا فائدہ حاصل کرنے کے خیال سے ہرگز نہیں جاتاہے۔

(خیالی گناہ)

کعبہ کے حج کے بعد اگر کوئی میری قبر پر آئے گا۔ تو ایسا ہوگا۔ جیسے زندگی میں وہ مجھ سے ملا۔

محمدی علما نے گناہ کی دو قسمیں ٹھہرائی ہیں۔ یعنی فعلی و خیالی۔خیالی گناہ جس کو وہ وسوسہ یا باطل منصوبہ بھی کہتے ہیں اس کی چار قسمیں مقرر کی ہیں۔ یعنی  حواس۔خواطر۔ اختیارات اور عوازم۔ اول تین اقسام کے وسوسے محمدیوں کے خیال میں انکو معاف ہیں ۔ مگر آخر قسم میں عوازم میں مسلمانوں کا تھوڑا سا مواخذہ اللہ کرے گا۔ پوری سزا پھر بھی ان کو نہ دے گا۔اس لیے کہ وہ مسلمان میں اسلام کی رعایت ہوگی‘‘۔

ہندو بھی منسا پاپ(خیالی گناہ ) کو قابل مواخذہ پاپ خیال نہیں کرتے ہیں ۔جب تک کہ اس کا پورا عمل ظہور میں نہ آئے۔مگر کلام خدا بائبل مقدس سے ظاہر ہوتاہے ۔ کہ گناہ کی جڑ خواہش ہے۔ (جسکو غیر لوگ ایک ہلکی بات خیال کر کے اس سے بے پروارہتے ہیں)وہی پیشتر انسان کے دل و خیال میں پیدا ہوتی ہے ۔ اور بعد ہ وہ گناہ کا ایک درخت بن جاتی ہے(ایوب۳۵:۱۵،یعقوب۱۵:۱) پس گناہ قابل سزا بدرگاہ الہٰی وہی ہے جس کی خواہش انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ جسکو انسان ظاہراً عمل میں لا سکے  یا نہ  لا سکے۔

قول خداوند  یسوع مسیح ’’تم سن چکے ہو اگلوں سے کہا گیا  تو کون مت کر اور جو کوئی خون کرے عدالت میں سزا کے لائق ہوگا۔ پر میں (مسیح تمہیں کہتاہوں کہ جو کوئی اپنے بھائی پر بے سبب غصہ ہو عدالت (روز حساب ) میں سزا کے لائق ہوگا (متی۲۱:۵۔۲۲) تم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا کہ تو زنا مت کر۔ پر میں (مسیح) تمہیں کہتاہوں۔ جو کوئی شہوت سے کسی عورت پر نگاہ کرے وہ اپنے دل میں اس کے ساتھ زنا کر چکا‘‘ (۲۷۔۲۸ آیت)۔

پس گناہ کی اصلی جڑ ا س کی خواہش ہے جو پہلے انسان کے دل و خیال میں داخل ہوتی اور  بعد میں انسان کو نہایت نفرت و مکروہ بنا کر خدا سے دور کر دیتی ہے۔

(منتر۔جنتر۔تعویز گنڈے وغیرہ)

’’حضرت نے یہ بھی تعلیم دی ہے کہ بیماریوں میں دوا بھی کی جائے اور بعض بیماریوں میں منتر پڑھے جائے۔ پر شرک کے منتر نہ ہو چاہیے کہ قرآن کی آیتوں کو منتر بنادیں اور خداکے ناموں کو بھی منتر بنادیں  اور غیر زمانوں کے منتر بھی پڑھے جائیں بشرطیکہ ان کے ناموں میں شرک نہ ہو بلکہ حضرت نظر بد کے بھی قائل تھے‘‘۔

پس اسی خیال پر اکثر محمدی صاحبان مولویوں مولانوں سے تعویز اور گنڈے لے کر اور دم کرا کر اپنےبچوں وغیرہ کے گلوں اور ہاتھوں پر باندھنا بہتر خیال کرتے ہیں  اور ان کے ذریعہ بعض بیماریوں ۔ خطروں اور نظربد وغیرہ سے محفوظ رہنے کےلیےاکثر منتر، جنتر اور جھاڑ پھونک وغیرہ کا زیادہ خیال رکھتے ہیں بلکہ اکثر مولویوں و ملانوں سے بھی تعویز اور گنڈے استعمال کرتے ۔

