موسیٰ نے میرے حق میں لکھا جانتے ہوتم اس کو نہ مانا تو مجھے کب مانتے ہو تم

Eastern View of Jerusalem

But if you don’t believe what Moses wrote, how will you believer me?

By

Kedarnath

کیدارناتھ

Published in Nur-i-Afshan August 2, 1895

نور افشاں مطبوعہ ۲اگست۱۸۹۵ ء

ناظرین  ! ہمارے  خُداوند   یسوع  المسیح  نے انجیل  یوحنا  ۵: ۴۶ ۔  کے  مطابق  یہودیوں  کے رُو برو  اس امر کا  دعوی  کیا۔ کہ موسیٰ  نے میرے حق  میں لکھا  ہے اور اُسی  کی تائید(حمايت) میں  پطرس  رسول   نے اُن  لوگوں سے جو نہایت  حیران  ہو کے اُس  بر آمدہ  کی طرف جو  سلیمان کا کہلاتا  ہے ۔اُن کے پاس  دوڑے  آئے موسیٰ کی پیشن گوئی  کو اس طرح دوہرایا۔  موسیٰ نے  باپ دادوں سے کہا کہ خُداوند   جو تمہارا  خُدا ہے  تمہارے  بھائیوں  میں سے  تمہارے  لئے ایک نبی  میری مانند   اُٹھا  ئے  گا ۔ اعمال  ۳: ۲۲۔  اُس  کی تصدیق   کے لئے توریت  شریف   کے حصہ   پنجم  موسو مہ استثنا   ۱۸ : ۱۵ ۔  کو ذیل میں نقل کرتے ہیں۔  خُداوند   تیرا  خُدا تیرے  لئے تیرے  ہی  درمیان سے  تیرے  ہی بھائیوں میں سے  میری  مانند  ایک نبی برپا  کرے گا۔

 اگر چہ   بادی النظر(ابتدائی نظر)میں  ان ہر سہ (تين)حوالہ جات کے مضامین کا مطلب  ایک سا ہے اور سمجھنے  والے  کو چنداں دقت(بالکل مشکل) نہیں کیونکہ   مضمون نہایت  صاف  ہے۔ پر تو بھی ہمارے  عنایت(توجہ۔مہربانی)  نہیں۔ ابو  المنصور  دہلوی  کی دقت پسند  طبیعت   نے اس آیت  کے سمجھنے  میں محمدی  مادہ کو جوش  دے ہی دیا ۔اور کچھ نہ بن پڑا تو بھی کہہ دیا  ۔کہ موسیٰ  کے کلام  میں  یہ عبارت  زیادہ  ہے  تیرے درمیان  سے ۔ چونکہ  مولوی صاحب  کو لفظی  تکرار  کا مرض  ہے۔ لہذا  اس کی تائید(حمايت)  میں ۱۵  سطريں  لکھ  ماریں۔

  پر حق یہ  کہ تیرے  درمیان   والی  سے کوئی  بنیادی  پتھر  نہیں  جس  پر محمدی مذہب کی عمارت بن سکے  ۔البتہ لفظ  بھائیوں   قائل   غور  ہے اور اس پر مولوی  نور  الدین  صاحب  بھیر  ی کی بھی رال ٹپکی ہے۔ لہذا  خُدا باپ  سے رُوح القدس   مقدس  ثالوث  سے مدد پا کر ہم اپنے  خیالات   کا سلسلہ   ہلاتے  ہیں۔ اور پہلی  جنبش  (حرکت)میں یہ ثابت   کریں گے  کہ محمد صاحب  موسیٰ  کی مانند  نہیں ہیں۔

  تنیقح(تحقيق۔تفتيش) لفظ مانند  کا مفہوم  جو موسیٰ کی  نبوت  میں وارد ہے ایسے  مقامات  پر آتا ہے۔  جہاں  دو متغایر  (الگ۔جُدا)اشیاء   کے درمیان  کسی قسم  کی یکسانیت کا اظہار   مقصودِ(ارادہ کيا گيا)  خاطر  ہوا ۔اور اس میں صرف  ۳   ہی  درجہ متصورہو سکتے ہیں ۔ بڑا  یا چھوٹا یا  برابر  یعنی کسی  قسم  کی یکسانیت  معلومہ جو بالمقابل  ایک شے میں ہے وہ دوسری  میں یا تو کم ہو گی  یا زیادہ  یا برابر پر  ظاہر  ہے ۔کہ اگر  کم ہے  تو وہ شے  جس میں وہ پائی  گئی بہ نسبت اس  شے کے کہ جس میں وہ  موجود  ہے  محض  بے معنی   ہے اور اگر برابر  ہے تو تحصیل  حاصل سے  زیادہ  وقعت  نہیں رکھتی  ۔پس چاہیے   کہ معلومہ  یکسانیت   اُس   شے میں جو مانند  ٹھہرتی   ہے بہ  مقابل  اس شے کے جو مانند  چاہتی ہے  زیادہ ہو  تب یہ مانند  اُس مانند کی  مانند ہو گی  جس کا ذکر موسیٰ  نے اپنی نبوت   میں کیا ہے۔

