یہ سب دیکھو

Eastern View of Jerusalem

Look at all this

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan Dec 3, 1891

نور افشاں مطبوعہ ۳دسمبر ۱۸۹۱ ء

’’اس طرح جب یہ سب دیکھو تو جانو۔ کہ وہ نزدیک بلکہ دروازہ ہی پر ہے‘‘ ( متی ۳۳:۲۴)۔

’’ یہ سب دیکھو‘‘ یعنی مسیح کے آنے کی علامتیں ۔ منجملہ (تمام)جن کے یہ کہ’’ جھوٹھے مسیح اور جھوٹھے نبی اُٹھیں گے۔ اور ایسے بڑے نشان اور کرامتیں (انوکھاپن)دکھائیں گے کہ اگر ہو سکتا تو برگزیدوں کو بھی گمراہ کرتے ‘‘۔ ہم آج کل اپنے ہی ملک میں کیسا صاف دیکھ رہےہیں کہ کوئی مہدؔی اپنے کو ظاہر کرتا ۔ تو کوئی اپنے کو مثیل مسیح(مسيح کی طرح) ٹھہراتا ہے۔ اور کتنے ہیں جو اُن کے معتقد و مرید (اعتقاد رکھنے والا شاگرد)ہو کر بدل و جان ان کی الہٰی رسالت کو یقین کئے ہوئے ہیں۔ سچ ہے نفس الامر(در حقيقت) میں کس کو کچھ اختیار نہیں۔ اسی لئے کلام اللہ کی پیش گوئیاں ہماری ہدایت کے لئے لکھی گئی ہیں کہ کسی جھوٹھے مسیح یا جھوٹھے نبی کو اپنا مسیح ہر گز نہ مانیں۔ لیکن جن کے پاس پیش گوئیوں کا یہ بے بہا خزانہ نہیں۔ وہ بآسانی ہر کسی مدعی مسیحائی (مسيح ہونے کا دعویٰ کرنے والا)کے دامِ عقیدت (فريب دينے والا اعتقاد)میں پھنس جاتے ہیں۔ جیسا کہ ہمارے معزز مرزا موحد صاحب ۔ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے دعویٰ مماثِلت مسیح (مسیح کی مانند ہونا)پر مٹے ہوئے ہیں۔ اور اُنہیں جو اُن کے خلاف عقیدہ ہیں۔ اور قادیانی صاحب کی مسیحائی کو تسلیم نہیں کرتے۔ صلواتیں(گالياں) سناتے۔ اور جو چاہتے ہیں۔ وزؔیر ہند میں ان کی نسبت بُرا بھلا لکھتے ہیں۔ چنانچہ وزؔیر ہند ’’مطبوعہ ۱۵ نومبر‘‘ میں ایک لیڈر آپ نے بعنوان ’’ مسیح الزمان ‘‘ شعر ہذا کے ساتھ شروع کیا ہے ۔

