Remarks on the thoughts of Muhammad
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan Aug 24,1894
نور افشاں مطبوعہ۲۴اگست ۱۸۹۴ ء
قوم محمدی جو دُنیا کی قوموں میں ایک مہذب ۔ زکی اور فہیم قوم (عقلمند قوم)کہلاتی ہے۔ بلکہ اپنے تئیں خُدا پرست اور اہل ِکتاب میں سے بھی ایک ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ اس لئے ضرور ہے کہ اس کے خیالات و احکامات دینہ و ر واجیہ(دینی و رسمی ) سب نہیں تو بہت کچھ دوسرے اہلِ کتاب کے خیالات و احکامات کے ساتھ مطابق و متفق بھی ہوں ۔ کیونکہ وہ ایک ہی ازلی و ابدی اور بے تبدیل خُدا ہے ۔ جس کو سب اہلِ کتاب مانتے و جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس لئے ضرور ہے کہ کل احکام و کلام جو اس نے انسان کی بھلائی و بہبودی کے واسطے فرمائے ایک ہی اصول پر مبنی ہوں۔ نہ کہ وہ ایک کو کچھ اور دوسرے کو کچھ فرمائے ۔ جو اس کی عدالت اور قدوسیت کے محض خلاف بلکہ غیر ممکن ہے۔ کیونکہ وہ انسان نہیں ہے۔ جس کو آئندہ کی کچھ خبر نہ ہو ۔ جیسا بعض کا خیال ہے کہ ’’ اُس خُدا نے اگر تمہیں یوں فرمایا ۔ تو ہماری اُمت کے واسطے ہماری کتاب میں ہم کو یوں فرما دیا ۔ کیونکہ وہ قادر مطلق ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔بے شک وہ قادر مطلق ہے ۔ اس میں کچھ کلام نہیں۔ مگر وہ اپنی الہٰی صفات کا ملہ کا جو اُس نے اپنے پاک کلام میں ظاہر و آشکار افرمائیں پابند بھی ہے ۔ ایسا کہ اُن میں سے ایک کے بھی خلاف کرنا اُس کی ذات خاص کے بالکل خلاف اور نہایت ہی غیر ممکن ہے۔ بلکہ اُس قادر قدوس کا شروع آفر ینش عالم یعنی آدم کے گنہگار ہو جانے کے زمانہ سے تا حال کل برتاؤ اس کی ایک صفت کی بھی کبھی خلاف ظہور میں نہ آیا اور نہ آسکتا ہے۔
اگرچہ بعض وقت بعض باتیں اُس نے اپنے ارادہ ازلی اور کلام کے پورا ہونے کے لئے اپنے نبیوں کی معرفت تشبیہاً و علامتاً [1]مذکور بھی کرائیں۔ جن کا عمل میں لانا اُس وقت میں نہایت ضروریات سے تھا ۔ مگر اُن کا پورا و کامل (مکمل) ثبوت یا نتیجہ بھی اس کے پاک کلام سے ہو بہو ظاہر ہے۔ جس کو ہر انسان بے تعصب مطالعہ کر کے بخوبی معلوم کر سکتا ہے۔ بلکہ بہتوں کو اس کی حقیقت سے کماحقہ(بخوبی) آگاہی ہو گئی اور ہوتی جاتی ہے۔ مگر ماننا یا نہ ماننا امر دیگر ہے۔ چنانچہ خود خُداوند یسوع مسیح نے انجیل متی باب ۵ آیا ت ۱۷، ۱۸ ۔ میں یہ فرمایا ’’ یہ خیال مت کرو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتاب منسوخ کرنے کو آیا ۔ میں منسو خ کرنے کو نہیں ۔ بلکہ پوری کرنے کو آیا ہوں۔ کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں۔ کہ جب تک آسمان و زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا شو شہ توریت کا ہرگز نہ مٹے گا ۔ جب تک سب کچھ پورا نہ ہو‘‘۔
مگر جائے غور ہے ۔کہ محمدی اکثر احکامات دینیہ و خیالات ریواجیہ میں دُوسرے اہل ِکتاب کے ساتھ آسمان و زمین ۱ مثلاًاحکامات توريت جس کا عمل ميں لانا خاص قوم يہود کو کہا گيا تھا۔ اور اگرچہ قوم يہود منکر و مخالفِ مسيح کے ہے۔ تو بھی اُن کے کُل احکامات شرعی اور اس کے ارادہ ازلی کی پوری تشبيہ اور علامات ظاہر ہوئيں ۔ جن کا اصل اصول اور پوری کامليت کا ذخيرہ انجيلِ مقدس ميں موجود ہے۔
فرق نظر آتا ہے ۔ بلکہ سچ کہا جائے تو بہت کچھ غیر اقوام کے خیالات کے ساتھ ملتے ہوئے ثابت ہوتے ہیں۔ جو اہلِ کتاب کےلئے غیر ممکن امر ہے۔ چنانچہ اُن میں سے بعض کا مختصر اً ذکر مقابلہ کے ساتھ درج ذیل ہے۔ جن کی بابت راقم نہایت ادب کے ساتھ ملتمس (عرض کرنے والا) ہے۔ کہ کوئی صاحب اُن کےپڑھنے سے رنجیدہ خاطر نہ ہوں ۔ بلکہ براہ نوازش اُن کی حقیقت سے پوری آگاہی (جو مناسب ہے ) عنایت فرمائیں۔
۱۔ بعض احکامات شرعی کا مقابلہ۔
