محمدصاحب نے معجزے کئے ہیں یا نہیں

Eastern View of Jerusalem

Whether Muhammad has done miracles or not?

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan July 22, 1875

نور افشاں مطبوعہ ۲۲جولائی ۱۸۷۵ ء

 تما م اہل اسلام  مقر(قرار کرنا) ہیں کہ محمدؐ صاحب نے بہت سے معجز  ے دکھلائے  ہیں۔ اگر  کوئی اُس  کے  معجزے پر شک کرے   تو وہ اُن کی نظر  میں کافر اور ملعون (جس پر لعنت کی گئی ہو)ہے۔ مگر جو کوئی  تعصب(مذہب کی بے جا حمايت) اور  ضد  کو ترک  کر کے حق کا  متلاشی (تلاش کرنے والا)ہو۔ اُسے چاہیے  کہ ان باتوں سے ہرگز  نہ ڈرے۔  کیونکہ وہ لوگ  جو اپنے مذہب  کو بغیر  سوچے  اور دریافت  کئے سچا  اور دوسروں  کے مذہب  کو جھوٹا  جانتے ہیں۔ وہ اکثر  اُس شخص  کو جو دین ِحق  کی تحقیقات  کرنا چاہتا  ہے طعن(طعنے دينا)  اور ملامت (بُرا بھلا کہنا) کرتے ہیں ۔اور اُس کو ملعون  کافر   اور طرح طرح کا مجرم ٹھہراتے  ہیں۔ مثلاً  اگر  شائستہ  آدمی  عمدہ لبا س  پہن کر ننگے وحشی  آدمیوں میں جا نکلے ۔ تو کیا وہ  اُس کے ساتھ نیک سلوک سے پیش  آئیں گے۔ ہرگز  نہیں بلکہ  پتھراؤ  کر یں گے اس لئے ہمیں مناسب  ہے کہ جس قدر  وہ ہمارے ساتھ  سختی اور تعدی (نا انصافی) کریں۔ اُس قدر  ہم حق  کے دریافت  کرنے میں سعی  اور کوشش  کریں ۔

 محمدیوں  کو دعویٰ ہے کہ محمدؐؐصاحب  کے بہت سے معجزوں کا ذکر حدثیوں  اور قرآن  میں موجود   ہے۔ اور محمدؐ صاحب  کی وفات  کے بعد محمدیوں  نے بھی  بہت سے معجزے کئے ہیں۔  اب ہم پر یہ فرض  ہے کہ حتی  المقدور  (جہاں تک ہو سکے)ان چار باتوں  پر خوب غور  کریں سب لوگ جانتے  اور اقرار کرتے ہیں ۔کہ کراماتوں(معجزوں)  کو پختہ  شہادتوں(گواہوں)سے قبول کرنا چاہیے۔ اور   بغیر  گواہی  پختہ  کے قبول کرنا مناسب نہیں ۔ اوّل  ان کے ہم اس دعویٰ  کو تحقیق  (چھان بين)کرتے ہیں کہ حدثیوں  میں کیسی  کراماتوں  کا ذکر ہے ۔ مثلاً  لکھا  ہے کہ ایک روز جب محمدؐ صاحب کو حاجت  ہوئی درخت اکٹھے  ہو کر اُس کے لئے جائے ضرور بن گئے  ۔

