The End of Holy War and Procession of Christians in Amritsar
By
Waris-ul-Din
وارث الدین
Published in Nur-i-Afshan Sep 14, 1894
نور افشاں مطبوعہ ۱۴دسمبر ۱۸۹۴ ء
ناظرین میں سے ہر ایک پروہ مشہورِ عالم پیشین گوئی روشن ہے۔ جو مرزا قادیانی نے مباحثہ امر تسر کے اختتام پر کی تھی کہ ’’ ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب( فریق ثانی) ۱۵ ماہ تک یعنی ۵ ستمبر ۱۸۹۴ء تک بہ سرائے موت ہاویہ(جہنم) میں ڈالے جائیں گے‘‘۔
اس خبر نے اس قدر شہرت پکڑی کہ پنجاب کے ہر ایک شہر اور گاؤں کا بچہ بچہ اس کا ذکر کرتا تھا۔ نہ فقط پنجاب ۔ پر دُنیا کے ایک بڑے حصّہ میں اُس کا چرچا تھا اور سب کی آنکھ ۵ ستمبر ۱۸۹۴ء کی طرف لگی ہوئی تھی اور اُس کے نتیجہ کے ظہور(ظاہر ہونا) کے منتظر تھے۔
اس مقام پر اس بات کا ذکر کرنا خالی از لطف نہ ہو گا کہ امر تسر میں ڈپٹی صاحب کے ہلاک کرنے کے لئے تین دفعہ حملے کئے گئے۔
چونکہ اُن کا امر تسر میں رہنا باعث اندیشہ تھا ۔ اس لئے ڈپٹی صاحب ۳۰ اپریل کو امرتسر سے جنڈ یالہ تشریف لے گئے اور وہاں سے لُدھيانہ کو چلے گئے ۔ جہاں ایک شخص برچھی سے ڈپٹی صاحب کا کا م تمام کرنا چاہتا تھا۔
لُدھيانہ میں کچھ دن رہ کر ڈپٹی صاحب فیروز پور میں رونق افروز (تشريف لانا)ہو ئے ۔ اس جگہ ان پرچا رحملے ہوئے ۔ بندوق سے دو دفعہ گولی چلی ۔ ایک دفعہ ایک شخص گنڈ ا سا لئے ہوئے نظر آیا۔ دو دفعہ ۳۔ ۳ ۔آدمی رات کے وقت قریب کے کھیتوں میں چھپے ہوئے معلوم ہوئے ۔ جو پوليس کے تعاقب (پيچھا کرنا)کرنے سے مفرور(بھا گنا) ہو گئے اور اُنہیں میں سے ایک دفعہ رات کے وقت تین آدمی کوٹھی کا دروازہ توڑ رہے تھے۔ چونکہ ایسے وقت میں زیادہ حفاظت کی ضرورت تھی ( جو پیشین گوئی کا آخر ی روز تھا) اس لئے ڈاکٹر کلارک صاحب ۵ ستمبر ۱۸۹۴ء کو امرتسر سے فیروز پور تشریف لے گئے۔ رات کے وقت حسب معمول پولیس کا پہرہ رہا۔
۱۲ بجے رات کے بعد ( ۶ ستمبر ۱۸۹۴ء ) اُن مسیحیوں نے جو حاضر تھے اوّل خدا کا شکر کیا اور اس کے بعد ڈپٹی صاحب کو مبارکباد دی اُس کے بعد پنجاب کے مختلف شہروں میں دس تار خبریں بھیجی گئیں ۔ جن میں سے ایک مرزا قادیانی کے نام پر تھی اور وہ یہ ہے کہ ’’ آتھم ۔ تندرست ۔ گدہا ۔ سپاہی رسّی ۔ ہے ۔ یا بھیجوں ‘‘ ۔ ۴ بجے صبح ہم لوگ فیروز پور سے ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب کے ہمراہ امر تسر کو روانہ ہوئے۔