(۱) ۔ بابت ہمدردی (انسانی ) قرآن میں مذکور ہے ’’ محمد رسول اللہ کا ہے اور جو لوگ ساتھ اُس کے ہیں ۔ سخت ہیں اُوپر کفار کے ۔ اور رحم دل ہیں درمیان اپنے ‘‘ سورہ الفتح رکوع ۴۔ پھر ۔ ’’ نہ پکڑیں مسلمان کافروں کو دوست سوائے مسلمانوں کے ‘‘ سورہ آل عمران رکوع ۳۔
ہندو بھی آخر برن شُودر کو نہایت حقیر و ذلیل خیال کرتے ۔ ایسا کہ سوائے غلامی کے د شاشتر منواد ہیاعہ۱۔ اشلوک ۹۱) مذہبی کسی فرض میں اس کا کوئی حصّہ نہیں۔ بلکہ اس کو دہرم کا اُپدیش کرنے والا نرک(دوزخ) میں جاتا ہے ( ادہیاعہ ۴۔ اشلوک ۸۱) اور ذرا اسی سخت زبانی اور مغروری کرنے پر شودر برن کو نہایت سخت سزا دینے کا حکم ہے ( ادہیاعہ ۸ ۔ اشلوک ۲۷۰ ۔ ۲۷۲ تک )۔
مگر تعلیمِ انجیل انسانی ہمدردی کی بابت بلا امتیاز کسی کا فر یا شودر کے یہ فرماتی ہے۔
’’ پر میں (مسیح ) تمہیں کہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں کو پیار کرو ۔ اور جو تم پر لعنت کریں اُن کے لئے برکت چاہو۔ جو تم سے کینہ رکھیں اُن کا بھلا کرو ۔ اور جو تمہیں دُکھ دیں یا ستائیں اُن کے لئے دُعا مانگو۔ تاکہ تم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے فرزند ہو۔ کیونکہ وہ اپنے سورج کو بدوں و نیکوں پر طالع (طلوع)کرتا ہے اور راستوں و ناراستوں پر مینہ برساتا ہے ۔ کیونکہ اگر تم انہیں کو پیار کرو جو تمہیں پیا ر کرتے ہیں تو تمہارے لئے کیا اجرہے۔ کیا محصول لینے والے بھی ایسا نہیں کرتے۔ اگر تم فقط اپنے بھائیوں کو سلام کرو تو کیا زیادہ کیا ۔ محصول لینے والے بھی ایسا نہیں کرتے ۔ پس تم کامل ہو جیسا تمہارا باپ جو آسمان پر ہے کامل ہے ۔ متی ۵: ۴۴تا ۴۸ تک ۔
تعلیم انسانی ہمدردی ہر سہ مذاہب مذکورہ بالا میں خود انصاف کر یں کہ کون محدود اور کون غیر محدود اور صفاتِ خُدا کے موافق ہے۔
(۲۔) ( بابت تعلیم دینی ) قرآن میں مذکور ہے ۔’’ نہیں زبردستی بیچ دین کے ‘‘ سورہ البقرۃ رکوع ۳۴ ۔ مگر بعد کو آیات ذیل نازل ہوئیں ۔ ’’ اے نبی جھگڑا کر کافروں اور منافقوں سے اور سختی کر اُوپر اُن کے ‘‘ سورہ التحریم رکوع ۱۔ پھر ’’ لڑوان سے یہاں تک کہ نہ رہے کفر اور ہو جائے دین بالکل واسطے اللہ کے ‘‘ سورہ البقرۃ رکوع ۲۴۔
تعلیم دینی غیروں کے لئے ہندوؤں میں ندارد(خالی)ہے جیسا اُوپر مذکور ہوا۔
مگر انجیل تعلیم دینی کی بابت یہ فرماتی ہے۔ قول خُداوند مسیح ’’ دیکھو میں تمہیں بھیڑوں کی مانند بھیڑیوں کے بیچ میں بھیجتا ہوں۔ پس تم سانپوں کی طرح ہوشیار اور کبوتروں کی مانند بھولے ہو ‘‘ متی ۱۰: ۱۶ ۔ اور اُن سے برتاؤ کی بابت جو خُدا کے کلام سے برگشتہ ہو جاتے یہ مرقوم ہے۔ ’’ مناسب نہیں کہ خداوند کا بندہ جھگڑا کرے۔ بلکہ سب سے نرمی کرے ۔ اور سکھلانے پر مستعد ۔ اور دُکھو ں کا سہنے والا ہو۔ اور مخالفوں کی فروتنی سے تادیب (تنبيہ)کرے۔ کہ شاید خُدا انہیں تو بہ بخشے ۔ تا کہ وہ سچائی کو پہچانيں اور وہی جنہیں شیطان نے شکار کیا ہے بیدار ہو کر اُس کے پھندے سے چھوٹیں ۔ تا کہ خُدا کی مرضی کو بجا لائیں ۔ ۲ تيمتھيس ۲: ۲۴، ۲۶ تک ۔
کلام ِ خُدا بائبل کے کسی مقام سے دین کی بابت سختی کرنے کا اشارہ بھی نہیں پایا جاتا ۔ اور نہ عقل گوارا کرتی ہے۔ کہ سختی کے ذریعہ کسی انسان کی وہی تبدیلی ممکن ہے۔ ہاں نرمی و ملائمیت اور بردباری (برداشت)سے ممکن ہے۔
(۳)۔ (بابت نکاح) قرآن میں مذکور ہے ’’ پس نکاح کرو جو خوش لگیں تم کو عورتوں سے دو ، دواور تین، تین اور چار ، چار۔ پس اگر ڈرو تم یہ کہ نہ عدل کرو گے تم پس ایک اُن میں سے یا جس کے مالک ہوں دہنے ہاتھ تمہارے ‘‘ سورہ آل عمران رکوع ۲۰۔
ہندوؤں میں بھی ایک عورت سے زیادہ بياہ کرنے کی کوئی ممانعت (روک)نہیں ہے۔ اگر ’’ ایک آدمی کی چار ، پانچ زوجہ ہوں اُن سب میں ایک پتروان ہو تو اُس کے ہونے سے سب زوجہ پتروان کہلاتی ہیں۔ اس بات کو منوجی نے کہا ہے ‘‘ شاستر منواد ہیاعہ ۹ ۔ اشلو ک ۱۸۳۔
