تمہاری کمریں بندھی رہیں

Eastern View of Jerusalem

Be dressed ready for service

By

Pram Sukh

پرم سکھ

Published in Nur-i-Afshan Agust 2, 1895

نور افشاں مطبوعہ ۲اگست ۱۸۹۵ ء

چاہئے کہ تمہاری   کمر بند ھی رہے اور تمہارا  دیا  جلتا رہے   لو قا  ۱۲۔ ۳۵۔

مسیح  کہتا  ہے کہ میں نا گہانی  رات  کے وقت  جیسے دولہا  شادی  کے لئے  آتا   ہے   تم شاگردوں  کے پاس آؤں گا  خُداوند   ہم سب  مسیحیوں  کو حکم   دیتا ہے کہ تمہاری  کمر   بند ھی  رہے ۔  اور تمہارا  دیا جلتا ہے ۔

اوّل  ۔ ہم اس  پر غور   کریں  کہ کمر  باندھنا  کس کا کام  ہے۔ کیا ہر ایک جو اپنا اپنا  کام کرتے ہیں وہ کمر باند  ھے  کے نہیں کرتے  ۔ ہاں اس دنیا میں دیکھنے  میں آتا  ہے کہ ہر ایک  اپنا  اپنا   کام کمر  باندھے کے کرتے ہیں پھر کمر  باندھنے  سے ہی  مراد نہیں  ہے کہ کوئی کپڑے   یا چمڑے  سے کمر باندھے بلکہ یہ  مراد  ہے کہ ہر ایک اپنے  کام  میں دل و جان سے  مشغول   رہتے ہیں  یہ  ہی   کمر باندھنا  ہے۔  اب سوال   لازم  آتا ہے کہ ہماری  کمریں  کس چیز  سے بندھی رہیں   یعنی  کون سے کمر بندے بندھی  رہیں کلام  پاک میں بہت  سے کمر بندوں کا بیان ہے میں یہاں   پر  چند کمر  بندوں  کا  بیان تحریر  کرتا ہوں۔ 

اوّل  ۔وفاداری  کا کمر بند۔ دوئم  صلح  کا کمر بند ۔سوئم  سچائی  کا کمر بند ۔چہارم  محبت کا کمر  بند۔ کہ  وہی کمال  کا کمر بند ہے۔  پس رسول  کی اصطلاح  میں کمر کسنے کے معنی  تیاری  اور چستی  اور سرگرمی اور مستعدی(تياری)  ہے ۔ 

 ۱۔ وفاداری   کا کمر بند اس سے مراد ہے  امانت داری اور ہم سبھوں  کو چاہیے  کہ ہم سب  اپنے کام کاج  میں وفادار  رہیں   دیکھو اس  کی  بابت خُداوند  مسیح نے  کیا کہا  ہے متی  ۲۴: ۴۴ سے آخر  تک یوں مرقوم  ہے پس کون  ہے وہ دیانت  دار  اور ہوشیار  خادم  جسے   اس کے خُداوند  نے اپنےنوکروں  چاکروں  پر مقرر   کیا کہ وقت  پر انہیں   کھانا  دے مبارک  وہ خادم  ہے جسے اس  کا خُداوند اگر  ایسا ہی  کرتے  پائے۔ 

 ۲۔ صُلح کے بند  سے بندھی  رہے افسیوں  ۴: ۳ یہاں پر  صُلح   کے بند سے  مراد ہے  روح کی یگانگت  جو ہم سبھوں  کو خُداوند  مسیح سے ملی ہے کہ اس ُروح  سے ہم سب ایک دل ہوتے  ہیں تب  جو کام ہم  لوگ  کرتے ہیں کامیاب  ہوتے ہیں پھر  ہمارے  خُداوند  مسیح  نے خود کہا کہ تم ایک  دل ہو۔ کیونکہ  ہم دیکھتے  ہیں۔ کہ ایک دل ہونے  سے لوگوں نے  کیا کیا  بڑے کام  کئے ہیں دیکھو  نحمیاہ  کے  بیان سے ہم کو  کتنی  بڑی  تسلی ہوتی ہے۔  جب نحمیاہ  نے دیکھا  کہ یروشلیم  اُجڑا  پڑا ہے  اور اُس  کے پھاٹک  جل گئے تب  اس نے شہر کے لوگوں  سے کہا کہ آؤ  ہم یروشلیم   کی شہِر پناہ   بنائیں  وہ بولے   چلو  ۔سو اس اچھے  کام کے لئے  انہوں نے اپنے ہاتھوں  کو مضبوط  کیا دیکھو ان لوگوں  نے کیسی  دلیری  کے ساتھ  اپنا  کام کیا کہ ایک ہاتھ  میں تلوار  اور دوسرے   ہاتھ میں  اینٹ  مصالحہ  وغیرہ  اس دلیری  کے ساتھ  ان لوگوں   نے اپنا  کام  کیا۔