راستہ میں رائیونڈ کے لوگوں کو ڈپٹی صاحب کو دیکھنے کا بڑا شوق تھا ۔ چنانچہ بہت لوگ ریل گاڑی کے قریب آکر حاضر ہوئے ۔ جن میں سے ایک قادیانی کا مرید(پيرو کار) بھی تھا۔ جب اس نے اپنی آنکھوں سے ڈپٹی صاحب کو دیکھا تو کہنے لگا کہ میں اس وقت سے اُس کا پیرو (پيچھے چلنے والا)نہیں ہوں اور میں کوشش کروں گا کہ میرے اور پیر بھائی بھی اس سے الگ ہو جائیں۔
پھر جب ہم لاہور پہنچے تو سب سے پہلے انجمن حمايتِ اسلام کے سیکرٹری حاضر ہوئے اور کہنے لگے ۔ کہ آتھم صاحب کی بابت تمام شہر میں شور پڑا ہوا ہے اور تارخبر مشہور ہوئی ہے کہ آتھم صاحب فوت ہو گئے ہیں۔ لیکن چونکہ مجھے خبر ملی تھی کہ وہ اس گاڑی میں آتے ہیں۔ تو میں بچشم خود (خُود آنکھ سے ديکھنا)دیکھنے کو حاضر ہوا ہوں۔ اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں ۳۱ ۔ اگست ۱۸۹۴ء کو موضع قادیاں میں موجود تھا اور میں نے مرزاصاحب سے اس پیشن گوئی کی بابت پوچھا ۔ تو انہوں نے کہا کہ بے شک ۵ ستمبر ۱۸۹۴ء کی رات کے ٹھیک ۱۲ بجے پیشین گوئی پوری ہو گی اور ایسے وقت میں جب کہ وہ کھاتے پیتے اور تندرست نظر آئیں گے اور ڈاکٹر صاحب فتویٰ دیں گے کہ سب خیر ہے۔ میں نے پوچھا کہ اگر وہ نہ مریں تو یا حضرت اس کی کوئی تاویل(بچاؤ کی دليل) بھی ہے تو کہنے لگے کوئی نہیں ۔ ضرور ضرور ۱۲بجے رات کے ۵ ستمبر ۱۸۹۴ء کو پیشین گوئی پوری ہو گی۔ علاوہ ازیں لاہور کے دیگر معززین و ایڈیٹر اخبارات اور ایک جماعت اہل اسلام خورد کلاں ڈپٹی صاحب کو بچشم خود(خود آنکھ سے ديکھنا) دیکھی گئی۔
پھر جب ہماری ٹرین امر تسر کے سٹیشن پر پہنچی تو مسیحیوں اور محمدیوں اور مرزائیوں وغیرہ کی کثیر تعداد سٹیشن کے اندر پلیٹ فارم پر جمع تھی۔ اور مسیحی پھولوں کے ہار لے کر استقبال کرنے کو آئے تھے۔ انہوں نے ڈپٹی صاحب کو دیکھتے ہی خوشی کا نعرہ مارا اور پکارے کہ ’’ مسیح کی جے ‘‘ ’’ مسیح کی جے ‘‘ بڑی خوشی سے ملاقاتیں ہوئیں۔ محمدی بکثرت موجود تھے نیز مرزائی بھی جو دیکھتے ہی فرار ہو گئے۔ جس طرح کوئی شیر سے بھاگتا ہے۔ واقعی یہ گروہ اگرچہ شیر ببر کی طرح گرجتی رہی پر وقت پر گیدڑ سے زیادہ بزدل نکلی ۔ عیسائی در کنارجن محمدیوں پر سو سو تہمتیں لگاتے تھے ان کے مقابلہ پر بھی نہ ٹھہرے ۔ تھوڑے عرصہ کے بعد ڈپٹی صاحب گاڑی پر سے اُترے ۔ ميڈیکل مشن کے چند جوانوں نے محافظت کے لئے انہیں گھیر لیا۔