مگر تعلیم انجیل میں ایک نکاحی بیوی کے جیتے دُوسرے نکاح کی قطعی ممانعت ہے۔ بلکہ ایک بیوی کے سوائے کسی حالت میں دوسری عورت سے تعلق رکھنا حرام ٹھہرایا گیا ہے۔ چنانچہ لکھا ہے۔ ’’ فریسی اس کی آزمائش کے لئے اُس پاس آئے ۔ اور اُس سے کہا ۔ کیا روا ہے ۔ کہ مرد ہر ایک سبب سےاپنی جو رو کو چھوڑ دے ۔ اُس نے ( مسیح نے ) جواب میں اُن سے کہا کیا تم نے نہیں پڑھا کہ خالق نے شروع میں انہیں ایک ہی مرد ۔ اور ایک ہی عورت بنایا ۔ اور فرمایا ۔ کہ اس لئے مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا ۔ اور اپنی جو رو سے ملا رہے گا ۔ اور وہ دونوں ایک تن ہو ں گے۔ اس لئے اب وہ دو نہیں۔ بلکہ ایک تن ہیں۔ پس جسے خدا نے جوڑا اُسے انسان نہ توڑے۔متی ۱۹ : ۳، ۶ ۔
پھر ’’ چاہیے کہ نگہبان بے عیب ایک جو رو کا شوہر پرہیز گار صاحبِ تمیز ہو ‘‘۔ ’’ مدد گار ( ابھی ) ایک ایک جوروکے شوہر ہوں ‘‘ اور۱ تيمتھيس ۳: ۲، ۱۲ آیتیں۔
پھر قول مسیح۔ پر میں تمہیں کہتا ہوں۔ کہ جو کوئی شہوت سے کسی عورت پر ( دُوسری پر ) نگاہ کرے وہ اپنے دل میں اُس کے ساتھ زنا کر چکا متی ۵ : ۲۸۔
اگر چہ شروع آفرینش عالم (دُنیا کی پیدائش) اور ظہور خداوند یسوع مسیح کے درمیان بعض اشخاص کی نسبت کلام ِخدا بائبل سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ جنہوں نے کثرت ازدواج کو خلاف مرضی الہٰی پسند کیا۔ ان کی تنبیہ اور توبہ کا اظہار بھی کلام خدا سے بخوبی ظاہر ہے۔ کیونکہ ممکن نہیں کہ کوئی انسان مرضی الہٰی سے عدول (انکار)کر کے پوری خوشی و اطمینان دلی حاصل کر سکے۔
(۴)۔ ( بابت طلاق ) قرآنی تعلیم کے مطابق عورتوں کو طلاق دینا ہر محمدی کی طبیعت پر موقوف ہے۔ چنانچہ لکھا ہے ۔ ’’ نہیں گناہ اور پر تمہارے یہ کہ طلاق دو تم عورتوں کو جب تک نہ ہاتھ لگایا اُن کو یا نہیں مقر ر کیا واسطے اُن کے مقر ر کرنا ‘‘ ۔ سورہ البقر رکوع ۳۱ ۔ طلاق دوبارہ ۔ ’’ یہ طلاق دوبارہ ہے پس بند کر رکھنا ساتھ اچھی طرح کے یا نکال دینا ساتھ اچھی طرح کے ‘‘ طلاق سہ بارہ(۳ بار) ۔ ’’ پس اگر طلاق [2]دی اُس کو پس نہیں حلال ہونی واسطے اُس کے پیچھے اُس کے یہاں تلک کہ نکاح کرے اور خصم سے سوائے اُس کے ۔ پس اگر طلاق دے ( وہ ) اس کو پس نہیں گناہ اُوپر اُن دونوں کے ‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔ سورہ الیضاً رکوع ۲۹۔
ہندو بھی مندرجہ ذیل عورت کو ترک کر دینا یا اُن کے اوپر اور بياہ کر لینا اپنی مرضی پر موقوف رکھتے ہیں۔
۱۔ جو عورت ۔ اپنے شوہر سے فساد(جھگڑا) کر نے والی، شراب پینے والی یا دولت برباد کرنے والی ہو۔
۲ ۔ جو عورت سادھو ؤں کی خدمت نہ کرنے والی، دشمنی رکھنے والی یا بیماریوں سے بھری ہوئی ہو۔
۳۔ جو عورت بانجھ ہو یا اُس کی اولاد نہ جیتی ہو یا صرف لڑکیاں ہی جنتی ہو۔ وغیرہ وغیرہ شاستر منو ۔ ادہیاعہ ۹ ۔اشلوک ۷۹ سے ۸۱ تک۔
مگر تعلیمِ انجیل عورتوں کو طلاق دینے کی بابت سوائے حرام کاری کے اور ہر حالت میں منع کرتی ہے۔ چنانچہ متی ۵ : ۳۱ ، ۳۲ میں لکھا ہے ’’ یہ بھی لکھا گیا کہ جو کوئی اپنی جو رو کو چھوڑ دے اُسے طلاق نامہ لکھ دے ۔ پر میں ( مسیح ) تمہیں کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنی جو رو کو زنا کے سوا کسی اور سبب سے چھوڑ دے اُس سے زنا کرواتا ہے۔ اور جو کوئی اُس چھوڑی ہوئی سے بیاہ کرے زنا کرتا ہے۔ پھر باب۱۹ ۔ ۷ تا ۹ آيات تک لکھا ہے۔ ’’ انہوں نےاُس سے ( مسیح سے کہا پھر موسیٰ نے کیوں حکم دیا کہ طلاق نامہ اُسے دیکے اُسے چھوڑ دے ۔ اُس نے ( مسیح نے ) اُن سے کہا موسیٰ نے تمہاری سخت دلی کے سبب تم کو اپنی جوروں کو چھوڑ دینے کی اجازت دی پر شروع سے ایسا نہ تھا۔ اور میں تم سے کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنی جو رو کو سوازنا کے اور سبب سے چھوڑ دے اور دوسری سے بیا ہ کرے زنا کرتا ہے اورجوکوئی اُس چھوڑی ہوئی عورت کو بیاہے زنا کرتا ہے ‘‘۔
