الثالوث الاقدس

Eastern View of Jerusalem

Holy Trinity

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan October 18,1895

نور افشاں مطبوعہ۱۸اکتوبر ۱۸۹۵ ء

گذشتہ  مضمون میں ہم نے مسئلہ  ثالوث(خُدا کی وحدانيت کی تين شاخيں۔باپ،بيٹا،روح القدس) کا ایک عقلی ثبوت  دینے کی کوشش  کی تھی۔ اب اسی سلسلہ  میں دوسری کوشش کی جاتی ہے۔  یادرہے  کہ یہاں ہمارا کام عقل  ِاِنسان سے ہے۔ ہم یہ دریافت  کر رہے ہیں  کہ آیا عقلِ  اِنسان کے نزدیک  تثلیث(تين حصوں ميں تقسيم۔باپ ۔بيٹا۔رُوح القدس)  کا کوئی  ثبوت ممکن ہے یا نہیں   ۔ خُدا اپنے  آپ میں کیا  اور کیسا  ہے  اس کو تو عقل کبھی  پہچان   بھی نہیں سکتی  ۔ بحث  یہ ہے کہ  عقلِ  اِنسانی   جو خیالات   اس پاک  ذات  کی بابت رکھتی  ہے اس میں تثلیث  کی گنجائش ہے یا نہیں  ۔مخالفانِ ثالوث  عموماً ایک ایسے  یقین  اور تنگ  دماغی   کے ساتھ بحث  کرتے  ہیں جس سے معلوم  ہوتا  ہے۔  کہ گویا خُدا کوئی شے ہے  جو انہوں  نے اپنی مٹھی  میں بند کر رکھی  ہے۔ اور جب ہم کہتے  ہیں کہ تین  اقانیم(اقنوم کی جمع۔مقدس تثليث کے افراد)  ہیں تو وہ اپنی مٹھی  کھول کر ہمیں دکھلاتے ہیں اور  کہتے  ہیں واہ  یہاں تو ایک  ہی ہے ۔یہ محض  گستاخی اور دماغ  کی تنگی  ہے۔ اگر خُدا  واحد محض ہے تو ہماری محض گستاخی اور دماغ  کی تنگی ہے۔ اگر خُدا  واحد محض ہے تو ہماری  عقل سے بعید  (دور)ہے ۔اور اگر  وہ واحد  فی  الثالوث  ہے تو ہماری عقل سے بعيد  ہے۔ بحث اس بات سے  ہے کہ عقلِ  اِنسانی اپنے تنگ  دائرے  کے اندر  اور اپنی کوتاہ  قدی(چھوٹا قد) سے ثالوث  کی طرف  اشارہ کرتی  ہے یا محض  توحید (خُدا کو ايک ماننا)کی طرف  ۔ اور  سچ پوچھو   تو اصلی  حقیقت  ایک تنکے  کی بھی ہم جان  نہیں سکتے ۔

اِنسانی عقل  اور فلسفہ  پکار پکار  کر کہہ رہا ہے ۔ کہ ایک شخص  جو محض  واحد ہے  اپنی ہستی  سے واقف نہیں ہو سکتا ۔ میں اِنسان تبھی  کہہ  سکتا   ہے کہ جب میں کے مقابلے  میں تُو موجود  ہو یا  تُو کا خیال ہو ۔ اس کی مثال یوں ادا ہو سکتی  ہے  ۔ ایک آدمی  کا خیال  کرو جو اندھا بہرا گونگا  یعنی بغیر  حواس ِخمسہ کے پیدا ہو  تو ممکن نہیں۔  کہ اس کو یہ معلوم  ہو کہ میں  ہوں ۔ یہ مثال  ہم نے اس لے چُنی  ہے کہ ہمارا مطلب  فقط  اسی سےادا  ہو سکتا ہے  ۔ جس شخص  میں ایک بھی  حس ہو  وہ دوسری  شے کی موجودگی  سے واقف ہو کر اپنی ہستی  سے واقف  ہو سکتا ہے۔ ورنہ نہیں۔

اب ہمارا سوال  ہے کہ اگر خُدا ازل  سے محض  واحد ہے اور  دُنیا  کی پیدائش  سے پہلے اس میں اقانیم  ِثلاثہ  موجود  نہ تھی تو  اس کو کس  طرح معلوم ہوا کہ میں ہوں۔ اکیلی  شے  اِنسانی  عقل  کے نزدیک  نہیں کہہ سکتی  کہ میں ہوں۔  یا تو یہ مانو کہ  ہمیشہ  سے خُدا کے ساتھ کوئی اور غیر شے تھی جس کو دیکھ  کروہ کہہ رہا تھا  کہ میں ہوں اور یہ مانو  کہ دُنیا  کی پیدائش   سے پہلے   خُدا نہ  جانتاتھا  کہ میں ہوں۔ اگر ان دونوں میں سے  ایک حالت  بھی تسلیم کر لی جائے تو خُدا خُدا  نہیں رہتا ۔

