The Words of Eternal Life
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan Sep 7, 1894
نور افشاں مطبوعہ ۷ستمبر ۱۸۹۴ ء
شمعون ۔ پطرس نے اُسے جواب دیا ۔ کہ اَے خُداوند ہم کس کے پاس جائیں؟ ہمیشہ کی زندگی کی باتیں تو تیرےپاس ہیں۔ یوحنا ۔۶ : ۶۸
اس میں شک نہیں۔ کہ جن لوگوں نے روح پاک کی ہدایت سے مسیح خُداوند کے قدوم فیض لزوم (با برکت قدموں )میں آکر اس کو بخوبی پہچان لیا ہے۔ کہ وہ ’’ زندگی کا مالک ‘‘ ہے اور اگر ایسا ہو ۔ کہ انہوں نےمزہ حاصل کیا کہ خُداوند مہربان ہے۔ ممکن نہیں کہ وہ کسی حالت میں بھی اس کو چھوڑ کر کسی غیر کے پاس جا سکیں۔ لیکن جب ہم سنتے ہیں۔ کہ فلاں شخص نے جوپہلے محمد ی یا ہندو تھا مسیحی ہو کر بعد چندے پہر اپنے مذہب سابقہ کو اختیار کر لیا ہے ۔ تو بخبر اس کے اور کچھ خیال نہیں کر سکتے۔ کہ در حقیقت اس نےمسیح خُداوند کو مطلق (بالکل)نہیں پہچا نا ۔ اور نہ ہمیشہ کی زندگی کا اُس کو کبھی مذاق ہی حاصل ہو ا تھا۔ بلکہ اس نے کسی اور پوشیدہ غرض و مطلب سےخُداوند مسیح کے مبارک نام کا صرف زبانی اقرار کر کے مسیحی جماعت میں دخل پایا تھا۔ جس کے عدم حصول پروہ پھراپنے مہلک مسلک (خطرناک راستہ)پر پس پا(واپس) ہو گیا ۔ ایسے لوگوں کو واپس لینے میں اُن کے ہم مشرب(دين) خواہ کیسی ہی مسرت و شادمانی کااظہار کریں۔ اور اپنے فریق کی ترقی و فیروزی کا باعث سمجھیں ۔ مگر مسیحیوں کو ان کے نکل جانے کی مطلق پروا نہیں ہوتی ۔ بخبر اس کےکہ وہ اُس کی ہلاکت کا خیال کر کے افسوس کرتے۔ اور براہ ترحّم (رحم، ترس)اُس کے لئے دُعا کرتےہیں۔
کہ خداوند اُس کی آنکھوں کو کھولے تا کہ وہ ابدی موت کے خطرہ کو معلوم کر کے تائب (توبہ کرنے والا) ہوا وربچ جائے ۔ یہ بھی سچ ہے۔ اور تجربہ سے پایہ ثبوت کو پہنچ گیا ہے۔ کہ ایسے لوگ فی الحقیقت کسی مذہب کے بھی بدلے ہرگز معتقد(اعتقاد رکھنے والے) نہیں ہو تے ۔ خواہ وہ بظاہر ہندو بنے رہیں۔ یا اپنے کو محمدی ظاہر کریں ۔ اور اُن کے ہم ملت (ہم مذہب)بھی انہیں ایسا تصور کر لیں ۔ لیکن وہ اپنےد ل سے نہ ہندو ہوتے ہیں۔ اور نہ محمدی بلکہ صرف ایک جامہ ریا (ظاہری لباس)سے ملبس ہوتےہیں۔ جو چندے ان کی برہنگی کو ڈھانپے ہوئے ہے ۔ اور آخر کار ان کی شرم ظاہر ہو جاتی ہے۔ یقیناً ایسے اشخاص کے لئے مسیحیت سے رو گرداں ہونے کے بعد کسی اور مذہب کو من جانب اللہ اور سچا سمجھ کر قبول کر نا غیر ممکن امر ہے۔ اور اگر کوئی مذہب دنیا میں ان کے لئے باقی ہے۔ تو وہ صرف الحاد(دينِ حق سے پھر جانا) ہے۔ جس کی راہ ان کے لئے کھلی ہوئی ہے۔ کیونکہ بقول ڈاکٹر الگزینڈرمئیر ان کی گناہ آلود ہ زندگی میں خُدا کا اعتقاد(يقين) اُن کو پریشان کرتاہے۔ اور ایسی حالت میں معمولاً وہ یہی خواہش کرتےہیں۔ کہ کوئی خدا نہ ہو۔ نہ عدالت ۔ نہ دوزخ تا کہ وہ بلا خوف سیاست باطمینان طریق گناہ میں چلتے رہیں۔
مندرجہ عنوان جواب پطر س نے خداوند مسیح کو اس وقت دیا تھا۔ جب کہ اس کےبہت سے شاگرد ۔ جو صرف برائے نام شاگرد تھے۔ اُلٹے پھر گئے تھے۔ اور اس کی باتوں کو سخت خیال کر کے آگے کو اس کے ساتھ چلنا پسند نہ کیا ۔ تو خداوند نے اپنے بارہ شاگردوں سے فرمایا ۔ کیا تم بھی چاہتے ہو ۔ کہ چلے جاؤ ؟ تو پطرس نے جو بولنے میں اکثر سبقت (بازی لے جانا )کر نےکا عادی تھا۔ سبھوں کا ریپرزيٹٹيو(نمائیدہ ) ہو کر یہ آب زر(سونے کا پانی ) سے لکھنے کے لائق جواب دیا۔ ’’ اے خداوند ہم کس کےپاس جائیں ؟ ہمیشہ کی زندگی کی باتیں تو تیرے پاس ہیں۔
منتہی الا نکار کے فاصل مصنفوں نے درست لکھاہے۔ کہ ’’آج تک کوئی پھر جانے والا ہم نے ایسا نہ دیکھا ۔ اور نہ کوئی سُنا کہ معقول دلیل (مناسب گواہی)سےپھر گیا ہو۔ جس مرتد(منحرف) کو چاہو حال دریافت کر کے اس بات کی تصدیق کر سکتے ہو ۔ جنہوں نے حقیقتاً مسیح کو پہچانا اور مانا و ہ کبھی نہیں پھرتے ۔ بلکہ الہٰی طاقت سےآخر تک محفوظ رہتے ہیں۔ ایک فضل ہے۔ جو ناقص فضل ہے۔ ایک قسم کے زندہ لوگ ہیں جو در حقیقت مُردہ ہیں۔ بعض عیسائی ہیں جن کی بنیاد چٹان پر نہیں ہے۔ سارے اسرائیلی اسرائیلی نہیں ہیں۔ سارے پھول پھل نہیں دیتے بعض گر جاتے ہیں۔ ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہے۔ دیماس یہودا ہ اسکریوتی ۔ اور لوط کی جو رو کو یاد کرو۔ اور خدا سے مدد مانگو کہ ہمارے قدم زندگی کی راہ سے بھٹک نہ جائیں ۔ اور راقم زبور کے ساتھ یہ آیت ہمارے درد زبان رہے۔
’’ کيونکہ زندگی کا چشمہ تيرے پاس ہے ۔تيرے نُور کی بدولت ہم روشنی ديکھيں گے‘‘) زبور ۳۶ ۔ ۹ (۔