۵۔ ( قسم کھانے کی بابت ) قرآن میں اکثر قسموں کا ذکر ہے جن کے نمونہ سے محمدی اکثر بات بات میں قسم کھانے کے عادی ہیں۔ مثلاً قسم اللہ کی سورہ النسا ء رکوع ۹ ۔ قسم جان کی۔ سورہ الحجر رکوع ۵، ۶ ۔ قسم قرآن کی سورہ يس رکوع۱ ۔ مگر لوگوں میں صلح کرنے کے لئے محمد یوں کو قسم کھانا منع ہے ۔’’ اور مت کر و اللہ کو نشانہ واسطے قسموں اپنی کے یہ کہ بھلائی کرو اور پرہیز گاری کرو اور صلح کرو درمیان لوگوں کے اور اللہ سننے و جاننے والا ہے ‘‘ ۔ سورہ البقر رکوع ۲۸۔
ہندو بھی قسم کھا نا یا کھلانا بات کی سچائی ثابت ہونے کےلئے ضروری سمجھتے ہیں۔ ساشتر منوا دہیا عہ ۸۔ اشلوک ۱۱۳
ہند و بھی بعض امورات میں جھوٹی قسم کھانا رواخیال کرتے ہیں۔ ادہیاعہ ایضاً ۔ اشلوک ۱۱۲۔
مگر تعلیم انجیل قسم کھانے کی قطعی ممانعت (منع)کرتی ہے۔ چنانچہ خداوند یسو ع مسیح نے انجیل متی ۵: ۳۴ سے ۳۷ تک یوں فرمایا ۔ پر میں تمہیں کہتا ہوں ہرگز قسم نہ کھانا نہ آسمان کی کیونکہ وہ خدا کا تخت ہے اور نہ زمین کی کیونکہ وہ اُس کے پاؤں کی چوکی ہے اور نہ یروشلیم کی کیونکہ وہ بزرگ بادشاہ کا شہر ہے۔ اور نہ اپنے سر کی قسم کھا کیونکہ تو ایک بال کو سفید یا کالا نہیں کر سکتا۔ پس تمہاری گفتگو میں ہاں کی ہاں اور نہیں کی نہیں ہو کیونکہ جو اس سے زیادہ ہے سو برائی سے ہوتا ہے۔
۶۔ ( عورتوں کی قدر کی بابت ) تعلیم محمدی میں ۔
۱ ۔ عورتیں مردوں کی کھتیاں کہلاتی ہیں۔ سورہ البقر ر کوع ۲۸ ۔
۲۔ عورتیں کے حقوق مردوں کی نسبت نصف ٹھہرائے گئے۔
۳۔ ایک عورت کی گواہی برابر ہے نصف آدمی کے یعنی ایک مرد کی گواہی کے برابر دو عورتوں کی گواہی خیال کی جاتی ہے۔
۴۔ عورتوں کو گھروں میں بند رکھنے کی سخت تاکید کی گئی وغیر ہ وغیرہ ۔ سورہ النساء رکوع ۲۔ و سورہ البقر رکوع ۳۹۔
ہندو بھی عورتوں کو کم قدر اور ذلیل خیال کرتے ہیں۔ ایسا کہ اُن کے لئے کوئی دہرم کرم بھی سوائے شوہر کی سیوا کرنے کے علیحدہ نہیں ٹھہرایا گیا ۔ ( شاستر منوا دہیا ء ۵۔ اشلوک ۱۵۵) پھر عورتوں کی عادت وخصلت بھی نہایت بدتر بیان ہوئی ایسا کہ ماں بہن و بیٹی کے ساتھ بھی تنہائی میں اکیلا نہ بیٹھے ۔ کیونکہ پنڈتوں کو بھی عورتیں بری راہ میں کھینچ لے جاتی ہیں۔ ( ادہیا ء ۲۔ اشلوک ۲۱۳ سے ۲۱۶تک ) ہندو بھی عورتوں کی گواہی محض کم قدر خیال کرتے ہیں۔ ( ادہیا ء ۸ ۔ اشلوک ۷۷۔)
مگر تعلیم انجیل مرد و عورت ہر دو کے کل حقوق مساوی ظاہر کرتی ہے۔ یعنی
۱۔ باہمی میل و محبت ۔ ایک دوسرے کی ہمدردی و مدد گاری ۔ عزت و فرمانبردا ری پر یکساں تعلیم دیتی ہے ۔ دیکھو نامہ افسیوں ۵: ۲۲ سے ۳۳ تک۔ اور نامہ۱ پطرس ۳ : ۱ سے ۷ تک ۔
۲۔ فرائض دینی بھی ہر دو کے مساوی اور ایک دوسرے کو فائدہ پہنچانے والے ظاہر کرتی ہے ۔ چنانچہ ۱ کرنتھیوں ۷: ۱۶ میں مذکو ر ہے ’’ عورت کیا جانے تو اپنے خصم کو بچائے اوراے مرد کیا جانے تو اپنی جو رو کو بچائے ‘‘ یعنی ہر ایک کا نمونہ ایک دوسرے کو فائدہ پہنچا نے والا اور موثر ہے ۔ مسیحی دین کے موافق مرد عورت ہر دو کی گواہی بھی یکساں خیال کی جاتی ہے۔ مطلق(بالکل) فرق نہیں ہے۔
۷۔ ( نیکی و بدی ) قرآن میں مذکور ہے ’’ اگر پہنچتی ہے اُن کو بھلائی کہتے ہیں یہ نزدیک خُدا سے ہے اور اگر پہنچتی ہے اُن کو برائی کہتے ہیں۔ یہ نزدیک تیرے سے ہے۔ کہہ ہر ایک نزدیک اللہ کے سے ہے۔ سورہ النساء رکوع ۱۱۔
