Cast and its Worse Results
By
One Disciple
Published in Nur-i-Afshan July 13,1894
نور افشاں مطبوعہ ۱۳جنوری ۱۸۹۴ ء
لفظ ذات جو خصوصاً ہمارے ملک ہند میں خاص ہندو فرقوں پر استعمال کیا جاتا ہے۔ بقول ایک بزرگ وعالم پادری صاحب کے وہ لفظ ذات نہیں ہے۔ جس کے معنی حقیقت یا ماہیت کے ہیں۔ بلکہ جات ہے۔ جس کو خاص برہمنوں نے ایجاد کیا۔ اور جس کی پابندی صرف کھانے ،پینے یا بعض کی چُھوٹ پر ٹھہرائی گئی ہے۔ ذات ِانسانی صرف ایک ہی ذات ہے۔ کیونکہ شروع میں خُدا نے ایک آدم کو پیدا کیا ۔ جس کی اولاد تمام روئے زمین پر موجود ہے۔ جن کو انسان کہتے اور ان سب کی حقیقت یا ماہیت ایک ہی ہے۔ دوسری نہیں۔
بے شک حیوانوں اور چرند، پرندوں میں بہت ذاتیں ہیں۔ جو ان کی پیدائش مختلف حالت و حقیقت سے بخوبی تمیز کی جاتی ہیں۔ ایسا کہ ایک ذات کو دوسری ذات کوئی خیال نہیں کر سکتا اور نہ پکار سکتا ہے۔ مثلاً ہاتھی کو اُونٹ یا اُونٹ کو گدھا کوئی تصور نہیں کر سکتا ۔ مگر کُل روئے زمین کے کسی ملک کے کسی انسان کو کبھی کوئی حیوان تصور نہیں کر سکتا ۔ بلکہ انسان ہی کہا جاتا ہے۔
پھر دُنیا کے کسی کسی ملک میں اس کی حالت و آب و ہوا کے موافق اگر ایک قسم کے جانور ہیں۔ تو دوسرے ملک کی بر عکس حالت (مختلف حالت) کے موافق اس میں دوسری قسم کے بالکل مختلف جانور پائے جاتے ہیں۔ مگر انسان ہر ملک میں چاہے وہ کیسی ہی حالت کا کیوں نہ ہو۔ ایک ہی حقیقت یا ماہیت کے موجود ہیں کبھی کوئی دوسری ماہیت نہیں دیکھی گئی۔ کہ کسی انسان کے کبھی کوئی دم یا سینگ ،یا ہاتھی کی سی سونڈ ، یا اُونٹ کے مانند لمبی گردن ہو۔
بے شک بعض ملکوں کی سردی گرمی و آب وہوا کے سبب اکثر رنگ روپ اور بعض برتاؤوخاصیت میں کچھ کچھ فرق ہو گا۔ مگر اس کے سبب کوئی انسان کبھی حیوان ہرگز خیال نہیں کیا جا سکتا ۔ اور نہ ہو سکتا ہے۔ جات ماننے والے ہندؤ وں کو نہ صرف غیر سے۔ بلکہ خاص اپنے دوسرے ہندو لوگوں سے ان کی جات دریافت کرتے ہوئے اکثر سنا جاتا ہے۔ جو ان کے نادان خیال کا صریح(واضح) ثبوت ہے۔ اگر جات کوئی قدرتی حقیقت جدی (موروثی) ہوتی ۔ تو اس کا دریافت کرنا کیا ضروری امر ہو تا؟ بلکہ جس طرح ہر جاندار حیوان کو اس کی حقیقت یا ماہیت (اصل) سے بلا دریافت معلوم کر سکتے ہیں۔ اسی طور انسان کی جات کو بھی مختلف ہیئت (بناوٹ،شکل)سے پہچان سکتے تھے۔ مگر ایسا ہرگز نہیں ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ کہ شہر دہلی میں ایک چمار(چمڑا بنانے والے،موچی)نے دُور ملک سے آکر اپنے تئیں بنیاں (آٹا ،دال بيچنے والا) ظاہر کیا۔ اور کچھ عرصہ تک بنیوں کے ساتھ خلط ملط (ملا جُلا) رہا ۔ جب تک کہ راز خود فاش(ظاہر) نہ ہوا۔ کیونکہ کوئی جات کی علامت اس پر نہ تھی۔
