The Son is God and The Person
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan Oct 12, 1894
نور افشاں مطبوعہ ۱۲اکتوبر ۱۸۹۴ ء
اعمال باب ۲۰۔ ۲۸ پس اپنی اور اُس سارے گلّے کی خبر داری کر و جس پر رُوح قدس نے تمہیں نگہبان ٹھہرایا کہ خدا کی کلیسیاء کو جسے اُس نے اپنے ہی لہو سے مول لیا چراؤ ۔
چونکہ یہ جملہ کہ جسے اُس نے اپنے ہی لہو سے مول لیا۔ مسیح سے نسبت رکھتا ہے اور یہاں پر اُس کی شان میں لفظ خدا آیا ہے۔ اس مقام میں بعض نسخوں میں لفظ خد اکی عوض(بجائے) لفظ خداوند بھی پایا جاتا ہے۔اس لئے بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس آیت کو تعلیمِ تثلیث کی تائید میں ہم پیش نہ کریں ۔ لیکن ہم کو یقین واثق(پکا يقين) ہے کہ لفظ خد ا ہی اس آیت میں درست نسخہ ہے کیونکہ مقدس اگنیشس اپنے خط افسیوں کے باب اوّل میں جو ۱۰۷ء میں اس نے لکھا ہے خدا کے لہو کا ذکر کرتا ہے جو ایسی عبارت ہے جس کے استعمال کرنے کی کوئی انسان جرات نہیں کر سکتا تاوقتیکہ اس کو ایسے کلام کرنے کی معقول و معتبر سند(مناسب و قابلِ اعتبار ثبوت) حاصل نہ ہو چکی ہو ۔ مگر سوائے اعمال باب ۲۰ ۔ آیت ۲۸ کے ایسی عبارت کے استعمال کی کوئی اور سند ہی نہیں ہے تو اس سے صاف ثابت ہے کہ مقدس اگنیشس کے وقت میں بھی لفظ خدا ہی متن میں موجو د تھا۔ لیکن جب وہ ۱۰۷ء میں شہید ہوا تو بڑ ا ضعیف وسن رسیدہ (کمزور اور بوڑھا)تھا اور چونکہ کتاب اعمال ۶۳ء میں لکھی گئی تھی یعنی صرف ۴۳ برس قبل شہادت کے تو اس نے اس کتاب اعمال کو اُس کے تحریر ہونے کے تھوڑ ے ہی دنو ں بعد پڑھا ہو گااور اس کے مضامین سے واقفیت حاصل کی ہو گی ۔ پس ہم کو ہر طرح سے اختیار و سند حاصل ہے کہ اس آیت کو ابن(بيٹا) کی الوہیت (خُدائی)کے بارے میں پیش کریں۔
اگر ہم انجیل کے مختلف نسخوں پر لحاظ کریں تو اس میں بھی ہم کچھ ٹوٹے (نقصان)میں نہ رہیں گے ۔ جنتا ہم کو خسارہ (نقصان)ہو گا اُتنا ہی ہم کو نفع بھی ہو جائے گا کیا معنی کہ جتنے نسخے ہمارے خلاف نگلیں گے اُتنے ہی ہمارے موافق بھی نکل آئیں گے مثلاً اگر ہم یوحنا باب ۱۔ ۱۸ کو اقتباس کریں تو وہاں پر بجائے اکلوتے بیٹے کے خدا اکلوتا بہت سے متقدمین(ااگلے زمانہ کے لوگ) نے درست نسخہ رکھا ہے تو یہ نسخہ یہاں پر غالباً اُس نسخہ خدا وند بجائے خدا اعمال باب ۲۰۔ ۲۸ سے زیادہ تر درست و صحیح معلوم ہوتا ہے۔
یوحنا باب ۲۰۔ ۲۸، ۲۹ ۔ اور توما نے جواب میں اُسے کہا اے میرے خداوند اور ا ے میرے خدا ۔ یسوع نے اُسے کہا اے تومااس لئے کہ تو نے مجھے دیکھا تو ایما ن لا یا ہے مبارک وہ ہیں ۔ جنہوں نے نہیں دیکھا تو بھی ایمان لائے ۔اُوپر کی عبارت کی متانت(سنجيدگی) اورزور اس بات میں پایا جاتا ہے کہ مسیح نے توما کو ملامت(جھڑکنا) اور سرزنش (تنبيہ)کرنے کے بجائے کہ تو نے کیوں خدا کا لقب مجھ کو دیا اس کے اس فعل و اعتقاد کو قابل تحسین (تعريف کے لائق)قرار دیا ۔ اب دیکھئے کون ایسا اُستاد دنیا میں ہو گا ۔ جو محض جامٔہ بشریت (صرف انسان ہو)رکھتا ہو اور اس لقب خدا سے ملقب (خطاب ديا گيا )ہونا پسند کرے۔ معاذ اللہ ھنہ ! محض انسا ن اپنے تئیں خدا کہلانا کبھی پسند نہ کرے گا۔