برستے پھولوں میں سٹیشن سے روانہ ہو کر ہم لوگ ڈاکٹر کلارک صاحب کی کوٹھی پر جا پہنچے ۔ یہاں ایسا انتظام دیکھنے میں آیا ۔ جس سے دل شاد ہو گیا ۔ کوٹھی سبزی اور پھولوں سے آراستہ کی ہوئی اور شامیانہ لگا ہو ا تھا اور سنہری حرفوں میں ’’ ویلکم ‘‘ لکھا ہو ا تھا ۔ دریاں بچھائی ہوئی تھیں ۔ اس کل انتظام کو ميڈیکل مشن کے لوگوں نے ڈاکٹر فخرالدین لاہز صاحب کی معرفت نہایت ہی جانفشانی (سخت محنت)اور عمدگی سے کیا تھا۔ کیونکہ ڈاکٹر کلارک صاحب فیروز پور چلے گئے تھے۔ اور انہوں نے اپنی طرف سے یہ انتظام ڈاکٹر لاہز صاحب کے سپرد کیا تھا۔ اگرچہ وقت بہت تنگ تھا تب بھی اعلیٰ درجہ کی درستی سے کیا گیا تھا۔ جو قابل تعریف ہے۔
تھوڑے سے آرام کے بعد اُن مہمانوں کے لئے جو پشاور بھیرہ ۔ کلارک آباد ۔ نارووال ۔ بہڑوال ۔ جالندہر ۔ بٹالہ۔ فتح گڈو ۔ بیاس ۔ سلطان دنڈ۔ فیروز پور اور جنڈیالہ وغیرہ سے آئے ہوئے تھے بعام (کھانا)موجود کیا گیا۔
گیارہ بجے صبح امر تسر کی کلیسیاء کے شرکا جمع ہو گئے۔ ساڑھے گیارہ بجے شکرانہ کی بندگی (عبادت)ٹھیک اُسی جگہ پر جہاں کہ گزشتہ سال میں مباحثہ ہوا تھا ۔ شروع ہوئی ۔
اس بندگی کا ایک خاص طریقہ تھا۔ ایک خاص گیت جو اس موقعہ کے لئے چھاپا گیا تھا اور گایا گیا ۔بعدازاں پادری ویڈ صاحب نے دعاکی اور ڈاکٹر کلارک صاحب نے ۳۰ اور ۱۰۳ زبور ورد کے طور پر پڑھ کر سنائے ۔ ( ہر ایک مسیحی کو لازم ہے کہ ان زبوروں کو دیکھے۔ جو گویا خدا کی روح نے عین اس موقع کے لئے نازل کئے تھے)۔ بعد ازاں پادری ٹھاکرداس صاحب نے دعا مانگی ۔ پھر پادری ٹامس ہاول صاحب نے جو مباحثہ میں ڈپٹی صاحب کے خاص معاونوں (مدد گاروں)میں ایک تھے وعظ کیا۔ جس کا مضمون یہ تھا ۔
’’ اب شکر خدا کا جو مسیح ميں ہم کو ہمیشہ فتح بخشتا ہے۔ اور اپنی پہچان کی خوشبو ہم سے ہر جگہ ظاہر کرواتا ہے‘‘( ۲۔ کرنتھیوں ۱۴:۲ )۔ تب لالہ چندولال صاحب نے خاص اس مطلب کا مضمون سُنایا کہ مخالفین کے لئے ہم دعا مانگیں اور اُن کا بھلا چاہیں اور صبر و شکر سے اپنی جانوں کو بچاتے جائیں اور کسی سے نہ ڈریں ۔ بعدازاں ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب نے محفل میں کھڑے ہو کر اپنا حال سُنایا۔ کہ ’’ میرے لئے البتہ یہ ایک امتحان آیا تھا اور میرا خیال تھا کہ شاید میں مارا بھی جاؤں گا۔ لیکن اُس پربھی کلیسیاء خداوند کے کلام کو یاد رکھے۔ جو موسیٰ کی معرفت ہوا کہ ’’ اگر کوئی تمہارے درمیان جھوٹا نبی آئے۔ اور نشان مقر رکرے۔ اور اُس کے کہنے کے بموجب ہو تو خبر دار تم اُس کے پیچھے نہ جانا۔ کیونکہ خداوند تمہارا خدا تم کو آزماتا ہے‘‘ اور یہ جو مہینے گزرے ہیں۔ ان کی بابت انہوں نے فرمایا کہ ’’ میں نے فقط دو باتیں دیکھیں ۔جن سے میری تسلی ہے یعنی خداوند روح القدس کا سہارا اور خداوند یسوع مسیح کا خون۔ یہ کہہ کے بے اختیار اُن کے آنسو نکل پڑے نیز جماعت کے بھی آنسو بہے۔ یہ ایک نہایت ہی سنجیدہ موقع تھا اور کُل جماعت پر ثابت ہو ا کہ قادیانی نے اپنے حسد اور جھوٹ سےا س بندۂ خدا ۔ اور اُن کے عزیزوں کو اتنے عرصہ تک مفت میں کیسی اذیت پہنچائی ۔ جماعت کیا بلکہ اغلب ہے کہ جہاں کی نظر میں یہ شخص (قادیانی ) گھنونا گنا گیا۔ جس نے ایک بزرگ عمر رسیدہ کو جو کہ ہر دل عزیز ہے۔ ناحق ستایا۔ بے شک مرزا قادیانی ایک نفرتی شخص ہے۔ خدا اس پر رحم کرے۔ پھر مولوی عماد الدین لاہز صاحب نے آخری دعا کی اور پادری عبداللہ صاحب نے برکت کے کلمہ سے بندگی کو ختم کیا۔
اس جلسہ میں بخوبی دیکھا جاتا تھا کہ مسیحی یگانگت اور محبت کیسی عمدہ چیز ہیں ۔ مختلف مشنوں سے مسیحی بزرگ تشریف لائے تھے اور ہم سب ایک ہی آسمانی باپ کے فرزند ہو کر خدا وند روح القدس کے وسیلہ سے اپنے خداوند یسوع مسیح کی حمد کر رہے تھے اور ایک فتح عظیم کے لئے جو نہ کسی شخص کی اور نہ کسی مشن کی بلکہ کل مسیحی کلیسیاء کی فتح ہے۔ شکریہ ادا کرتے تھے۔
عین جلسہ کے وقت ڈیرہ غاز ی خان کے مسیحیوں کی طرف سے تا ر خبر ملی کہ جس میں مبارک بادی و خدا کی ستائش تھی جسے ڈاکٹر کلارک صاحب نے اسی وقت حاضرین کو سُنایا۔
اگرچہ سب خدا کے شکر گزار تھے۔ تو بھی خاص جوش اور شکر گزاری اُن کی تھی جو کہ مباحثہ کے دنوں میں اُسی برآمدہ میں بیٹھ کر کیفیت ديکھتے تھے ۔ کہاں وہ دن ۔ اور کہاں یہ دن ؟ تب چھوٹی سی ایک جماعت کمزوری کی حالت میں خداوند کا حق ظاہر کر رہی تھی۔ اب کل کلیسیاء فتح مند ہو کر ۔ خداوند رب الافواج کی حمد و ثنا گار ہی تھی۔ بے شک وہ کمزوری میں زور آور کئے گئے اور اُنہیں کے وسیلہ سے جو شمار میں نہیں آتے۔ خداوند نے اُنہیں جو اپنے آپ کو بہت ہی اقتدار والے سمجھتے تھے شکست دی اور ذلیل و خوار کیا۔
اُس ستون کے پاس جہاں دوران مباحثہ میں مولوی عبدالکریم سیالکوٹی کھڑا ہو کے مرزا کے کفر نامے بہ آواز بلند سناتا تھا۔ اب اسی جگہ اخوند محمد یوسف خان صاحب ( جو مرزا صاحب کے غازی تھے) ۔ خداوند مسیح کے خون خریدے ہو کے بیٹھ کر یاد کر رہے تھے کہ اُس نے مجھ پر بھی رحم کیا اور کتنے گہرے پانیوں سے نکالا ۔ ( اور کتنے اور کا خیال آیا۔جو محمد یت کی دلد ل سے بھی ایک مرزا کے زیادہ کفر میں مبتلا تھے) چونکہ ان میں سے ایک محمد سعید صاحب دہلوی جو مرزا صاحب کی بیوی کے خالہ زاد بھائی ہیں اور چار سال اُن کی ( مرزا کےزٹلیات(بے معنی باتیں) میں مبتلا رہے ۔ اپنے خیالات ایک اشتہار میں ظاہر کر چکےہیں ( اُس کے زیادہ ذکر کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ کل ہندوستان میں پشاور سے مدارس تک پھیل چکا ہے)۔