روئے زمین پر خیال کرنے سے ظاہر ہوتا ہے۔ جس پر بعض مذاہب بھی نامزد ہیں۔ جن کو انسانی ذاتیں نہیں۔ بلکہ ایک ایک قوم یا گروہ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ اکثر ممالک مسیحی کہلاتے بعض محمدی اور ہندو وغیرہ ۔ یہاں اس امر پر بحث کی ضرورت نہیں ہے۔ کہ مذکورہ مذاہب میں کون مذہب اصلی یا کون نقلی اور کون صرف عقلی ہے۔ بلکہ ضرورت صرف یہ ہے۔ کہ ان مذاہب میں بعض بعض فرقے بھی شمار کئے جاتے ہیں۔ اور کسی کسی ملک میں علاوہ فرقوں کے غیر مذہب کے لوگ یا لا مذہب بھی موجود ہیں۔
تاہم کسی ملک میں ان مذہبی فرقوں کو جات نہیں پکارا جاتا۔ یا کسی مذہب یا غیر مذہب کے ساتھ کھانے پینے یا کسی کی چھوت کی مطلق کوئی تمیز نہیں کرتا ہے۔ مگر ہمارے ملک ہند کے ہندو فرقوں میں حالتوں کی ایسی تفریق صرف خُود غرض برہمنوں سے ٹھہرائی گئی ہے۔ جس میں انہوں نے ورنوں(رنگ ،نسل،قسم) کی تمیز کے موافق اپنے تئیں اُ تم ( افضل ) پر تھوی کا دیوتا ۔ بلکہ پر میشور کا سروپ(صورت،شباہت) اور سب چیزوں کا مالک ٹھہرا لیا۔ اور باقی ورنوں کو درجہ بدرجہ پابند کر کے آخر ورن کو ایسا حقیر و ذلیل ٹھہرایا ۔ کہ سوائے غلامی کے اور کسی امر میں اس کا ادہیکا ر(حق) نہ رکھا ۔ بلکہ اس آخر ورن والے شدروں کی جان و مال کے خود مالک بن بیٹھے ۔ جس کا برتاؤ قانوناً توڑا گیا ۔ اور حیرت کی بات یہ ہے۔ کہ اس ملک ہند کے اکثر محمدی بھی اپنی شریعت کے محض خلاف صرف ہندوؤں کی دیکھا دیکھی جات کی تمیز کر کے بعض لوگوں اور خصوصاً ہم مسیحیوں کے ساتھ کھانے پینے سے پرہیز کرنے لگے ۔ جس کا دیگر ممالک محمدیہ یا ملک چین میں بھی جو ہندو کہلاتا ہے۔ مطلق (بالکل)خیال نہیں کیا جاتا ۔ بلکہ ہمارے ملک ہند کے ایسی جات کی تمیز سن کر دوسرے ممالک کے لوگ اس پر صرف ہنستے اور قہقہہ مارتے ہیں جس کی کیفیت ان لوگوں سے جو کسی غیر ملک کی سیر کر چکے ہیں بخوبی معلوم ہو سکتی ہے۔
جات کے نتائج
اکثر ہندوصاحبان اثنا ئے گفتگو(گفتگو کے دوران ) میں بڑے فخر سے کہا کرتے ہیں کہ ہمارے ملک ہند سے دنیا کے کل علوم ایجاد ہوتے ۔ اور کہ ہمارے بزرگ ایسے ایسے عقل مند و دانا تھے وغیرہ وغیرہ۔ ان کے ایسے خیالوں کو سننے اور اُن لنترانیوں(شیخی۔ڈھینگ) پر غور کرنے سے صرف اس قدر ظاہر ہوتا ۔
کہ ان صاحبان کو اپنے بزرگوں کی ایسی عقل مندی و دانائی کے خیالوں اور انتظاموں سے اب تک مطلق واقفیت نہیں ہوئی ۔ جن کے کیسے کیسے قبیح (گھنونے) نتیجے ظاہر ہوئے۔ ورنہ ایسا کہنے میں کچھ تامل(فکر،سوچ بچار) ضرور کرتے ۔ جن کی عقل و دانائی کا نتیجہ ایک جات کا بند ھن ہے جس کے بد نتائج پر کس قدر افسوس آتا ہے۔
