روح القدس

Eastern View of Jerusalem

Holy Spirit

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan Feb 9, 1894

نور افشاں مطبوعہ ۹فروری ۱۸۹۴ ء

’’اُنہوں نے اُس سے کہا۔ہم نے تو سُنا بھی نہيں۔کہ رُوح القدس ہے‘‘(اعمال ۱۹:۲)۔

يہ جواب اِفسس شہر کے اُن شاگردوں نے پولُس رُسول کو ديا تھا۔جب کہ وہ اُوپر کے اطراف ملُک ميں انجیل سُنا کر افِسس ميں پہنچا۔اور اُس نے پوچھا۔’’کيا تم نے جب ايمان لائے رُوح القدس پائی‘‘؟اگر چہ يہ لوگ کمزور اور  بغير رُوح القدس پائے ہوئے عيسائی تھے۔تو بھی شاگرد کہلائے۔کيونکہ وہ مسیح خُداوند پر ايمان رکھتے تھے۔ممکن ہے کہ ايک گنہگار شخص انجیلی پیغام سُن کر مسیح پر ايمان لائے۔ليکن رُوح القدس ہنوز(ابھی تک) اُس کو نہ ملا ہو۔پس مناسب نہيں کہ ايسے شخص کو مسیحیت کے دائرہ سے خارج اور حقير سمجھا جائے۔کيونکہ وہ خُداوند جس نے اِيمان کے کام کو اُس کے دل ميں شروع کيا ہے۔اپنا رُوح القدس عطا کر کے اُس کو کامل کرے گا۔وہ جو’’مسلے ہوئے سینٹھے کو نہيں توڑتا۔اور دھواں اُٹھتے ہو ئے سَن (رسی)کو نہيں بجھاتا‘‘اپنے کمزور ايمانداروں کو نا چيز سمجھ کر اُنہيں ترک نہيں کر ديتا ہے۔جيسا کہ ہم اِن افِسی شاگردوں کی حالت ميں پاتے ہيں۔خُداوند نے اُن لوگوں کے دلی ايمان اور کمزور حالت اور رُوح القدس کی احتياج (ضرورت)کو معلوم کر کے پولُس رسول کو اُن کے پاس بھیجا۔اور جب اُس نے اُن پر ہاتھ رکھا ۔تو رُوح القدس اُن پر نازل ہوئی۔اور وہ طرح طرح کی زبانيں بولنے اور نبوت کرنے لگے۔

 اِس ميں شک نہيں کہ مسیحی کليسيا ميں اب بھی اکثر ايسے شاگرد موجود ہيں۔جو رُوح القدس کی تاثير سےہنوز موثر نہيں ہوئے۔حالانکہ اُنہوں نے باپ ۔بیٹےاور رُوح القدس کے نام سے بپتسمہ پايا ہے۔اور ان افسيوں کی مانند نہيں کہہ سکتے۔کہ ’’ہم نے تو سُنا بھی نہيں کہ رُوح القدس ہے‘‘تاہم مناسب نہيں۔کہ ہم اُنہيں حقیر اور نا چیز  سمجھیں۔يا جيسا بعضوں کا دِستور ہے۔اُنہيں جمع کر کے پوچھیں کہ تم نے رُوح القدس پايا، يانہيں؟اور اُن کے در پے ہو کر اور دِق(عاجز) کر کے رُوح القدس کا اقرار کرائيں۔بلکہ ايسے مسیحیوں کو کلام سے نصیحت کريں۔اُن کے لئےاوراُن کے ساتھ دُعا مانگيں کہ وہ رُوح القدس کی تاثيرات اور نعمتوں کو حاصل کريں۔

 تذکرہ الابرار(رسول کے اعمال کی تفسیر) ميں لکھا ہے کہ۔

’’اگرچہ افسس ميں اور بھی عيسائی تھے ۔مگر وہ لوگ جو رُوح القدس سے کم واقف تھے۔صرف بارہ ايک تھے‘‘۔

اب بھی جماعتوں ميں زُور آور اور کمزور لوگ رلے ملے رہتے ہيں۔مناسب ہے کہ ايسے لوگ تلاش کئے جائيں۔اور اُنہيں جمع کر کے سکھلايا جائے۔اور اُن کے لئے دُعا کی جائے۔مگر افسوس کی بات ہے کہ اِس وقت جو بعض مشنری باہر سے آتے ہيں۔ وہ اکثر زور آور اور نامدار بھائيوں کو تلاش کر کے اُن سے بہت باتيں کرتے ہيں۔پر کمزور اور افسردہ دِل بھائيوں کی طرف کم متوجہ ہوتے ہيں۔اور اگر کچھ ذکر بھی آتا ہےکہ فلاں بھائی کمزور ہے ۔تو يہ لوگ اس  اُميد پر کہ وہاں کا پاسڑ اُن کی مدد کرے گا۔اُنہيں چھوڑ ديتے ہيں۔اِس بات پر نہيں سوچتے کہ اگر وہاں کے پاسڑ کی طاقت رُوحانی اُن کے دفع مرض کے لئے مفيد ہوتی۔تو وہ اب تک کيوں ايسے کمزور رہتے۔مناسب ہے کہ اب دوسرے بھائی کی رُوحانی طاقت اُن کی مدد کرے ۔شايد وہ بچ جائيں۔اِفسس ميں اُکلؔا اور پر سؔکلا بھی رہتے تھے۔جنہوں  نے اپلؔوس جيسےفاضل آدمی کو بھی سکھلايا۔تو بھی اُکؔلا اور پر سکؔلا کی طاقت سے يہ بارہ شخص مضبوط نہ ہوئے۔مگر پولُس کی منادی اور ايمان ۔اور دستگیری(حمايت) سے دیکھواُنہوں نے کتنی قوت پائی۔پس ہر مُعلم(اُستاد) ہر رُوح کے لئے مفيد نہيں ہے۔مدارج مختلف ہيں اور قوتيں بھی مختلف ہيں۔سب کو جب کہيں جہاں موقع ملے خدمت کرنا چاہئے۔

Leave a Comment