اکثر ہندو بھی ایسا ہی مانتے ہیں کہ ست د است پاپ و پن سب کچھ ایشور کی طرف سے ہوتا ہے ( مگر اس خیال پر بڑائی کا خوف کہاں پھر بعض کہتے ہیں ۔ کہ ایشور ست داست پاپ و پن سب سے نیار ا ہے۔ ( تو ایسے ایشور کا ہونا یا نہ ہونا برابر ٹھہرا پس اگر اس کو مانیں تو کچھ فائدہ نہیں اور اگر نہ مانیں تو کوئی نقصان بھی نہیں)۔
مگر کلام ِخُدا بائبل کی کسی تعلیم سے ایسا کہیں ظاہر نہیں ہوتا کہ برائی و بھلائی ست داست کا وہی کرنے یا کرانے والا ہے۔ بلکہ اس کے کلام سے ظاہر ہے کہ وہ عادل ۔ صادق ۔ اور قدوس ہے۔ اور کہ اُس کے کُل کام راستی کےہیں۔ اور اس لئے وہ برائی سے نفرت کرتا ۔ اور ہر ایک کو اس کے کاموں اور خیالوں کے موافق ٹھیک ٹھیک بدلا دے گا۔ کیونکہ اُس سے کوئی خیال چھپا نہیں ہے۔( یرمیاہ ۳۲۔ ۱۹ )،(زبور ۔ ۱۱۹: ۱۳۷ )، (احبار ۲۰: ۲۶) ،( ایوب ۳۴ : ۱۰ )،( امثال ۱۵ : ۲۶ )، (رومیوں ۲: ۶ )، (عبرانیوں ۴: ۱۳)۔
بے شک کلام خدا بائبل میں آیات ایسی بھی ملتی ہیں جو تھوڑی دیر کے لئے ناواقف انسان کے خیال کو کچھ حیرانی میں ڈالنے والی معلوم ہوتی ہیں۔ مگر اُن پر سوچنے اور غور کرنے کے بعد بخوبی معلوم ہو جائے گا۔ کہ وہ آیات اس کی عالم الغیبی کا پورا ثبوت ہیں۔ کہ کسی شخص یا قوم کو اس کی از حد برائی کے سبب اُس نے اپنا پدرانہ و محبتا نہ صبر و برداشت جو اُس کے ارادہ ازلی و مرضی کے مطابق ظاہر کر کے ہلاکت و بربادی کےلئے چھوڑ دیا۔
۸۔ (حلال و حرام ) قرآن میں بعض چیزیں حرام ٹھہرائی گئیں ۔ جن کا کھانا ، پینا یا چھُونا محمدیوں کے ایمان کے خلاف ہے ۔ سورہ المائدہ رکوع ۱۔
ہندو بھی بعض چیزیں کھانا یا چھُونا ناجائز خیال کرتے ہیں۔ دیکھو شاستر منوا دہیا ء ۵۔ اشلوک ۵ سے ۲۸ ۔محمدی سخت بھوک کی حالت میں کسی حرام چیز کا کھانا روا جانتے ۔ سورہ و رکوع ایضاً ۔
ہندو بھی سخت بھوک کی حالت میں کسی ناجائز چیز کا کھانا بُرا نہیں خیال کرتے۔ بلکہ کئی دن فاقہ کے بعد کھانے کے لئے چوری کر لینا بھی روا رکھتے ہیں۔ ادہیا ء ۱۰۔ اشلوک ۱۰۶۔ ادہیاء ۱۱۔ اشلوک ۱۶۔
مگر تعلیم انجیل میں سوائے لہو اور گلا گھونٹی ہوئی چیز ( اعمال ۱۵: ۲۹) ناجائز استعمال ( افسیوں ۵: ۱۸) یا جو کھانا دوسرے کی ٹھوکر کھانے کا باعث ہو۔ ( رومیوں ۱۴: ۲۱ ) اور کوئی چیز نا روا نہیں ہے۔ کیونکہ یہ امر طبعی ہے۔ جس کو جو میسر ہو یا جس کی طبیعت جو چاہے کھا کر اپنی صحت کو قائم رکھے تا کہ مقر ر ہ خدمت بجا لا سکے۔ کیونکہ ’’ کھانا پیٹ کے لئے پیٹ کھانوں کے لئے پر خُدا اُس کو اور اُ ن کو نیست کرے گا۔ ‘‘ ( ۱ کرنتھیوں ۶ : ۱۳ ) کیونکہ خدا کی بادشاہیت کھانا پینا نہیں بلکہ راستی و سلامتی اور روح القدس سے خوش وقتی ہے ۔ (رومیوں ۱۴: ۱۷ ) ’’ لیکن کھانا ہمیں خدا سے نہیں ملاتا کیونکہ اگر کھائیں تو ہماری کچھ بڑھتی نہیں اور جو نہ کھائيں تو گھٹتی نہیں ‘‘ ( ۱ کرنتھیوں ۸: ۸)۔
بے شک احکامات توریت میں بعض حلال و حرام جانوروں کا ذکر مذکور ہے۔ جن کی عدم واقفیت سے بعض لوگوں نے حلال و حرام کا خیال کر لیا۔ مگر ان مقاموں پر جہاں حلال و حرام کا ذکر مذکور ہے۔ اگر غور کیا جائے تو بخوبی معلوم ہو جائے گا۔ کہ اُن کھانوں پر کوئی گناہ کی بخشش و معافی کا کہیں ذکر مذکور نہیں ہے۔ اور اگر کہیں یہودیوں کو یہ حکم صادر ہوا کہ اُن کا طریقہ غیر اقوام کو سکھایا جائے۔ سبب صرف یہ تھا ۔ کہ خدائے تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اپنی خاص قوم قرار دیا ۔ اور اُن کو دیگر اقوام سے علیحدہ کر کے اپنے تشبیہی احکام یعنی قربانی وغیرہ کو تشخیص کئے ہوئے جانوروں کے ذریعہ ادا کرنےکا حکم دیا ۔ جب تک وہ کامل قربانی جس کے نمونہ پروہ گذرانی جاتی تھیں ۔ کامل طور پر ظہور میں نہ آئے ۔ یعنی خداوند یسوع مسیح کی کامل قربانی جو تمام عالم کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ مگر وہ قربانیاں جانوروں کی صرف یہودیوں کے لئے اُسی وقت تک موثر ہوئیں۔ نہ کہ ہمیشہ کے لئے کار آمد ۔ وہ لفظ جس کے معنی اُن مقامات پر ابدی کا استعمال ہوا۔ عبرانی میں اس کے کئی ایک معنوں میں سے ایک یہ ہے یعنی کسی قوم کے زمانہ قیام تک ۔ جو صرف قوم یہود کے زمانہ قیام سے مراد ہے۔
