Fasting in Islam
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan October 12,1894
نور افشاں مطبوعہ ۱۲ اکتوبر۱۸۹۴ ء
روزہ قرآن میں مذکور(ذکر) ہے۔” اے ایمان والو حکم ہوا تم پر روزے کا جیسے حکم ہو ا تھا۔ تم سےا گلوں پر ۔ شاید تم پر ہیز گار ہو جاؤ۔ مہینہ رمضان کا جس میں نازل ہوا قرآن ہدایت واسطے لوگوں کے۔اور کھلی نشانیاں راہ کی۔ اور فیصلہ ۔پھر جو کوئی پائے تم میں یہ مہینہ تو روزہ رکھے۔ اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر میں تو گنتی چاہیے اور دنوں سے۔ حلال ہوا تم کو روزہ کی رات میں بے پردہ ہونا اپنی عورتوں سے۔ وہ پوشاک ہیں تمہاری اور تم پوشاک ان کی۔ اللہ نے معلوم کیا کہ تم اپنی چوری کرتے تھے۔ سو معاف کیا تم کو ۔ اور در گذر کی تم سے ۔ پھر اب ملو ان سے اور چاہو جو لکھ دیا تم کو ۔ اور کھاؤ اور پیو جب تک صاف نظر آئے ۔ تم کووہاری سفید جدی دہاری سیاہ سےفجر کی۔ پھر پورا کرو روزہ رات تک ، ( سورۃ البقر رکوع ۲۳)
ہندو بھی کئی باتوں کے لئے برت ( روزہ ) رکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔ مثلاً کسی دیوی ، درگا کی رضا مند ی کے لئے ۔اور چاند و سورج کے نام پر وغیرہ وغیرہ ۔ بلکہ بعض بر ت(روزہ) بعض پاپوں کے پر ا شچت (توبہ)ٹھہرائے گئے ( شاستر منسو دہیاء ۱۱ ۔ اشلوک ۱۰۱ ، ۱۰۲ ، ۱۲۵) وغیرہ۔
کلام خدا بائبل سے بھی معلوم ہوتا ہے۔ کہ اگلے بزرگوں نے بھی روزے رکھے ۔ اور اب بھی مسیحی روزہ رکھنا مفید (فائدہ مند) جانتے ہیں۔ چنانچہ خداوند یسوع مسیح نے انجیل متی ۶باب ۱۶ ۔ ۱۸ : تک یوں فرمایا ” پھر جب تم روزہ رکھو ریا کاروں کے مانند اپنا چہرہ اُداس نہ بناؤ ۔ کیونکہ وہ اپنا منہ بگاڑتے ہیں کہ لوگوں کے نزدیک روزہ دار ظاہر ہوں ۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں ۔ کہ وہ اپنا بدلا پا چکے۔ اور جب تو روزہ رکھے اپنےسر پر تیل لگا۔ اور منہ دھو تا کہ تو آدمی پر نہیں ۔ بلکہ تیرے باپ پر جو پوشیدہ ہے روزہ دار ظاہر ہو ۔ اور تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے۔ آشکار ا(ظاہراً) تجھے بدلا دے”۔
۱۔ کلام خدا بائبل کے موافق روزوں کا ظاہر طور یہ ہے۔ ( ۱ سموائیل ۷: ۶) (یوائل ۲ :۱۲ )
“لیکن خداوند فرماتا ہے۔ اب بھی پورے دل سے اور روزہ رکھ اور گریہ و زاری و ماتم کرتے ہوئے میری طرف رجوع لاؤ”۔
ب ۔ (یسعیاہ ۵۸: ۶، ۷ ) “کیا وہ روزہ جو مَیں چاہتا ہُوں یہ نہیں کہ ظُلم کی زنجِیریں توڑیں اورجُوئے کے بندھن کھولیں اورمظلُوموں کو آزاد کریں بلکہ ہر ایک جُوئے کو توڑ ڈالیں ؟ کیا یہ نہیں کہ تُو اپنی روٹی بھُوکوں کو کھِلائے اور مِسکِینوں کو جو آوارہ ہیں اپنے گھر میں لائے اورجب کِسی کو ننگا دیکھے تو اُسے پہنائے اور تُو اپنے ہم جنس سے رُو پوشی نہ کرے” ؟
ج۔ (یوائل ۱: ۱۴، ۲: ۲۲) ” روزہ کا وقت و ضرورت اور الہٰی برکات کے لیے دل کی تیا ری” ۔
( زبور ۶۹ : ۱۰ ، ۲۵: ۱۳ ) “پس مسیحی روزے اپنی روح کو خدا کو سامنے عاجز و فروتن(خاکسار اور حلیم) بنانے کےلئے ہیں”۔
