مرزا کی پیشن گوئی اور عبداللہ آتھم

Eastern View of Jerusalem

Mirza’s Prediction And Abdullah Atham

By

Golkhnath

گولکھ ناتھ

Published in Nur-i-Afshan Sep 14, 1894

نور افشاں مطبوعہ۱۴ستمبر ۱۸۹۴ ء

اجی ایڈیٹر صاحب ! جب میں عالم خواب سے بیدار(جاگنا) ہوا۔ تو کیا دیکھتا ہوں  کہ مجد د(تجديد کرنے والا) قادیانی الہامی نے تمام عالم کومسندِ ابن اللہ(خُدا کے بيٹے کی سند سے بيان کيا گيا) پر جلوس فرما کر اور آیت قُرآنی اسمہ ُاحمد کی تاویل(بچاؤ کی دليل) اپنے اُوپر منسوب(نسبت کيا گيا) کر کے ششدرو حیران(ہکا بکا) کر چھوڑا ہے۔ اور اُکمَلتَلکم دينکم و ہاتممت عليکم نعمتیآنحضرت کا وظیفہ ہے اور آپ کی قیافہ شناسی(چہرہ بُشرہ ديکھ کر آدمی کا  کردار معلوم کرنا ) و پیشین گوئیوں کا چرچا وبائے عالم گیر(دُنيا ميں پھيلی ہوئی بيماری) کی طرح شہرہ آفاق (مشہور عالم) ہو رہا ہے۔ اور کل بنی نوع نے ڈپٹی عبداللہ آتھم کو اپنے تیر ِنگاہ(نگاہ کا تير) کا ہدف(نشانہ ) بنا رکھا ہے۔ کہ آنحضرت کی بددعا و نیز آپ کے انصار  (مددگار)کے کو سنے سے وہ تختہ زمین سے معدوم(نيست کيا گيا) کئے جائیں گے یا کہ قادیانی الہام گدھے کے سینگ  کی طرف اُڑ جائے گا ۔ یا بقول وقیانہ خود اُن کی پھانسی کا دن آپہنچے گا ۔ نہ معلوم کہ اندھے کو اندھیرے میں کیا سوجھی؟

ڈپٹی عبداللہ آتھم

لو اڈیٹر صاحب ۔ یاروں کا بھی ٹوٹخاء قیافہ ذرا گوشِ دل(بڑی توجہ سے) سے سن لیجئے ۔ نعوذ باللہ (اللہ کی پناہ) ! مرزا صاحب کو سولی کی تو کیا سوجھی ہو گی اور مرمت و تجد د(درستی و نيا پن)اسلام اگر سوجھی گی ۔ تو اپنے بیٹر ے اور اپنے انصار کی ضرور سوجھے گی کہ اب کونسی کروٹ حکمت کی بدلیں۔ اور سمت ِتاویل اسمہ احمد پر نیا حاشیہ چڑ ھائیں کہ جس سے اُن کا ہاتھ دنبے کے دنبہ پر رہے اور گھر کا آٹا بھی  بناہے۔

دوم وہ کشتی حضرت قادیانی جس کی تعمیر  بوقت ِطوفان ضلالت(گمراہی،تباہی) آغاز تھی اور بشارت ِسواری(خوش خبری کی سواری) اپنے مریدوں کو بحالت مراقبہ (خُدا  کا دھيان کرنا)تو جہ سے سنا رہے تھے۔ اب وہ کشتی نامکمل ہی نہیں رہی  بلکہ اُس کے پرزے گرداب ِعدم (پا نی کا چکر کی غير حاضری )میں کالعدم (نا پيد، ختم)ہو گئے جس کی بدنامی کا دھبہ آپ کے چہر ہ انور پر تایوم انشور(روزِ قيامت) جا کیر رہے گا بھلا صاحب ۔ آنحضرت کا پہلا ہی الہام نہ تھا ۔ (ایسے الہام تو پیشتر ہزار ہا مختلفہ اشخاص کی نسبت آپ کی زبان گو ہر فشاں (فائدہ پہنچانے والی)سے جلوہ افروز (خاص انداز سے ظاہر ہونا)ہوتے رہے ہیں ۔ بجائے اس کے کہ آپ مکہ معظمہ میں جا کر امام مہدی کی چندے تقلید(پيروی) کر کے بموجب عقائد اسلام بہ پہلوئے حضرت محمد مدفون (دفن)  ہوں۔ ندامت و ضلالت (شرمندگی، گمراہی )کےبھنور (پانی کا چکر)میں خود غرق ہو ں گے۔ کیوں نہ ہو صاحب ِشرم ہیں۔

ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب کا ایسے موقعہ پر زندہ رہنا منجانب ِخدا تھا ۔ تاکہ اس مباحثہ کا خاص نتیجہ و صدق و کذب (سچ والزام)متنازعہ فیہ مذاہب (مذاہب کا جھگڑا)کا آفتاب عالمتاب کی طرح روشن ہو جائيں گے ۔ الحمد للہ ایسا ہی ہوا  بلکہ بعض افنخاص خاندانی تعلیم یا فتہ متعلقہ مباحثہ محمدیت و احمدیت کو ترک کر کے مشرف و ممتاز (معزز و نامور)بمذہب مسیحیت و قدوسیت ہو گئے۔ اور مسیحیوں کی بُردباری و انکساری (تحمل وعاجزی )ان معہودہ ایام (مشہور و مقرر ايام)میں خوب نمایاں ہوئی۔ بھلا کیوں نہ ہو یہ تو عادی ہیں۔ اگر دیگر مذاہب کی طرح ہوتے ۔ تو ضرور عدالت سے چارہ جوئی (فرياد)کرتے  اور کامیاب ہوتے  اور مرزا صاحب اپنے کئے کی سزا پاتے۔ پھر قیدیوں کو جا کر اپنا الہام سناتے ۔ لیکن وہاں بھی منہ کی کھاتے  اور ڈانواں ڈول پھرتے ۔ خیر مفیٰ مامضی ، اب ہم سب مسیحی مزرا صاحب کے واسطے یہ دعا کرتے ہیں۔ کہ اے خدا اُن کی آنکھیں کھول  اور اُن کو توبہ کی توفیق عطا فرما۔ تاکہ تیری طرف رجوع لا کر تیرے گلّے میں شامل ہو کر ہمیشہ کی زندگی اور برکت حاصل کریں اور بجائے فرضی اور مصنوعی الہام کے حقیقی الہام و عرفان کو حاصل کریں۔

Leave a Comment