مذکورہ بالا خیالات یا احکامات شرعی پر ناظرین خود خيال کریں کہ کون کون عقلاً و نقلاً جائز نا جائز معلو م ہوتے ۔اور کون کس کس کے مطابق یا مخالف ثابت ہوتے ہیں۔
۹۔ ( فرض حج ) قرآن میں لکھا ہے ’’ تحقیق صفاء اور مروہ نشانیوں اللہ کی سے ہیں۔ پس جو کوئی حج کرے گھر کا یا عمرہ کرے پس نہیں گناہ اوپر اُس کے یہ کہ طواف کرے بیچ اُن دنوں کے اور جو کوئی خوشی سے بھلائی کرے پس تحقیق اللہ قدر دان ہی جاننے والا ۔ سورہ البقر ر رکوع ۹۔
ہندوؤں میں بھی کئی ایک تیر تھ مشہور ہیں۔ مثلاً بدری ناتھ۔ کدارناتھ ، دوارکا ، بنارس، و پراگ وغیرہ جہاں بعض ہندو جانا اور مورتوں کے درشن کرنا اور بعض رسمی باتوں کا ادا کرنا ضروری اور موجب ثواب خیال کرتے ہیں۔
اس فرض حج محمدی کے عبادتی دستورات عجیب خیالات سے مرکب ہیں۔ اور بہت کچھ ہندوؤں کے خیالات موافق معلوم ہوتے ہیں۔ جن کا درج کرنا بہ سبب طوالت چھوڑا گیا ۔ چنانچہ اُن کی پوری کیفیت کتاب عقائد اسلامیہ ترجمہ مولوی محمد شفقت اللہ حمیدی صفحہ ۲۴۷ سے ۲۵۵ تک اور کتاب تحقیق الایمان مصنف پادری مولوی عمادالدین صاحب اعتراض چہارم صفحہ ۱۱۲ میں درج ہے۔
مگر تعلیم انجیل کسی خاص جگہ کو عبادت الہٰی کے واسطے مخصوص نہیں ٹھہراتی ۔ بلکہ ہر جگہ جہاں انسان اُس کی مرضی کے موافق عمل کرے ۔ قربت الہٰی حاصل کر سکتا ہے۔ چنانچہ انجیل یوحنا ۴: ۱۹ ۔ ۲۴ تک مذکور ہے’’ عورت نے اس سے ( مسیح سے ) کہا اے خداوند مجھے معلوم ہوتا ہے۔ کہ آپ نبی ہیں ہمارے باپ دادوں نے اس پہاڑ پر پرستش کی اور تم ( یہودی )کہتے ہو ۔ کہ وہ جگہ جہاں پرستش کرنی چاہیے ۔ یروشلیم میں ہے۔ یسوع نے اُس سے کہا ۔ کہ اے عورت میری بات کو یقین رکھ۔ کہ وہ گھڑی آتی ہے ۔ کہ جس میں تم نہ تو اس پہاڑ پر ۔ اور نہ یروشلیم میں باپ کی پرستش کرو گے۔ تم اس کی جسے نہیں جانتے ہو پرستش کرتے ہو ۔ ہم اُس کی جسے جانتے ہیں پرستش کرتے ہیں ۔ کیونکہ نجات یہودیوں میں سے ہے۔ پر وہ گھڑ ی آتی ۔ بلکہ ابھی ہے کہ جس میں سچے پر ستار روح و راستی سے باپ کی پرستش کریں گے۔ کیونکہ باپ بھی اپنے پرستاروں کو چاہتا ہے۔ کہ ایسے ہو ں۔ خدا روح ہے اور اُس کے پرستاروں کا فرض ہے۔ کہ روح و راستی سے پرستش کریں۔
پس اب اس روحانی طریقہ عبادت الہٰی کو چھوڑ کر جو اس کی عین مرضی اور صفات کے موافق ہے۔ جس کی تشبیہ و علامتیں احکامات توریت میں قوم یہود پر ظاہر کی گئیں۔ جو صرف جسمانی خیالات پر مبنی تھیں۔ کون فرض خیال کر سکتا ہے؟ مگر صرف وہی جو جسمانی طبعیت رکھتا ہو ۔ اور روحانی تعلیم انجیل سے اپنی آنکھیں بند کر لے ۔ جیسا لکھا ہے ۔ مگر نفسانی آدمی خدا کی روح کی باتیں نہیں قبول کرتا ۔ کہ وہ اُس کے آگے بیوقوفیاں ہیں۔ اور نہ انہیں جان سکتا ہے کیونکہ وہ روحانی طور پر بوجھی جاتی ہیں۔ ۱کرنتھیوں ۲: ۱۵۔
۱۰۔ ( جھوٹ بولنا ) کتاب ہدایت المسلین کے صفحہ ۳۱ میں یوں درج ہے۔ ’’ کہ یہ لوگ ( محمدی ) خدا کی راہ میں جھوٹ بولنا ثواب جانتے ہیں۔ چنانچہ سورہ صافات رکوع ۳ کی آیت کے نیچے عبدالقادر کے ساتویں فائدہ میں لکھا ہے کہ اللہ کی راہ میں جھوٹ بولنا عذاب نہیں ۔ بلکہ ثواب ہے۔
ہندو بھی ’’ دیدہ و دانستہ (جان بوجھ کر) رحم کی نظر سے جھوٹ بولنے میں سورگ سے نہیں گرتا ۔ اور اس کی بانی منو وغیرہ دیوتا کی بانی کے برابر سمجھتے ہیں۔ جہاں سچ بولنے سے برہمن ۔ کشتری ۔ ویش ۔ شودر قتل ہوتا ہو۔ وہاں جھوٹ بولنا سچ سے بھی اچھا ہے۔ شاستر منوا دہيا ء ۸۔ اشلوک ۱۰۳، ۱۰۴۔
