مسیحی دین آخرالزمان و برائے نجات کُلّی انسان

Eastern View of Jerusalem

Christianity is the Universal Religion and Offering Salvation to All Mankind

By

Niyazmand

نیاز مند

Published in Nur-i-Afshan August 11, 1887

نور افشاں مطبوعہ ۲۲۔دسمبر ۱۱۔اگست ۱۸۸۷ء

اے میرے عزیر بھائیو (کرسچن برادران ) آپ صاحبان خوردوکلاں(بزرگ) پر یہ بات روشن ہو کہ  ہم مسیحی اس مبارک زمانہ میں رہتے ہیں جس میں خدا کےلوگ کُل بنی آدم کی نجات (مکتی ) کے لئے بڑے ہی سامی اور کوشش کر رہے ہیں ۔ یہ بات قابل یا دداشت کے ہے کہ ہم سب کے سب کیا خورد کیا کلاں کیا مرد کیا زناں کیا خواندہ  کیا ناخواندہ کیا مشنری کیا مناد غرض یہ کہ کُلّہم اس مبارک کام میں شامل و مشغول ہو نے کے واسطے (خداوند سے )  بلائے گئے ہیں۔ عزیزو نہایت خوشی کی بات یہ ہے  کہ مسیحی کلیسیا نے حال کی صدی میں اس نیک کام کے لئے وہ سرگرمی اور جانفشانی دکھلائی ہےکہ پیشتر ازیں کبھی ظہور نہ پائی جاتی تھی ۔ اس اُنیسویں صدی میں کئی ایک عجیب و غریب کام وقوع پائے ہیں کہ جو یادر رکھنے کے لائق ہیں ۔ مثلاً علم نے وہ تر قی کی ہے کہ جو اظہر من الشمس ہے ۔اسی مسیحی روشنی کے زمانہ میں بہتیری باتیں جو پوشیدہ تھیں ظاہر ہوگئیں ۔علاوہ ازیں بہت اقسام کے ہنر وغیرہ نکلے ہیں ۔ مثلاً تاربرقی ،آہنی سڑکیں ، دُخانی جہاز ود ود کش چھاپہ خانہ  وفوٹو گر افی وغیرہ وغیرہ کا زمانہ ہے۔ یہ ملکوں میں عقل پھیلنے سودا گر ی کرنے اور دنیا کی قومو ں میں ایک دوسری کی آمد ورفت کا زمانہ ہے ۔پر خاص کر صلح بخش انجیل جلیل کو دنیا کی حد تک پہنچانے کے لئے سرگرمی اور ثابت قدمی سے آگے بڑھنے کا زمانہ ہےاس زمانہ کا یہ ہی سب سےبلند تر اور شاندار اور قائم رہنے والا جلال ہے ۔ازیں موجب یہ مبارک زمانہ آئندہ کی تواریخوں میں مشہور و معروف و نامزد رہے گا ۔ اس موقع پر یہ اگر کوئی یہ سوال کرے کہ مسیحی کلیسیا کو ایسا کام کرنے کا فرمان کہاں پر مرقوم ہے تو ہم بجواب اس کے یہ عرض کرتے ہیں کہ کلام مقدس میں (بائیل شریف ) خاص کر واضح ہوکر یہ فرمان اس الہامی کلام میں کہ  جس میں ہمارے نجات بخش خداوند یسوع مسیح ابن اللہ کا مفصل بیان ہوا تاکیداً پایا جاتا ہے ۔جیسا کہ اُس قدوس کی پیدائش کے وقت مقرب فرشتگان نے فرمایا تھا۔ (لوقا ۲ : ۸ ۔۱۴) ’’دیکھو کہ میں تمہیں بڑی خوشخبری دیتا ہوں جو سب لوگوں کے لئے ہے کہ داؤد کے شہر میں آج تمہارے لئے ایک نجات دہندہ پیدا ہو ا و ہ مسیح خداوند ہے‘‘ الخ ۔

