Some remarks on the Islamic teaching and thoughts
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan September 14,1894
نور افشاں مطبوع۱۴ ستمبر ۱۸۹۴ ء
۹۔ (فرض حج) قرآن میں لکھا ہے ’’ تحقیق صفا اور مردہ نشانیوں اللہ کی سے ہیں۔ پس جو کوئی حج کرے گھر کا یا عمرہ کرے پس نہیں گناہ اوپر اس کے یہ کہ طواف کرے بیچ ان دنوں کے اور جو کوئی خوشی سے بھلائی کرے پس تحقیق اللہ قدر دان ہی جاننے والا ‘‘ ( سورۃ البقر ۱۵۸) ۔
ہندوؤں میں بھی کئی ایک تیر تھ (نہانے کی جگہ،مقدس مقام یا مندر جہاں لوگ جاترا کے لیے جائیں ۔ ایسے مقام عموما پوتر پاک دریاؤں کے کنارے ہوتے ہیں) مشہور ہیں۔ مثلاً بدری ناتھ ، کدارناتھ ، دوارکا ، بنارس ، و پراگ وغیرہ جہاں بعض ہندو جاتا۔ اورمورتوں (مجسموں) کے درشن (دیکھنا) کرنا ۔ اور بعض رسمی باتوں کا ادا کرنا ضروری اور موجب(وجہ، سبب) ثواب خیال کرتے ہیں۔ اس فرض حج محمدی کے عبادتی دستورات(آئین) عجیب خیالات سے مرکب (اجزا)ہیں۔ اور بہت کچھ ہندوؤں کے خیالات کے موافق معلو م ہوتے ہیں۔ جن کا درج کرنا بہ سبب طوالت(لمبائی،درازی) چھوڑا گیا ۔ چنانچہ ان کی پوری کیفیت (حالت) کتاب ’’ عقائد اسلامیہ ‘‘ ترجمہ مولوی محمد شفقت اللہ حمیدی صفحہ ۲۴۷ سے ۲۵۵ تک اور کتاب ’’تحقیق الایمان ‘‘مصنفہ پادر ی مولوی عمادالدین صاحب اعتراض چہارم صفحہ ۱۱۲ میں درج ہے۔
مگر تعلیم انجیل کسی خاص جگہ کو عبادت الہٰی کے واسطے مخصوص نہیں ٹھہراتی ۔ بلکہ پر جگہ جہاں انسان اس کی مرضی کے موافق عمل کرے قربت الہٰی(الہی قرب یا نزدیکی) حاصل کر سکتا ہے۔ چنانچہ انجیل یوحنا ۴: ۱۹، ۲۴ تک مذکور ہے۔ “عورت نےاس سے ( مسیح سے ) کہا اے خداوند مجھے معلوم ہو تا ہے۔ کہ آپ نبی ہیں ہمارے باپ دادوں نے اس پہاڑ پر پرستش کی اور تم ( یہودی ) کہتے ہو ۔ کہ وہ جگہ جہاں پرستش (عبادت، بندگی ، پوجا) کرنی چاہیے۔ یروشلم میں ہےیسوع اس سے کہا ۔ کہ اے عورت میری بات کو یقین رکھ۔ کہ وہ گھڑی آتی ہے ۔ کہ جس میں تم نہ تو اس پہاڑ پر ۔ اور نہ یروشلم میں باپ کی پرستش کرو گے۔ تم اس کی جس سے نہیں جانتے ہو پرستش کرتے ہو۔ ہم اس کی جسے جانتے ہیں پرستش کرتے ہیں۔ کیونکہ نجات یہودیوں میں سے ہے۔ پر وہ گھڑی آتی ۔ بلکہ ابھی ہے۔ کہ جس میں سچے پرستار روح و راستی (سچائی) سے پاپ کی پرستش کریں گے۔ کیونکہ باپ بھی اپنے پرستاروں (حمدو ثنا کرنے والے) کو چاہتا ہے۔ کہ ایسے ہو ں۔ خدا روح ہے او ر اس کے پرستاروں کو فرض ہے۔ کہ روح اور راستی سے پرستش کریں‘‘۔