’’ساری باتوں کو آزماؤ ۔ بہتر کو اختیار کرو ‘‘ ۔۔

 ۳۔ سچائی کا کمر بند۔  اس کے حق میں پولوس  رسول یوں  فرماتا  ہے۔ اس لئے تم اپنی کمر  سچائی  سے کس کے اور راست  بازی  کا بکتر  پہن کے  افسیوں  ۶: ۱۴ ۔ یہاں پر سچائی  سے مراد  خُدا کا کلام  ہے دیکھو   یوحنا  ۱۷: ۱۷ میں یوں  تحریر  ہے۔ انہیں  اپنی سچائی  سے پاک  کر تیرا کلام  سچائی  ہے پھر اسی  کتاب کے باب  ۸: ۳۴ میں خُداوند  مسیح فرماتا  ہے کہ تم سچائی کو جانو  گے اور سچائی   تم کو آزاد  کرے گی ۔ پھر سچائی  سے یہ مراد  ہے مسیح کی تعلیم  یعنی وہ سب  کلام جسے اس نے کلمہ  ہو کر جہان پر آشکار(ظاہر )  کر دیا ۔ اور جو ہمارے  واسطے  انجیل میں مندرج  ہے وہ اس واسطے  سچائی  کہلاتی  ہے۔ کہ بالکل  سچ اور سب سچی  باتوں میں افضل اور مقدم  ہے یہ کلام ِحق  اس کے ماننے  والوں  کو آزاد  کر دیتا  ہے یعنی شیطان  اور گناہ کی غلامی  سے آزاد  کرتا ہے۔ جو شخص  گناہ  میں پھنسا  اس کا حال غلام  کی طرح ہے کہ وہ شیطان  اور اپنے بُرے  دل کو ترغیبوں  (لالچ۔بہکاوا)اور رغبتوں  (خواہشوں)کے تابع ہے اور اپنی  اِن زنجیروں  کو توڑ  نہیں سکتا۔  مگر مسیح  کی خوشخبری  ان زنجیروں  کو توڑ  دیتی اور گناہ  کے غلاموں  کو آزاد  کر دیتی  ہے ۔پس چاہیے  کہ جو مسیح  کے سپاہی  ہیں  تو اس ہی سچائی  سے ہماری  کمر بند ھی رہے اور اپنے  خُداوند  کی راہ  تاکتے رہیں  ۔

 ۴۔ محبت کا کمر  بند  کہ وہی کمر  بند کمال  کا ہے  ۔ کلسیوں  ۳: ۱۴۔ ہم سب مسیحیوں  کو چاہیے   کہ اسی محبت سے کمر  باندھے کہ  ایک دوسرے کو پیار کریں  ۔دیکھو  خُداوند مسیح اپنے  جلال کے تخت پر   بیٹھ  کر کیا کہے گا۔ متی  ۲۵: ۳۴ سے آخر  تک دیکھو پھر  پہلا  یوحنا  ۴: ۸ سے ۱۴ تک دیکھو  ۔جس  میں محبت  نہیں وہ  خُد اکو  نہیں جانتا  کیونکہ   خُدا محبت  ہے پھر رسول  محبت   کی کیسی  تعریف  کرتا ہے اس  کے بارے میں دیکھو  پہلا  کرنتھیوں   باب ۱۳  کو یہ محبت  کا کمر بند  ایسا ہے  ۔ جس سے روحانی  ذات  کے سب حسن  و جمال  گویا  کسے جاتے ہیں جو تمام  پوشاک  کو زیب (خوبصورتی) دیتا ہے۔

  دوہا ۔ پریم نہ باری  اوبچےپریم نہ ہاٹ  بکائے۔  بناپریم  کا منواں  جم پور باندھا  جائے۔

 دُوسرا   حصہ اس آیت  کا یہ ہے۔  تمہارا  دیا جلتا  رہے۔ اس کی بابت  دیکھو متی ۲۵۔ ۱ سے ۱۴ تک۔  یوں مرقوم  ہے کہ اس وقت آسمان کی بادشاہت  دس کنواریوں  کی مانند ہو گی جو اپنی  مشعلیں لے کر دُلہا  کے استقبال  کو نکلیں  وغیرہ۔

 پس  ہر ایک عیسائی  کو چاہیئے  کہ اس کا دیا جلتا رہے ایسا  نہ ہو  کہ دیا بجھ  جائے اور اس گھر پہنچنے  سے محروم  رہ جائیں ۔پھر کلیسیاء  میں بہتیرے  مسیح کے آنے  کے وقت  کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ کیونکہ ان  کے کپُوں  میں تیل  نہیں ہے۔  یہ  لوگ  اُس  وقت  اپنی کمی  دریافت  کریں گے ۔  جب کہ  دریافت  کرنے سے کچھ  حاصل  نہ ہو گا ۔  کیونکہ موت  اور قیامت  کے وقت ہم انسان  سے نجات  نہیں پاسکتے  ہیں۔ اور مخلوق  میں  سے کوئی ہمیں  یہ تیاری  نہیں دے سکتا  ہے سوائے  مسیح کے ۔

