درس

Eastern View of Jerusalem

Lesson

By

Kedar Nath

کیدارناتھ

Published in Nur-i-Afshan Dec 21, 1894

نور افشاں مطبوعہ ۲۱دسمبر ۱۸۹۴ ء

اعمال ۱۷۔ ۲۲، ۳۱ پر ۔

تب پولس اریوپگس  کے بیچ کھڑا ہو کے بولا ۔ اے اتھينے والو میں دیکھتا ہوں۔ کہ تم ہر صورت  سے دیوتوں  کے بڑے پوجنے والے  ہو۔ ۲۲ کیونکہ میں نے سیر کرتے اور تمہارے  معبودوں پر نظر  کرتے ہوئے ایک قربان گاہ پائی جس پر یہ لکھا تھا۔ کہ نامعلوم  خدا کے لئے پس جس کو تم بے معلوم کئے  پوجتے  ہو میں تم کو اُسی  کی خبر  دیتا ہوں ۲۳ ۔

ان پہلی د و آیتوں  میں رسول کے وعظ  کی تمہید  پائی جاتی ہے۔ یہ الہامی  تمہید  ایک عجیب دل کش تمہید(کسی مضمون کا عنوان۔ديباچہ) ہے۔ رسول اس تمہید کو ایسی سنجیدگی  کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ کہ سُننے  والوں کے خیالات  خواہ کیسے  ہی پر ا گندہ(پريشان۔حيران)  کیوں نہ ہوں فوراً  مقناطیسی  کشش کی مانند  کھینچ کر  دل و جان سے سُننے کے واسطے مرکز(عين ، وسط) بن جائیں ۔ اور جو کچھ وہ بیان کرنا چاہتا ہے ۔ وہ سامعین  کی موجودہ حالت  پر بخوبی  اثر پذیر ہو ۔ ایسی تمہید  نہ صرف بیان  کرنے والے کی قوت بیانیہ  کو وسعت  (گنجائش۔کشادگی)بخشتی  ہے۔ بلکہ سامعین  کو بھی طیار (تيز رو)کرتی ہے۔ کہ وہ  تہ دل  سے سُننے کو مخاطب ہوں ۔ تمہید  کی دوسری  آیت کے درمیانی  حصہ میں رسول  وہ جملہ استعمال  کرتا ہے۔ جو کہ اُس کے وعظ  کا موضوع  ہے۔ اور وہ جملہ رسول  نہ اپنی طرف سے پیش کرتا ہے ۔ بلکہ انہیں کے  قر بان  گاہ کے کتابہ کو اقتباس(اخذ کرنا)  کر کے اُس کی اصلیت  کی طرف اُن  کو رجوع  کرتا ہے یعنی ’’ نامعلوم  خدا کے لئے ‘‘۔

یہ دستور (رواج)ہمارے  ہندوستانی بت پرستوں میں بھی  رائج ہے۔ کہ جب وہ  سارے جانے  ہوئے دیوی  دیوتاؤں  کو پوجا پا چڑھا لیتے ہیں۔  تب بھولے  ہوئے دیوتا کے نام پر بھی چڑھاتے ہیں۔  محمدی  فرقہ بھی باوجود  یکہ ایک خدا پر بہت  زور دیتا ہے ۔ اسی بھول بھلیاں میں پڑ کر  خدا کے اسم اعظم سے ناواقف ہے۔ اور شب  برات میں حسب نام بنام فاتحہ خوانی ہو چکتی ہے۔ تب وہ بھی ہندؤں  کی تقیلد  (نقل۔پيروی)پر انجانے ہوئے  کے نام  پر فاتحہ پڑھتے ہیں۔ پس کچھ  شک نہیں۔ کہ اتھنيوں میں بھی ایک ایسی قربانگاہ ہو۔ جو نامعلوم  خدا کے لئے  ان کے درمیان قائم ہوئی۔