عبادت کے بعد حاضرین کو چاۓاور مٹھائی دی گئی ۔ بعد ازاں پنجاب کے مختلف حصوں میں تار خبر یں ، خطوط اشتہارات روانہ کئے گئے اور کئی تار وصول کئے گئے ۔ پھر ۵ بجے بوقت شام بہت سے مسیحی سات گاڑیوں پر سوار ہو کر معہ ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب حال بازار کے راستہ شہر ( امرتسر ) میں داخل ہوئے ۔ حال بازار میں ایک شخص نے ایک چھت پر بیٹھ کرچلتی گاڑیوں پر پھول برسائے بعدا زاں کرموں کی ڈیوڑ ہی۔ آلو والیہ ۔ بازار ۔ گھی منڈی کٹٹرہ مہاں سنگ ۔ بگیاں ۔ گھنیاں ۔ ہاتھی۔ دروزاہ ۔ لو ھگڑ دروازہ ۔ لاہوری ۔ کٹٹرہ سفید ۔ حال دروازہ ۔ رام باغ کا سیر کیا اور پھر ڈاکٹر کلارک صاحب کی کوٹھی پر جا پہنچے ۔
اُس وقت کا نظارہ ۔ عوام کے خیالات ۔ واقعات کا اثر ۔ قابل دیدتھا کہ لوگ دو کانوں ۔ مکانوں ۔ کھڑکیوں ۔ کوچوں ۔ چھتوں اور بازاروں سے ڈپٹی صاحب کو ایسے شوق سےدیکھتے اور ہمددری کرتے تھے کہ جس طرح کوئی بڑے فاتح اور ملکی ہمدرد کے لئے کرتا ہے۔
چونکہ رات کو امر تسر میں یہ تار خبر مشہور کر دی گئی تھی کہ آتھم صاحب فوت ہو گئے ہیں۔ اس لئے یہ پر وسیشن(جلوس کا شان و شوکت سے گزرنا) اور بھی تعجب کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھی۔
بعضوں نے یہ مشہور کر رکھا تھا کہ ڈپٹی صاحب وہی نہیں ہیں پر کوئی ربڑ کا آدمی بنا کر امر تسر میں لائے ہیں۔ جسے ڈاکٹر صاحب پیر سے دباتے ہیں۔ اور وہ سلام کرتا ہے !
بعض نے کہا۔ کہ اب سچ اور جھوٹ کا ٹھیک فيصلہ ہو گیا ہے۔
بعضوں نے کہا ۔ کہ خدا کا ثانی کون ہے ؟ ( یعنی مرزا خدا کا ثانی بننا چاہتا تھا۔ پر خدا نے اُس کو رسوا کیا)۔
بعض کے گمان میں پرو سیشن کے ساتھ باجا ضرور چاہئے تھا۔
بعضوں کے خیال تھے کہ یہ پروسیشن قادیان کو جانی ضرورتھی۔
بہتوں نے کہا ۔ کہ اسی طرح مرزا کو گدھے پر چڑھا کر اسی شہر میں پھیرانا چاہیے ۔ کئی ایک نے کہا ۔ کہ بے ایمان جھوٹا خدا کا ثانی بننا چاہتا تھا۔
کئی ایک نے کہا کہ بے ایمان جیتے جی مر گیا ۔
کسی نے کہا کہ اس کے جہل خانے جانے سے زیادہ اس کی رسوائی ہو چکی ہے۔ غرض کہ ہزار ہا آدمیوں کے منہ سے طرح طرح کے خیالات ظاہر ہوتے تھے اور چارو ں طرف سے قادیانی پر لعنت برستی تھی۔