مسیحی دین آخر الزمان و برائے نجات کل انسان ہے ۔

پھر جب آسمان پر عروج فرمانے پر تھے تو اپنے شاگردوں کو اسی انجیل کی بابت فرمایا کہ’’ روح القدس تم پر اُترے گی ۔ اور تم قوت پاؤ گے۔اور یروشلیم اور ساری یہود یہ و سامریہ میں بلکہ دنیا کی حد تک میرے گواہ ہوگے ۔ جاننا چاہئے کہ سب سے بڑا اور آخر ی فرمان جو خدواند مالک کون مکان نے د یا یہ ہی تھا کہ تم تمام دنیا میں جا کر ساری مخلوق کے سامنے انجیل کی منادی کرو جو ایمان لاتا اوربپتسمہ پاتا ہے نجات پائے گا‘‘ ۔ رسول مقبول (متی) اس حکم  کویوں فرماتے ہیں کہ یسوع نے پاس آ کر ان سے فرمایا کہ’’ آسمان اور زمین کا سارا اختیار مجھ کو دیا گیا ہے اس لئےتم جا کر سب قوموں کو (بدون لحاظ مذہب و ملت ) باپ بیٹے اور روح القدس کے نام پر بپتسمہ دے کے شاگرد کرو اور اُنہیں سکھلاؤ کہ ان سب باتو ں پر عمل کریں کہ جس کا میں نے حکم دیا ہے ‘‘۔ وغیرہ  (متی ۲۸: ۱۸ ۔۲۰)آخر تک جاننا چاہے کہ متذ کرہ بالاآیات ہماری سندکی باتوں سے کامل موافقت رکھتی ہیں جو اُسی دن کی شام کو ر سولوں کے روبرو کی گئی تھیں کہ جس میں مسیح مردو ں میں جی اُٹھے اُ س نے (خداوند یسوع ) اُن باتوں کی طرف اشارہ فرمایا جوکہ  اُس کی بابت تورات اور نبیوں کے نوشتوں میں اور نیز زبوروں میں مذکور ومرقوم ہیں۔ خداوند  ذوالجلال وقادر نے سچائی کو قبول کرنے کے لئے  ذہنوں کو کھولا اور فرمایا کہ یوں ہی لکھا ہے اور یوں ہی ضرور تھا کہ مسیح دکھ کلیش اُٹھائے اور تیسرے دن مردوں میں سے جی اُٹھے اور یروشلیم سے لے کے ساری قوموں میں تو بہ اور گناہوں کی معافی کی منادی اس کے پاک نام سے کی جائے ۔ پس منجی جہان ابن اللہ کی الہٰامی تواریخ میں اس کے اوتارلینے اور  جی اُٹھنے اور آسمان پر تشریف لے جانے  کے وقت یہ ہی حکم دیا گیا کہ جس کی تعمیل و تکمیل مسیحی کلیسیا اب تک تن ومن وزرودھن  سے ساعی و کوشش کر رہے ہیں۔ یہاں مسیحی جن کی کلیسیا کو ہر وقت پیش قدمی کرنے کا تا کید ی حکم ہے۔ یہاں اُس بھاری و عظیم اور فیض رساں وسودمنددو جہان غرض مطلب کا بیان و اظہار ہو ا ہے کہ جس کے لئے مشنری ومواعظان (نصیحت کرنے والے) حکماًمخصوص کر کے تاکستان میں مقر ر کئے گئے ہیں کہ اپنے فرائض کو ادا کریں یہاں جلالی وعالی مطلب و مقصد ہے جس کے واسطے وہ مل کر زمانہ کے آخر ہو نے تک محنت کرنے کو ممتازوسرفراز کئے گئے ہیں۔ یعنی ہر ایک بنی آدم خواہ امیر خواہ غریب پیرہو یا جوان عورت ہویا مرد برہمن ہو یا  ملیتہ سید ہو یا مغل غرض یہ کہ ہر ایک کے سامنے انجیل (بمعنی خوشخبری ) کی منادی کرنا سب کو مسیح مکتی داتا  کی طرف بلانا ۔ ساری زمین پر اُس کی بادشاہت کے پھیلنے و غالب آنے کے لئے محنت اور لا بد(لازمی) و کوشش کرنا ہے ۔جاننا چاہئے کہ اسی اہم اور ضروری اور لابد مقصد کے لئے کلام مجسم ہوا ۔ اسی واسطے اُ س نے دُکھ سہا اور قربان (بلدان ) اور موا اورجی بھی اُٹھا اور آسمان پر خدا کے دہنے جا بیٹھا کہ اپنوں کی سفارش کرے ۔