 واضح  طور پر ہم  یوں  کہتے  ہیں کہ وہ نبی  جو موسیٰ  کی مانند  برپا  ہو گا  ۔اگر موسیٰ  جب کہ  اعلیٰ  سے ادنیٰ  کی طرف رجوع  کر نا نہ  مولوی  صاحب  ہی پسند  کریں گے  اور نہ ہم   اور اگر وہ نبی موسیٰ کے  برابر ہو گا ۔ تو تحصیل  حاصل ہے کیونکہ  موسیٰ  تو خود اُ س نبی  کی مانند ہے اس کے برپا ہونے سے بمقابلہ موسیٰ  خلق   خُدا کو  کیا فائدہ  ہو گا۔   لیکن اگر  وہ نبی موسیٰ   سے  سے زیادہ  ہو تب البتہ   ہم موسیٰ   کے ساتھ  اُس نبی  کی آمد  کا بسر و چشم   انتظار  کریں  گے  اور اُس  کی طرف کان  دھریں   گے ایسا نہ   ہو کہ  خُداوند   خُدا ہم  سے حساب  لے  ۔ تشریح   نبی اُس کو کہتے  ہیں جو نجات کی بابت  خُدا کی مرضی  کو انسان  پر ظاہر  کرے  ۔ اور نبی  اُس  کو بھی کہتے ہیں جو تعلیم  دے ۔ اس تشریح   کے مطابق   وہ تمام   انبیاء  جو زمانہ   بنی آدم کی ہدایت   کے واسطے  برپا  ہو ئے  ان دونوں میں سے کسی ایک  معنی کے لحاظ  سے نبی  کہلائے   تو بھی مناسب  ہے کہ وہ نبی جو موسیٰ   کی مانند  ہو اُس پر  دونوں  معنوں  کے لحاظ  سے نبی کا اطلاق  درست آتا ہو۔ پس  ان ساری باتوں  پر لحاظ   کرتے ہوئے  مندرجہ  ذیل اسباب  سے ثابت ہوتا  ہے کہ عربی  محمد وہ نبی نہیں  ہے جو موسیٰ کی مانند  ہے۔

عورت کی نسل شیطان کے سر کو کچلے گی۔

اوّل ۔ اس سبب سے کہ خُداوند   خُدا نے باغ ِعد  ن میں  آپ ہی  بتادیا کہ  عورت   کی نسل  شیطان   کے سر کو کچلے گی۔  پیدائش   ۳: ۱۵ ۔ اب عورت   کا لفظ   جب کہ حقیقی   ہے تب  اُس   کا مطلب  یہ ہے کہ شیطان   کا سر کچلنے  والا  مرد کے سلسلہ   سے نہیں بلکہ   محض  عورت  کے سلسلہ  سے نمودار(پيدا)  ہو گا ۔اور اگر عورت   کا لفظ  مجازی (غير حقيقی۔غير اصلی)  ہے تو یہ  مقصد  ہے کہ عورت  کی نسل سے دیندار لوگ  اور شیطان  سے بیدین   لوگ مراد  ہیں ۔ اور عقل   چاہتی   ہے کہ وہ نبی جو موسیٰ  کی مانند  ہے ضرور  عورت  کی نسل  سے نہ صرف  مجازی   طور  پر دیندار   گھرانے سے بلکہ   حقیقی  طور  پر صرف  عورت   کے سلسلہ   سے متولد(پيدا)  ہو۔ لہذا  چونکہ   محمد صاحب  نہ مجاز  اً  دیندار   خاندان   سے  پیدا   ہوئے کیونکہ   عربی   فرزند  موعود(وعدہ کيا ہوا بيٹا)  اضحاق  کی نسل  نہیں ہیں۔ اور نہ مخروج  پسر(نکالا ہوا بيٹا)  ہاجرہ  مسمٰی اسمٰعیل   کے نطفہ   سے جب کہ عدمان  سے  آگے  مداد   تک نسب  نامہ نہیں ملتا   اور اگر ملتا   بھی ( یہ  محال  ہے جب  کہ محمد  صاحب   نے خود  کہا کہ  جو میرے  نسب  نامہ  کو عدمان  سے آگے  بڑھاتے ہیں وہ کذاب  میں  ) تو بھی عورت   کی نسل نہ ہوتی۔ بلکہ   برعکس   شیطان   کی نسل  سے شیطان   کا سر  کچلنے والا  وہ نبی موسیٰ  کی مانند  ظاہر  ہوتا جو  بالکل  کلام ِ خُدا  اور عقل  اور تجربہ   کے خلاف   ہے۔ اور نہ حقیقتاً   محمد صاحب   صرف   عورت   سے بغیر   باپ کے پیدا ہوئے۔  پس اس سبب  سے محمد  صاحب   موسیٰ کی مانند  نہیں ہیں۔

