The false Prophecy of Mirza Ghulam Ahmad Qadiani
By
Allama G. L. Thakur Das
علامہ جی ایل ٹھاکر داس
Published in Nur-i-Afshan Sep 28, 1894
نور افشاں مطبوعہ ۲۸ ستمبر ۱۸۹۴ ء
اس قول کے مطابق ہی کہ رسّی سٹر گئی پر وٹ(بل) نہ گیا ۔ مرزا غلام احمد قادیانی کی پیشین گوئی۔ مسٹر عبداللہ آتھم صاحب کی بابت ۔ کہ ’’اگر وہ حق کی طرف رجوع نہ کریں گے تو ۵ جون ۱۸۹۳ء سے ۵ ستمبر ۱۸۹۴ء تک مر جائیں گے ۔ ۶ ستمبر ۱۸۹۴ء کو باطل(جُھوٹ) ثابت ہوئی کیونکہ آتھم صاحب زندہ رہے۔ اب اپنی رُوسیاہی (منہ کالا)کو ڈھاپننے اور مریدوں(پيروکار) کا دل بھلانے کے لئے ایک اور تقرر شائع کی ہے ۔ جو ہمارے سامنے پڑی ہے ۔ ناظرین مرزا صاحب کی فریب بازی سے خود ہی چوکنّے(ہوشيار) ہوگئے ہیں۔ اُسی طرح اُن کی دوسری تقرر سے بھی چوکس (ہو شيار)ہونا چاہیے ۔ مرزا صاحب کا نیا اشتہار ظاہر کرتا ہے کہ اُنہوں نے خوف زدہ اور پریشان ہو کر یہ تقریر شائع کی ہے کہ آبھائی اب کی دفعہ پھر آ۔ اُس میں۔
اوّل بات یہ ہے۔ کہ مرزا صاحب نے اپنی تقریر کا عنوان ’’ فتح اسلام پر مختصر تقریر ‘‘ لکھا ہے۔ یہ ایک عجیب دھوکہ کہا اہل اسلام کے لئے ہے جو مرزا صاحب اپنی بناوٹی پیشین گوئی میں اسلام کو خواہ مخواہ لپیٹ رہے ہیں۔ اور تعجب(حيرانگی) ہے کہ پیشین گوئی کے باطل ثابت ہونے پر بھی آپ نے فتح اسلام کی ناحق پکار کر دی ۔ کیا اہل اسلام مرزا کی پیشین گوئی اور اسلام میں کوئی ذاتی نسبت مانتے ہیں ؟
دوم یہ کہ مرزا صاحب نے اپنی پیشین گوئی کے باطل ٹھہرنے کے بعد اس کے دو پہلے بتلائے ہیں۔ ’’ اوّل یہ کہ فریق مخالف جو حق پر نہیں ہاویہ (جہنم)میں گرے گا۔ اور اُس کو ذلت پہنچے گی۔ دوسرا یہ کہ اگر حق کی طرف رجوع کرے گا۔ تو ذلت اور ہاویہ سے بچ جائے گا ‘‘۔’’ اُن کی مسٹر آتھم کی نسبت الہامی فقرہ یعنی ہاویہ کے لفظ کی تشریح ہم نے یہ کی تھی کہ اس سے موت مراد ہے۔ بشرطیکہ حق کی طرف وہ رجوع نہ کریں ۔ اب ہمیں خدا تعالیٰ نے اپنے خاص الہام سے جتلا یا ۔ کہ اُنہوں نے عظمت اسلام کا خوف و غم اپنے دل میں ڈال کر کسی قدر حق کی طرف رجوع کیا۔ جس سے وعدہ ِموت میں تاخیر(دير) ہوئی کیونکہ ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ اپنی اپنی قرار دا دہ شرط کا لحاظ رکھتا ‘‘۔
مرزا صاحب کا یہ پچھلا فریب پہلے سے بھی بدتر معلوم ہوتا ہے۔ جب تک پندرہ مہینے گزر نہ گئے اس پہلو پر زور رہا کہ آتھم مر جائے گا۔ ضرور مر جائے گا ۔ جب پندرہ مہینے پورے گزر گئے اور آتھم صاحب زندہ ہی رہے۔ تو دوسرے پہلو کی سوچی ہے۔ یعنی پندرہ مہینے سے چار دن بعد ۔ کہ اُس نے کسی قدر حق کی طرف رجوع کیا۔ اور اس لئے نہیں مرا مگر پیشتر اس سے کہ مرزا صاحب کو نیا الہام ہوا مسٹر آتھم صاحب نے اُس کی بھی بيخ کنی(جڑ سے اُکھاڑنا) کردی ۔ یعنی ۶ ستمبر ۱۸۹۴ء کو عام جلسہ میں علانیہ یہ اظہار کیا ۔ کہ ’’ کلیسیاء خداوند کے کلام کو یاد رکھے جو موسیٰ کی معرفت ہوا ۔ کہ ’’ اگر کوئی تمہارے درمیان جھوٹا نبی آئے اور نشان مقرر کرے اور اُس کے کہنے بموجب ہو۔ تو خبر دار تم اس کے پیچھے نہ جانا ۔ کیونکہ خداوند تمہارا خدا تم کو آزماتا ہے‘‘۔ اور یہ جو مہینے گزرے ہیں ان کی بابت انہوں نے فرمایا کہ ’’ میں نے فقط دو باتیں معلوم کیں جن سے میری تسلی رہی ۔یعنی خُداوند رُوح القدس کا سہارا اور خداوند یسوع مسیح کا خون ‘‘۔
مسٹر آتھم صاحب نے اس تقریر سے کئی ایک باتیں ظاہر کر دیں۔ اوّل یہ کہ اگر ڈپٹی صاحب کو مرنا بھی ہوتا۔ تو بھی وہ مرزا صاحب کو جھوٹا ہی جانتے اور شروع سے اُن کے الہام کو باطل جانتے رہے۔ دوسرے یہ کہ اسلام کا خوف و غم اس مردِ میدان (بہادر، سورما) کے خیال میں بھی نہ گذرا تھا ۔ کیونکہ جس دل میں رُوح القدس کی پُشتی (مضبوطی، سہارا) اور مسیح عیسیٰ خداوند کا کفارہ سہارا رہے وہاں اسلام کے خوف اور قادیانی پیشین گوئی کا گیا گزر ہو سکتا تھا؟ تیسرے یہ کہ آتھم صاحب نے مرزا صاحب والے حق کی طرف رجوع نہ کیا تھا اور پھر یہی زندہ رہے۔ اور ان کو زندہ رکھ کر خدا تعالیٰ نے ثابت کر دیا کہ مرزا قادیانی نے جو کہا خدا کی طرف سے نہیں تھا۔ اور مرزا صاحب اور ناظرین بھی غور کریں۔ کہ کیا اسلام کی طرف رجوع کرنا اس کو کہتے ہیں۔ کہ مسٹر آتھم صاحب کا ایمان مسیح کے کفارہ پر قائم رہا اور قائم ہے اور پاک تثلیث کے اقانیم کو اپنا پشت پناہ (مددگار)جانتے رہے۔ اور قرآن والے اسلام کی حمایت میں کبھی ایک لفظ بھی نہ کہا اور نہ اپنی تصنیفات پر جو اسلام کے برخلاف لکھ چکے ہیں کسی قدر بھی تاسف(افسوس) ظاہر کیا؟ اس حال میں کیونکر مانا جائے کہ ڈپٹی صاحب نے مرزا والے حق کی طرف کسی قدر رجوع کیا۔ اور اس لئے نہیں مرے یہ مرزا صاحب کا ایک ڈ ھکو سلا (فريب، دھوکہ)ہے جس سے آپ کی جھوٹی پیشین گوئی کو ذرا بھی زور نہیں پہنچتا ۔ اور ظاہر ہے کہ آتھم صاحب کی زندگی نے مرزا صاحب کی موت والی پیشین گوئی کے ہر پہلو کو (جُھوٹا)باطل ثابت کیا ہے۔
اے مرزا قادیانی ! یہ جان رکھ ۔ کہ خداوند فرماتا ہے کہ تو خداوند اپنے خدا کا نام بےجامت لے ۔ کیونکہ جو اُس کا نام بے جا لیتا ہے خداوند اُسے بے گناہ نہ ٹھہرائے گا‘‘ (خروج ۲۰: ۷) اور یہی یسعیاہ ۸: ۱۹، ۲۰ ۔ مرزا قادیانی نے خداوند ۔ اور اس کے مسیح کے برخلاف منہ کھولا ۔ اور خدا نے اُس کوٹھٹھوں میں اُڑایا ہے ( زبور دُوسرا ) کہ اُس کی پیشین گوئی کو اس کا اپنا وہم اور جنون ثابت کیا ہے۔ مرزا قادیانی نے اپنے نئے اشتہار کے صفحہ ۳ میں یہ سراسر غلط لکھا ہے۔ کہ ’’ خدا تعالیٰ کو منظور تھا ۔ کہ عیسائیوں کو کچھ عرصہ تک جھوٹی خوشی پہنچا دیں‘‘۔ خدا تعالیٰ ایسی باتوں سے دل لگی نہیں کرتا ہے۔ برعکس اس کے اُس نے ظاہر کیا۔ کہ جب بعض آدمی مرزا قادیانی کی پیروی میں بے تمیز ہو رہے تھے۔ اور باز نہیں آتے تھے۔ تو پندرہ ماہ کے لئے مرزائیوں کو بے تمیزی کی خوشی میں چھوڑ دیا ( رومیوں ۱: ۲۸) لیکن اب پھر موقع بخشتا ہے۔ کہ بے تمیزی اور ضد کو ترک کریں ۔ اور سچائی کی پیروی کریں کیونکہ خدا نے صاف صاف فیصلہ کر دیا ہے۔