اب  ہم اس بات پر کئی ایک  سوال کرتے ہیں ۔ سوال  اوّل  کیا سب محمدی لوگ  حدثیوں کو مانتے ہیں ۔ نہیں ہر شخص  کو معلوم ہے کہ شیعہ  سب حدثیوں  کو نہیں مانتے ۔سوال  دوئم کیا سُنی  تمام حدثیوں کو قابل اعتبار  سمجھتے ہیں کبھی نہیں ۔ یہ بات صاف ظاہر  ہے کہ سُنی حدثیوں  کو درجہ بہ  درجہ  مانتے ہیں ۔ اس سے واضح ہوتا  ہے کہ ان کے نزدیک بھی حدیثیں  اعتبار  کے لائق  نہیں ہیں۔ اب ان کا نا معتبر (ناقابلِ اعتبار)ہونا چند دلیلوں  سے جو ذیل میں مندرج  کی جاتی ہیں ۔ ثابت ہے۔ محمدؐ صاحب  کی حیات(زندگی)  میں ان کے پیرو اُن کو بہت ہی عزیز  جانتے تھے۔ لیکن جب وہ فوت  ہو گئے تو  اُن کے پیر و (پيچھے چلنے والے)کہنے لگے۔ کہ حضرت   نے ہم سے  یہ باتیں فرمائی تھیں ۔ غرضکہ  ہر ایک اُن میں سے یہی کہتا تھا ۔ کہ محمدؐ صاحب نے مجھے  فلانی  بات سنائی  ۔ کچھ عرصہ  بعد محمدؐ صاحب کی  انہوں نے اُن تمام باتوں کو جمع  کرنے کا  ارادہ کیا ۔اور یہ  بھی واضح  ہو کہ سب لوگ دانا (عقلمند)نہیں ہوتے۔  اور نہ سب لوگ سچے  ہوتے ہیں۔ جاہل اپنی جہالت کے سبب اُن باتوں کو جو قابلِ اعتبار  نہیں لوگوں کو سناتے تھے۔ فی الجملہ   انہوں نے اور اور جھوٹوں  نے عزت اور حرمت(عزت)  پانے کے لئے ان باتوں کا ذکر لوگوں کےآگے  کیا ۔اور ان تمام باتوں کا ذکر لوگوں کے آگے کیا اور ان تما م باتوں کو جمع کر لیا ۔ جب عالموں نے ان باتوں پر غور  کیا تب  انہوں نے سوچا کہ یہ باتیں  بالکل  ماننے کےلائق نہیں  ہیں۔مگر جو باتیں اُن کو  ذرہ بھی  اچھی معلوم ہوئیں اُن کو علیٰحدہ  کر لیا۔  اب ہم کو کیو نکر معلوم ہو کہ وہ باتیں  جنکو عالموں  نے تسلیم  کیا راست(درست) ہیں۔ اور جن کو انہوں نے رد کیا   خلا ف  ہیں ۔کیونکہ  عقلمندوں کے نزدیک  تحقیق  کرنا ان امورات کا  محال  (دشوار)ہے۔ ایسی  باتیں  قابل ِ تسلیم کبھی  نہیں ہو سکتیں  ۔ سب لوگ بخوبی  جانتے ہیں  کہ  جب کوئی پیشوا یا گرو مر جاتا ہے اس کے پیرو یا  چیلے  اُس کے  حق میں عجیب  عجیب باتیں لوگوں کو سناتے ہیں ۔ مگر  کون جانتا ہے کہ وہ سب باتیں  سچی ہیں۔ کوئی دانا شخص  ایسی باتوں  پر بغیر   ثبوت  یقین نہیں کر سکتا ۔

میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا

مثلاً  صرف تین  چار سو برس کا عرصہ  گزرا  ہے کہ بابا نانک  مر گیا ۔ اُ س کے پیرو اب تک بہت سی کرامتوں کا ذکر کرتے ہیں۔اُن  عجیب باتوں میں سے ایک  تو یہ ہے کہ ایک روز بابا نانک  مکہ شریف  گیا اور کعبہ  کی طرف پاؤں پھیلا کر سو گیا۔ ایک مسلمان نے دیکھ  کر اُسے گالیا ں دیں  اور کہاکہ کعبہ کی طرف تم نے کیوں پاؤں کیا ہے ۔  یہ سن کر  بابا نانک  نے اپنے پاؤں دوسری  طرف کر لئے اور سو رہا ۔  اتنے میں کعبہ بھی فی الفور  اُس  کے  پاؤں کی طرف ہو گیا ۔ کیا کوئی  محمد ی اس کرامت(خوبی)  کو قابل  اعتبار  سمجھتا  ہے کوئی نہیں۔

پوشیدہ  نہ رہی کہ جب کوئی آدمی اپنا  بڑا  محل  بنا نا چاہتا  ہے تو اُس بڑی  پختہ(مضبوط)  بنياد  درکار ہوتی ہے ۔ تا کہ اُس کا  مکان  دیر تک  قائم  رہے۔  اس طرح ہمارے ایمان کے   لئے پختہ  نیو درکار  ہے نہ صرف لوگوں  کی بے ہودہ  باتیں بلکہ   خُدا تعالیٰ  کا پاک  کلام۔