دوئم ۔ خروج  ۷: ۱ سے معلوم  ہوتا ہے کہ موسیٰ  خُدا  سا تھا  تو چاہیے   کہ وہ  نبی جو موسیٰ  کی مانند   ہے نہ صرف خُدا   سا بلکہ   خود خُدا  بھی ہو پر ظاہر  ہے  کہ محمد  صاحب  تو محض  انسان  تھے  انہوں نے کبھی  خُدائی  کا دعویٰ  نہیں کیا ۔ اور نہ کبھی قرآن   میں اُن   کو خُدا سا بیان  کیا گیا لہذا  نہ وہ  موسیٰ  سے بڑھ کر  ہیں  ۔اور نہ برابر  پس محمد  صاحب  موسیٰ کی مانند نہیں  ہیں  ۔

سوئم۔  اُس  نبی کا جو موسیٰ  کی مانند  ہے  بنی اسرائیل  کے پاس  آنا  ضرور تھا  (   اور وہ میری  قوم اسرائیل  کی رعایت   کرے گا)  کیونکہ  موسیٰ  کی نبوت  میں یہ بھی  صاف   بتا یا گیا ہے کہ تم اُس  کے طرف کان دھرو   یہاں  تم  سے مراد وہی لوگ  ہو سکتے ہیں جو اُس  وقت موسیٰ  کے سامنے تھے  یا اُن کی  اولاد   بنی اسرائیل   نہ غیر   لیکن محمد  صاحب   خُدا کے لوگوں  بنی اسرائیل    کے پاس   نہیں آئے   بلکہ   اپنی ہم قوم  بُت پرست   عرب کے پاس ۔ پس اس سبب سے محمد  صاحب  موسیٰ کی مانند  نہیں ہیں۔

چہارم ۔  موسیٰ  بنی اسرائیل  کو زمین مصر  اور غلامی   کے گھر   سے نکال  لایا ۔  اگر کوئی   شخص   اُن  معجزات  اور  واقعات   فوق العادت (عادت سے بڑھ کر) سے جو مصر   اور دریائے  قلزم کے عبور   کے وقت موسیٰ   کی معرفت  واقع   ہوئی قطع  نظر(نظر انداز ) کر کے  اس تاریخی   ماجرہ  پر سر سری  نظر  (جلدی ميں ملاحظہ کرنا)ڈالے  تو زمین  مصر اور غلامی   کے گھر  سے نکال  لانا کوئی  بڑی  بات نہیں ۔ تاہم باغ  ِعدن  والے  واقعہ  کو پیشِ نظر  رکھ کر  کُل بائبل   پر غور  کرتے ہیں تو صاف  معلوم  ہوتا ہے ۔ کہ زمینِ  مصر سے  شیطان کی  بادشاہت  اور غلامی  کے گھر سے گناہ کی غلامی  مراد  ہے۔ چونکہ پہلا  کام  جو علامتی  ہے اور بہت  بھاری  نہیں موسیٰ  سے ہوا تو  لازم  ہے کہ وہ نبی  جو موسیٰ کی مانند  ہے دوسرے  کام کو جو حقیقی  ہے اور نہایت  ہی  مشکل  بلکہ  انسان  کے نزدیک   بالکل   مشکل  اور محال(مشکل۔دشوار)  ہے انجام  دے   ۔ لیکن دونوں  شقوں  پر لحاظ  کرتے ہوئے  محمد صاحب  نے نہ بنی اسرائیل  کو کسی دینوی  طاقت  سے رہائی   بخشی  اور نہ شیطان   اور گناہ سے اُن کو  مخلصی   دی۔ پس  اس سبب  سے محمد  صاحب   موسیٰ  کی مانند  نہیں ہیں۔ 

پنجم ۔ موسیٰ کی  معرفت  ایک ایسی  اخلاقی شریعت  دی گئی   جو تمام  باتوں   میں  کامل اور پاک  اور راست  اور روحانی  ہے۔ اور جس کی بابت  حکم ہو ا سارے حکموں  پر جو آج کے دن میں تمہیں   فرماتا ہوں دھیان  رکھ کر  عمل کرنا تا کہ تم جیئو۔  استثنا   ۸: ۱  لیکن اُس   کی بابت کوئی ایسا   اشارہ  نہیں ہوا  کہ اگر کوئی   کسی حکم  کے کسی حصہ   پر سہو اًیا  عمداً یا  کمزوری  کے سبب سے عمل  نہ کرے گا  تو اس کے  عوض  میں موسیٰ  اُس  کو کامل کرے دے گا ۔ اس لئے یہ   امر ضروری   معلوم   ہوتا ہے کہ وہ نبی جو موسیٰ   کی مانند  ہوا یسا  ہو کہ اپنی تابعداری   ۔  اس حالت   میں دستگیری(مدد۔حمايت)   کرے اور ان کے  نقصان کو رفع  کر کے   انہیں   کامل   بنائے  ۔ لیکن محمد   صاحب نے کبھی   دعویٰ   نہ کیا   اور نہ وعدہ  کہ میں   ان کے اس بوجھ کو  ہلکا   کروں  گا  یا بانٹ  لوُں   گا  ۔پس اس  سبب  سے محمد  صاحب موسیٰ کی مانند  نہیں ہیں۔