خط کلیسیوں کو باب ۲۔ ۹ کیونکہ الوہیت کا سار ا کمال اُس میں مجسم ہو رہا۔ خط فلپیوں کو باب ۲۔ ۵ سے ۹ تک پس تمہارا مزاج وہی ہوئے جو مسیح یسوع کا بھی تھا کہ اُس نے خد ا کی صورت میں ہو کے خدا کے برابر ہو نا غنیمت نہ جانالیکن اس نے اپنے آپ کو نيچ کیا کہ خادم کی صورت پکڑی اور انسان کی شکل بنا اور آدمی کی صورت میں ظاہر ہو کے اپنےآپ کو پست (کمتر، نيچا)کیا اور مرنے تک بلکہ صلیبی موت تک فرماں بردار رہا۔ اس واسطے خدا نے اسے بہت سرفراز کیا اور اس کو ايسا نام جو سب ناموں سے بزرگ ہےبخشا۔
آیات مذکورۃ الصدر(اُوپر لکھی ہوئی آيات) کی متانت (سنجيدگی)کی قدر بخوبی اُسی کو معلوم ہو سکتی ہے جو ان کواصل زبان یونانی میں پڑے لیکن کل عبارت کا مطلب یہ ہے کہ مسیح اگرچہ قبل مجسم ہونے کے جب وہ کلمہ غیر مجسم تھا اصل ذات و مزاج خد ارکھتا تھا اور اس لئے وہ خد اکے برابر تھا تو بھی اس نے اس ہمسری اور خدا کی برابری کو رکھنا غنیمت نہ جانا بلکہ اس نے اسے ترک کرکے خادم کی صورت پکڑی اور انسان کی شکل بنا۔
خط عبرانیوں باب ۱، ۲، ۳ کے بیچ تک خدا جس نے اگلے زمانہ میں نبیوں کے وسیلہ باپ دادوں سے بار بار اور طرح بطرح کلام کیا ان آخری دنوں میں ہم سے بیٹے کے وسیلے بولا جس کو اس نے ساری چیزوں کا وارث ٹھہرایا اور جس کے وسیلہ اس نے عالم بنائے ۔ وہ اس کے جلال کی رونق اور اس کی ماہیت کا نقش ہو کے سب کچھ اپنی ہی قدرت کے کلام سے سبنھالتا ہے۔ الغرض یہ ممکن ہے کہ ہم اور بہت سی آئتیں پیش کریں مگر ہم نے صرف چند آیات ایسی پیش کی ہیں جن پر مباحثہ ہو سکتا ہے اور ہم نے ازراہ خدا ترسی و بہ راست معاملگی (درست معاملہ)اس بات سے بچنے کی کوشش کی ہے کہ کسی آیت کے معنی کھینچ کھانچ اور توڑ مروڑ کر اپنے حق میں زبردستی سے عائد کریں ۔ جیسا کہ ہم نہیں چاہتے کہ کسی آیت کے لفظی معنی کو کھینچ کھانچ توڑ مروڑ کر ہمارے متخاصمین (مخالفين)اپنے حق میں میں عائد کر لیں ویسا ہی ہم نے بھی نہیں کیا ہے بقول
شخصے ہر چہ برخود نہ پسندی بر دیگراں من پسند