اگر کوئی  اس کے  جواب میں کہے  کہ خُدا  اپنی ذات  ہی سے  اس کے مستغنی  (آزاد) ہونے کا اور کوئی وسیلہ  نہیں ۔

ایک تیسری  دلیل بھی ہم یہاں لکھتے ہیں ۔ خُدا کی صفات  بہت سی مانی گئی ہیں۔ لیکن  جتنی   اِنسانی عقل  میں آئی  ہیں چند ہی ہیں ۔ یعنی   علم  ،محبت ،قہر،  رحم عدل،  قدرت لیکن جب  بنظر غور  دیکھتے ہیں تو یہ صفات   دوررہ جاتی  ہیں۔ یعنی علم  اور محبت ۔ خُدا کا قہر  اس کی محبت کا ایک خاص قسم کاظہور ہے ۔ رحم اور عدل  کی بھی حالت ہے  اور اس  کی قدرت  بھی محبت  ہی کی قدرت ہے۔

اب علم دوسری شے کو نہیں چاہتا   مانی ہوئی بات ہے کہ اپنا  علم اپنی  ذات  کا پہچانا  سب سے اعلیٰ علم ہے ۔ نو دائی سلف  خُدا کے  علم  کو کسی دوسری  شے  کی حاجت  (ضرورت)نہیں  کہ اس کی معلوم  بنے۔ لیکن  محبت  کا یہ تقاضا ہے کہ وہ دوسری شے کو چاہتی ہے۔ اپنی محبت  خود غرضی ہے۔  پس اگر  مسئلہ  ثالوث  درست  نہیں تو خُدا  محبوب  کہاں تھا۔

اس کے جواب میں اگر  کوئی سوال  کرے کہ خُدا کےقہر  کا مقہور  اِنسان و شیاطین  کی پیدائش  سے پہلے کہاں تھا۔ تو ہم جواب  دیتے ہیں کہ اس  کاقہرتو اس کی محبت  ہی کا ایک خاص ظہور  ہے۔ وہ آدمی  کی طرح جنون  کر کے کسی کو  مارنے  یا  سز ا دينے  نہیں   دوڑتا۔ بلکہ اس کی محبت چاہتی  ہے کہ اگر اِنسان  نرمی  ورحم  سے درست نہیں ہو تو سختی  سے درست  کیا جائے  ۔

لیکن اگر کوئی  کہے  کہ ضروری  نہیں کہ اگر کسی شخص میں کوئی  طاقت ہے تو  ضرور  کوئی ایسی  شے بھی  اس کے پاس ہو  جس پروہ  اس طاقت  کو صرف  کرے۔ ہم اس کا جواب یہ دیتے ہیں  کہ کیا  عقل  میں آتا  ہے کہ خُدا  جو زمانہ  ازل  سے ہے  سستی  کے عالم میں رہا اور صرف  جب سے اس نے دُنیا  کو خلق  کیا تب ہی سے اس کی مختلف  طاقتیں اور صفات  کام میں آنے لگیں   ۔ عقل سے پوچھو کیا  جواب دیتی ہے۔

ایک اور دلیل  بھی لکھتے ہیں ۔خُدا غیر  محدود ہے اور اس کی صفات  اور طاقتیں  بھی غیر محدود ہیں۔  دُنیا محدود  اور اس کی طاقتیں اور قابلیتیں بھی محدود ہیں۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کسی مدرسہ میں ایک بڑے عالم  کو چھوٹے لڑکوں کو الف بے پڑھانے  کو بٹھادیا جائے تو کہا  جاتا ہے کہ اس عالم کی لیا قتیں  بے استعمال  پڑی ہیں۔پس یہ کیونکر عقلِ  اِنسانی میں آتا  ہے۔ کہ غیر   محدود خُدا کی  غیر محدود  صفات  اور قوتیں  سب اس محدود  دُنیا میں  صرف  ہو رہی ہیں۔  اور  یہ نہیں تو یہ مانو  کہ خُدا کی صفات  کاایک بہت   بڑ ا بلکہ  غیرمحدود  حصہ سست اوربیکار پڑا  ہے۔ عقلِ  اِنسانی  کے واسطے  یہ جاننا  ذرا دشوار (مشکل) ہے۔ اس سے یہ مان لینا آسان  ترہے۔ کہ زمانہ ازل  سے باپ کےساتھ بیٹا موجود  ہے جس میں باپ  اپنی ماہیت(حقيقت) کا نقش دیکھ رہاہے۔ جس کو باپ کی بے انتہا  صفات ملی ہیں اورجس سے باپ کی بے  انتہا  محبت کا تقاضا  پورا ہو رہا ہے۔ہم پھر  کہتے ہیں  کہ محض توحید  کی نسبت  توحید  فی الثالوث  کا ماننا اور عقل  میں لانا آسان  ترہے۔

Leave a Comment