ششم ۔ موسیٰ  کی معرفت   رسمی   شریعت  مرحمت(عنايت۔نوازش)  ہوئی جس  میں علاوہ  اور باتوں  کے خاص کر وہ  قربانی  ہے جو  گناہ   کا کفارہ   مقرر ہوئی۔  اور اس  میں بے عیب  بّرہ   کی شرط  تھی اور    جس   کی بابت کامل یقین   سے کہہ سکتے   ہیں۔ کہ اُس   سے شارع   (شريعت بتانے والا)کی  یہ غرض تھی   کہ وہ اُس   حقیقی   قربانی  کی علامت   ٹھہرئے   جو آیندہ  زمانہ  میں وقت   معینہ   پر گذرنے کو تھی ۔  اب جو نبی موسیٰ   کی مانند   ہو لازم  ہے کہ وہ اس علامت   کی حقیقت   ٹھہرئے  ۔ مگر محمد صاحب   نے اس کی بابت  کچھ انتظام   نہیں کیا پر ہم  نہیں جانتے  کہ عیدالضحی  کی قربانی  سے اُن کی کيا  مراد   ہے اگر وہی  مراد  ہے جو موسیٰ  کی تھی تو اس  ادل   بدل   سے کیا فائدہ  نکلا  اور اگر وہ غرض نہیں   ہے تو پھر بغیر   اس کے کہ عید  فصح  کی تکمیل   عمل میں آئی  اُس کا مسد ود (رد کيا گيا۔بند)  کرتا اور  خود اُس علامت    کی حقیقت   نہ ٹھہرنا محض  بے معنی ہے ۔ پس  اس سبب سے محمد موسیٰ  کی مانند  نہیں ہیں۔

تمہارے لئے ایک نبی میری مانند اُٹھا ئے گا ۔

ہفتم۔  موسیٰ  باوجود  یکہ   محض  انسان تھا تو بھی   خُدا سا کہلا  کر اُس   میں کسی  قدر تین  باتیں  اور بھی نظر  آتی ہیں۔ ۱ نبوت  ۔ ۲  کہانت جب  کہ بارہا  اُس  نے بنی اسرائیل   کے واسطے  خُدا کے  حضور  میں سفارش کی۔  ( واضح  ہو  کہ کہانت  درجہ   میں دو باتیں شامل   ہیں  قربانی  دوئم   سفارش )   ۔

۳۔ بادشاہت  اگرچہ  اس وقت بنی اسرائیل   کا بادشاہ  صرف  خُداوند   یہوواہ  تھا ۔ پر تو بھی  نیابتی انتظام   میں وہ ایک  قسم کی حکومت کرتا ہے۔ لہذا  مناسب  ہے کہ وہ  نبی جو موسیٰ  کی مانند  ہو  ان  سب باتوں  میں کامل  اور پورے  طور سے  ہو یعنی   موسیٰ  محض   انسان تھا   وہ کامل  انسان  ہو ۔موسیٰ  صرف خُدا  سا تھا وہ کامل خُدا  ہو۔  پھر یہ  تین  باتیں  بھی کامل  طور  پر اُس  میں پائی  جائیں  ۔ نبوت   ۔ کہانت ۔ بادشاہت  لیکن محمد  صاحب نہ کامل انسان  تھے  نہ کامل  خُدا تھے۔ اور نہ نبی تھے ۔ نہ کاہن نہ بادشاہ اگرچہ دنیوی  طرز  پر  بُد  وانہ  صورت  غاصبانہ   (نا جائز قبضہ)بادشاہت  رکھتے تھے۔  جس کے حاصل  کر نے کو  ابوبکر  عمرو عثمان  سے سپہ  سالار  کافی تھے۔  پس اس  سبب سے محمد صاحب موسیٰ  کی مانند  نہیں ہیں۔

ہشتم ۔ استثنا  ۳۴ : ۵، ۶  میں  یوں تحریر ہے کہ ۔ سو خُداوند   کابند ہ  موسیٰ  خُداوند  کے حکم  کے موافق  موآب  کی سر زمین  میں  گر گیا۔ اور اُ س نے  اُسے موآب   کی ایک وادی  میں بیت فغور  کے مقابل  گاڑا  پر آج  کے دن تک  کوئی اُس  کی قبر کو نہیں جانتا  اس لئے ضرور ہے  کہ وہ نبی  جو موسیٰ  سے کچھ زیادہ  حیرت  انگیز  واقعات  رکھتا  ہو لیکن  محمد  صاحب  بعارضہ  فیور  (بخار)مر گئے اور اپنی بیوی  عائشہ  کے حجرہ  میں دفن ہیں  اُس میں  ابوبکر  اور  عمر بھی  گاڑے  گئے اُن  کی قبر مدینہ  میں سب کو معلوم  ہے۔ پس  اُس  سبب  سے محمد صاحب   موسیٰ  کی  مانند  نہیں ہیں۔