’’ تجھ سا کوئی زمانہ میں معجزبیاں نہیں۔ آگے تیرے مسیح کے منہ میں زباں نہیں‘‘۔

وہ نزدیک بلکہ دروازہ ہی پر ہے

پھر آپ نے ان کے مباحثہ دہلی کا ذکر کرکے ۔ دہلی والے ایک دوسرے مدعی مسیحائی کی تردید فرمائی ہے اور قادیانی صاحب کے بڑے گُن گا کے۔ ہمارے حال پر مہربانی فرمائی۔ اور لکھا ہے۔ کہ ’’ مگر وہ لوگ خصوصاً ایڈ یٹر نورافشاں کہ جو آنحضرت کے سامنے نو طفل مکتب (مد رسے  ميں نيا لڑکا)کی طرح بیٹھا ہوا چپکا منہ تکتا رہتا ہے۔ اور مشن میں جا کر جو جی میں آتا ہے۔ دھر گھسیٹتا  ہے۔ اعلیٰ ہذا آج کل اکثر اخبارات میں مسیح الزمان کے خلاف واقعات لوگوں نے لکھنے شروع کئے ہیں۔ جن کو ہم پڑھ کر تعجب(حيرانگی) کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ حالانکہ ان لوگوں کو مسیح الزمان کی خوبیوں اور کمالات کے دیکھنے کا کبھی موقع خواب و خیال میں بھی نہیں ۔ وہ گھر بیٹھے ان کے خلاف طبع آزمائی(ذہانت کا امتحان) کر رہے ہیں‘‘۔ پس اس کے جواب میں صرف اتنا لکھنا مناسب جانتے ہیں کہ ہم صرف ایک مرتبہ معہ لالہ اُمراؤسنگھ صاحب سیکرٹری آریہ سماج لودیانہ اور دو ایک معزز اہلِ شہر کے ان سے ملنے کے لئے ( جب کہ وہ لودیانہ میں مقیم تھے) گئے اور جیسا آپ فرماتے ہیں طفلِ مکتب کی طرح بیٹھے ہوئے چپکے منہ تکتے رہنے کے لئے نہیں لیکن صرف یہ  دریافت کر نے کو کہ آپ جو خلافِ عقیدہ عام اسلام ۔ مسیح کی وفا ت کے قائل ہیں۔ مہربانی کرکے یہ بھی بتلا سکتے ہیں کہ اُس کی  صورت و طرح وفات (وفات کا طريقہ)کیا تھی۔ اور جو جواب آپ نے  ديا ہم نے اسی ہفتہ کے نور افشاں میں شائع کر دیا۔ دوسرا سوال بائبل مقد س کی اصلیت و تحریف (حقيقت وتبد يلی)کے بارے  میں تھا۔ جن کے جواب میں مرزا صاحب نے فرمایا کہ یہ ایک طویل اور بحث طلب بات ہے۔ جس کی نسبت حالت ِموجودہ میں وہ کچھ بھی نہ بولے ۔ اور ایک مرتبہ حسب الطلب (ضرورت کے مطابق)۔اس ہم صرف مباحثہ میں مرزا صاحب کو دیکھا۔ جو لودیانہ میں مولوی محمد حسن صاحب کے مکان پر ۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ساتھ ہوا تھا۔ وہاں کسی تیسرے شخص کے بولنے کی ضرورت نہ تھی۔ موحد صاحب کو یوں تو اختیار ہے کہ وہ قادیانی صاحب کو مسیح الزمان کیا۔ بلکہ جن کے رُوبرو (بقول ان کے ) مسیح بھی بے زبان ہے۔ سمجھیں ۔ لیکن مناسب نہیں کہ وہ اوروں کو۔ جو اُن کے ایسے مہمل (نکمّا)الہٰام اور مثیل مسیح(مسیح کی مانند) ہونے کے دعویٰ کو قبول نہ کریں ۔بُر ا بھلا کہیں۔

خُداوند مسیح۔جس کے مسیحی منتظر ہیں۔ جب پھر دُنیا میں تشریف لائے گا۔ تو اس کو مولویوں اور پنڈتوں کے ساتھ مباحثہ کرنے کتابیں چھپوا کے فروخت کرنے  اور اشتہارات جاری کرنے کی کچھ ضرورت نہ ہو گی۔’’ کیونکہ جیسے بجلی پورب سے کُوندکے پچھم تک چمکتی ویسا ہی ابن آدم کا آنا بھی ہوگا‘‘۔ پس موحد صاحب ہم سے ناراض نہ ہوں۔ کیونکہ ہم مسیحی لوگ کسی مثیل کے منتظر نہیں۔ بلکہ مسیح ہی کے منتظر ہیں۔ جس کے لئے بوقت ِصعود (آسمان پر جاتے وقت) فرشتوں نے رسولوں سے کہا کہ ’’ اے گلیلی مردو تم کیوں کھڑے آسمان کی طرف دیکھتے ہو۔ یہ  ہی یسوع جو تمہارے پاس سے آسمان پر اُٹھایا گیا اُسی طرح جس طرح تم نے اسے آسمان کو جاتے دیکھا پھر آئے گا‘‘( اعمال ۱۱:۱)۔ یہی وجہ ہے کہ مسیحیوں نے قادیانی صاحب کے دعوؤں اور الہٰاموں پر مطلق (با لکل)تو جہ نہ کی  ۔اور ہے بھی یوں  کہ قادیانی صاحب محمد یوں ہی کے سامنے اپنی مسیحائی کو پیش کر رہےہیں۔ اور ان کا رقیب (ہم پيشہ)بھی جو دہلی میں کھڑا ہوا وہ محمدیوں میں سے  ہے۔ مسیحیوں کو ایسی بے سود (بے فائدہ)باتوں سے کچھ سرو کار(واسطہ) نہیں۔ مُوحد صاحب ناحق ہم پر اپنی خفگی (ناراضگی)ظاہر کرتے ہیں۔

Leave a Comment