FRIENDSHIP
By
Bajwa
باجوہ
Published in Nur-i-Afshan Jan 31, 1894
نور افشاں مطبوعہ ۳۱جنوری ۱۸۹۴ ء
کوئی آدمی اِس دنیا میں مشکل سے ملے گا جس کے دوست اَور دشمن نہ ہوں۔ دوست باہمی ہمدردی اَور مدد کے واسطے ضرور ہے۔ اَور چونکہ انسان کو خدا تعالیٰ نے بدنی الطبع پیدا کیا ہے۔ اس واسطے بغیر دوستوں کے وہ نہیں رہ سکتا۔ باہمی ایک دوسرے کی مدد کرنا دوستی کی شرائط میں داخل ہے۔ لیکن بغور دیکھو تو کسی کی مدد کرنا دراصل اپنی آپ مدد کرنا ہے۔ کلام، الہٰی میں یونتن اَور داؤد کی دوستی غور طلب ہے۔ آخرالذکر اول الذکر کے مرنے پر کہتا ہے۔ کہ جو محبت عورت سے ہوتی ہے۔ وہ دراصل محبت نہیں ہے۔ ہمیشہ کلیات(ایک ہی شخص کی منظومات یاتصنیفات کا مجموعہ) میں تشبیہات ہوا کرتی ہیں۔ جب ہم کسی دوستانہ مجلس میں ہوتے ہیں تو جس قدر جماعت بڑی ہو اُسی قدر عام طور پر موسم ودستور کی گفتگو رہتی ہے۔ یہی حال دو آدمیوں کی ابتدائی ملاقات کا ہوتا ہے۔ مگر حکیم ٹلؔی کہتا ہے۔ کہ
’’دوستی خوشی کو بڑھاتی ہے۔ اَور مصیبت کو کم کرتی ہے‘‘۔
اَور لارڈ بیکن کا قول ہےکہ
’’ دوستی کہ ہزاروں فوائد کے ساتھ یہ ہے۔ کہ دوست مصیبت کو بھی بانٹ لیتا ہے‘‘۔
چلیا کے ایک حکیم کا قول ہے کہ
’’ میٹھی باتوں بہت سے دوست بن جاتے ہیں۔ اس واسطے سب کے ساتھ مل کر رہنا چاہیے۔ اَور ایک کو اپنا صلاح کار بنا رکھنا چاہیے‘‘۔
دوستی کے لیے سمجھ واقفیت و عمر و دولت کی مساوات چاہیے ۔ ورنہ دوستی قائم نہ رہے گی۔ چاہیے کہ نیکوں کے ساتھ دوستی ہو۔ کیونکہ کون ایسا شخص ہے ۔ جو نیکیوں کی صحبت میں رہ کر بڑائی حاصل نہ کرے۔ پھول کے پتوں پر شبنم کو دیکھو شبنم کے قطرےچمک میں موتی کو بھی مات دیتے ہیں۔ یہ خوبی اُن میں پھولوں کی صحبت اَور قرابت سے آگئی ہے۔ ویسے ہی قطرے زمین پر پڑتے ہیں ۔ جو مٹی میں مل جاتے ہیں۔ دوستی ہمیشہ جوانی میں ہوتی ہے۔ جب ہر قسم کا جوش انسان میں ہوتا ہے۔ اَور دراصل حقیقی دوست بھی وہی ہوا کرتے ہیں۔ بڑی عمر میں نئے دوست پیدا نہیں ہوتے۔ اَور پرانے دوست بعض اوقات بعض بواعث(باعث کی جمع،وجوہات،اسباب) سے ضائع ہو جاتے ہیں۔ اس کا بیشتر باعث یہ ہے کہ باہم ایک دوسرے کے عیوب سے آگاہ ہو جاتے ہیں۔ اَور سلوک میں کسی طرح سے کمی ہو جاتی ہے۔ وقت اَور مواقعے ایسے نہیں رہا کرتے۔ لیکن اگرکوئی بھاری سبب نہ ہو تو پھر ملا قات سے وہی باہم ویسے ہی خوش ہوتے ہیں۔ ایک دانا کا یہ بھی قول ہے۔ کہ
’’جو دوست کی تلاش کرتا ہے۔ وہ اپنی تکلیف کو بڑھاتا ہے۔ کیونکہ اُس کی افکار(فکر کی جمع،پریشانیاں) کا حصہ لینا پڑتا ہے‘‘۔
لارڈ بیکن یہ بھی کہتا ہے۔ کہ
’’ کسی شخص کو پہلی مرتبہ ہی بہت کچھ نہ سمجھ لیاجائے۔ کیونکہ کوئی شخص اُمید کی مقدار کو پورا نہیں کر سکتا‘‘۔
روشنو کالڈ کہتا ہے کہ
’’جس وجہ سے ہم نئے دوستوں کو پسند کرتے ہیں ۔ وہ اس قدر ہمارے پہلے دوستوں سے دل برداشتہ ہو جانے ۔ یا نئی چیز سے لطف پیدا ہونے کے خیال سے نہیں۔ جس قدر اس دلگیری کے باعث ہے کہ جو لوگوں حسبِ تعریف نہ حاصل کرنےکے سبب سے ہوتی ہے۔جو ہم کو بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں اور ان لوگوں سے جو ہم کو ایسی اچھی طرح سے نہیں جانتے زیادہ تعریف حاصل کرنے کی توقع ہوتی ہے‘‘۔