اور اس لیے وہ سب خیالات جو دوسرے لوگوں کے روزوں کو نہیں توڑتے مسیحی روزوں کو توڑڈالتے ہیں۔ کیونکہ مسیحی روزوں کے کل ایام دن اور رات یکساں خیال کیا جاتا ہے ۔ محمدیوں اور ہندوؤں کے روزے یا برت ایک حکم کی تعمیل ، پاپوں(گناہوں) کے پر اشچت(توبہ) یا ثواب کے باعث خیال کئےجاتے ہیں۔ مگر مسیحی روزے ایک روحانی بیماری کی دواہیں ۔ جو وقت ضرورت پر دی جاتی ہے۔
کلام خدا بائبل میں عوام کے روزوں کی محض ایک ظاہر اور بے سود(بےفائدہ، نقصان دہ) شکل بھی مذکور(ذکر) ہے جو بعض دیگر(دوسرے) روزوں سے بالکل مشابہ(ملتا جلتا) ہے۔ (یسعیاہ ۵۸: ۳ ۔ ۵)
۱۴۔ ( خیرات یا صدقہ ) قرآن میں حکم ہے۔ “اگر کھلی دو خیرات تو کیا اچھی بات ہے۔ اگر چھپاؤ اور فقیروں کو پہنچا ؤ تو تم کو بہتری “۔ (سورۃ البقر رکوع ۲۷) مگر محمدی لوگ خیرات یا صدقہ خاص کر ناتے والوں ۔ یتیموں ۔ محتاجو ں ۔ مسافروں اور فقیروں کو جو صرف اپنی قوم کے ہوں دنیا بہتر خیال کرتے ہیں۔
ہند و بھی دان پُن(خیرات اور صدقہ) کرنا ایک ضروری بات خیال کرتے ہیں۔ مگروہ بھی دان ۔ پن کا حقدار صرف برہنوں کو جانتے ہیں۔ نہ شدروں کو ۔ دیکھو (شاستر منو ۔ ادہیا ء۱۔ اشلوک ۸۸ سے ۹۱ تک)
کلام خدا بائبل سے بھی معلوم ہو تا ہے کہ خیرات یا صدقہ دنیاکا ایک ضروری امر (کام)ہے۔ تا کہ اہل تو فیق (جن کی گنجائش ہو) بلا امتیاز(بنا کسی فرق کے) قومیت کے محتاجوں (ضرورت مندوں ) کی مددکریں۔ اور اس سبب دنیا کے مسیحی ممالک میں حسب الحکم (حکم کے مطابق) اپنےنجات دہندہ(نجات دینے والا) کے اس قدر خیرات کا چندہ جمع کیا جاتا ہے ۔ (متی ۶ : ۱ ، ۴) کہ جس کے ذریعہ اکثر محتا جو ں اور مصیبت زدوں کی مدد ہوتی۔ اور دنیا کے تمام غیر ممالک میں مشنری لوگ جا کر غیر لوگوں کو ان کی بھلائ و بہتری کے واسطے (لیے) خدا کے پاک کلام سے صلح و سلامتی کی بشارت دیتے۔ مدرسے جاری کرتے ۔ شفاخانے کھولتے ۔ اور بہت کچھ ایسے کام کرتے ہیں۔ جن سے عوام کو فائدہ حاصل ہو ۔ تا کہ کہ وہ شیطان کے پھندے سے چھو ٹ کر اور خدا کے سچے طالب (ڈھونڈنے ولا،، مشتاق، امیدوار) بن کر آخر روز(روزِ آخرت) اسی سچی و لا ثانی (بے مثل، لاثانی) خوشی کو حاصل کر سکیں۔ مگر ایسا کرنے پر بھی وہ کوئی ثواب یا پر لوک (موت کے بعد کی دنیا، دوسرا جہاں، عالمِ بالا) کے حاصل کر نے کا مطلق (رواں، جاری) خیال نہیں کرتے ۔ کیونکہ نجات ( پر لوک کا آنند ) صر ف خداوند یسوع مسیح پر صحیح و زندہ ایمان رکھنے سےحاصل ہوتی ہے۔ نہ کسی اعمال حسنہ (اچھے اعمال یا کام ) سے۔
یہاں تک ۱۴ خیالات یا احکامات شرعی محمدیان کا مقابلہ جو مذکور(ذکر) ہوا ۔ اس سے ناظرین خود معلوم کر سکتے ہیں کہ وہ بہت کچھ اہل ہنود(ہندوؤں کی جمع) کے خیالوں کے موافق(مطابق) ۔ اور اہل کتاب مسیحیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں۔ اب آئندہ بعض وہ خیالات مذکور ہوں گے جو صرف روایتی یا رواجی (رسمی) مشہور ہیں۔ اور دیکھا جائے گا ۔ کہ وہ بھی کہاں تک کس خیال کے موافق یا مخالف ہیں۔