تم ہر صورت سے دیوتوں کے بڑے پوجنے والے ہو

یہاں کسی  قدر مشکل  ہے تو صرف اس بات میں کہ اُسی خدا  ۔ اور نامعلوم  خدا میں  کیونکر  تطبیق(برابری)  ہو سکتی ہیں۔  اور کہ  اتھنيوں کے نامعلوم  خدا کی بابت رسول کا یہ  دعویٰ۔  کہ میں تمہیں  اُسی   خدا کی خبر دیتا ہوں ۔ کہاں تک واجب  اور واقعی معلوم ہوتا ہے۔ لیکن یہ  مشکل  اس طور سے حل ہو جاتی ہے۔ کہ دنیا  کے حالات اور مختلف  اقوام کی تاریخ پر نظر کرنے سے  ایک ایسی ہستی  کا وجود ضرور ثابت ہوتا ہے۔ جس کا کم سے کم وحشی اقوام میں بھی کسی نہ کسی طور خیال  پایا جاتا ہے۔ اور نیز اس کی ان صفتوں پر جن کی طرف خود رسول  ۔ اپنے وعظ  میں اشارہ دیتا ہے۔ اور خاص کر خط رومیوں کے ۱۔ ۱۹، ۲۰ آیات  میں قائل  کرنے والی  دلیل کی صورت میں بیان ہوا ہے۔ سخت  سے سخت بُت پرست  بھی اقرار کرتا ہے۔ اور وہ اقرار نہ کسی منطقی دلیل یا فلسفی وجوہ پر بلکہ ہر ایک  شخص  کے  ضمیر  اور حواس  خمسہ  (پانچ حواس۔ديکھنے۔سُننے۔سونگھنے۔چکھنے۔اور چھونے کی پانچ قوتيں)کی بنیاد پر موقوف (ٹھہرايا گيا)ہے۔ اگر ممکن  ہوتا تو کسی  دہریہ(خُدا کو نہ ماننے والا) کے دل کو چیر کر دکھا دیتے ۔کہ اس نامعلوم خدا کی بابت  اس کی زبانی نہیں نہیں اس کا باطنی ہاں ہاں پر کس قدر زور دیتی ہے۔ الہامی کتابوں کے سلسلہ  میں آستر کی کتاب  جو طومار  نیچر(نيچر کی کتاب) ۔ یا اور اق فطرت کا ایک حصہ رہی۔  ہم کو صاف بتا دیتی ہے۔ کہ وہی جس کا نام اس کتاب میں نہیں ۔ ’’ خلاصی اور یہودیوں کے واسطے  نجات  دوسری طرف  سے طلوع  کرے گا‘‘۔ آستر ۴۔ ۱۴ اور جیسا  کہ خود خدا نے موسیٰ سے فرمایا ۔ کہ میں وہ ہوں جو میں ہوں ۔ اور وہ جو ہے۔ خروج ۳۔ ۱۴، ۱۵ ۔ پس صاف ظاہر ہے۔ کہ پولس اُسی  خدا کی منادی کرتا تھا۔ جو خاص  طور سے یہودیوں کا ۔ اور عام طور سے تمام جہاں کا خلاصی (رہائی)اور نجات دہندہ ہے۔ گو دنیا کے لوگ  اُس سے ناواقف ہیں۔ کیونکہ ہمارے خداوند نے دنیا میں سے انہیں آدمیوں پر خدا کے نام کو ظاہر کیا جو اُسے دیئے  گئے۔ یوحنا ۱۷۔ ۱۶ ۔ پس ا س دلیل  (وجہ۔ثبوت)سے بھی ثابت ہوا۔ کہ نامعلوم خدا وہی خدا ہے۔ جس کو مسیح اپنا باپ کہتا ہے۔ اور کہ وہ دنیا کے لوگوں پر نا معلوم ہے۔ ۲۴ آیت ۔

’’ خدا ۔ جس نے دنیا اور سب  کچھ جو اُس میں  ہے پیدا کیا۔ جس حال میں کہ وہ آسمان و زمین کا مالک ہے ہاتھ کی بنائی ہوئی ہیکلوں  میں نہیں رہتا‘‘۔