اب ہمیں یہ  بھی  دریافت  کر نا چاہیے  کہ آیا قرآن سے محمدؐصاحب  کی کراماتیں  ثابت ہوتی ہیں ۔ کہ نہیں  سورہ قمر کی پہلی آیت  میں لکھا  ہے کہ اقتربت  الساعت وانشق  القمر ۔ یعنی پاس آلگی  وہ گھڑی  اور پھٹ  گیا چاند  ۔ لیکن اکثر  محمدی  کہتے  ہیں کہ اس آیت میں روز  حشر(قيامت کا دن)  کا ذکر ہے او ر ہم کو  عبارت سے صاف  معلوم نہیں ہوتا ہے۔ کہ اس میں محمدؐ صاحب کا ذکر  ہے۔ کیونکہ  کسی کا نام اس میں مندرج  نہیں کیا گیا۔  پھر سورہ  بنی  اسرائیل  کی پہلی آیت میں لکھا ہے ۔  سبحان الذی اسرً ا بعبد ہ الخ ۔ جس کے یہ معنی ہیں پاک ذات  ہے جو لے گیا  اپنے بندے  کو رانی رات ادب والی   مسجد سے پر لی مسجد تک فقط ۔

لیکن  اس آیت  میں بھی  محمدؐ صاحب  کا ذکر نہیں ہے اور  مسیح  کی وفات کے  چالیس  بر س بعد  ٹائتیس نے جو رومی  سپہ  سالا ر تھا  اُس  مسجد  کو گر ا دیا تھا۔  اور محمدؐ صاحب کے وقت  تک کسی نے اس جگہ مسجد  نہ بنائی تھی   ۔اور  محمدؐ کے وقت پر لی  مسجد موجود  نہ تھی ۔ پھر وہ کس  طرح اس  مسجد میں گیا ۔   اور کوئی یہ بھی نہیں کہہ  سکتا کہ فلانے  نے اس معجزے  کو دیکھا۔  یعنی  محمدؐ صاحب کا بیت الحرام   سے بیت   المقدس  تک جانا ۔ یہ بھی واضح   ہو کہ تواریخ  کی باتیں صرف گواہوں  سے ثابت ہو سکتی  ہیں۔ جب اس بات  کا کوئی پختہ  گواہ  نہیں ہے تو یہ کس طرح قابل   اعتبار  ہو سکتا ہے ۔ یہ بھی پوشیدہ  نہ رہی    کہ اگر کوئی   شخص   کہے کہ محمدؐ   صاحب نے معجزے  کئے ہیں۔  تو وہ  سراسر   قرآن  کے برخلاف  کہتا ہے   کیونکہ اس میں بار بار  لکھا ہے کہ محمدؐ  صاحب   نے معجزے  ہرگز نہیں کئے  ۔ اگر دریافت   کرنا ہو تو سورہ انعام  کی ان آیتوں  میں ملا حظہ  کرو۔

وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ قُلْ إِنَّ اللَّهَ قَادِرٌ عَلَىٰ أَن يُنَزِّلَ آيَةً وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

اور کہتے  ہیں کیوں نہیں اُتری اس پر  نشانی اُس کے رب  سے تو کہہ کہ اللہ کی قدرت  ہے کہ اُتارے  کچھ نشانی  لیکن  اُن بہتوں کو سمجھ  نہیں۔  اور پھر اسی  سورہ  کی ایک سو نویں آیت ۔ 

وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِن جَاءَتْهُمْ آيَةٌ لَّيُؤْمِنُنَّ بِهَا قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِندَ اللَّهِ وَمَا يُشْعِرُكُمْ أَنَّهَا إِذَا جَاءَتْ لَا يُؤْمِنُونَ

 اور قسمیں  کھاتے ہیں  اللہ کی کہ اگر ان کو  ایک نشانی  پہنچے البتہ  اُس کو  مانیں  تو کہہ نشانیا ں تو اللہ  کے پاس ہیں اور تم  مسلمان  کیا خبر رکھتے ہو کہ جب وہ آئیں گے   تو یہ نہ مانيں  گے  ۔ ایک سو گیارھویں  ۔

وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَىٰ وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ 

اور  اگر ہم اُن پر اُتاریں  فرشتے  اور ان سے بولیں  مُردے  اور جلا دیں   ہم ہر چیز  کو اُن کے سامنے ہر گز ماننے والے نہیں۔ مگر  جو چاہے  اللہ پر  یہ اکثر   نادان ہیں ۔  اور ایک سو چوبیسوں  ۔

وَإِذَا جَاءَتْهُمْ آيَةٌ قَالُوا لَن نُّؤْمِنَ حَتَّىٰ نُؤْتَىٰ مِثْلَ مَا أُوتِيَ رُسُلُ اللَّهِ اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ

اور جب  پہنچے اُن کو  ایک آیت کہیں  ہم ہر گز  نہ مانيں گے۔  جب تک ہم کو  نہ ملے  جیسا کچھ  پاتے ہیں  اللہ کے رسول   اللہ بہتر  جانتا ہے جہاں بھیجے  اپنے پیام۔

میں تو مومنوں کو ڈر اور خوشخبری سنانے والا ہوں۔

پھر سورہ اعراف کی ایک سو اٹھائیسویں

 قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ

کہہ دو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو الله چاہے اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو بہت سے فائدے جمع کرلیتا اور مجھ کو کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ میں تو مومنوں کو ڈر اور خوشخبری سنانے والا ہوں۔

اور سورہ  بنی  اسرائیل  کی بانویں  آیت سے پچانویں   آیت تک

وَقَالُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنبُوعًا أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْأَنْهَارَ خِلَالَهَا تَفْجِيرًا أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا أَوْ تَأْتِيَ بِاللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ قَبِيلًا أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِّن زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَىٰ فِي السَّمَاءِ وَلَن نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّىٰ تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَابًا نَّقْرَؤُهُ ۗ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا

اور بولے  ہم نہ مانیں گے  تیر ا کہا جب تک تو نہ  بہا  نکالے ہمارے واسطے  زمین سے ایک چشمہ  یا ہو جائے تیرے  واسطے  ایک باغ  کھجور  اور انگور  کا پھر  بنالے تو اس کے بیچ  نہریں چلا  کر یا گرا دے  آسمان  ہم پر  جیسا کہا کرتا  ہے  تکڑے تکڑے  یا لے آؤ  فرشتوں کو اور اللہ  کو ضامن  یا ہو جائے تجھ  کو ایک گھر  سنہری  یا چڑھ  جائے  تو آسمان  میں اور ہم یقین  نہ کریں گے ۔ تیرا  چڑھنا  جب تک نہ اُتار لادے ۔ ہم پر ایک لکھا جو ہم پڑھ لیں تو کہہ سبحان  اللہ میں کون ہوں مگر ایک آدمی  ہوں بھیجا  ہوا فقط  ۔ اور اکسٹھویں  آیت

وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَن كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ وَآتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوا بِهَا وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا

اور ہم نے اس سے موقوف (ٹھہرايا گيا)کیں  نشانیا  ں بھیجنی  کہ اگلوں  نے ان  کو جھٹلا یا ۔اور ہم نے  دی ثمود  کو اونٹنی  سمجھا نے کو پھر اُس کا حق نہ مانا اور نشانیاں   جو ہم بھیجتے  ہیں سو ڈرانے کو فقط ۔ اور سورہ  انبیاء  کی پانچویں  آیت  بل قالو اضغات احروم بل فتوہ بل ھو شاعر  فلیا تنا بایہ  کما ارسل  الا ولون ۔

یہ چھوڑ  کر کہتے ہیں اُڑتی  خواب میں نہیں  جھوٹ   باندھ  دیا ہے نہیں شعر  کہتا ہے پھر چاہے  لے آئے ہم پاس  کوئی نشانی  جیسے  پیغام  لائے ہیں  پہلے ۔ اب ان آیتوں  پر غور  کرو اور دیکھو  ان میں صاف  پایا جاتا ہے کہ محمدؐ صاحب نے معجزے  نہیں کئے ۔