ہاں یہ بھی کہنا درست ہے کہ عہد جدید میں بہت سی آئتیں ایسی موجود ہیں جو بعضوں کے نزدیک الوہیت مسیح کی متناقض و معارض(مخالف وجھگڑا کرنے والا) ہیں مثلاً وہ لوگ جو مسیحی تعلیم و تلقین سے کم واقفیت رکھتے ہیں ۔ ایسی ایسی آیتوں کو پیش کرتے ہیں جن میں مسیح کی انسانیت کا ذکر ہے ۔ کہ اس نے انسان ہو کر طرح طرح کا دُکھ اُٹھایا اور تعینات اور قیود(حد بندياں) انسانی و بشری کا پابند رہا اور معترضين(اعتراض کرنے والے) یہ سوال کر بیٹھتے ہیں کہ وہ کیونکر خدا ہو سکتا ہے جس حالت میں کہ وہ قیود (حدود)انسانی کا پابند تھا یعنی جب اس کو بھوک اور پیاس لگتی تھی اور ماندگی وایذا وموت کا میطع ( تابع ہو تا تھا ۔ یہاں تک کہ بعض یہ بھی حجت (بحث)کرتے ہیں کہ علم میں بھی تعینات بشری (انسانی حد بندی)کا پابند تھا تو پھر وہ کیونکر خدا ٹھہرا ۔ ہم اس کو فضول و بیکار سمجھتے ہیں کہ ان آیات کو یہاں پر پیش کریں ۔ کیونکہ ہمارے متخاصمین و معترضین (مخالفين،اعتراض کرنے والے)ان کو اس بارہ میں بطور حوالہ پیش کر چکے ہیں۔ اور ہم ان کو تمام و کمال مخلابا لطبع(بے تکلف) ہو کر تسلیم کرتے ہیں ۔ حق تو یہ ہے کہ مسیحی کی پوری پوری انسانیت اور اس کی پوری پوری الوہیت دونوں ہی کی مسیحی دین کے لئے ضرورت ہے واضح ہو کر مسیح کی الوہیت دا نسانیت دو رکن متین عمارت مسیحی دین ہیں۔ ان ہی پر اس عمارت کی بنیاد قائم ہے۔ جب تک یہ قائم ہیں یہ عمارت بھی قائم ہے۔ بغیر ان کے کل نقشہ نجات و مصالحتِ(رہائی، بھلائی) انسان مٹ جائے گا۔ اگر یہ دونوں رُکن عمارت دینِ مسیحی سے نکال ڈالے جائیں تو ساری عمارت دہم سے گر پڑے گی اور برباد ہو جائے گی ۔ ہمارا مسئلہ دین یہ ہے کہ خدا کلمہ ازلی نے کامل انسانی مزاج کو کنواری مریم مقدسہ کی ماہیت سے جسم و روح سمیت اختیار و قبول کیا تا کہ جسم و روح اس کے لئے دونوں ایک آلہ ہوں جس کے ذریعہ سے وہ محبت و رحمت خدا کا ظہور حلقہ انسانیت میں دکھلائے اور اپنے تئیں انسانیت سے پیوند (جوڑنا)کر کے اس دُوری و مہجوری (جُدائی، فاصلہ )کو جو خدا اور انسان کے درمیان جاہل ہو گئی دُور کرے ۔
فی الوقع یہ انسان کی ذات جو کہ اس نے اختیار کی درحقیقت ذات انسان تھی کیونکہ خدا کی ذات میں دروغ(جھوٹ) کا سایہ تک بھی ہوناممکن نہیں ہے۔
` پس جو کچھ مجسم یعنی مسیح نے کیا اور سہا وہ اس نے درحقیقت کیا اور سہا ۔اور مخفی نر (چُھپا ہوا نہيں)ہے کہ مسیح نے جو کچھ ایذا برداشت کی وہ بہ حیثیت ذات ِالہٰی برداشت نہیں کی بلکہ بہ حیثیت ذاتِ انسان جس کو اس نے اختیار کیا تھا برداشت کی۔
اکثر لوگ ایسی آیتوں کے نہ سمجھنے کے باعث جو کہ مسیح کی ذاتِ انسان سے متعلق ہیں اس کی الوہیت کے بارہ میں غلط نتیجہ نکال لیتے ہیں ۔ ایسی کل آیات کو یہاں لکھنا تو امر محال(مشکل کام) ہے مگر ہاں دو چار آیات کو بطور نمونہ پیش کرتے ہیں جن سے اس کتا ب کے پڑھنے والوں کومعترضین کی غلط فہمی ظاہر ہو جائے گی ۔ اکثر لوگ متی ۴۔ ۱۰ کو یعقوب ۱۔ ۱۳ سے مقابلہ کرکے یہ غلط نتیجہ نکالتے ہیں کہ مسیح خدا نہیں ہے چنانچہ متی ۴۔ ۱۰ میں یہ لکھا ہے۔ تب یسوع روح کے وسیلے بیابان میں لایا گیا تا کہ شیطان اسے آزمائے اور یعقوب ۱۔ ۱۳ میں یہ لکھا ہے جب کوئی امتحان میں پھنسے تو وہ نہ کہے کہ میں خد ا کی طرف سے امتحان میں پھنسا کیونکہ خدا بدیوں سے نہ آپ آزما یا جاتا ۔ اور نہ کسی کو آزماتا ہے ۔مگر ایک ذرا سے تاّمل و غور (سوچ بچار)کرنے سے یہ خیال فاسد(فضول خيال) دُور ہو جائے گا۔ ہاں یہ تو سچ ہے کہ خدا بہ حیثیت خدا کسی بدی سے آزمایا نہیں جاتا لیکن خدا قادر مطلق ہی نہیں ہو سکتا اگر وہ ذات انسان کو انسانی تجربہ حاصل کرنے کے لئے اختیار نہ کرسکے۔ ہاں و ہ تجربہ جو خدا انسا ن ہو کر حاصل کرے گا ۔ انسانی تجربہ رہے گا۔ وہ الہٰی تجربہ ہر گز نہ ہو جائے گا ۔بلکہ اس الہٰی شخص کا تجربہ ہو گا جس نے انسانی ذات کو اختیار کیا ہے۔ اب یاد رکھنا لازم ہے کہ مسیحی دین کی یہی تعلیم ہے جو کہ خدا کے کلام سے حاصل ہوتی ہے۔ کہ خد ا نے مجسم ہو کر اتنا ہے کیا کہ اس نے ذاتِ انسان اختیار کر کے انسانی تجربہ حاصل کیا۔ پس معترض کو اختیار ہے جو جی چاہے سو کہےمگر وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ آیات مذکورہ بالا اس تعلیم سے نقیض(مخالفت) رکھتی ہیں۔ نقیض تو درکنار بلکہ وہ مسیحی تعلیم سے عین مطابقت رکھتی ہیں۔
اب بعض آیات ایسی ہیں جن کی بابت معترضین یہ کہتے ہیں کہ ان سے مسیح کا خدا نہ ہونا صاف ثابت ہے۔ ہم اس مقام پر دو ایک ایسی مشہور آیتوں کو جانچ کر یہ د کھانا چاہتے ہیں ۔ کہ آیا وہ مسیح کی نفی الوہیت (خُدائی کا انکار)کے لئے کافی ہیں یا نہیں ۔ یا ۔۔۔۔ معترض کی محض غلط فہمی ہے پہلا خط کرنتھیوں باب ۸ آیت ۶ میں یہ لکھا ہے ہمارا ایک خدا ہے جو باپ ہے جس سے ساری چیزیں ہوئیں اور ہم اسی کے لئے ہیں۔ اور ایک خداوند ہےجو یسوع مسیح ہے جس کے سبب سے ساری چیزیں ہوئیں اور ہم اسی کے وسیلہ سے ہیں ۔ اکثر لوگ اس آیت کے پہلے حصہ کو اقتباس کر کے یہ دلیل کرنے لگتے ہیں کہ الوہيت صرف خدا باپ ہی کی نسبت قرار دی جا سکتی ہے۔ مگر مدعی (دعویٰ کرنے والا) سے ہماری درخواست یہ ہے کہ آپ پوری پوری آیت کو اقتباس کر کے پیش کریں۔ تب کیفیت معلوم ہو گی ۔ اگر آیت کے پہلے حصہ سے یہ بات نکلتی ہے کہ الوہيت صرف خدا باپ ہی کی نسبت قرار دی جا سکتی ہے تو اسی آیت کے دوسرے حصہ سے یہ بات بھی پیدا ہوتی ہے۔ کہ خداندی اسی طریق استدلال (دليل دينا) اور طرز تفیسر سے فقط بیٹے ہی کی نسبت قرار دی جا سکتی ہے۔ باپ پر خداوند ی کا اطلاق صادق نہیں آتا ۔