یہاں رسول خدا کی لامحدودی  پر حوالہ دے کر  ثابت کرتا ہے۔ کہ وہ  جو خاص  جگہ میں رہتا ۔ خدا نہیں ہو سکتا اور  دو لا محدود ہستیوں کا ہونا عقلاً محال(دشوار) ہے۔ پس نامعلوم خدا کے سو ا اور جتنے خدا ہیں۔  وہ خدا نہیں ہیں۔ کیونکہ اوّل تو محدود ہیں۔ دوئم لامحدود ۔ ایک سے زیادہ ممکن نہیں ۲۵ آیت  میں ہے ۔ کہ ’’ نہ آدمیوں سے خدمت لیتا  گویا کہ کسی چیز کا محتاج (ضرورت مند)ہے ۔ کیونکہ وہ تو آپ سب کو زندگی اور سانس  اور سب کچھ  بخشتا ہے ‘‘ ۔ اس بیان سے بتُوں کی محتاجی  پر زور دے کر  اُن کی الوہیت  کو رد کرتا ہے۔ اور خدا کی بخششوں کا ذکر کرکے صاف ظاہر کرتا ہے۔ کہ دیوتاؤں میں یہ  صفت پائی نہیں جاتی ۔ پس وہ اپنے پوجا ریوں کو کچھ دے نہیں سکتے ۔

۲۶ ویں آیت میں ہے ۔ کہ ’’ اور ایک ہی لہو سے آدمیوں کی سب قوم تمام زمین کی سطح  پر بسنے کے لئے پیدا کی۔ اور مقررہ وقتوں اور اُن کی سکونت کی حدوں کو ٹھہرایا ۔

اس میں کئی باتیں ہیں۔

اوّل ۔زمین کی تمام مخلوق  سے اعلیٰ  مخلوق  آدمیوں کی سب قوم کی نسبت  بتایا جاتا ہے۔ کہ خدا نے ایک ہی لہوسے بنایا۔ پس یہ خیال کہ ذات  میں اونچائی  اور اونچائی  ہے ایک  اعلیٰ  ہے اور دُوسرا  اولیٰ ۔ یہ خدا کی طرف  سے نہیں ۔ بلکہ آدمیوں کی بناوٹ ہے۔

دوئم۔ کہ اس سے خدا کی عجیب  قدر ت  بھی ظاہر ہوتی ہے کہ باوجود یکہ ۔ سب ایک ہی  لہو سے بنائے گئے ہیں ۔ تو بھی ایک دوسرے سے صورت  میں مختلف ہیں۔

سوئم ۔ کہ خدا  کی دانائی اور اُس  کی عالم الغیبی ۔ اور ازلی  تقدیریں  ایسی لازم و ملزوم (ايک دوسرے سے وابستہ)ہیں۔ کہ بغیر  ان کو خدا میں مانے ہوئے ہم کو اطمینان نہیں ہوتا ۔ کہ دنیا کے سارے واقعات نہ اتفاقی ۔ بلکہ اُسی لامحدود ہستی  کے ٹھہرائے ہوئے ارادہ کے موافق ہوتے ہیں۔  لیکن دیوتاؤں کے پوجا  ری ان باتوں سے محض بے خبر  اپنی ہی  کاریگری کو کہتے ہیں کہ  تم ہمارے خدا ہو۔

۲۷ ویں۔ آیت میں ہے۔ کہ ’’ خداوند کو ڈھونڈھیں شاید کہ ٹٹول کر اُسے پائیں۔  اگرچہ وہ ہم میں کسی  سے دُور نہیں‘‘۔