پس اب اس روحانی طریقہ عبادت الہٰی کو چھوڑ کر جو اس کی عین مرضی اور صفات کے موافق ہے۔ جس کی تشبیہ و علامتیں احکامات توریت میں قوم یہود پر ظاہر کی گئیں ۔ جو صرف جسمانی خیالات پر مبنی تھیں ۔ کون فرض خیال کر سکتا ہے؟ مگر صرف وہی جو جسمانی طبیعت رکھتا ہو ۔ اور روحانی تعلیم انجیل سے اپنی آنکھیں بند کر لے ۔ جیسے لکھا ہے۔’’مگر نفسانی آدمی خدا کی روح کی باتیں نہیں قبول کرتا ۔ کہ وہ اس کے آگے بیوقوفیاں ہیں۔ اور نہ انہیں جان سکتا ہے۔ کیونکہ وہ روحانی طور پر بوجھی جاتی ہیں‘‘( ۱۔کرنتھیوں ۲: ۱۵)۔
۱۰۔(جھوٹ بولنا ) کتاب “ہدایت المسلمین” کے صفحہ ۳۱ میں یوں درج ہے۔ “کہ یہ لوگ (محمدی ) خدا کی راہ میں جھوٹ بولنا ثواب جانتے ہیں۔ چنانچہ (سورۃ صافات رکو ع ۳ کی آیت) ( فَتظًرنَظَرۃفی النُّجوم ) کے نیچے عبدالقادر کے ساتویں فائدہ میں لکھا ہے کہ ’’اللہ کی راہ میں جھوٹ بولنا عذاب نہیں بلکہ ثواب ہے‘‘۔
ہندو بھی ’’ دیدہ دانستہ(جان بوجھ کر) کی نظر سے جھوٹ بولنے سورگ (بہشت، جنت)سے نہیں گرتا ۔ او ر اس کی بانی منووغیرہ دیوتا کی بانی کے برابر سمجھتے ہیں۔ جہاں سچ جہاں بولنے سے برہمن۔ کشتری ۔ ویش ۔ شودر قتل ہوتا ہو ۔ وہاں جھوٹ بولنا مسیح سے بھی اچھا ہے‘‘(شاستر منوادھیا ء۱،۸۔شلوک ۱۰۳، ۱۰۴۔)
مگر تعلیم بائبل دیدہ و دانستہ(جان بوجھ کر) کسی حالت میں جھوٹ بولنے کی مطلق(آزاد، بے قید) پر وانکی نہیں دیتی ہے۔ بلکہ ہر حالت میں جھوٹ بولنے پر مندرجہ ذیل فتوی ظاہر کرتی ہے۔ یعنی’’وہ جو دغا بازہے میرے گھر میں ہر گز نہ رہ سکے گا اور جھوٹ بولنے والا میری نظر میں نہ ٹھہرے گا‘‘ (زبور۷:۱۰۱) ۔’’جھوٹے لبوں سے خداوند کو نفرت ہے۔ پروہ جو راستی سے کام رکھتے ہیں اس کی خوشی ہیں‘‘(امثال۲۲:۱۲)۔’’سارے جھوٹوں کا حصہ اسی جھیل میں ہو گا ۔ جو آگ اور گندھک سے جلتی ہے‘‘(مکاشفہ ۲۱: ۸ ) ۔’’اے خداوند تیرے خیمہ میں کون رہے گا۔ اور تیرے کو ہ مقدس پر کون سکونت کرے گا ۔ وہ جو سیدھی چال چلت اور صداقت کے کام کرتاہے ۔ اور دل سے سچ بولتا ہے‘‘( زبور ۱۵: ۱، ۲)۔
۱۱۔ ( نماز کی بابت ) قرآن میں مذکور ہے’’محافظت کرو اور نمازو ں کے اور نماز بیچ والی پر یعنی عصر او ر کھڑے ہو واسطے اللہ کے چپکے‘‘(سورہ البقر ہ۲۳۸)۔ ’’پس جب تمام کر چکو نماز کو ۔ پس یاد کرو اللہ کو کھڑے یا بیٹھے اور اُوپر کروٹوں اپنی کے ۔ پس جب آرام پاؤ پس تم سیدھی کرو نماز کو ۔ تحقیق نماز ہے اوپر مسلمانوں کے لگے ہوئے وقت مقرر کئے ہو ئے‘‘( سورۃ النساء ۱۰۳)۔
ہندو بھی بعض وقت سندھیا (دن اور رات کے ملنے کا وقت، ہندؤں میں صبح ،دوپہر اور شام کو کی جانے والی پوجا ) کرنا بہتر سمجھتے ہیں۔ چنانچہ شاستر منو میں مذکور ہے ان پراتھ کال( فجر ) گائتری کا جاپ کرتا رہے جب تک سورج کا درشن(دیکھنا) نہ ہو ۔ اور اسی طرح سائن کال ( شام ) میں جب تک تارے نہ دکھلائی دیں۔ پر اتھ کال کی سندھیا (دن اور رات کے ملنے کا وقت) کرنے سے رات کا پاپ چھوٹ جاتا ہے ۔ جو آدمی دونوں وقت کی سندھیا(جاپ، پوجا) نہیں کرتا وہ شودر کی طرح دوج کرم سے باہر ہو جاتا ہے”۔ (ادھیائے ۲۔ اشلوک ۱۰۱ سے ۱۰۳ تک)