مگر ایسا نتیجہ کتاب مقدس کے صریحاً خلاف ہے۔ پس اس صورت میں ہم پر یہ لازم آتا ہے کہ ایسی تفسیر کی ترمیم (درستی)کریں اور اس آیت سے وہ تعلیم حاصل کریں جو کچھ اس کی عبارت سے نکلتی ہے جاننا چاہیے کہ باپ اور بیٹے کے درمیان وہ یگانگت ہے جو کسی طرح ایک دوسرے سے جدا ہو نہیں سکتی ۔ فی الواقع ان دونوں اقانیم میں وہ اتحاد و پیوستگی ہے کہ جو کچھ ایک کی نسبت قرار دیا جائے گا وہی دوسرے پر بھی صادق آئے گا ۔چنانچہ یہ دونوں باعتبار اپنی اپنی ذات و صفات کے ایک ہیں۔ پھر یوحنا ۱۷۔ ۳ اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہےکہ وہ تجھ کو اکیلا سچا خدا اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا ہے۔ جانیں ۔ اس آیت میں ہمار ا خداوند بہ حيثيت انسان اپنے باپ سے مخاطب ہے۔ وہ اس مقام میں جیسا کہ اس نے اور بھی بارہا کیا اپنے تئیں بیٹا نہیں کہتا بلکہ یسوع مسیح کہتا ہے تا کہ اپنے انسانی وجود کو لوگوں کے دلوں پر اچھی طرح سےنقش کر دے۔ جاننا چاہیے کہ یسوع اس کا شخصی نام ہے اور مسیح اس کا نام باعتبار اس کےاس عہد ہ کے رکھا گیا جس پر کہ وہ خدا کی طرف سےمتعین و مقرر کیا گیا تھا پس اس آیت میں خداوند یسوع مسیح کے انسانی عہد ہ و ذات کا مقابلہ اکیلے اور سچے خدا کی ذات کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ مدّعی کا اعتراض صرف اس وجہ سے ہے کہ وہ مسیحی دین کی تعلیم کو صحیح صحیح طور پر نہیں سمجھتا ۔ واضح ہو کہ کوئی مسیحی یہ دین کی تعلیم کو صحیح صحیح طور پر نہیں سمجھتا ۔ واضح ہو کہ کوئی مسیحی یہ اعتقاد نہیں رکھتا کہ سوائے ایک واحد اور حقیقی خدا کے کوئی اور بھی دوسرا خدا ہے یا ۔۔۔۔ وہ یہ سمجھتا ہو کہ مسیح سوائے خدا باپ کے کوئی دوسرا خدا ہے۔ ہر ایک مسیحی کا یہی اعتقاد ہے کہ خدا ایک ہے آیت مذکورہ بالا کی تعلیم اور ہر مسیحی کے اعتقاد کی رو سے خدا باپ ہی اکیلا اور سچا خدا ہے اور اسی طرح کلمہ اور روح القدس بھی اکیلا اور سچا خدا ہے۔ خدا ایک ہی ہے ۔ دو یا تین خدا نہیں ہیں اور نہ سکتے ہیں ۔اور اسی اکیلے اور سچے خدا پر جس نے اپنے تئیں ہم پر ظاہر کیا ہے۔ اور مجسم کلمہ کی نجات کے کام پر جو کہ اس نے اس دنیا میں آ کر کیا اعتقاد رکھنے اور پورا اعتبار کرنے سے ہر ایک گناہ گار حیات ابدی کا مستحق (حقدار)ہو جاتا ہے۔ فی الحقیقت یہ اعتقاد و اعتبار حیات ابدی کے ساتھ ایسا مضبوط علاقہ رکھتا ہے کہ ان دونوں کو در حقیقت ایک ہی سمجھنا لازم ہے۔
پھر اکثر لوگ اس بات کے ثبوت میں آیات پیش کرتے ہیں کہ مسیح کی ہستی اور قدرت جبّلی اور ذاتی نہیں بلکہ وہ باپ سے اخذ(نکالنا) کی گئی ہے۔ مثلاً یوحنا ۶۔ ۵۷ کو پیش کرتے ہیں جہاں یہ لکھا ہے ۔ کہ جس طرح سے کہ زندہ باپ نے مجھے بھیجا اور میں باپ سے زندہ ہوں پھر یوحنا ۵۔ ۲۶ جس طرح باپ آپ میں زندگی رکھتا ہے ۔ اسی طرح اس نے بیٹے کو بھی دیا ہے ۔ کہ اپنے میں زندگی رکھے ۔ آیات مذکورہ بالا اس بات کے ثبوت میں پیش کی جاتی ہیں کہ مسیح ہر شے کے لئے خدا باپ پر انحصار اور بھروسا رکھتا تھا۔ اور اس لئے وہ خود خدا نہ تھا۔ لیکن ایک ذرا سی فکر تامل سے یہ بات ظاہر ہو جائے گی ۔ کہ یہ آئتیں تمام و کمال طور سے فقط مسیحی دین کی تعلیم سے موافقت و مطابقت ہی نہیں رکھتیں بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ مسیحی دین دین کی تعلیم ایسی ہی آیتوں سے لی گئی ہے۔ فی الواقع مسیح کی انسانی ذات مخلوق تھی۔ اس کو خدا نے بذريعہ کلمہ اور روح کے اور مخلوقات کی طرح خلق کیا تھا۔ ہاں الوہیت کے پہلو سے ازلیت کی راہ سے اپنا اپناو جو د اخذ کرتے ہیں۔ منجملہ دو آیات مذکورہ بالا کے دوسری آیات سے یہ صاف ظاہر ہے کہ بیٹا جو اپنا وجود باپ سے حاصل کرتا ہے وہ باپ ہی کا سا وجود ہے ۔ اور یہ گویا اس کی الوہیت کا ایک صریح ثبوت (واضح ثبوت)ہے کیونکہ یہ خدا ہی کا وصف ہے کہ وہ اپنے میں حیات رکھے۔
اس خیال کی روسے جس کا ابھی اوپر ذکر ہوا ہے ہم اس مضمون کو جو یوحنا ۱۴۔ ۲۸ میں درج ہے بخوبی سمجھ سکتے ہیں اور وہ یہ ہے۔ میرا باپ مجھ سے بڑا ہے ۔ ہمارے خدا وند کے طرز کلام سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس جگہ اپنی انسانیت کی نسبت کہہ رہا ہے۔ کیونکہ آپ اپنے شاگردوں سے یہ فرماتے ہیں کہ اب میں تم سے جُدا ہو جاؤں گا ۔ اور یہ جدائی جس کا کہ مسیح ذکر کرتا ہے صرف اس کے انسانی وجود پر اطلاق کر سکتی ہے۔ الوہیت کی راہ سے وہ ان سے جدا ہرگز نہیں ہو سکتا ۔ مگر ہاں جسم کی راہ سے وہ ان سے جداہو سکتا ہے اور جدا ہوا بھی ۔ پس مسیح کا اپنی نسبت یہ کہنا کہ میرا باپ مجھ سے بڑا ہے عقلاً بہت درست ہے کیونکہ باعتبار اپنی انسانیت کے وہ باپ سے کم ترہے۔ لیکن اگر کوئی اس پر بھی یہ نکتہ چینی کرے اور کہے کہ مسیح نے یہاں پر اپنی الوہیت کی نسبت بھی اپنے تئیں اپنے باپ سے کم تر کہا ہے۔ تو ہم نکتہ چین کے اس قول کو بھی خوشی سے تسلیم کر لیتے ہیں کہ ہاں الوہیت کی نسبت بھی ایک طرح سے یہ کہنا درست ہے اور یہ ہمارے دین کا مسئلہ بھی ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ باپ اور بیٹے اور روح القدس کے درمیان ایک تقدیم(فوقيت) سلسلہ تو ہے۔ مگر تقدیم زمانہ نہیں ہے۔ ماسوائے اس کے باپ بیٹے سےاس بات میں بھی بڑا ہے کہ باپ جو کچھ ہے وہ ازخود ہے اور کسی سے نہیں ہے ۔ مگر بیٹا جو کچھ ہے وہ باپ سے ہے۔ اس کا وجود باپ کے وجود سے لیا جاتا ہے۔ لیکن مخفی نر(چُھپا ہوا نہيں) ہے کہ ہم یہ نہیں مانتے کہ ان کے صفات میں کچھ فرق ہے کیونکہ ذات الہٰی کی تقسیم نہیں ہو سکتی کہ ایک جزو تو اس کو عطا کیا جائے اور دوسرا نہ دیا جائے۔ ماہیت ممتنع التقسیم (تقسيم نہ ہونے والا وجود)ہے۔ پس ۔ واضح ہو کہ اس قسم کی جتنی آئتیں پیش کی جائیں گی ان کی تفسیر سے صرف یہی ثابت ہو گا ۔ کہ وہ تعلیم کے موافق ہیں اور یہی نہیں بلکہ ان سے مسیحی دین کے مسائل کی تاکید و تائید بھی بخوبی ہوتی ہے۔ مگر یادرکھنا چاہیے کہ ایسی ایسی آئتیں وہی لوگ پیش کرتے ہیں جو محمد صاحب کی طرح مسیحی دین کی تعلیم سے اچھی طرح واقف نہیں۔
