Christ is not the Seal of prophets Objection by Muslims
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan July 9-15, 1873
نور افشاں مطبوعہ ۹۔۱۵جولائی ۱۸۷۳ ء
یہ کلام جو پیشانی(کاغذ کا بالائی حصّہ جو عبارت سے اُوپر خالی چھوڑ ديا جائے ) پر لکھی گئی ۔ آخری حصّہ مضمون ملک شاہ صاحب میں درج ہے۔ اور اس کی نسبت انہوں نے زور و شور کیا ہے۔ اگر اس سے ان کا یہ مطلب ہے کہ مسیح آخر ی نبی نہیں ہے ۔یعنی نبوت اُس پر ختم نہیں ہوئی بلکہ اور نبی اس کے پیچھے ہوئے تو اس سے ہم انکار نہیں کرتے بلکہ تسلیم کرتے ہیں جس کے دو سبب ہیں۔
اوّل یہ ۔ کہ خُداوند یسوع مسیح کو ہم صرف بنی نہیں جانتے ۔کیونکہ نبوت (رسالت)اس کے دوسرے درجہ کا کام تھا خاص کام ( جس کے لئے وہ اس دُنیا میں آیا ) یہ تھا ۔کہ اپنی جان دے کر گناہوں کا کفارہ (گناہ دھو دينے والا)کرے اور گنہگار وں کو نجات بخشے اس لئے یسوع مسیح اُس کا نام ہوا۔ وہ کلامِ اللہ اور ابن ِاللہ ہے اسلئے اور نبیوں کے ساتھ اس کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ۔نبی اور پیغمبر جو دُنیا کے شروع سے ہوئے سب کے سب مسیح کی شہادت(ثبوت۔گواہی) دیتے رہے ۔وہ تو نبیوں کی نبوت کا مضمون تھا جس قدر نبی گذرے وہ تمام بندگان ِخُدا کی آنکھیں اُ س کی طرف رجو ع کرتے رہے ۔ اس لئے اُس کا نبیوں کے ساتھ مقابلہ نہیں ہو سکتا۔
دوسری وجہ یہ ہے۔ کہ ہم یقیناً جانتے ہیں کہ نبوت کا کلا م مسیح کے بعد عیسائی کلیسیاء میں جاری رہا ۔چنانچہ مسیح کے بارہ حواری(شاگرد)الہامی اورنبی تھے۔ اُن کے خطوط اور کتب ِمصنفہ میں بہت کلامِ نبوت موجود ہیں۔ خصوصاً مکاشفہ کی کتاب شروع سے آخر تک کلام نبوت سے مملو (بھرا ہوا۔پُر)ہے۔ بعض جن میں سے پورے ہو گئے بعض جن میں سے ہو رہے ہیں۔ اور بعض جس میں سے ہو ں گے سوا اس کے ہم جانتے ہیں ۔کہ انطاکیہ کی کلیسیا میں بہت سے نبی ہوئے دیکھو( اعمال کی کتاب ۱۳ باب پہلی آیت )اور انطا کيہ کی کلیسیاء میں کئی نبی اور معلم (اُستاد)تھے۔ اور یروشلیم کی جماعت میں بھی نبی ہوئے ۔(اعمال کی کتاب ۱۱ باب ۲۷۔ آیت) انہی دنوں میں کئی ایک نبی یروشلیم سے انطا کيہ میں آئے اور( افسیوں کا خط ۴ باب ۱۱ ۔ آیت) میں پُولوس رسول یوں فرما تا ہے کہ جماعت پر خُدا نے بعضوں کو رُسول اور بعضوں کو نبی مقر ر کر دیا۔ پھر( پہلا خط کرنتھیوں کا اور اس کا ۱۲ باب اور ۲۸ آیت )خُدا نے کلیسیا میں کتنوں کو مقرر کیا کیا پہلے رسولوں کو دوسرے نبیوں کو ان کلاموں سے معاف معلوم ہوتا ہے ۔کہ پہلی صدی کی عیسائی جماعتوں میں خُدا نے بعض اشخاص کو نبوت عطا کی اس واسطے بموجب قول ملک شاہ صاحب کے ہم بھی مسیح کے خاتم البنیین ہونے سے انکار ی نہیں ہیں۔ لیکن اگر اس کلام سے ان کا یہ خیال ہوا ہے کہ خُداوند یسوع مسیح کا زمانہ آخری زمانہ نہیں ۔بلکہ اُ س کے پیچھے اور کوئی رسول آئے گا جو انجیل کو منسوخ(رد) کر کے نئی شریعت اور نیا طریقہ نجات کا جاری کر ے گا ۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ اُن کا مطلب بھی ایسا ہی ہے ۔ تو ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے۔ کیونکہ انجیل میں صاف بیان ہے کہ کسی دوسرے سے نجات نہیں آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا۔ جس سے وہ نجات پائیں ۔ دیکھو ( اعمال ۴ باب ۱۲ آیت )اور سوا اس کے انجیل میں بیان ہے کہ مسیح کا زمانہ آخری زمانہ ہے۔ دیکھو (عبرانیوں کا خط پہلا باب پہلی اور دوسری آیت) خُدا جس نے اگلے زمانہ میں نبیوں کے وسیلے باپ دادوں سے بار بار اور طرح طرح کلام کیا ۔ان آخری زمانوں میں ہم سے بیٹے کے وسیلے بولا جس نے اس کو ساری چیزوں کا وارث ٹھہرایا اور جس کے وسیلے اُس نے عالم بنایا ۔اور( گلتیوں کا خط پہلا باب ۹ آیت) جس میں پُولوس رسول یوں کہتا ہے کہ جیسا ہم نے آگے کہا ویسا ہی اب میں کہتا ہوں ۔ کہ اگر کوئی تمہیں کسی دوسری انجیل کو سوا اس کے جسے تم نے پایا سنائے ۔تو وہ ملعون( لعنت کيا گيا۔مردود) ہوئے ۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ سوائے انجیل کے اگر کوئی تمہیں کوئی اور انجیل سنائے تو وہ خُدا کے حضور ملعون ہے۔ اور خُداوند یسوع مسيح خود فرماتا ہے کہ اگر کوئی تم سے کہے ۔ديکھو مسيح يہاں يا وہاں ہے تو يقين نہ لاؤ۔ کيونکہ جھوٹے مسيح اور جھوٹے نبی اُٹھيں گے۔نشانياں اور کرامات دکھلا ئیں گے۔ کہ اگر ہو سکے تو برگزیدوں(چُنے ہوئے) کو بھی گمراہ (بے دين)کریں۔ پر تم خبر دار رہو دیکھو میں نے تمہیں پہلے ہی سب کچھ کہہ دیا ہے( مرقس کی انجیل ۱۳ باب ۲۱ سے ۲۳ ۔ آیت )تک ان آیتوں میں خُداوند یسوع مسیح شاگرد وں کو جتاتا ہے کہ اگر کوئی شخص مسیح یا نبی ہو نے کا دعویٰ کر کے تمہارے پاس آئے معجزہ اور نشانیاں دکھائے تو تم اُن پر یقین نہ کر نا وہ جھوٹے مسیح اور جھوٹے نبی ہو ں گے ۔ پس اس حالت میں ہم کیو نکر مان سکتے ہیں کہ اور کسی نبی کا آنا انجیل سے ثابت ہے۔ سو اس ليے خُداوند یسوع مسیح اپنے رسولوں کو یہ کہتا ہے کہ تم جا کر سب قوموں کوشاگر دبناؤ۔ انہیں باپ بیٹا اور رُوح القدس کے نام سے بپتسمہ دو اور انہیں سکھلاؤ کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جن کا میں نے تمہیں حکم دیا ہے ۔