جہاں تک دیکھا گیا ۔ ایک دل اور ایک زبان ہو کر بلند آواز سے کیا ادنی کیا اعلیٰ کیا اہل ہنود اور کیا اہل اسلام خدا کا شکر کرتے تھے کہ تو نے اس مرزا موذی کو آج کے دن رُوسیاہ (مُنہ کالا )کیا۔ اور نہایت ہی خوشی اور خوبی سے ڈپٹی صاحب اور مسیحیوں کو مبارکبادی دیتے اور ملاقات کرتے تھے۔
ڈپٹی صاحب اپنی سواری سے لوگوں سے ملاقات کرتے اور سلام لیتے اور دیتے تھے۔
ہمارے مسیحی دوست جو اُس وقت ہمارے ساتھ پروسیشن (جلوس)میں شریک تھے۔ خوب جانتے ہیں کہ کیا کچھ ہو رہا تھا اور کہ کس طرح بچہ بچہ کے منہ سے مسیحی دین کی صداقت کا اظہار ہوتا تھا۔
یہ ایک ایسا دن تھا ۔ جس میں خداوند نے ایک کامل فتح اپنی کلیسیاء کو بخشی تھی۔ یریحو کی دیواریں گر گئیں ۔ اب اسرائیل کے واسطے لوٹنے کا راستہ کھل گیاہے۔ آج تک اس ملک میں نہ ایسا دن نہ ایسا موقع گزرا ۔ اور اب صاف ظاہر ہے کہ زمانہ کا رخ بڑا پلٹ گیا ہے اور مسیحیوں کو چاہیے کہ خوب کمر بستہ ہو کر خدا کی برکتوں میں سے ایک کو نہ جانے دیں ۔ یہ وہ دن تھا۔ جو آج تک پنجاب کی کلیسیاء کو دیکھنا نصیب نہ ہوا تھا ۔ یہ وہ دن تھا ۔ جس نے مرزا کو جڑسے اُکھیڑ کر گرا دیا ۔ اور وہ تا ابد نہ اُٹھ سکے گا۔ یہ وہ دن تھا کہ جس میں تمام پنجاب ۔ اور ہندوستان میں خداوند (یہواہ ) کے نام کی بزرگی ہوئی اور محمدیت کو کامل شکست ملی۔
ہم دوبارہ ميڈیکل مشن کی ہمت اور مہربانی کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ جو انتظام اور مہمان نوازی کے بارہ میں ہوئی کہ ہر ایک انتظام بالکل درست تھا اور کہ انہوں نے ۵۴۰۰ اشتہارات اس فتح مندی کے متعلق چھپوا کر تمام ہندوستان میں تقسیم کئے۔ چنانچہ اُن میں سے صرف امرتسر ہی میں ۱۵ سو بانٹے گئے۔
شام کے وقت بعض حاضرین جلسہ بہ سبب قلتِ وقت(وقت کی کمی کی وجہ سے) کے جالندہر ۔ بٹالہ ۔ لاہور وغیرہ کو تشریف لے گئے۔ باقی جو موجود تھے۔ انہیں پادری ویڈ صاحب اور ڈاکٹر کلارک صاحب کی کوٹھی پر کھانا کھلایا گیا۔
رات کے وقت بیسیوں مسیحی ڈاکٹر کلارک صاحب کے بنگلہ پر سو رہے۔ ۷ ستمبر صبح کے وقت ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب کے ہمراہ ڈاکٹر کلارک صاحب ۔ پادری ٹامس ہاؤل صاحب فیروز پور تشریف لے گئے اور ڈپٹی صاحب کو سلامتی سے پھر وہاں پہنچا دیا ۔
راستہ میں امر تسر فیروز پور کے درمیان کے سٹیشنوں پر راقم (لکھنے والا)نے فتح مندی کے اشتہارات تقسیم کئے۔
کوئی مسیحی فخر نہ کرے ۔ یہ فتح کسی شخص کی نہیں ہے مگر جو کچھ کیا خدا نے خود کیا ہے۔ امروز (آج کا دن ) تاابد (ہميشہ تک)حشمت و جلال قدرت اور اختیار اور فتح المسیح تا ابد خدائے مبارک کی ہے۔