His birth was Spiritual
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan October 26,1894
نور افشاں مطبوعہ۲۶ اکتوبر۱۸۹۴ ء
یہ بات نہایت حیرت افزا ہے۔ کہ دین محمدی جس میں بہ نسبت دیگر مذاہب دنیا کے یہودیت اور مسیحیت کی اکثر صداقتیں (سچائی اور خلوص) اور تعلیما ت پائی جاتی ہیں۔ اور جو ان مذاہب کی کتب مقبولہ(مانا گیا، برگزیدہ) کے من جانب (کی طرف) اللہ ہونے کا مقر(ماننے ولا، اقرار کرنے ولا) ہے۔ اورانبیائے مسطورہ (سطر کیا گیا،سطربندی کیا گیا) بائبل کو مرسلین(مرسل کی جمع، بہت سے رسول اور پیغمبر) من اللہ مان کر ان کے تذکر ےذکر ، چرچا، یاد داشت) بڑی تعظیم و تکریم (عزت) کے ساتھ کرتا ہے۔ وہی مسیحیت کا دنیا میں سب سے زیادہ دشمن ۔ اور اس کا سخت ترین ۔ بدخواہ(بُراچاہنے والا دشمن، مخالف) اور مخالف(دشمن) ہے۔
زمانہ ہائے ماضی سے قطع نظر کر کے ہم فی زمانہ اس امر (کام) کا تجربہ اور مشاہدہ (جائزہ) کر رہے ہیں کہ اس کو جس قدر خصومت(عداوت، دشمنی ، جھگڑا) و حسد مسیحیت کے ساتھ ہے۔ اس قد ر کسی دیگر مذہب کے ساتھ نہیں ہے۔ لیکن جب ہم اس کا باعث دریافت کرنا چاہتے تو کتب مقدسہ سے ہمیں صاف معلو م ہو جا تا ہے کہ اس کا باعث جسم اور روح کی مخالفت ہے۔ ۔ گلتیوں ۵۔ ۱۷: “کیونکہ جسم کی خواہش روح کی مخالف ہے۔ اور رو ح کی خواہش جسم کی مخالف اور یہ ایک دوسرے کے برخلاف ہیں”۔ اور فوراً وہ حیرت جو محمدیت کی دوست نماز دشمنانہ باتوں پر غور کرنے سے واقع ہوتی ۔ دو ہو جاتی ہے۔ اگرچہ یہ مخالفت جسمانی اور روحانی انسانوں میں گناہ کےدنیا میں داخل ہونے کے وقت ہی سے ظہور(ظاہر، انکشاف) میں آئی۔
جیسا کہ قائن ؔ اور ہابل ؔ کے حالات سے ظاہر ہے۔ مگر ابراہیم خلیل اللہ کے دو بیٹوں اسمعیل اور اضحاق کی پیدائش کے وقت سے اس مخالفت کا اظہار زیادہ تر صاف اور واضح طور پر ہو گیا ۔
چنانچہ گلتیوں ۴باب 22 تا 23 آیت: میں لکھا ہے کہ ”ابرہام کے دو بیٹے تھے۔ ایک لونڈی (ہاجرہ) سے ۔ دوسرا آزاد ( سارہ) سے۔ پر وہ جو لونڈی سے تھا جسم کے طور پر پیدا ہوا ۔ اور جو آزاد سے تھا سو وعدے کے طور پرپیدا ہوا”۔
ان دونوں کی باہمی مخالفت کا بیان کتاب پیدائش کے۲۱۔ ۹ : میں یوں لکھا ہے۔ ” اور سارہ نے دیکھا کہ ہاجرہ مصر ی کا بیٹا جو اسکے ابرہام سے ہوا تھا ۔ ٹھٹھے مارتا ہے ۔ تب اس نے ابرہام سے کہا۔ کہ اس لونڈی اور اس کےبیٹے کو نکال دے کیونکہ اس لونڈی کا بیٹا میرے بیٹے اضحاق کے ساتھ وارث نہ ہو گا “۔
پس ابرہام نے نہ صرف سارہ کہنے سے۔ بلکہ الہٰی حکم کے بموجب ہاجرہ اور اس کےبیٹے اسمعیل کوپانی کی ایک مشک(گھڑا) اور روٹی دے کر رخصت کر دیا۔ وہ ایک وحشی آدمی تھا اور جیسا خدا نے فرمایاتھا اس کا ہاتھ سب کے اور سب کے ہاتھ اس کے برخلاف تھے ۔ پس اگر بانی اسلام اسمعیل کی نسل سے ہیں ۔ تو کچھ تعجب کی بات نہیں ۔ کہ ان کے پیرو (ماننے والے) مسیح اور اس کے دین حقیقی کے ساتھ اپنی مخالفت (دشمنی)ظاہر کریں۔ کیونکہ نبوت (رسالت) کو پورا ہونا ضرور ہے۔ مگر یہ یادر ہے کہ ان کی یہ مخالفت و خصومت(جھگڑا، دشمن) جو راہ ، حق اور زندگی کے ساتھ ہے۔ اس کو ذرا بھی نقصان نہیں پہنچا سکتی ۔ بلکہ اس مخالفانہ طریق سےوہ خود اپنا نقصان کر رہے ہیں۔ جس کا نتیجہ جلد یا یا بدیر ضرور ظاہر ہو گا۔ کیونکہ قوانین نیچر ہمیں سکھلاتے ہیں۔ کہ “پینے کی کیل پر لات مارنا”۔ خود لات مارنے والے کے حق میں ضرر رساں (نقصان دہ) ہو گا۔ جس کے مطابق سعدی شیرازی نے بھی لکھا ہے۔ “ہر کہ بافولادباز و پنجہ کر و”۔ ” مساعدِسیمسین خود رارنجنہ کرو”۔
جب کہ محمدیت کی حق سے مخالفت(دشمنی، حق میں نہ ہونا) کا یہ حال ہے ۔ جس کوکتب مقدسہ سے بہت کچھ روشنی و صداقت(خلوص) پہنچی ہے۔ تو مذہب ہنود(ہندوؤں کی جمع) کی مخالفت کا ۔ جو ان سے زیادہ تر روشن و فیض یاب نہیں ہوا۔ کیاحال ہونا چاہیے ؟ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بہ نسبت محمدیوں کے اہل ہنود(ہندوستان کے رہنے والے ہندو) مسیحیت کے زیادہ تر دشمن و مخالف نہیں ہیں۔ اور بے یقین کہہ سکتےہیں۔ کہ اگر کتب ہنود(ہندوؤں کی جمع) میں مسیح کی اس قدر تعریف و توصیف(وصف کرنا، خوبی بیان کرنا) بیان کی جاتی ۔ جیسا کہ قرآن میں کی گئی ہے۔ کہ وہ روح اللہ اور کلمتہ اللہ ہے۔ اور اس کی ولادت (پیدائش) باکرامت(بزرگی، بڑائی، فضیلت) اعجازی طور پر ہوئی ہے ۔ اور اس میں احیاء الموتی وغیرہ معجزات کی قدرت تھی۔ تو اگروہ فوراً مسیح کو قبول نہ کر لیتے ۔ تو بھی اس سے اور اس کے پیرؤں سے بہ نسبت حال کے زیادہ تر الفت و محبت رکھتے ۔ اور بخلاف محمدیوں کے اس قدر مخالفت و عداوت(نفرت) کا اظہار نہ کرتے۔