مگر کلام خدابائبل مقدس ایسے سب وہی و خیالی باتوں کو ناروا۔ بلکہ جادوگری ٹھہراتاہے ۔ جو اس کی مرضی کے محض خلاف ہے۔۲۔سلاطین ۱۷:۱۷، پھر۲۔ تواریخ۶:۳۳) پس اسی عدولی مرضی الہی کے سبب کوئی مسیحی جو خد اکے کلام سے واقف ہے ہرگز ایسا نہ کرے گا۔ کیونکہ فعل مذکور اس کی نظرمیں محض گھنونا(گھٹیا) اور بےجا ہے۔ جس سے مطلق کوئی فائدہ نہیں ہو سکتامگر ہاں بیماریوں کا علاج کرنا۔ اور مریض کےلیے خداکے حضور  میں التجا کرنا ایک امر ضروری اور عقل کے موافق بھی ہے۔ اگر مریض کی شفا اس کی مرضی مبارک کے موافق ہےتو ضرور اس کو شفا حاصل ہوگی۔ جس کو نہ صرف مسیحی بلکہ دنیا کےکل اہل عقل بھی تسلیم کرتے ہیں۔

(مکروہ اوقات)

دوست باہمی ہمدردی اور مدد کے واسطے ضرور ہے

’’حضرت نے تین وقت بھی مکروہ ٹھہرائے ہیں جن میں نماز یا خدا کو سجدہ کرنا ناجائز بلکہ حرام ہے یعنی  اول وقت طلوع اور دوئم غروب آفتاب جن کی وجہ حضرت نے یہ بتائی ہیں قرنین الشیطان جس کے لفظی معنی یہ ہے کہ درمیان دو سینگوں شیطان کے  ہوتاہے جس کو وہ اپنے سینگوں پر اٹھالیتا ہے ۔ اور وقت سوئم دوپر کو جو نماز منع ہوئی اس کا سبب حضرت نے یہ بتایا ہے کہ ان جھنم تسجر الایوم الجمعتہ کو دوپہرکے وقت دوزخ میں ایندھن یا بالن پھونکا جاتاہے ۔ مگرجمعہ  کے دن نہیں جھونکا جاتا‘‘۔

ہندوؤں میں بھی بعض وقت و بعض جگہ وید شاستر کا پڑھنا منع کیا گیا ہے ۔ مثلاً یتھاشکت اتسرگ کر کے پکش رات تک یا اترگ کے دن رات تک او ریکو رسٹ سرادہ کا ینوتا کے کر اس کے تین دن بعد تک اور راجا کے سو تک  میں چاند و سورج کے گرہن کے وقت وید کو پڑھنا نہ چاہیے ۔ شکل پکش میں وید کو اور کرشن میں شاستر کو پڑھے ۔ شُدر کے پاس ناپاک جگہ یا ناپاک جسم ہو تو ان حالتوںمیں پڑھنا جتن سے تیاگ کرے ۔ شاستر منوادھیا ۴اشلوک۹۷۔۹۸۔۹۹۔۱۱۰۔۱۲۷۔