ایک دفعہ  میں جو الا مکھی  کو گیا اور ان لوگوں سے ملاقات کی جو معجزے کرنے کا دعویٰ کرتے تھے۔  اور حقیقت  میں لوگوں  کو فریب دیتے تھے ۔میں نے کہا  کہ مہربانی  کر کے مجھے  بھی کوئی معجز ہ دکھلا  ئے ۔ تب انہوں نے انکار  کیا کیونکہ انہوں نے جانا کہ یہ اچھی  طرح سے تحقیق  (تصديق)کرے گا۔  ایسا ہی جب محمدؐ صاحب اس دُنیا میں تھے تو بہت  لوگ ان کو بھی کہتے ہیں کہ ہمیں مہربانی  کر کے ایسی چند  علامتیں  جن سے  نبوت  ثابت ہوتی  ہے دکھلائے۔ تو انہوں نے بھی انکار  کیا اور یہ کہا  کہ خُدا تعالیٰ  نے ایسی علامتوں  کا دکھلانا  بند کر دیا  ہے کیونکہ  اگلوں نے جھٹلایا  ۔ جب یہ آیتیں  ہم قرآن  سے محمد یوں کو سُناتے ہیں۔  تو وہ  جواب  دیتے ہیں کہ عیسیٰ نے بھی کہا  کہ بُرے  لوگ نشان  ڈھونڈتے ہیں  لیکن ان کو کبھی  دکھلا یا نہ جائے گا ۔ بےشک جب لوگوں نے مسیح کو آزمانہ چاہا  اُس نے  معجزہ دکھلانے سے انکار کیا۔ لیکن اُس نے یہ کبھی  نہیں کیا  کہ خُدا  تعالیٰ نے ایسی  علامتوں کا دکھلانا بند کر دیا ہے اور نہ یہ کہا  کہ سبحان  اللہ میں  کون ہو ں مگر  راہ دکھلانے والا۔

اب ہم اس سے یہ معلوم  کرتے ہیں کہ محمدؐ  صاحب نے کوئی معجزہ  نہیں کیا  مگر عیسیٰ  کو معجزہ  کرنے کا کل اختیار  تھا  اور اگر  وہ چاہتا  تو اُن لوگوں کو بھی جو اسے آزمانا  چاہتے تھے  معجزے  دکھلاتا ۔

اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو بہت سے فائدے جمع کرلیتا

پھر محمدؐ  اقرار کرتے ہیں  کہ قرآن خود  ایک معجزہ ہے۔ کیونکہ  اس کی  عبارت ایسی  عمدہ  ہے کہ کوئی  آدمی اُس کے موافق  بنا نہیں سکتا ۔ ميں  نے مانا  کہ یہ سچ ہے۔ مگر سنسکرت  کی عبارت  بھی بہت ہی اچھی ہے۔ بے شک  کوئی  شخص  بید  کی سنسکرت  عبارت کی مانند  نہیں بنا سکتا ۔ اور بڑے  بڑے پنڈت  بھی کہتے ہیں کہ  بید(ہندووں کی مقدس کتاب) کی سنسکرت  عبارت کی مانند  کوئی بشر نہیں بنا سکتا ۔ پھر محمدؐ  کس طرح اُس کو  معجزہ کہتے ہیں ۔ اگر کوئی آدمی ایسا بڑا  درخت دیکھے جس کے برابر  اور کوئی  بڑا درخت نہ ہو  تو  وہ معجزہ  تصور نہیں کیا جاتا ۔ سب لوگ  جانتے ہیں کہ  داؤد  کے وقت  ایک  پہلو  ان مسمی  جوليت تھا جسے  اُس  نے مار ڈالا  تھا اُس کے قد کے موافق  کوئی  دوسرا شخص نہ تھا ۔ مگر  کوئی  شخص  اتنے بڑے قد کو معجزہ  نہیں کہتا تھا  ۔ کوئی محمدی حومر کی مانند  یونانی عبارت اور گل کی مانند   لاطينی   عبارت اور کالید اس کی مانند سنسکرت  عبارت  ہرگز   نہیں بنا  سکتا ہے۔ پھر کیا  یہ بھی معجزہ  ہو گا۔ پھر اکثر  محمدی کہتے ہیں کہ محمدؐ صاحب  کے وقت  بھی کوئی شخص  ایسا نہ تھا  کہ ایسی عبارت  بنانے کی لیاقت   (قابليت)رکھتا۔  بلکہ  تمام لوگ  یہی اقرار  کرتے تھے۔ کہ قرآن   کی عبارت  کے موافق   کوئی  بشر عبارت  نہیں بنا  سکتا   ۔کون  جانتا  ہے کہ محمدؐ صاحب  کے وقت  سب لوگ ایسا  ہی  کہتے تھے سب دانا   آدمی  جانتے ہیں  کہ آج  کل فرانس  جرمنی  انگلستان  اسٹریا امر یکہ وغیرہ  ملکو ں میں بہت لوگ عبرانی  یویانی  سنسکرت  اور عربی زبان کو  بخوبی  پڑھتے  ہیں۔ اور ان زبانوں کی کتابو  کو اچھا کماحقہ  (ٹھيک ٹھاک۔بخوبی)سمجھتے  ہیں۔ مگر  کسی  شخص  نے کبھی  نہیں  کہا  کہ قرآن  کی عبارت دوسری  زبانوں  کی عبارت  سے فوقیت(سبقت) رکھتی  ہے۔ اگر  محمدؐ ی عبرانی  یویانی  سنسکرت   اور لاطینی  زبان کو تحصیل (حاصل)کریں تو بڑا  فائدہ اُٹھا ئیں۔