نہم۔ موسیٰ   بنی اسرائیل    کو ملکِ موعودہ  (وعدہ کيا ہوا ملک)کے کنارہ تک لا یا  ۔مگر اُس میں انہیں  داخل   نہ کر سکا  اس لئے واجبی   معلوم  ہوتا ہے کہ وہ نبی  جو موسیٰ  کی مانند  ہو بنی اسرائیل    کو حقیقی  کنعان  میں داخل  کرے لیکن   محمد صاحب   نے بنی اسرائیل    کو مجازی  کنعان   میں داخل   نہیں کیا  اور حقیقی  کنعان   سے تو وہ  خود  دُور   ہیں۔ پس  اس سبب  سے محمد صاحب   موسیٰ کی مانند  نہیں ہیں۔

دہم۔ اگر چہ  موسیٰ   نبوت  کے عہد ہ  میں پہلا نبی  نہ تھا تو بھی معلوم  ہوتا ہے  کہ اُسی   کے اختیار  سے جس نے  باغ عدن  میں سب سے  پہلے نبوت  کا کام انجام   دیا جب  کہا کہ عورت   کی نسل سانپ   کے سر کو کچلے  گی  موسیٰ نے پیتل  کا ایک سانپ  بنا کے ایک نیزہ  پر رکھا  اور ایسا  ہو اکہ سانپ  نے جو کسی کو کاٹا  تو جب  اُس  نےپيتل کے سانپ پر نگاہ  کی تو وہ جیتا  رہا ۔ گنتی ۲۱: ۹ لہذا  جس طرح  موسیٰ  نے سانپ کو بیابان  میں بلندی  پر رکھا  اُسی  طرح ضرور  ہے کہ وہ نبی  جو موسیٰ  کی مانند  ہوا اُٹھایا  جائے ۔تا کہ  جو کوئی  اُس پر ایمان  لائے ہلاک  نہ ہو بلکہ  ہمیشہ  کی زندگی  پائے ۔لیکن  محمد صاحب  باغ ِعدن  والے  نبی نہیں ہیں اور نہ  اُوپر  اُٹھائے گئے ۔ پس  محمد  صاحب موسیٰ  کی مانند  نہیں ہیں۔

یاز دہم۔  وہ نبی  جس نے باغِ  عدن میں نبوت   کی اُسی  وقت اُن سے  قاضی  اور منصف  بن کر آدم  اور حوا پر اور شیطان  پر سزا  اور  لعنت  کا فتویٰ  سنایا  اور اُسی  کے اختیار  سے موسیٰ  بھی قضا یا فیصل(فيصلہ کرنا)  کرتا تھا  ۔ لہذا  وہ نبی جو موسیٰ  کی مانند  ہو چاہیے   کہ یہی  بلکہ  اس سے بڑ ھ  کر اختیار  پا کر آخری  فتوی سنائے  ۔ لیکن محمد  صاحب  نے باغ  ِعدن  میں عدالت نہیں کی  اور نہ آخری  عدالت   اُن  کے سپرد ہوئی  بلکہ  قرآن  کے سورہ قلم والی  آیت سے گواہی  ملتی  ہے کہ مالک  ِروز  جزا صاحبِ  جسمانی اعضاء  ہے کیونکہ وہ اپنی پنڈلی  کھو ل کر  دکھائے  گا۔ اس لئے  محمد صاحب موسیٰ  کی مانند  نہیں ہیں۔

دوازدہم۔  موسیٰ  کی نبوت میں  یہ بھی  درج  ہے اور جو کچھ  میں  اُسے  فرماؤں  گا  وہ سب اُن  سے کہے گا اور   ایسا ہو گا  کہ جو کوئی  میری  باتوں  کو جنہیں  وہ میرا  نام لے کر  کہے گا  نہ  سُنے  گا تو میں اُس  کا حساب  اُس سے  لوُں گا۔ استثنا  ۱۸ : ۱۸، ۱۹ یہاں  الفاظ  جو کچھ  میں زور پایا جاتا ہے اگر انہیں  جو کچھ کے تمام  معنی لئے جائیں   تو نیتجہ  یہ ہو گا کہ شاید  اور نبی   اور خود  موسیٰ  بھی سب  جو کچھ خُدا سے پیغام  پاتے تھے۔ لوگوں کو نہیں سناتے تھے۔  ایسا گمان   عقل اور الہام  دونوں کے خلاف  ہے تو ہم کو دوسرے  معنی  اختیار  کرنا پڑیں  گے ۔ جن کی یہ خاصیت  ہے کہ اگلے  احکام  سے نہ تو مخالفت ثابت  ہو اور  نہ تنسیخ (ختم)  تو بھی قدرتِ  اختیار  کا اظہار  پایا جائے  اور تاکہ اس لئے طربقہ  تعلیم    کو دیکھ  کر سننے  والے کوئی  عذر(بہانہ) نہ پیش  کر سکیں  اور در صورت  انحراف(بر خلاف ہونا۔مخالفت)  جو کچھ  کے حساب  وہ اور  جواب دہ ہوں  ۔ تب  ضرور ہے کہ  وہ نبی  جو موسیٰ  کی مانند  ہوا  اختیار  کے  ساتھ  تعلیم دے۔  لیکن محمد ی تعلیم جہاں  تک توریت  و زبور صحائف  انبیاء  اور انجیل  سے مسروق(چوری)  کی گئی جیسا کہ چند  ہفتے  گذرے اخبار  نورِ افشاں  کے وسیلہ  دو مختلف   پر چوں  میں صاف  دکھلایا گیا  کہ مصنف  قرآن و  حدیث  نے کس حکمت  عملی سے  آدھی  آیت  ادھر سے اور پوری آیت  ۱ دھرسے ایک لفظ  یہاں سے اور دو  لفظ  وہاں سے اُڑا کر شریعتِ  محمدی   اور طریقت  احمدی  نام رکھ  لیا  وہاں  تک بہ نسبت  موسیٰ  کی تعلیم  کے کوئی عجوبہ   بات نہیں لیکن  جو کچھ محمد ی مذہب  کی خود  اپنی تصنیف   ہے اُس  کی یہ حالت   ہے  کہ گندہ  بروز  ہ یا خشکہ  خوردن  گندہ  الا ایجاد  بندہ  اور اُس  کے علاوہ  نہ صرف  یہی کہ محمدی  تعلیمات  خاص  سے خُدا کی بے عزتی  ہوتی بلکہ قدرت  اختیاری  بھی ظاہر  نہیں ہوتی  پس اس سبب سے محمد  صاحب  موسیٰ  کی مانند  نہیں ہیں۔