اس آیت میں رسول ثابت کرتا ہے ۔ کہ نامعلوم خدا جس کی خبر میں تم کو دیتا ہوں مادّی (ذاتی۔قدرتی)نہیں ہے۔ یہاں تک کہ وہ ہر طرح کے مادہ سے خواہ کثیف(گاڑھا) ہو۔ خواہ لطیف(نرم) ۔ جن کو ہم حواس ظاہر ی یا باطنی سے چھو سکتے ہوں علیٰحدہ  ہے۔ یہاں ٹٹولنے کا لفظ  وارد (ظاہر)ہے۔  اس طرز پر ہمارے خداوند  نے اپنے جی  اُٹھنے  کے بعد جب کہ شاگرد  گھبرا کے اور خوف سے خیال کرتے تھے۔ کہ کسی روح کو دیکھتے ہیں۔ استدلال (دليل)کیا ۔ کہ ’’ میرے  ہاتھ پاؤں  کو دیکھو۔ کہ میں ہی ہوں۔ اور مجھے چھوو اور دیکھو ۔ کیونکہ روح کو جسم اور ہڈی نہیں جیسا  مجھ میں دیکھتے ہو‘‘۔ لوقا ۲۴۔ ۳۹۔ پھر یہ کہ ’’ وہ ہم میں کسی سے دُور نہیں ‘‘ اگرچہ اس جملہ سے خدا کی ہمہ جا (ہر جگہ)حاضری صاف طور پر ظاہر ہوتی ہے لیکن اُس سے بڑھ کر یہ بتایا جاتا ہے۔ جیسا کہ ۲۸ آیت میں ہے۔ کہ ’’ اُسی  سے ہم جیتے ۔ اور چلتے پھرتے ۔ اور موجود  ہیں ‘‘۔ یعنی خدا کی ہر جا حاضری ۔ اور سب کے ساتھ موجودگی اس لئے اور بھی ضروری  ہے۔ کہ ہمارا ہستی میں رہنا اور چلنا پھر نا صرف  خدا پر موقوف(ٹھہرايا گيا) ہے۔ پس بعض نادانوں کا یہ خیال ۔ کہ خدا نے خلقت میں ایک مشین بنا دی ہے۔ کہ وہ از خود چلی جاتی ہے۔ خدا کے حاضر  و ناظر ہونے کی کچھ ضرورت نہیں۔  غلط  ثابت ہوتا ہے۔ اسی آیت میں رسول اُن کے ایک شاعر کا قول نقل کرتا ہے۔ کہ ہم ’’ تو اُسی کی نسل ہیں‘‘۔ معلوم ہوتا ہے کہ رسول نے یہ فقرہ قلقیہ  کے شاعر مسمی اراتس کی تصنیف سے اقتباس کیا ہے۔ ۲۹ آیت میں اس فقرہ سے غیرت دلانے والا نتیجہ  ظاہر کیا جاتا ہے ۔ کہ ’’ پس خدا کی نسل ہو کے ہمیں  مناسب نہیں۔ کہ یہ خیال کریں۔ کہ خدا سونے روپے یا پتھر کی مانند ہے جو آدمی کے ہنر اور تدبیر (سوچ بچار)سے گھڑ ہے گئے ‘‘۔

اب ۳۰ ویں آیت میں رسول بہت گہری  نیو(بنياد) کھودنے کے بعد جس میں بیان ہوا ہے۔ کہ ’’ غرض خدا جہالت  کے وقتوں سے طرح دے کے (در گزر کر کے)اب سب آدمیوں کو ہر جگہ حکم دیتا ہے۔ کہ توبہ کریں ‘‘۔ ایک ایسے پتھر  کی جو کونے کا سرا ہے۔ اور جسے معماروں نے رد کر دیا ۔ بنیاد ڈالتا ہے۔ جو اُس کے تمہیدی  بیان میں نامعلوم خدا کہلاتا ہے ۔ مگر ساتھ ہے اس کے رسول کا طرز خاتمہ  بھی عمیق  (کامل۔گہرا)نظر سے دیکھنے کے قابل ہے۔ کہ جس حالت میں۔ کہ وہ اریوپگس  کی عدالت گاہ میں وعظ  کرتا تھا۔ بہ نظر  سنجیدگی  اور مناسبت  مقام عدالت  کا ذکر کرنے لگا ۔ اور اس سے بڑھ کر یہ بات بھی  ۔ کہ بیان کا سلسلہ  خود ہم کو یہاں پہنچاتا ہے۔ تا کہ ظاہر ہو جائے۔ کہ ایسے بے ہودہ کام کرنے والے کیونکہ اُس عدالت  سے بچ نکلیں گے ۔ جس کا بیان ۳۱ویں  آیت میں یوں ہوتا ہے۔ کہ اُس نے ایک دن  ٹھہرایا ہے۔ جس میں وہ راستی  سے دنیا کی عدالت  کرے گا۔ اُس آدمی کی معرفت جسے اُس نے مقرر کیا۔ اور اُسے مُردوں میں سے اُٹھا کے یہ بات سب پر ثابت کی۔ کہ جس نے گنہگاروں کے  واسطے اپنی جان دی۔ وہ اس لائق ہے کہ زندوں اور مُردوں کی عدالت کرے ۔ آمین ۔

Leave a Comment