ہم جنس اَور ہم خیال میں دوستی ہوا کرتی ہے۔ کم از کم ایک امر (فعل ،کام)میں مماثلت چاہیے۔ ورنہ ہرگز دوستی نہ ہو گی۔ مطلب کے دوست دنیا میں بہت ہوتے ہیں۔ جب مطلب نکل گیا۔ یا مطلب نہیں ہے۔ یا مطلب نکلنے کی ُامید نہیں ہے۔ تو وہ دوستی اَور ملاقات بھی جاتی رہتی ہے۔ سچ پوچھو تو دنیا میں کوئی کسی کا دوست نہیں۔ البتہ سچے خدا پرست خیر خواہ حقیقی ہوتے ہیں۔
اشعار
دلی دشمن ہیں دنیا میں تیرے دل بند جتنے ہیں۔
ہیں سارے دوست مطلب کے زن و فرزند جتنے ہیں۔
محبت حق سے رکھو اَور ملو اہلِ محبت سے۔
عزیز و غیر حق سب توڑ دو پیوند جتنےمیں۔
مگر یہ سوال ہے کہ حقیقی خدا پرست کون ہیں؟ وہ نایاب ہیں۔ درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے۔ مگر جو زبانی جمع خرچ کرتے ہیں۔ اور الفاظ میں خیر خواہی جتلاتے ہیں۔ اُنہیں بھی بمشکل ایسا شخص ملے گا ۔ جو خدا سے محبت رکھتا ہو۔ یا سچا خیر خواہ انسان کی ہے۔ وعظ یا اُ ن کی نرم گفتگو ثبوت اس امر کا نہیں ہے۔ کہ جیسا وہ کہتے ہیں۔ فی الحقیقت ویسے ہی ہیں۔ شعر
واعِظاں کیں جلوہ بر محراب و ممبرمی کند۔
چوں نجلوت می روندآن کار دیگری کند
وعظ یہ ہے کہ فریسیوں کے موافق نہ بنو۔ مگر بیچارے اپنے آپ کو بھول گئے کہ خود فریسیوں سے زیادہ ریا کاری اورریا کے جال میں پھنسے ہوے ہیں۔ سچ مچ وہ یا تو فریب خوردہ ہیں یا فریبِ دہندہ ہیں۔ حالتِ اول میں معذور ہیں۔ مگر یاد رکھیں کہ دوسری حالت میں وہ اپنے افعال(فعل کی جمع) کے جوابدہ ہیں۔ اکثر دوستوں سے تکلیفات ہوا کرتی ہیں۔ وہ خیالی ہوں یا حقیقی۔ مگر اُن کی تعداد کم نہیں ہے۔ وہ تکلیفاتِ بے وفا کہلاتی ہیں۔ غالباً فریقین (دونوں فریق،مدعی اور مدعاعلیہ)ایسا سمجھتے ہوں۔ کیونکہ اپنے سلوکوں کا اندازہ ہر ایک زیادہ کیاکرتا ہے ۔ اس واسطے دوستی کو قائم رکھنے کے واسطے معافی بہت چاہیے۔ اگر اس میں فیاضی نہ ہو تو دوستی بہت دنوں تک قائم نہ رہے گی۔ ایسی حالت میں کسی کا شعر ہے۔
دوستوں سے اس قدر صدمے اُٹھاے جان پر
دل سے دشمن کی عداوت (دشمنی)کا گلہ جاتا رہا
پس دوستوں کے ساتھ برتاؤ میں ہوشیاری بے کار ہے۔ اَور جہاں تک ہو سکے ایک دوسرے کو معاف کرے۔ اَور عقل کے اندازہ کے مطابق شناخت بھی کرلے۔ جو اس میں ہوشیار ہیں وہ دغا نہیں کھاتے۔ اُن کے دوست تعداد میں گو کم ہیں۔ مگر پائداری میں مضبوط ہوں گے۔
ایک دوستی ریل کے سفر یا کشتی میں یا راستہ چلتے(یکہ میں) ہو جاتی ہے۔ وہ صرف اُسی وقت کے واسطے ہے۔ جب ریل سے اُترے ایک دوسرے کو نہیں پہچانتے۔ اس دُنیا کی دوستی کا بھی قریباً ایسا ہی حال ہے۔ صرف عرصہ کا فرق ہے۔ پس دوستی کم ہو یازیادہ صرف وقت کے واسطے ہے۔ وقت پورا پر نہ وہ ہے۔ نہ یہ ہے۔ مگر خداوند وفادار ہے۔ وہ آج اَور کل یکساں ہے ، وہ اپنی وفا میں کامل ہے۔ دُنیاوی دوستوں کی طرح بدلتا نہیں۔ پس اُسی پر اپنا بھروسا رکھ۔ جس قدر اُس پر بھروسے میں کمی ہوگی۔ اُسی قدر آزمائش اَور مصیبت زیادہ ہو گی۔ اَور تیری پریشانی بطورِ سزا کے تجھ کو دبائے گی۔فقط