اب ہم  اُن  قیاسات  اور توہمات  کے جا نچنے  کی طرف متو جہ  ہوتے ہیں جو حکیم  نور الدین  بھیروی  نے اپنی کتاب  فصل  الخطاب  کے صفحہ  ۲۲ سے  ۳۶  کے شروع  تک دوڑائے  ہیں۔

اوّل  ۔ اُس نبی کی قوم  کو بتایا  کہ وہ بنی اسرائیل   کے بھائیوں  سے ہو گا۔  اور اس کے  وہم   فہم کے واسطے  قرآنی  دلائل  کو پیش کیا ہے ۔

۱۔ اور  ڈر سنا دے   اپنے نزدیک  کے ناتے والوں  کو

۲۔  دین تمہارے  باپ ابراہام  کا اس  نے نام رکھا  تمہارا  مسلمان حکم  بردار  پہلے سے

۳ ۔ اے رب میں نے بسائی ہے ایک اولاد  اپنی میدان  میں جہاں کھیتی نہیں ہے۔  تیرے ادب  والے  گھر کے پاس۔

ہم ان باتوں  کا جواب  یوں دیتے ہیں۔ اوّل  کہ مولوی  صاحب نے توریت  کے مطابق  دعویٰ  کیا کہ موسیٰ  نے اُس نبی کی  قوم کو بتایا  کہ وہ بنی اسرائیل  کے بھائیوں  سے  ہو گا۔  اور دلیل  اُس  کی قرآن  سے دی ۔  لیکن  چاہیے   یوں تھا  کہ توریت  ہی سے ثابت  کر کے دکھاتے کہ بنی اسرائیل   کے بھائی  کون ہیں  خود  بنی اسرائیل  یا  بنی اسمعیل  اگر تھوڑی  سی  محنت   کرتے تو یہ عقدہ  (مشکل بات)حل ہو جاتا  اور بغل  میں لڑکا  ہوتے ہوئے  شہر میں   ڈھنڈ  ھورا نہ پٹواتے ۔ دیکھے  خروج  ۲: ۱۱۔  میں یوں  لکھا ہے۔  اور ان   دنوں میں یوں ہوا کہ  جب موسیٰ  بڑا  ہوا  تو اپنے بھائیوں کے   پاس باہر گیا  اور  ان کی  مشقتوں   کو دیکھا  ۔ اب دیکھئے  جناب  بنی اسرائیل   بنی اسرائیل  کے بھائی   ہیں  کیونکہ موسیٰ  نے بنی  اسمٰعیل  کی مشقتوں  کو نہیں دیکھا  بلکہ  اپنے بھائیوں   نبی  اسرائیل   کی پس اگر  موسیٰ   بنی اسرائیل   کا  بھائی   ہے تو یوں  خود بنی اسرائیل بنی  اسرائیل  کے بھائی نہ ہوں گے اس  میں تو دلیل  کی حاجت(ضرورت)  بھی نہیں  کبھی آپ نے   سنا ہو گا کہ  گنگا  مدار  کا ساتھ نہیں ہو سکتا ۔