یہ بھی کام دنیا کے برابر وسیع ہے ۔یہ ہی فرمان زمانہ کے آخیر ہونے تک کے لئے ہے تو بہ اور گناہوں کی معافی عالم نہیں ہو سکتی یایوں سمجھو کہ ناممکن ہے جب تک خدا کابرّہ جو جہاں کا گناہ اُٹھا لیے  جاتا ہے ۔اپنے پاک اور بےعیب خون سے گنا ہوں  کاکفارہ  نہ دے ۔بجزاس کے گناہ گاروں کے لئے کسی صورت سے معافی نہیں ہو سکتی ۔ کسی طرح کی توبہ ہی مقبول خدا ہوسکتی جیسا کہ لکھا ہے کہ’’ آسمان کے تلے اور زمیں کے اوپر اور کوئی دوسرانام (خدا کی طرح سے ) بخشا نہیں گیا کہ جس سے ہم (بنی آدم نجات پاسکیں۔ مگر یسوع مسیح کا‘‘ دیکھو (اعمال ۴: ۱۲) اور پھر دیکھو( یوحنا ۱۴: ۶) ’’یسوع نے اُسے کہا راہ حق اور زندگی میں ہو ں کوئی بغیر میر ے وسیلہ باپ کےپاس آ نہیں سکتا ‘‘۔ پھر(متی ۱۷ : ۵؛ ۳: ۱۷) نہ ہی انجیل[1] سنائی جا سکتی تھی ۔ تویہ اور اور گناہوں کی معافی کی منادی کرنا ہے ۔ جیسے کہ پولوس نے اپنے شہر میں اور کرنتھ شہر میں اُس کے مصلوب ہونے اور جی اُٹھنے کی منادی کی ۔بغیر مسیح کے کہ خدا کی حکمت اور قدرت ہے۔ مسیحی دین کسی آدمی کے لئے فائدہ مند نہیں ہو سکتا ہے مسیح ابن اللہ منجی جہان کا یہ فرمان فضل نشان جو بر وقت روانگی آسمان دیا ۔ وہ ہی کل کلیسیا پرفرض ولازم ہے ۔یہ اُس کی بادشاہت کا قانون و آئین ہے۔ جس کی تعمیل ہر زمانہ میں خادم الدین (مشنری اورمواعظان ) بلکہ ہر ایک مسیحی پر جو اُس کے نام کا دل سے اقرار کرتا ہے ۔ فرض کُلّی ہے۔ جائے غور ہے کہ خدواند نےاپنے شاگردوں کو یہ حکم نافذفرما کر کہا کہ یروشلیم سے باہر نہ جاؤتا و قت یہ کہ  روح القدس (تسلی دینے والا ) سے طاقت نہ پاؤ اور دنیا کی حد تک سناؤ منادی کا شروع کرنا یروشلیم سے خود تھا ۔ اور اُس کا آخر دنیا کی حد تک اُن کی روانگی کی جگہ یروشلیم کا پاک شہر تھا ۔ اُن کو حکم ملا وہاں سے شروع کر کے آگے بڑھتے جائیں تاوقت یہ کہ  ہر ایک فردوبشر ہر فرقہ اورملت اور قوم کے سامنے اور ہر ایک دیش میں تو بہ اور گناہوں معافی کی منادی اس کے ( سلامتی کے شاہزادے) نام سے کی جائے پیارو ہماری مستند آیات کا خلاصہ اور لُب لبا ب یہ ہی ہے کہ مسیح کی انجیل کل بنی آدم کی نجات (مکت ) کا موجب و باعث ہے۔  میرے عزیز مسیحی بھائیو اور بہنوں جس حال میں کہ انجیل اور مسیح کا پاک نام کل بنی آدم کے لئے نجات کا وسیلہ (منجانب اللہ ) مقرر ہو چکا ہے ۔تو پھر ذر ہ جائے غورو فکر ہے کہ ہم مسیحیوں کوکتنا اشد ضرور اور لازم ومناسب ہے کہ ہم سب کے سب یک جان  ہو کر (انجیل ) سنا یا کریں ۔ اب میں اس بات کے ثبوت کے لیے کئی ایک دلائل اپنے ہندو اور محمد ی بھائیوں کے لئے وفتاً فوقتا اسی اخیا ر گوہر بار صداقت اور بے ریا اظہا ر میں ہدیہ ناظرین کیا کروں گا کہ صرف مسیحی دین آخر الزمان و برائے نجات کل انسان ہے ۔جس کو میں اب دوبارہ اس جگہ ازراہ حب الوطنی وبرادر نہ ہمدردی کے لکھتا ہوں کہ آسمان کےتلے اورزمین کے اوپر گناہگا روں کی معافی و نجات کے لئے کوئی اور دوسرا نام اخدا کی طرف سے بخشا نہیں گیا ۔مگر صرف مسیح کا کہ جس سے نجات ہو اور کہ وہی( یسوع مسیح) راہ اہ حق اور زندگی ہے۔ اور پھر دیکھو (یوحنا ۱۷ : ۳ ) جیسا کہ لکھا ہے کہ ’’ہمیشہ کی زند گی یہی ہے کہ وہ تجھ کو سچا اکیلا خدا اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا ہے جانیں‘‘ ۔

 


[1]۔ہم نہیں سمجھتے۔ایڈیٹر

Leave a Comment