سوہم   نہ فقط  مسیح کے آنے کی  انتظاری  کریں بلکہ  اس کے لئے محنت  اور مشقت بھی کرنا چاہیے  ۔ کیونکہ  بعضوں  کو کم اور بعضوں کو زیادہ  لیاقت(قابليت۔خوبی)  دی جاتی  ہے۔ اور ہر ایک کو اپنی طاقت  اور لیاقت  کے بموجب  محنت  کرنا چاہیے۔  پھر مسیح جو پہلی  بار دُنیا میں  آیا ذلیل  اور  حقیر  (ادنیٰ)سمجھا گیا۔ لیکن  دوسری  بار وہ نہایت  جلال  اور عزت  کے ساتھ آئے گااور سب  فرشتے اس  کے چوگرد  ہوں گے ۔ اور وہ عدالت  کے تخت  پر بیٹھے گا ۔ اس وقت  صرف دوہی طرح  کے  لوگ ہوں گے ۔ تیسری قوم  نہیں یعنی  راستباز اور ناراست  دہنی  طرف والے  اور بائیں  طرف والے جو مسیح کے ہیں  اور جو مسیح  کے نہیں ہیں  کیونکہ  مسیح میں  شامل ہونا یہ ہی مسیحی  دینداری  کی بنیاد  ہے۔ اور جو مسیح  میں شامل  ہیں وہ  اس کے لوگوں  کا بھی شریک  ِحال  اور ہمدرد ہو گا۔

 پر جو سچے  دیندار  ہیں وہ اپنی  نیکی اور لیاقت  پر فخر  نہیں  کرتے ہیں۔  حاصلِ  کلام  یہ ہے کہ عیسائی  کو لازم  ہے کہ ہر واقعہ  کے لئے تیار  ہو ا س کے  لئے تدبیر  (کوشش۔تجويز)کی گئی  اور وعدہ  کئے ہوئے  نمونہ  پیش  کئے اور  نصحتیں  ملیں  پر  خُداوند  یسوع کا فرمان  یہ ہے کہ تیار  رہو چاہیے کہ  ہم اس دُنیا میں  تکلیف پانے اور انہیں   برداشت  کرنے اور  ان سے فائدہ  حاصل  کرنے کو تیار ہوں  پر چا ہیے  کہ  موت  کے لئے تیار  ہوں موت  ضرور آئے گی  پر کیا جانے کہ کب یا کس طرح سے آئے گی ۔

پس لازم  ہے کہ کمر باندھ  کے اور آسمانی  باتوں پر دل لگا  کرتیار ہوں اور ہم سبھوں کو چاہیے کہ مسیح  کی آمد  کے لئے تیار ہوں  کیونکہ  جس طرح وہ آسمان کو گیا اس طرح  پھر  آئے گا۔  اور ہم اسے  رُوبرو  دیکھیں  گے۔ کیونکہ لازم  ہے کہ ہماری  امید  اور آرزوئیں  اور انتظاری اس کی آمد  پر ہوں چاہیے کہ ہم اس کے آنے کے  ایسے منتظر  رہیں  جیسے کا شتکار پانی کا اور گمراہ راہ کا اور پاسبان صبح کا اور دلہن  آنے والے دلہا  کی اور قیدی  رہا ئی  کا منتظر ہے۔

پس اے  بھائیومیں تم سے التماس(درخواست)  کرتا ہوں  کہ تیار ہو کہ عیسیٰ  آتا ہے کیا جانیں  کہ جلد  یہ آواز سنی جائے کہ دیکھ  دلہا  آتا ہے اس کے ملنے  کو نکلو  کا شکہ اس وقت ہماری کمریں  بندھی ہوں  اور ہماری مشعلیں  روشن  ہوں تب  خوشی سے پکاریں  گے۔کہ  اے خُداوند یسوع جلد آجلد آ جو اس طرح سے تیار ہے وہ کام کرے اور بیکار  نہ رہے اور مرنے اور جینے اور یہاں  رہنے اور مسیح کے پاس  جانے کو تیار ہے  ۔

پس ہم سبھوں  کی یہ ہی  آرزو  ُ(خواہش)ہے کہ اے رُوح  القدس  اپنے لوگوں  کے دلوں پر نازل  ہوتا کہ  وہ تری تاثیر(خاصيت)  سے ازسر  نو پیدا ہو کر مسیح کے آنے کی بڑی  آرزو  اور کوشش  سے منتظر  رہیں کیا مبارک  یہ بات  ہے کہ خُداوند  آئے گا ۔ اے خُداوند  یسوع جلد آ۔آمین  فقط  ۔

Leave a Comment