مگر تعلیم بائبل دید ہ و دانستہ کسی حالت میں جھوٹ بولنے کی مطلق اجازت نہیں دیتی ہے۔ بلکہ ہر حالت میں جھوٹ بولنے پر مندرجہ ذیل فتویٰ ظاہر کرتی ہے یعنی ’’ وہ جو دغا باز ہے میرے گھر میں ہر گز نہ ر ہ سکے گا۔ اور جھوٹ بولنے والا میری نظر میں نہ ٹھہر ے گا‘‘۔ زبور ۱ ۱۰: ۷ جھوٹے لبوں سے خداوند کو نفرت ہے۔ پروہ جو راستی سے کام رکھتے ہیں اس کی خوشی ہیں ۔ امثال ۱۲: ۲۲ ‘‘ سارے جھوٹوں کا حصّہ اُسی جھیل میں ہو گا ۔ جو آگ اور گندھک سے جلتی ہے۔ مکاشفہ ۲۱ : ۸ ۔ اے خداوند تیرے خیمہ میں کون رہے گا۔ اور تیرے کوہ مقدس پر کون سکونت کرے گا۔ وہ جو سیدھی چال چلتا ۔ اور صداقت کے کام کرتا ہے۔ اور دل سے سچ بولتا ہے ۔ زبور ۱۵: ۱، ۲ ۔
۱۱۔ ( نماز کی بابت ) قرآن میں مذکور ہے ’’ محافظت کرو اوپر نمازوں کے۔ اور نماز بیچ والی پر ۔ یعنی عصر ۔ اور کھڑے ہو واسطے اللہ کے چپکے ۔ سورہ البقر رکوع ۲۱ ۔ ’’ پس جب تمام کر چکو نماز کو۔ پس یاد کرو اللہ کو کھڑے یا بیٹھے ۔ اور اوپر کروٹوں اپنی کے ۔ پس جب آرام پاؤ پس تم سیدھی کرو نماز کو ۔ تحقیق نماز ہے ۔ اوپر مسلمانوں کے لگے ہوئے وقت مقرر کئے ہوئے۔سورہ النساء رکوع ۱۵۔
ہندو بھی بعض وقت سند ھیا ( جپ ) کرنا بہتر سمجھتے ہیں ۔ چنانچہ شاستر منو میں مذکور ہے۔ پر اتھ کال ( فجر ) گا ئتری کا جپ کرتا رہے۔ جب تک سورج کا درشن نہ ہو ۔ اور اسی طرح سائین کال ( شام ) میں جب تک تارے نہ دکھلائی دیں۔ پر اتھ کال کی سندھیا کرنے سے رات کا پاپ چھوٹ جاتا ہے ۔ اور سائیں کال کی سندھیا کرنے سے د ن کا پاپ چھوٹ جاتا ہے۔ جو آدمی دونوں وقت کی سندھیا نہیں کرتا وہ شودر کی طرح د وج کرم سے باہر ہو جاتا ہے۔ ادہیاء ۲اشلوک ۱۰۱سے ۱۰۳ تک۔
کلام خُدا بائبل سے ظاہر ہے کہ نماز کرنے کا دستور قدیم سے چلا آتا ہے یہودی بھی نماز کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ چنانچہ زبور ۹۵ : ۶ میں مذکور ہے ’’ آؤ ہم سجدہ کریں ۔ اور جھکیں اور اپنے پیدا کرنے والے خداوند کے حضور گھٹنے ٹیکیں ‘‘۔ انجیل مقدس میں بھی مذکور ہے ۔ اور جب تو دُعا مانگے ریاکاروں کی مانند مت ہو ۔ کیونکہ دہ عبادت خانوں میں اور راستوں کے کونوں پر کھڑے ہو کے دُعا مانگنے کو دوست رکھتے ہیں تا کہ لوگ انہیں دیکھیں ۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا بدلا پا چکے ۔ لیکن جب تو دُعا مانگے اپنی کوٹھر ی میں جا۔ اور اپنا دروازہ بند کر کے اپنے باپ سے جو پوشدگی میں ہے دُعا مانگ ۔ اور تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے ظاہر میں تجھے بدلا دے گا۔ اور جب دُعا مانگتے ہو غیر قوموں کی مانند بے فائدہ بک بک مت کرو ۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ زیادہ گوئی سے ان کی سُنی جائے گی ‘‘۔ متی ۶ : ۵۔ ۷ تک پھر رسول فرماتا ہے دُعا مانگنے میں مشغول (مصروف) اور اُس میں شکر گذاری کے ساتھ ہوشیار رہو ۔ کلسیوں ۴: ۲ پس اس لئے مسیحی لوگ بھی دعاؤں (نمازوں ) میں اکثر مشغول رہتے ہیں۔ کیونکہ ضروری بات ہے۔
بے شک محمدی نماز کا یہ قاعدہ کہ جماعت کے بہت سے لوگ فراہم ہو کر دُعا نماز کرتے ہیں۔ ایک عمدہ اور اہل ِکتاب کے موافق قاعدہ ہے۔ مگر اُن کی نماز کی منشاء (مرضی)وہی ہے۔ جو ہندؤں کا ہے یعنی نمازوں کے ذریعہ آدمی نیک ہے اور گناہ ( پاپ ) سے جھوٹ جائے۔ یا ثواب حاصل کرے کہ مسیحی نمازوں کا یہ منشاء نہیں ہے۔ بلکہ یہ کہ آدمی پہلے نیک ہو ۔ یا بنے تا کہ خدا کی شکر گذاری ادا کر سکے۔ اور اُس کے ساتھ دُعا میں ہم کلام ہو کر خوشی حاصل کرے۔ پس محمدی ہندوؤ ں کی نمازیں انسان کے پاک ہونے اور ثواب پانے کا ایک ذریعہ خیال کی جاتی ہیں۔ مگر مسیحی نمازیں نجات یا فتہ لوگوں کی شکر گذاری سمجھتی جاتی ہیں۔ جو ضروری ہے۔