مگر خداوند یسوع مسیح نے انجیل مقدس میں نہ کوئی وقت نماز  (دُعا ) کرنے کے لیے مکروہ ٹھہرایا اور نہ کسی وقت یا کسی جگہ یا کسی  کے پاس کلام خدا کے پڑھنے اور اس پر غور کرنے سے منع کیا ہے۔ کیونکہ نماز (دعا) میں خدا سے مدد حاصل کرنا اور کلام خدا سے تسلی پانا خاص کر بُرے اور امتھان کے وقتوں میں ہی کمال ضروری ہے ۔ بلکہ خدا کے بندوں کےلے ایسے وقتوں میں یہی روحانی و اصلی ہتھیار ٹھہرائے گئے ہیں جن کے ذریعہ وہ شیطان کا مقابلہ کر کے اس پر غالب آسکتے ہیں۔ (افسیوں۶:۱۰۔۱۸ ) تک مگر یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ سورج کے ساتھ ایسی حرکت شیطان کے کرنے کے یا دوزخ میں ایندھن جھونکے جانے کے وقت نماز الہی میں کیا خلل(مسلہ) واقع ہو سکے۔ بلکہ خاص ایسے ہی وقتوں میں نماز بہت ضروری ہے تاکہ خدا دوزخ کے سخت عذا ب سے بچائے۔ پھر یہ بھی خیال سے بالکل باہر بات ہے کہ کسی کتاب کی تاثیر کسی وقت کسی جگہ یا حالت میں یا کسی آدمی کے پاس پڑھنے سے جاتے رہے بلکہ جو کتاب الہی ہے وہ خاص ایسے ہی وقتوں اور حالتوں میں انسان کی رہنما ہے۔ (زبور ۱۰۵:۱۹۹) اور خاص کر کے برے نادان و جاہل لوگوں کے سامنے پڑھنے اور اسکا مطلب ان کو سمجھانے سے بہت کچھ فائدہ حاصل ہوا اور ہو سکتاہے ۔ کیونہ خدا کے سامنے کل بنی آدم یکساں ہیں اور اس لیے اس کا کلام مقدس بھی کل انسانوں کے لیے ایک موثر اور فائدہ بخش عطیہ ہے (زبور۷:۱۹۔۸)۔

یہاں تک محمدی صاحبان کے بعض خیالات و مینہ و واجیہ کا مقابلہ جو مذکور ہو اس کی بابت ہر دانا و ہوشیار آدمی جان سکتاہے کہ ان مذکورہ خیالات میں کوئی خاص میرا گھڑا ہوا خیال  نہیں ہے۔ بلکہ وہ سب کچھ ان کی مذہبی کتاب قرآن یا دوسری تصانیف کا انتخاب ہے۔ علی ہذا القیاس ہندوؤں کے خیال میں تبھی جو اس کے مقابلہ  میں درج ہوئے۔  وہ بھی بہت کچھ ان کے مذہبی قانون و ہرم شاستر منو سے نقل ہوئے۔ جسکو ہر ایک ہندو مانتااور جانتا ہے۔ اور جن کا مقابلہ کرنے سے ہر کوئی ان کی حقیقت کومعلوم کر سکتاہے۔ اگرچہ  شاستر مذکور کی سب باتیں تو آج کل نہیں مانی جا سکتیں۔ مگر تو بھی بہت کچھ دینی و دنیاوی رسومات میں  مانی اور ادا کی جاتی ہیں۔ اور اگرچہ ایک دو باتیں صرف روایتی بھی درج ہوئیں۔ مگر وہ بھی کوئی نئی نہیں ہیں کیونکہ  ہر کوئی ان کو تسلیم کرتاہے۔

مسیحی تعلیم کا جو انتخاب درج ہوا وہ بھی میری من گھڑت باتیں نہیں بلکہ تعلیم بائبل کے موافق ہے۔ جس کو نہ صرف میں بلکہ کل دنیا کے مسیحی تسلیم کرتے ہیں پس اس مقابلہ سے جو کچھ ظاہر و ثابت ہوتاہے۔ وہ یہ ہے کہ محمدی صاحبان کے مذکورہ کل خیالات صرف اہل ہنود کے خیالوں  کے موافق اور اہل کتاب مسیحیوں کی تعلیم کے محض خلاف اورسود ہیں۔

اب فرمائے کس طرح کوئی حقیقی طالب حق اپنی روح کو ان خیالوں کے سپرد کر کے اپنا دلی اطمینان اور پوری خوشی  حاصل کر سکتاہے؟ لیکن اگر ان کی کوئی دوسری حقیقت ہے۔ توجیسا میں نے پیشتر عرض کیا پھر بھی مگر وہی التماس کیا۔ جاتاہے کہ براہ نوازش ان کی حقیقت سے پوری آگاہی  جو مناسب ہے عنایت فرمائیں۔ زیادہ آداب۔

Leave a Comment