اور دیکھو زمانہ کے تمام ہو نے تک میں تمہارے ساتھ ہو ں ۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انجیل کی تعلیم اور نصیحت زمانہ کے تمام ہونے تک قائم رہے گی۔ اور مسیح اپنے شاگردوں کے ساتھ تب تک رہے گا۔ اس حالت میں ہم کیونکر سوچ سکتے ہیں کہ اور کوئی نتیجہ نجات کا جاری ہو گا ۔ مسیح نے اُس روز جب وہ پکڑا گیا اپنے شاگردوں سے عید فصح کھائی اور عشاء ربانی کی عید اُن کے بیچ مقر ر کی۔ اور ان کو کہا کہ تم اس طرح میری یاد گاری کرتے رہو جب تک کہ میں پھر آؤں یعنی روز قیامت تم دیکھو (پہلا خط کرنتھیوں کا ۱۱ باب ۲۶ آیت) جب بیان اس قدر صفائی سے انجیل میں ملتا ہے کہ جب تک میں پھر آؤں تم میری یاد گار میں عشاء ربانی کرتے رہو ۔اور میری ہدایت پر چلو تب کیونکر خیال ہو سکتا ہے کہ اُس کی تعلیم کے خلاف کوئی اور تعلیم سچی ہو گی۔ اور انجیل کے سو ا کوئی اور کتاب سچی اور الہامی سمجھی جائے گی ۔ اور نجات کا طریقہ اور شریعت منسوخ(رد کيا گيا) ہو کر کوئی اور طریقہ اور شریعت قائم ہو گی اس قدر ثبوت اس امر کا کہ مسیح کا زمانہ آخر ی زمانہ ہی کافی ہے اور اسلئے ہم بس کرتے ہیں ۔
اور اُن آیات کا بیان کیا جاتا ہے کہ جو میاں ملک شاہ محمد صاحب سے منسوب(متعلق کيا ہوا) کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اُن میں ان کے آنے [1]
وہ آیات یہ ہیں( مکاشفہ ۲ باب ۷ ا سطر) جو غالب (زور آور)ہوتا ہے میں اسے من(آسمانی خوراک) کھانے کو دُونگا ۔ اور اُسے سفید پتھر دُوں گا ۔ اور اُس پتھر پر ایک نام لکھا ہوا دوں گا جسے اُس کے پانے والے کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔۳۶ سطر سے ۲۸ سطر جو غالب ہوتا ہے اور میرے کاموں کو آخر تک حفظ(حفاظت کرنا) کرتا ہے میں اسے قوموں پر اختیار دوں گا اور وہ لوہے کے عصاسے اُن پر حکومت کرے گا وہ کمہار کے برتنوں کی مانند چکنا چور ہو جائیں گے۔ جیسا میں نے اپنے باپ سے پایا ہے اور اُسے صبح کا ستارہ دُو ں گا۔
مجھ کو نہایت تعجب(حيران) آتا ہے کہ ان آیتوں سے محمد صاحب کے آنے کی خبر کیونکر سمجھی گئی۔ اگر ملک شاہ صاحب سارے باب کو غورو تامل(صبر و تحمل) سے ملاحظہ فرماتے ۔تو یہ خیال ان کے دل میں کبھی نہ آتا میری التماس ہے۔ کہ وہ سارے باب کو اچھی طرح دیکھیں اس سے مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی غلطی پر مطلع (آگاہ۔خبر دار کيا ہوا)ہو کر خود ہی غلط فہمی کے مقر(اقرار کرنے والا) ہو ں گے ۔ میں اس موقعہ پر ان آیات کی تفسیر(تشريح) نہیں کر تا بلکہ اس قدر دکھاتا ہوں ۔ کہ یہ آیات محمد صاحب سے تعلق نہیں رکھتیں سترھویں آیت کا کلام ( جو غالب ہوتا ہے میں اُ سے من کھانے کو دُونگا اور میں اُسے سفید پتھر دُو نگا الخ ) اوّل پرگمن کی کلیسیا ء کو کہا گیا ہے اور ساری مسیحی کلیسیاؤں کو یہ وعدہ اُن مسیحیوں سے ہے جو کہ بُرائی پر غالب ہوں گے ۔ اور محمد صاحب پر عائد نہیں ہو تا غور سے صاف ظاہر ہو سکتا ہے ۔ اور ۲۶ سطر سے ۲۸ تھوا تیرہ کے کلیسیاء کی نسبت ہے اٹھارھویں آیت سے پڑھ کر دیکھو یہ آیتیں کسی صورت سے محمد صاحب پر عائد نہیں ہو سکتیں ۔کیونکہ ان میں بیان ہے وہ جو غالب ہوتا اور ميرے کاموں کو آخر تک حفظ کرتا ہے۔ میں اُسے قوموں پر اختیار دُونگا الخ یہ کلام مسیح کا ہے وہ کہتا ہے کہ یہ برکتیں میں اُس شخص کو دُو نگا جو میرے کلام کو آخر تک حفظ رکھتا ہے۔ بھلا ملک شاہ صاحب یہ باتیں کس طرح محمد صاحب سے منسوب ہو سکتی ہیں۔ یہ تو اُس کی نسبت ہیں جو کہ مسیح کے کاموں کو آخر تک حفظ رکھتا ہے محمدصاحب نے ا ُ ن کے کام کی حفاظت نہیں کی بلکہ اس کے خلاف بیان کیا۔ اور اس کے خلاف تعلیم کی اور پھر غور کرنا چاہیے ان الفاظ پر وہ جو غالب ہوتا ہے میں اُسے قوموں کا اختیار دُوں گا ۔ آپ اس امر کا اقرار کرتے ہیں کہ جو کچھ اختیار محمد صاحب کو ملا مسیح سے ملا اور وہ سب اقتدار مسیح کی طرف سے تھا اور وہ ان کے نائب يا تابعدار تھے ہرگز نہیں اس لئے بہتر ہے کہ آپ نظیر انصاف یہ آیتیں محمد صاحب سے منسوب نہ کر یں۔
اکثر ایسا دیکھاگیا ہے کہ سرگرم محمدی محمد صاحب کی نسبت انجیل کی شہادت(گواہی) پیش کرتے ہیں اور اس سے ایسی آیتیں اخذ کر کے محمد صاحب سے منسوب کرتے ہیں جو کہ اُن کی ذات کے ساتھ کچھ تعلق نہیں رکھتیں بلکہ خلاف اُن کے ہوتی ہیں۔
ان صاحبان فہم و ذکا کی خدمت میں التماس ہے کہ پیشتر اس کے کہ وہ ذکرکر یں۔ ان آیات کو بخوبی دیکھ لیا کريں تا کہ ان کو پیچھے سے ندامت(شرمندگی) حاصل نہ ہواور اُن کا دعویٰ اس شہادت بے بنیاد سے باطل(جھوٹ) نہ ہو جائے ۔
چرا کاری کند عاقل کہ باز آر و پشیمانی ۔
اب میں یہ طول وطويل مضمون ختم کرتا ہوں جس قدر کہ ضروری تھا انجیل سے مسیح کے خُدا اور ابن ِاللہ اور کفارہ ہونے وغیر ہ کا ثبوت دیا گیا یہ دلائل(ثبوت) قطعی اور ثبوت کامل ہے جو پیش ہوا اُمید ہے ۔کہ معترض(اعتراض کرنے والے) قائل ہو گا اور متلاشیان کی اس سے تسکین(تسلی) ہو گی ۔ ہم کو نہایت افسوس ہے کہ اکثر لوگ بے بنیاد اور وہی اعتراض کرتے ہیں ۔ جواب دیا گیا اور اُن کی تردید کی طرف توجہ نہیں کرتے اور وہی نقار ہ بجائے جاتے ہیں اُن کے لئے ضرور ہے کہ سچائی کو نگاہ رکھ کے اور ہر طرح کا تعصب(مذہب کی بے جا حمايت) دل سے دُور کر کے خُدا سے اُس کے فضل و کرم کے خواستگار(درخواست گار)ہو ئیں اور پھر انجیل کا۔