 کیونکہ ان زبانوں  میں نہایت  عمدہ اورقدیمی  کتابیں  لکھی گئی ہیں مثلاً وہ   لوگ  جو دہلی   میں رہتے ہیں انہوں نے اور کوئی  بڑا  عالی شان  شہرنہیں دیکھا۔  وہ تو ضرور یہی کہیں گے کہ دہلی  کی مانند  اور کوئی شہر  دُنیا کی سطح پر نہیں  ہے۔ اگر  وہ  اور  ملکوں کی بھی  سیر کریں او  رسینٹ   پیٹرز  برگ   وائینا ماسکو ۔ پارس  ۔ نیویارک  ۔  لیور  پول ۔ لنڈن ۔  وغیرہ  شہروں کو دیکھ کر پھر دہلی  کی تعریف   جیسی   پہلے   کرتے تھے ہر گز  کریں گے   اور اور  شہر وں پر اُسے  فوقیت   نہ دیں گے  ۔ اسی طرح اگر  محمدی  سیسرویما ستہر و رجل  ہارس حومر ملٹن  وغیرہ  مصنفوں کی کتابیں  پڑھیں ۔اور قرآن  سے ان کا مقابلہ  کریں تو وہ بھی ضرور  کہیں گے کہ ان کتابوں کی عبارت   بےشک  قرآن کی عبارت  سے عمدہ  ہے۔

یہ بھی واضح  ہو کہ عبارت  مضمون  سے ایسی  نسبت  رکھتی ہے   جیسی  پوشاک (لباس)  آدمی سے ۔ اس کا مطلب  یہ ہے کہ بُرے  لوگ بھی اچھی  پوشاک   پہن سکتے ہیں ۔ اب  بہتر   یہ ہے   کہ ہم عبارت   کی فکر  ہرگز نہ کریں   ۔ لیکن  مطلب   پر خوب   غور کريں  ۔اگر قرآن  کی تعلیم   سب مذہبی  کتابوں   کی تعلیم   سے اچھی  ہو تو میں اس کو  ضرور   خُدا کا  کلام  سمجھو ں گا  ۔ اور مانو ں گا  لیکن اس کا  ذکر  آگے  کیا جائے گا  ۔ پھر محمد  ی  کہتے ہیں کہ محمدؐ  صاحب کے پیرؤں نے بے شمار  معجزے  کئے ہیں اس بات  کا ذکر کرنا    لا حاصل  ہے۔ کیونکہ  جب محمدؐ صاحب  کے معجزے  ثابت   نہ ہوئے تو اُن کے پیرؤں کے معجزے  کس طرح ثابت  ہو سکتے  ہیں ۔ باقی آیندہ

Leave a Comment