 دوئم  ۔قرآن  سے بھی  ثابت  نہیں ہوتا  کہ بنی اسمٰعیل  بنی اسرائیل  کے بھائی ہیں کہ آپ  کی پیش  کردہ آیت  کے نزدیک  کے ناتے  والے فقرہ  سے  اگر کچھ  ثابت  ہو تو صرف  اس قدر کہ محمد  کے خود  بھائی بھتیجے  نزدیک   ناتے والے  ہیں۔  اور باقی  عربی دُور  کے جیسا  کہ یہاں  ہندوستان  میں بھی  ناتے  والوں  کی دو قسمیں  ہوتی ہیں۔ ایک  خاندانی۔ دوئم برداری۔  پر غیر برادری  تو کسی طرح  نزدیک  ناتے والے نہیں ہو سکتے۔  چہ   جائے کہ بنی  اسرائیل  پس اس سے  بھی ثابت  ہوا کہ عربی عبرانیوں  کے نزدیک  ناتے  والے  ہیں ۔ یا برادری  ۔ دوسری آیت  میں وہی  دعویٰ  ہے جو مولوی  صاحب کا  ہے لیکن نہ مولوی  صاحب کے دعویٰ  کے لئے کوئی  دلیل ہے اور نہ ان کے خود  کے دعویٰ  کے واسطے   کوئی  حجت(بحث)  معلوم نہیں کہ مصنف  قرآن  نے کس منطق  (دليل)سے ابراہام  کو عربوں کا باپ  قرار دیا جب  کہ کسی تواریخ  سے  بھی ثابت  نہیں۔  تیسری  آیت  میں جو کچھ  مضمون ہے اس کی  بابت  بھی ثابت   نہیں   ہوتا کہ  اُس  سے کیا مراد  ہے غرضیکہ   یہ  بائبل سے  نہ قرآن  سے نہ تورایخ  سے مولوی   صاحب  کے دعویٰ  لا طائل  کو تقویت  پہنچتی  ہے کہ بنی اسرائیل   کے بھائی  عربی ہیں۔

پس اس سبب سے محمد صاحب موسیٰ کی مانند نہیں ہیں۔

دوم۔ وہ نبی  مجھ  سا ہو گا  (  تشبیہ محل  تامل  ہے کہ کس امر  میں موسیٰ  سا ہو گا)   یعنی مولوی  صاحب  کو معلوم  نہیں  کہ لفظ  ساکے کیا معنی  ہیں تو بھی  کس بشنودیا نشنود  من  گفتگو   ئے سیکنم  ۔محمد صاحب   کو موسیٰ  سا ثابت  کرنے کو  کم سے کم  ۳۔ آیتیں   قرآنی  لکھ  ہی دیں  یہ عجیب  جرات  ہے۔

چہ  دلا درست   وزدے   کہ بکف  چراغ  دارد ۔

اب  ان آیتوں  کوسُنيے  ۔ پہلی آیت  ہم نے بھیجا  تمہاری  طرف رسول  بتانے والا  تمہارا  جیسا  بھیجا  فرعون   کے پاس ۔

دوسری  آیت  تُو کہہ بھلا دیکھو  تو اگر یہ  ہوا  اللہ  کے یہاں  سے اور تم نے  اس کو نہیں مانا  اور گواہی  دے چکا  ۔ ایک گواہ  بنی اسرائیل  کا ایک ایسی  کتاب کی پھر وہ یقین   لا یا ۔

تیسری  آیت  بولی اے قوم  ہماری  ہم نے سنی  ایک کتاب جو اُتری  ہے۔

موسیٰ   کے  پیچھے  سچا کرتی  سب اگلیوں  کو سمجھاتی  سچا دین  اور راہ  سیدھی ۔  جواب  جب یہ تشبیہ محل تامل   (سوچنے کا موقع)ہے اور ابھی تک  آپ یقیناً  نہیں کہہ سکتے  کہ سا سے کیا مراد  ہے تو پھر اتنی  درد سری کیوں گوارا کی  کہ وہ محمد صاحب  ہیں ذرا  اب تکلیف  فرما کے  ہمارے اس مضمون  کے صدر میں   تنقیح (فيصلہ ) کے موٹے لفظ  کو جو آپ  ہی کی  خاطر سے جلی قلم   (صاف قلم)سے  لکھا  ہے۔ ملاحظہ  شریف  میں لائے   ۔ تو یقین  ہے کہ آئندہ  کو بنائے  فاسد  علیٰ  الفاسد  کے فرض  سے آپ کو  ہمیشہ   رُستگاری  (رہائی ۔نجات)رہے گی۔  کیونکہ  آپ کی  پیش  کردہ  آیت  اوّل  سے اگر کچھ آپ کو اپنے دل  بہلانے کے واسطے  ہاتھ  آتا  ہے تو صرف   اس قدر  کہ پیش  ازیں  نیست   کہ مصنف  قرآن  محمد  کے عرب  کے پاس  آنے کو اس  طرح قرار  دیتا ہے جس طرح موسیٰ  فرعون   پاس گیا لیکن اگر  اس  بھیجے جانے   کی یکسانیت پر تھوڑا  سا بھی تامل  (سوچنا)کیا جائے  تو صاف   ظاہر ہو گا کہ موسیٰ  کے فرعون  کے پاس  بھیجے  جانے اور محمد صاحب  کے عرب  میں مدعی  نبوت ہونے میں اتنا  ہی فرق ہے ۔ جتنا  موسیٰ  اور محمد صاحب  کی زندگی میں توریت  ہی سے ظاہر  ہے کہ پہلے  اس سے کہ موسیٰ فرعون  کے پاس گیا  بنی اسرائیل  نے موسیٰ  کو رد کیا تھا  دیکھو  خروج  ۲ :۱۴ وہ بولا  کہ کس نے  تجھے  ہم پر حاکم  یا منصف  مقرر  کیا آیا  تو چاہتا  ہے کہ جس طرح  تو  نے اس مصر ی  کو مار  ڈالا  مجھے بھی مار ڈالے تب موسیٰ  ڈرا  اور کہا کہ یقیناً یہ بھید  فاش(ظاہر) ہوا ۔ اور پھر دیکھو  اعمال  ۷: ۳۵  اُسی  کو خُدا نے اس  فرشتہ  کی معرفت  جو اُسے  جھاڑی  میں نظر  آیا بھیجا  کہ حاکم  اور چھٹکارا دینے  والا  ہو ۔ وہی  انہیں نکال  لایا اور یہ باتیں  محمد میں  پانی نہیں  جاتی کیونکہ  موسیٰ  اپنے بھائیوں  کا رہائی  دینے والا تھا  ۔ اور محمد اپنے بھائیوں  میں صرف  ایسا تھا جیسا  کہ بنگالی  ہنددؤں  میں راجہ رام  موہن رائے  یا آج کل کے ہنددؤں  میں دیانند سر ستی  جس کو  عربی میں  مصلح  (اصلاح کرنے والا)اور انگریزی میں ریفارمر۔