اوّل چارورن ٹھہرائے ۔ اور پھر ان چار ورنوں میں چھتیس ۳۶ جاتیں کہلائیں۔ اور رفتہ رفتہ ان چھتیس جاتوں میں بطور شاخوں کے بے شمار جاتیں پھوٹ نکلیں ۔ جن کا کل حصر (منحصر) صرف ایک دوسرے کے ساتھ کھانے ، پینے اور چھوت پر ٹھہرایا گیا ۔ کہ جس کے سبب ایک جات کے آدمی نے دوسری جات کے آدمی سے مطلق علیحدگی اختیار کی۔ اور ایک دوسرے کو حقیر و ذلیل سمجھ کر اور صرف اپنی ہی بڑائی و بہتری چاہ کر ہر دوسرے کی بربادی چاہی۔اور اس طرح ہر ایک جات میں پھوٹ و نااتفاقی پید ا ہو کر انسانی و ملکی محبت جو جو ہرِ انسانی ہے۔ ایک دوسرے کے دل سے مطلق محو(دور) ہو گئی۔ اور بجائے اس کے ہر ایک کے دل میں بے اعتمادی قائم ہوئی۔ کہ جس کو معلوم کرکے غیر ممالک کے لوگوں نے اس ملک پر حملہ کر کے فوراً اس کو زیر کر لیا۔ اور ملک کے باشندوں کو اپنا محکوم اور مطیع (طابع دار)کیا۔
دیگر ممالک روئے زمین پر سو چو اور غور کرو۔ جہاں ایسی فضول جات اور کھانے ،پینے و چھوت کا مطلق خیال بھی نہیں ہے۔ کہ جس کے سبب پھوٹ اور نا اتفاقی کا باعث ہوتا ۔ کہ وہاں کے آدمی اپنے اپنے ملک کے خود سر حاکم بنے ہوئے ہیں۔ ہم ہندوستانی محکوم ۔ دوسرے لوگ اپنے اپنے ملک کا حاصل اپنے ملک کی بہتری اور اپنے آرام و بھلائی میں صرف کرتے ۔
مگر ہم ہندوستانی دوسروں کو دے دیتے ہیں۔ دوسرے ممالک کے لوگ ہم پر حملہ کر کے غالب ہوتے ۔ ہم مغلوب بلکہ ہر حالت میں مغلوب ہو گئے ۔ الغرض جو کچھ بربادی و خرابی کے نشان ظاہر ہوئے ۔ وہ سب اسی کمبخت جات کے بندھن کا پھل ہیں۔ جس پر دوسرے ممالک کے لوگ قہقہہ مارتے اور صرف ایک جہالت کا ملک خیال کرتے ہیں۔ جائے غور ہے کہ ابتک بھی اس ملک کے بہت سے لوگ اس جات کے مذموم(خراب) بندھن سے مطلق(بالکل) بے خبر ہیں۔ اور اس پر مطلق نہیں سوچتے ۔ اگرچہ چند ملک کے عقیل(عقل مند) و دانا آدمیوں نے اس امر قبیح پر خیال کر کے اس بندھن کو توڑنے کی کوشش بھی کی ۔ جس کے لئے برہمو سماج ظاہر ہوئے ۔ دیود ہر می اُٹھے۔ مگر سنتا کون ہے؟ وہ بے چارے چیخ چیخ کر تھک گئے۔ بلکہ بعض مطعون(رسوا) ہوئے۔ اور اب بھی اگرچہ اکثر فار مرس (اصلاح کرنے والے)اس ملک کے فائدہ بہتری کے خیال سے اُٹھتے ۔ اور اپنی اپنی عقل و دانائی سے ملکی اصلاح کے لئے بہت کچھ زور دے رہے ہیں۔ کہیں کانگرس قائم ہوتی ۔ کہیں ليکچر دئیے جاتے ۔ اور اخبارو ں کے ذریعہ اصلاحیں ہوتی ہیں۔ مگر خوب جانتے ہو سب با لائی انتظام ہیں۔ جب تک اس کمبخت جات کے کھانے ۔ پینے و چھوت کا بندھن اس ملک میں موجود ہے۔ تب تک ایسے بالائی انتظاموں سے چاہے وہ کسی قدر کوشش و دانائی سے کیوں نہ ہوں۔ وہ حقیقی ہمدردی اور ایک دوسرے کی بہتری و بھلائی کا خیال جو خُدا اور انسان دونوں کو مطلوب ہے۔ ہرگز پیدا نہیں ہو سکتا ہے۔ کیونکہ وہ عادل و منصف خُدا ۔ جو کسی کے کچھ کھانے پینے یا ظاہر پر مطلق خیال نہیں کرتا ۔ کیونکہ یہ طبعی بات ہے۔ جس سے صرف جسم کی صحت قائم رہتی ہے۔ جس کی طبیعت چاہے سو کھائے یا نہ کھائے ۔
مگر وہ ذوالجلال اور پُر محبت خُدا دلوں کا جانچنے والا ۔ اور ہر ایک کو کام کے موافق ٹھیک ٹھیک بدلا دینے والا ہے۔ جو کمزوروں کو زور بخشتا ۔ اور نادانوں کو دانا بناتا ہے۔ بشرطیکہ اس کی مرضی کے طالب ہوں ۔ کیا ہم صاحبان انگریز کی تواریخ پر خیال نہیں کر سکتے ۔ کہ کیا تھے اور کیا ہو گئے؟ صرف اسی کی مہربانی سے ۔ کیونکہ انہوں نے اس کے حکم و مرضی کو فوراً قبول کیا۔ اور خُدا نے بھی ان کو اپنی برکتوں سے مالا مال کیا ۔ برخلاف اس کے دوسرے لوگوں کے نتیجہ پر ۔ جنہوں نے اس کی مرضی کو عدول کیا۔ لوگوں میں تفرقہ ڈالا ۔ اور انسانی ہمدردی و محبت کو ٹھنڈا کیا۔ اور اخلاق کا ستیاناس کر کے جو رو ظلم کو روا رکھا ۔ جس کا زور شور ایک وقت حد درجہ تک پہنچا ۔ ہر کوئی سوچے و معلوم کرے۔ تو بھی خُدا کا شکر گزار ہونا نہایت ضرور ہے۔ کہ اس نے اپنی مہربانی سے ایک ایسی ہمدرد بے تعصب گورنمنٹ ہمارے اوپر قائم کی۔ جو نہ صرف اپنے بلکہ ہمارے فائدہ کا زیادہ خیال کر کے ہماری بھلائی و بہتری میں مصروف ہے۔ ورنہ اب تک جو ہوتا ۔ غور کر و ۔ جائے افسوس ہے۔ کہ باوجود شکر گزار ہونے کے پھر بھی کوئی اس کو مليکچہش گورنمنٹ کہتا ۔ اور کوئی کا فربتلاتا ہے۔ مگر اسی کی کمائی کی بدولت آج یہ نصیب ہوا کہ ہر رفامر(اصلاح کرنے والا) اپنی اپنی خیالی دہن(منہ) میں آزاددانہ لگا ہوا کو شش کر رہا ہے۔ اور کوئی کسی کا مزاحم (مزاحمت کرنے والا)نہیں ہو سکتا ۔ کیونکہ اس منصف گورنمنٹ نے جو ہمارے سر پر ہے ۔ خُدا کے کلام سے یہ سیکھا ہے کہ ’’ مبارک وہ جو صُلح کار ہیں ‘‘۔
پس وہی رحیم خُدا جو اپنے وعدہ میں وفا دار اور بے تبدیل ہے۔ اور جس نے دوسرے لوگوں کو اپنی برکتوں سے مالا مال کیا ۔ کیا ہم کو اپنی برکتوں سے محروم رکھ سکتا ہے؟ ہر گز نہیں بلکہ وہ ہر وقت ہر ایک کو برکت دینے پر تیار ہے۔ اگر ا س کے کلام پاک پر غور و عمل کریں۔ جو فرماتا ہے ۔ بلکہ تم پہلے اُس کی بادشاہی اور اُس کی راستبازی کی تلاش کروتو يہ سب چيزيں بھی تم کو مل جائيں گی ۔متی ۶ : ۳۳۔