کلام خدا بائبل سے ظاہر ہے۔ کہ نماز کرنے کا دستور(قانون) قدیم سے چلا آتا ہے یہودی بھی نماز کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ چنانچہ( زبور ۹۵ : ۶ ) میں مذکور ہے ’’ آؤ ہم سجدہ کریں۔ اور جھکیں اور اپنے پیدا کرنے والے خداوند کے حضو ر گھٹنے ٹیکیں‘‘۔
انجیل مقدس میں بھی مذکور ہے۔ ’’اور جب تو دُعا مانگے ریاکاروں کی مانند مت ہو ۔ کیونکہ وہ عبادت خانوں میں اور راستوں کے کونوں پر کھڑے ہو کے دُعا مانگنے کو دوست رکھتے ہیں تا کہ لوگ انہیں دیکھیں ۔ میں تم سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا بدلا پا چکے ۔ لیکن جب تو دُعا مانگے اپنی کوٹھری میں جا ۔ اور اپنا دروازہ بند کر کے اپنے باپ سے جو پوشیدگی میں ہےدُعا مانگ ۔ اور تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے ظاہر میں تجھے بدلا دے گا ۔ اور جب دُعا مانگتے ہو غیر قوموں کی مانند بے فائدہ بک بک مت کرو ۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ زیادہ گوئی سے ان کی سُنی جائے گی‘‘ ۔ ( متی ۶ : ۵، ۷ ) تک پھر رسول فرماتا ہے’’ دُعا مانگنے میں مشغول اور اس میں شکر گذاری کے ساتھ ہشیار رہو‘‘ ( کلیسیوں ۴: ۲) پس اس لئے مسیحی لوگ بھی دعاؤں ( نمازوں ) میں اکثر مشغول رہتے ہیں ۔ کیونکہ ضروری بات ہے۔
بے شک محمدی نماز کا یہ قاعدہ کہ جماعت کے بہت سے لوگ فراہم ہوکر دعایا نماز کرتے ہیں۔ ایک عمدہ اور اہل کتاب کے موافق قاعدہ ہے۔ مگر ان کی نماز کا منشاء (مقصد، سبب) وہی ہے۔ جو ہندؤں کا ہے یعنی نماز وں کےذریعہ آدمی نیک بنے اور گناہ (پاپ ) سے جھوٹ جائے۔ یا ثواب حاصل کرے پر مسیحی نمازوں کا یہ منشاء (باعث)نہیں ہے۔ بلکہ یہ کہ آدمی پہلے نیک ہو ۔ یا بنے تا کہ خدا کی شکر گذاری اد اکر سکے۔ اور اس کے ساتھ دُعامیں ہم کلام ہو کر خوشی حاصل کرے ۔ پس محمد ی و ہندؤں کی نماز یں انسان کے پاک ہونے اور ثواب پانے کا ایک ذریعہ خیال کی جاتی ہیں۔ مگر مسیحی نمازیں نجات یافتہ ( وہ لوگ جا نجات حاصل کر چکے ہوں) لوگوں کی شکر گذاری سمجھتی جاتی ہیں جو ضروری ہے ۔
۱۲۔ ( بہشت کی بابت ) قرآن میں مذکور ہے ۔’’ اور خوشخبری دے ان لوگوں کو کہ ایمان لائے۔ اور کام کئے اچھے یہ کہ واسطے ان کے بہشت میں چلتی ہیں نیچے ان کے سے نہریں‘‘ (سورہ البقر ہ ۱۰۳) ’’مگر بندے اللہ کے خالص کئے گئے یہ لوگ واسطے ان کے رزق ہے معلوم میوے اور وہ عزت دیئے جائیں گے۔ بیچ باغوں نعمت کے اُوپر تختوں کے آمنے سامنے پھرایا جائے گا ۔ اوپر ان کے پیالہ شراب لطیف(شفاف، لذیز اور مزہ دار) کا ۔ سفید مزہ دینے والی پینے والوں کو ۔ نہ بیچ اس کے خرابی ہے۔ اور نہ وہ اس سے بیہودہ کہیں گے ۔ اور نزدیک ان کے بیٹھی ہو ں گی نیچے رکھنے والیا ں خوبصور ت آنکھوں والیاں گویا کہ وہ انڈے ہیں چھپائے ہوئے‘‘ (سورہ الصافات ۴۵)۔
