Prophecy of Mirza Ghulam Ahmad Qadiani
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan Sep 21, 1894
نور افشاں مطبوعہ ۲۱ستمبر۱۸۹۴ ء
ہمارے ناظرین مرزا غلا م احمد قادیانی کے نام نامی سے بخوبی واقف ہوں گے آپ اس زمانہِ آزادی کے مسیح موعود مہدی آخر الزمان اور خدا جانے کیا کیاہیں اور اپنے دعوؤں کے ثبوت میں الہامی پیشین گوئیاں فرمایا کرتے ہیں اور یہ طریقہ عوام اور جہاں کے پھانسنے کےلئے اب تک بہت کچھ مفید ثابت ہو ا ہے۔
سنہ گذشتہ میں مرزا قادیانی اور عبد اللہ آتھم کے مابین مذہبی مباحثہ بمقام امرتسر ہوا تھا جس کےخاتمہ پر جو ن ۱۸۹۳ء مرزا صاحب نے پیشین گوئی کی تھی کہ اگر عبداللہ آتھم مسلمان نہ ہوا تو وہ پندرہ مہینے کے اندر مرجائے گا ۔ اس کی معیاد ۵ ستمبر ۱۸۹۴ ء تک تھی لیکن عبداللہ آتھم کا بال تک بیکا نہیں ہوا چنانچہ وہ آج کل مزے سے امرتسر میں دندنا رہا ہے۔ اب معلوم نہیں کہ پیغمبر و مہدی قادیان اس الہام کی کیا تاویل(بچاؤ کی دليل) فرمائیں گے اگر شرم ہو تو چُلو بھر پانی کافی ہے لیکن وہ ایسے غیرت دار نہیں معلوم ہوتے ۔
اس قوم کو اپنی قسمت پر رونا چاہیے جس میں ایسے حضرات ہادیانِ دین (دين کے رہنما)کے لباس میں جلوہ گرہوں اسلام پر تباہی اور ادبار (بربادی) کی آفت لانے والے مسلمانوں میں نفاق و اختلاف (دشمنی، پھوٹ)کے منحوس کوشش کرنے والے اور من کو دینی و دنیاوی ترقی سے محروم رکھنے کی یہی ناپاک اوزار ہيں جن کو مولوی کے خطاب سے مخاطب کیا جاتا ہے۔
گر مسلمانی ہمیں است کہ واعظ وارد
وائے گراز پس امر وز بود فروائے
ہم یہاں یہ ظاہر کر دینا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر عیسائی اس پیشن گوئی کو تمام مسلمانوں کی طرف سے خیال کریں تو اُن کی سخت غلطی ہو گی کیونکہ مرزا قادیانی اپنے اعمال و افعال کا خود جوابدہ ہے نہ کہ اسلام ۔ معدو د چند(بہت کم) آدمیوں کے سوا ہندوستا ن کے تمام اہل اسلام مرزا قادیانی کو سخت نفرت اور حقارت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور اس کی پیشین گوئیاں خود مسلمانوں کے نزدیک مجذوب کی بڑ(مجنوں کی بکواس)سے زیادہ وقعت (حيثيت)نہیں رکھتیں۔
۶۔ ستمبر کی صبح کو عبداللہ آتھم فیروز پور سے امرتسر جاتے ہوئے تھوڑی دیرلا ہو ر ریلوے اسٹیشن پر ٹھہرے تھے۔ بہت سے لوگ کمال اشتیاق (بہت شوق)سے اُن کو دیکھنے گئے تھے۔ جنہوں نے اُن کو صحیح و سلامت دیکھ کر خوشی ظاہر کی۔ فوراً یہ خبر تمام لاہو ر میں پھیل گئی عام جو ش مسرت اور خوشی کے لحاظ سے ہم کہہ سکتےہیں کہ ۶۔ ستمبر کا دن مسلما نانِ لاہو ر کے لئے عید سے کسی طرح کم نہ تھا۔
بالفرض مرزا قادیانی کی پیشین گوئی صحیح بھی نکلتی تو پھر بھی ان کو ایک نجومی یارماّل(جوتشی) سے زیادہ وقعت نہیں دی جا سکتی تھی کیونکہ بارہا ایسا اتفاق ہو ا ہے کہ نجومیوں کی پیشن گوئیاں صحیح ثابت ہوئی ہیں ۔
مرزا صاحب نے اعلان دیا تھا کہ اگر یہ پیشین گوئی غلط نکلے تو میرے گلے میں رسّہ ڈال کر تشہیر (مشہور) کیا جائے اور پھانسی پر چڑھایا جائے وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن مرزا صاحب کو اس بات کا یقین ہے کہ برٹش عہدِ سلطنت میں کوئی ان کے گلے میں رسّہ ڈالنے نہیں آئے گا۔ پھانسی کا تو کیا ذکر ہے ۔ لیکن اگر ہم غلطی نہیں کرتے تو وہ کم سے کم تخویف مجرمانہ (بد نيتی سے ڈرانا)کے ضرور مرتکب(مجرم) ہوئے ہیں اور عبد اللہ آتھم ملک پر احسان کر یں گے۔ اگر وہ اس ملہم کا ذب(جُھوٹا الہام رکھنے والا) کو عدالت کےکٹہرے پرکھڑاکریں گے۔ واقعی یہ امر نہایت ہی غیر مستحق ہے کہ ایک شخص کو پوری آزادی دی جائے کہ وہ خوفناک پیشن گوئیوں سے لوگوں کو ڈرا تا پھرے ۔ یہ برٹش گورنمنٹ کے عہدِ سلطنت کی برکت ہے کہ مسیح و مہدی تو کیا اگر کوئی (نعوذاللہ) خدائی کا بھی دعوی کرنے لگے تو کسی کو اُس کی طرف آنکھ اُٹھاکر دیکھنے کی بھی جرات نہیں ہو سکتی ایران و روم تو اسلامی سلطنتیں ہیں روسی عملداری میں بھی مان مدعیان خود کے لئے سائبیریا کا میدان موجود ہے۔
مرزا صاحب کے آئندہ الہام صحیح ہوں یا غلط وہ ہماری اس پیشین گوئی کو یاد رکھیں کہ اُن کے جدید فرقہ کے زوال کے دن قریب آگئے ہیں اور اُن کو اب اس کی ترقی سے بالکل مایوس ہو جانا چاہیے۔