۱۲۔ ( بہشت کی بابت ) قرآن میں مذکور ہے ’’ اور خوشخبری دے اُن لوگوں کو کہ ایمان لائے ۔ اور کام کئے اچھے یہ کہ واسطے اُن کے بہشت میں جلتی میں نیچے اُن کے سے نہریں ‘‘ سورہ البقر رکوع ۳ ۔ مگر بندے اللہ کے خالص کئے گئے یہ لوگ واسطے اُن کے رزق ہے معلوم میوے اور وہ عزت دیئے جائیں گے ۔ بیچ باغوں نعمت کے اوپر تختوں کے آمنے سامنے پھرایا جائے گا اوپر اُن کے پیالہ شراب لطیف کا ۔ سفید مزہ دینے والی پینے والوں کو ۔ نہ بيچ اس کے خرابی ہے۔ اور نہ وہ اسکو بے ہودہ کہیں گے۔ اور نزدیک ان کے بیٹھی ہو ں گی نیچے رکھنے والیاں خوبصورت آنکھوں والیاں گویا کہ وہ انڈے ہیں چھپائے ہوئے ‘‘ سورہ الصافات رکوع ۲۔
پس بہشت کی بابت ایسا ہی کم و بیش ذکر قریباً ۲۸ یا ۲۹ جگہ قرآن میں مذکور ہے۔ مگر کسی آیا ت بہشتی میں کہیں یہ مذکور نہیں ہے۔ کہ بہشت میں خدا اُن کے ساتھ ہو گا۔ اور مومنين اس کے چہرہ پر نظر کریں گے۔ اور اس کی ستائش و تعریف میں ابد الا ٓباد مشغول رہ کر لاثانی خوشی حاصل کریں گے۔
ہندوؤں کے خیال موافق پر لوگ کا آنند صرف یہ ہے۔ کہ آدمی اپنی بھول وبھرم سے چھوٹ کر جس کا نتیجہ کرم کے سمان آواگوں میں حاصل کرتا رہتا ہے۔ گیان حاصل کر کے ’’ سب جانداروں میں آتما کے وسیلہ کو دیکھتاہے۔ اور سمدرشی ہو کر بڑی برہم پددتی کو پاتا ہے‘‘۔ ( شاستر منوا دہیا ء ۱۲ ۔ اشلوک ۱۲۵ ) یعنی پر میشور میں لین ( وصل ) ہو جاتا ہے اور بس ۔
مگر انجیل مقدس میں ا س پاک بہشت اور اُس کی لاثانی (بے مثل) خوشی کی بابت لکھا ہے کہ خدا نے اپنے محبوب کے لئے وہ چیزیں تیار کیں۔ جو نہ آنکھوں نے دیکھی ۔ نہ کانوں نے سُنی۔ اور نہ آدمی کے دل میں آئی ۔ بلکہ خدا نے اپنی روح کے وسیلے ہم پر ظاہر کیا۔ ۱ کرنتھیوں ۲: ۹۔ جس کی خواہش میں اس کے سچے مومنین مرنے تک مستعد رہتے ہیں ۔یوں ظاہر کیا ۔ ’’ یسوع نے جواب میں اُن سے کہا تم نوشتوں اور خدا کی قدرت کو نہ جان کر غلطی کرتے ہو۔ کیونکہ قیامت میں لوگ نہ بیاہ کرتے نہ بیاہے جاتے ہیں۔ بلکہ آسمان پر خدا کے فرشتوں کی مانند ہیں ۔ متی ۲۲: ۲۹ ، ۳۰ ۔
۱۔ بہشت میں خدا اپنے مقدسوں کے ساتھ سکونت کرے گا۔ مکاشفہ ۲۱: ۳ ۔
۲۔ بہشتیوں کی خوشی ۔ مکاشفہ ۷: ۱۶، ۱۷ اور ۲۱: ۴، ۲۵۔
۳۔ بہشتیوں کا کاروبار۔ اس کے چہرہ پر نگاہ رکھنا مکاشفہ ۲۲ : ۴ ۔ اور ابدلآ باد اس کی ستائش و تعریف کرنا ۔ مکاشفہ ۴: ۱۰، ۱۱ ۔اور ۱۹ : ۶۔
ہر سہ مذاہب کی تعلیم بہشتی مذکورہ بالا کی بابت ناظرین خود انصاف کریں۔ کہ کون سی تعلیم عقلاً و نقلاً انسانی درجہ اور خدا کی شان کے موافق ظاہر ہوتی ہے۔ کیا وہ جس میں صرف نفسانی خیالات موجود ہیں۔ جو بغیر جسم اُس قدوس کے حضور میں محض بے مطلب ۔ اور اس کی قدوسیت کے خلاف ہیں۔ یا وہ جس میں اپنے خالق قادر مطلق کے اندر و صل ہو جانا ۔ جو انسان کے لئے محال بلکہ ان ہونا ہے ’’ چہ نسبت خاک رابعالم پاک ‘‘ مگر ہاں وہ جس میں ہمیشہ اس کے حضور حاضر رہ کر ابدالآباد اس کی تعریف کرنا اصلی و سچی خوشی ظاہر ہوتی ہے۔ باقی آئندہ
1
۱۔مثلاً احکامات توریت جس کا عمل میں لانا خاص قوم یہود کو فرمایا گیا تھا۔ اور اگرچہ قوم یہود منکر و مخالف مسیح کے ہے۔ تو بھی اُن کے کل احکامات شرعی سے اس کے ارادہ ازلی کی پوری تشبہہ و علامتیں ظاہر ہوئیں۔ جن کا اصل اصول اور پوری کاملیت کا ذخیرہ انجیل مقدس میں موجود ہے۔ [1]
[2] ۔ الفاظ ترجمہ طلاق سہ بارہ سے مطلب صاف سمجھ میں نہیں آتا ۔ جس کا مطلب یہ ہے ۔ کہ اگر کوئی مرد محمدی اپنی جو رو پر لفظ طلاق کا تین بار بولے تو نکاح بالکل ٹو ٹ جاتا ہے۔ اور پھر وہ آپس میں جو رد خصم نہیں ٹھہر سکتے ۔ جب تک کہ عورت کسی غیر سے نکاح کر کے اور ہم بستر ہو کے اور اُس سے طلاق لے کر نہ آئے ۔ اور شوہر سابق سے پھر نکاح نہ کرے ۔ ( تعلیم محمدی بیان طلاق مغلظ صفحہ ۱۷۸۔