ایسے لوگ بڑی جانفشانی(سخت کوشش) اور جانکا ہی (واقفيت)سے ایسے ایسے خیالات اور تصورات کی تکذیب و تردید(جُھٹلانا، رد کرنا) کرتے ہیں جن کو کوئی خواندہ (پڑھا لکھا)اور واقف کار مسیحی کبھی مانتا ہی نہیں مثلاً یہ کہ مسیح ماسوائے خدا کے ایک دوسرا خدا ہے۔ بھلا یہ بتلائے تو سہی کون مسیحی ایسے خیال کو مانتا ہے؟
اب ایک آیت اور ہے جس کی بابت کچھ کہنا بہت مناسب ہے۔ اور وہ مرقس ۱۳۔ ۳۲ ہے جہاں یہ لکھا ہے کہ اس دن اوراس گھڑی کی بابت سوا باپ کے نہ تو فرشتے جو آسمان پر ہیں اور نہ بیٹا کوئی نہیں جانتا ہے۔
جب سرسر ی نظر سے ہم اس آیت کو دیکھتےہیں تو البتہ بڑی مشکل معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس پر معترض یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ اس آیت کے درمیان جس میں مسیح کی صفت ہمہ دانی(سب کُچھ جاننا) کا انکار ہے اور دوسری آیتوں میں جو محض اس کے انسانی تجربہ سے علاقہ رکھتی ہیں۔ ظاہراً بڑافرق معلوم ہوتا ہے ۔ بالفرض اگر یہ مان لیا جائے کہ دوسری قسم کی جتنی آئتیں ہیں وہ مسیحی دین کی تعلیم سے بالکل موافقت و مطابقت رکھتی ہیں تو بھی یہ کس طرح سے ثابت ہو سکتا ہے کہ یہ آیت بھی مسیحی دین کی تعلیم سے موافقت و مطابقت رکھتی ہے۔ کیونکہ اس میں تو مسیح کی صفت ہمہ دانی کا انکار ہے۔
مگر جاننا چاہیے کہ یہ اس عمیق(گہری) تعلیم کا صرف ایک جزو ہے۔ جس کو کنوبنس یعنی کلمہ ازلی کا خود اپنے تئیں خالی کرنا کہتےہیں خط فلپیوں ۲۔ ۷ میں اس کو خود انکاری و خود پستگی کی ایک اعلیٰ صفت کر کےبیان کیا ہے کہ مسیح نےخادم کی صورت پکڑ کر اور انسان کی شکل بن کر اپنے تئیں خالی کر دیا اصل زبان یونانی کی عبارت یہ ہے۔
جس کا ترجمہ یہ ہے کہ خادم کی صورت پکڑ کر اور انسان کی شکل بن کر اس نے اپنے تئیں خالی کر دیا اور ماقبل کی آیت میں لکھا ہے کہ اس نے خدا کی صورت میں ہو کےیہ کام کیا۔ پس نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خالی کرنے سےصرف یہی مراد ہے کہ اس نے اپنی انسانی زندگی میں اپنی الہٰی صفات سے کچھ کام نہ لیا۔ اگر ہم کو اس خالی کرنےکی کو ئی مثال بھی دستیاب نہ ہوتی تو بھی ہم یہ نتیجہ نکالتے کہ اس نے علم و قدرت کی قید کو اپنی مرضی سے اختیار کر لیا۔ پس اس آیت اور بہت سی اور آیتوں سے جو کہ اسی کی مانند میں ہم کو مسیح کی زندگی اور اس کے کام صحیح صحیح قیاس و گمان ہو سکتا ہے۔ ہمارا دعویٰ صرف اتنا ہی ہے کہ آیت مدنظر اور دیگر آیات اپنے اپنے موقع و محل کےموافق مسیحی دین کی تعلیم کی عمارت کی تعمیر کرتی ہیں ۔ اور یہ تعلیم کتاب مقدس کا خلاصہ ہے اس میں کوئی کلام نہیں ۔