پس بہشت(دوسرا جہان) کی بابت ایسا ہے کہ کم وبیش ذکر قریب ۲۸ یا ۲۹ جگہ قرآن میں مذکور ہے۔ مگر کسی آیات بہشتی میں کہیں یہ مذکور نہیں ہے۔ کہ بہشت(عالمِ بالا، موت کے بعد کی زندگی) میں خدا ان کے ساتھ ہو گا ۔ اور مومینن(ایماندار) اس کے چہرہ پر نظر کریں گے ۔ اور اس کی ستائش و تعریف میں ابدلآباد(ہمیشہ) مشغول رہ کر لاثانی (بے مثل، بے نظیر) خوشی حاصل کریں گے۔
ہندوؤں کے خیال موافق پر لوک (بہشت) کا آنند(مزہ، سُکھ اور آرام) صرف یہ ہے۔ کہ آدمی اپنی بھول و بھرم (وہم، غلط فہمی،اپنا اندازہ)سےچھوٹ کرجس کا نیتجہ کرم کے سمان (مثل) آواگوں میں حاصل کرتارہتا ہے۔ گیان (عقل،سبق) حاصل کر کے” سب جانداروں میں آتما (روح)کے وسیلے سے آتما کو دیکھتا ہے اور سمدرشی ہو کر بڑی برہم پدوتی کو پاتاہے”۔ ( شاستر منوا دہیا ء ۱۲۔ اشلوک ۱۲۵) یعنی پر میشور میں لین ( وصل ) ہو جاتا ہے اور بس ۔
مگر انجیل مقدس میں اس پاک بہشت ۔ اور اس کی لاثانی(بے نظیر) خوشی کی بابت لکھا ہے کہ خدا نے اپنے محبتوں کےلئے وہ چیزیں تیار کیں۔” جو نہ آنکھوں نے دیکھی ۔ نہ کانوں نے سُنی اور نہ آدمی کے دل میں آئی ۔ بلکہ خدا نے اپنی روح کے وسیلے ہم پر ظاہر کیا”۔( ۱ کرنتھیوں ۲: ۹ )جس کی خواہش میں اس کے سچے مومنین مرنے تک مستعد (آمادہ،تیار) رہتےہیں۔ (مکاشفہ ۱۴: ۱۰) یوں ظاہر کیا ’’یسوع نے جواب میں ان سے کہا تم نوشتوں(لکھا ہوا،تحریری سند) اور خدا کی قدرت کو نہ جان کر غلطی کرتے ہو کیونکہ قیامت میں لوگ نہ بیاہ کرتے نہ بیاہے جاتے ہیں۔ بلکہ آسمان پر خدا کے فرشتوں کی مانند ہیں‘‘( متی ۲۲: ۲۹، ۳۰) ۔
۱۔’’ بہشت میں خدا اپنے مقدسوں کے ساتھ سکونت کرے گا‘‘ (مکاشفہ ۲۱: ۳)۔
۲۔’’بہشتیوں کی خوشی‘‘ ( مکاشفہ ۷: ۱۶، ۱۷۔ اور ۲۱ : ۴، ۲۵)۔
۳۔ بہشتیوں کا کاروبار ۔ اس کے چہرہ پر نگاہ رکھنا (مکاشفہ ۲۲: ۴) اور ابدالآباد(ہمیشہ) اس کی ستائش و تعریف کرنا (مکاشفہ ۴: ۱۰، ۱۱۔ اور ۱۹ : ۶)۔
ہرسہ مذاہب کی تعلیم بہشتی مذکورہ بالا کی بابت ناظرین خود انصاف کریں۔ کہ کون سی تعلیم عقلاً و نقلاً انسانی درجہ اور خدا کی شان کے موافق ظاہر ہوتی ہے۔ کیاوہ جس میں صرف نفسانی خیالات موجود ہیں۔ جو بغیر جسم اس قدوس کے حضور میں محض بے مطلب ۔ اور اس کی قدوسیت کے خلاف ہیں۔ یا وہ جس میں اپنے خالق قادر ۔ مطلق (آزاد، بے قید)کے اندر وصل ہو جانا جو انسان کے لئے محال بلکہ ان ہونا ہے۔’’ چہ نسبت خاک رابعالم پا ک ‘‘مگر ہاں وہ جس میں ہمیشہ اس کے حضور حاضر رہ کر ابدالآباد اس کی تعریف کرنا اصلی و سچی خوشی ظاہر ہوتی ہے۔