سوم یہ ۔ کہ مرزا صاحب نے اب جھوٹے ٹھہرنے کے بعد ایک اور تجویز سوچی ہے اور کیا کرتے ۔ دل کا بل ابھی نہیں گیا ہے۔ ناظرین نے وہ رائیگاں(بے کار) تجویز پڑھی ہو گی ۔ اس لئے اس کی نقل یہاں نہیں کی جاتی ہے۔ پہلے الہام کی مدد سے تو مرزا صاحب نے خود ڈپٹی صاحب پر لعنت کی تھی اور وہ چڑ گئی۔ اور اب ترمیم شدہ الہام کی رو سے یہ بندوبست چاہتے ہیں۔ کہ مسٹر آتھم صاحب خود اپنے اوپر لعنت کریں۔ ہاں آپ کی پیشین گوئی سے تو کچھ بن نہ پڑا ۔ اب ڈپٹی صاحب سے وہی پیشین گوئی کرواتے ہیں۔ ایسی باتیں صرف کمینہ پن کو ظاہر کرتی ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ مسٹر آتھم صاحب کو کیا غرض ہے۔ کہ آپ کے ساتھ لعنت بازی میں شریک ہوں۔ آپ خود ہی پیشین گوئی کر گئے تھے۔ اور خود ہی جھوٹے نکلے ۔ ڈپٹی صاحب نے تو ایسی حرکت کے لئے تحریک نہیں کی تھی۔ سو اب اُن سے پھر بازی لگانا کیا فائدہ ہے؟ آپ کے اشتہار سے شاید آپ کو اور آپ کے مریدوں(پيرو کار) کو کچھ تسلی ہو گی ۔ لیکن وہ جھوٹ جو ثابت ہو چکا۔ وہ تو نہیں مٹتا ۔ مرزا صاحب اُس تجویز میں جو اقرار مسٹر آتھم صاحب سے علانیہ کروانا چاہتے ہیں۔ وہ اقرار انہوں نے ۶ ستمبر کو امر تسر کے جلسہ میں کر دیا تھا۔ اور مرزا صاحب کو تو الہام بھی پیچھے ہوا چاہیے تھا کہ ذرا قادیاں سے باہر نکلتے۔ اور اس جلسہ میں شریک ہوتے ۔ مسٹر آتھم صاحب پابند نہیں ۔ کہ اب کسی قسم کی شرط کا لحاظ کریں۔
کمترین نے نور افشاں مطبوعہ ۱۷۔ اگست میں ۔ مضمون الہام الہٰی ۔ اور الہام ارواحی کے آخر میں اپنی دُور اندیشی (عقل مندی)سے یہ لکھاتھا ۔ کہ کہیں ایسے نہ ہو جو آپ کی پیشین گوئی کی تاریخ بڑھ جائے اور اگر ایسا ہو ا کرے تو مسٹر آتھم کیا۔ جس کو چاہیں تاریخوں ہی سے مار سکتے ہیں۔ اب مرزا قادیانی نے اپنے اُس اشتہار کی رو سے جس کی کیفیت سنا رہا ہوں ۔ کترین کی دُور اندیش( عقل مندی) کی تکمیل کر دی ہے۔ اور ایک سال کی زیادہ تاریخ بڑھانے کے لئے مسٹر آتھم صاحب سے درخواست کی ہے۔ اگر مرزا صاحب کو سچ مچ الہام ہوا تھا۔ تو اُس الہام کی خدا کو زیادہ فکر ہونی چاہیے تھی۔ اور لازم تھا۔ کہ جب ہم نے اندیشہ زدیاد تاریخ کا ظاہر کیا تھا ۔ تو مرزا صاحب بھی ترمیم الہام ۵ ستمبر سے پہلے مشتہر(اشتہار) کر دیتے۔ لیکن اب کچھ نہیں ہو سکتا ۔ بہتر ہے کہ مرزا صاحب اب الہام کی عادت چھوڑ دیں اور سچے دل سے توبہ کریں ۔ خداوند ایسوں کو قبول کرنے کا وعدہ فرماتا ہے۔ اور اُن کے مریدوں کو چاہیے ۔ کہ مرزا صاحب کی اس نئی ترمیم الہام کی کچھ پروانہ کریں ۔ اور اب مرزا صاحب کا پیچھا چھوڑیں جو کچھ ہو چکا سو کافی ہے۔