  چنانچہ  زندہ  مثال  سر سید  احمد  خان صاحب  با لقابہ  علی گڑھ  میں محمدی  کالج  کے موجد  موجود  ہیں اگر اس قرآنی  آیت  کے مطابق  محمد صاحب  موسیٰ  کی مانند  ہیں تو کیوں  راجہ رام  موہن رائے  اور دیا نند  سرستی   اور اور سرسید  صاحب   بہادر  اسٹار   آف انڈیا موسیٰ  کی مانند  نہ ہوں  یہ عجیب بے انصافی ہے پھر موسیٰ  راضی نہ تھا  ۔ کہ وہ اُن کے پاس جنہوں نے اُسے   ایک بار رد کیا ۔  پھر جائے  مگر  خُدا نے اُسے  بھیج  دیا  نہ نبی سا  بلکہ خُدا سا اور اُس  کے بھائی ہارون  کو اُسی  کا پیغمبر  قرار دیا ۔   دیکھو  خروج  ۴: ۱۶ ۔وہی   تیری زبان  کی جگہ  ہو گا اور تو اُس  کے لئے خُدا  کی جگہ  ہو گا  پھر خروج  ۷: ۱ میں یوں  ہے کہ پھر خُداوند  نے موسیٰ سے  کہا کہ دیکھ میں نے  تجھے  فرعون  کے لئے خُدا سا بنایا  اور تیرا بھائی ہارون تیرا  پیغمبر  ۔ جناب  مولوی  صاحب  ذرا  سنجیدگی  کے ساتھ  ان مقاماتِ   کلامِ الہٰی  کو پڑھيے  کسی جاہل  کے کہنے سے  یوں نہ  کہہ اُٹھے  کہ خُدا کا  کلام  محرف(تبديل)  ہو گیا  تو بہ توبہ  اب تک  بنی اسرائیل  میں موسیٰ  کی مانند  کوئی نبی  نہیں اُٹھا  جس سے خُداوند  آمنے سامنے  آشنائی  (ملاقات۔محبت)کرتا  استثنا   ۳۴: ۱۰  اُن سے  سب نشانیوں  اور عجائب غرایب  کی  بابت  جن کے  کرنے کے لئے فرعون  اور اُس  کے سب خادموں  اور اس کی  ساری سر زمین  کے سامنے  خُداوند  نے اسے مصر  کی زمین  میں بھیجا  تھا۔ استثنا   ۳۴: ۱۱ اور اُس   قوی ہاتھ  اور بڑی  ہیبت  کے سب کاموں کی بابت  جو موسیٰ  نے تمام بنی اسرائیل   کے آگے  کر دکھائے  استثنا  ۳۴: ۱۲ جناب یہ  وہی موسیٰ  ہے جس نے  بنی اسرائیل   سے کہا  کہ  خُداوند   جو تمہارا  خُدا ہے تمہارے بھائیوں   میں سے تمہارے  لئے مجھ سا ایک  بنی ظاہر  کرے گا  اُس  کی سنو  اعمال  ۷ : ۳۷  جب  موسیٰ  ایسا عالیٰ مقام  شخص  ہے تو ہم کو لازم  نہیں کہ ہر ایک  دھنئے  جلا ہے کنجڑے قصائی۔ مالی ۔ دھوبی۔  کو اُس  مانند  کہہ اُٹھیں  ۔ سچے  دل سے توبہ  کیجئے   آپ کے یہاں  بھی موسیٰ  کا کلمہ یوں  پڑھا   جاتا ہے  ۔ کہ (لا الا الا  للہ موسیٰ کلیم اللہ) اب  چونکہ پہلا  سلسلہ  یہاں  پر ختم  ہوتا ہے تو پیشتر  اس کے کہ ہم دُوسرا  سلسلہ  ہلادیں  اتنا   کہہ کر مضمون  کو ختم  کرتے ہیں۔ کہ  آئندہ  سے یہ کلمہ پڑھے کہ ( لا الا للہ عیسیٰ کلام اللہ )۔

Leave a Comment