حضرت ایوب کی زندگی

Eastern View of Jerusalem

Our Life

Life of Job

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan Jan 5, 1891

نور افشاں مطبوعہ ۵جنوری ۱۸۹۴ ء

ایوب کا وطن

 اوض کی سرزمین میں ایک شخص ایوب نامی تھا۔ اس کی بابت لکھا ہے کہ وہ کامل اور صادق تھا۔

اُس کا چلن

اس کے چال چلن کی بابت لکھا ہے کہ وہ خدا سے ڈرتا اور بدی سے باز رہتا تھا۔ خدا نے بھی اس کو بہت بڑھایا ۔ اس کے سات بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ اور اس کے مال کی بابت ذکر ہے کہ اس کے پاس سات ہزار بھیڑیں  اور تین ہزار اونٹ ، پانچ سو جوڑی بیل  اور پانچ سو گدھیاں تھیں۔ اس کے بہت سے نوکر چاکر بھی تھے۔ او ر اہل مشرق میں اس کی مانند کو ئی مقبول(مشہور)نہ تھا۔ اس کا ایمان خدا پر تھا۔ وہ صادق اور مردِ خدا تھا۔ خدا بھی اس کو اپنا ’’ بندہ ‘‘ کہتا ہے۔ دیکھو (کتاب ایوب ۸:۱) ۔

ایوب خوشی سے اپنے خاندان میں رہتا تھا۔ زندگی کا سامان خاطر خواہ اس کو مہیا تھا۔ جسمانی نعمتوں سے بھی وہ مالا مال تھا اور روحانی برکتیں بھی اس کے شاملِ حال تھیں۔ کسی چیز کی محتاجی اس کو نہ تھی۔ کامل اور صادق ہونےکے سبب سے وہ اور بھی خوش و خرم تھا۔ اور خُدا میں مسرور رہتا تھا۔ جب کہ ایوب کے چاروں طرف امن اور چین تھا ۔

ایوب کی آزمائش

 اور کسی قسم کا فکر  وغم اس کے دل میں نہ تھا۔ اتفاقاً اس کا ایمان آزمایا گیا ۔ اور اس کے پیارے لڑکے اور لڑکیاں ایک دم مر گئے صرف وہ اور اس کی عورت اکیلے رہ گئے۔ اور نہ صرف یہ ہی ہوا۔ بلکہ یکے بعد دیگرے اس کا مال اور اسباب سب رفتہ رفتہ برباد ہو گیا۔ اور آخر کار اس کے پاس کچھ نہ رہا اور وہ خالی ہاتھ رہ گیا۔ وہ جو ایک بڑا مالدار تھا بالکل کنگا ل (تنگ حال) ہوگا۔ اور اگرچہ اس طرح وہ بے اولاد  اور بے گھر و بے زر (بغير  روپيہ)ہو گیا۔ اور اس کی زندگی تلخ (نا گوار)ہو گئی لیکن اس صادق اور کامل شخص نے ان تمام تکلیفات اور آفات میں ذرہ بھی گھبراہٹ اور دِل تنگی ظاہر نہ کی بلکہ ایسے موقع پر جب کہ اس کو غم پر غم ۔ اور رنج پر رنج ہو رہا تھا۔ اس نے  کہا ’’ اپنی ماں کے پیٹ سے میں ننگا نکل آیا اور پھر ننگا وہاں جاؤں گا‘‘۔ اور یہ سب کچھ جاتا دیکھ کر اس نے کہا۔’’ خدا وند نے دیا ۔ خدا وند نے لے لیا۔ خدا وند کا نام مبارک ہے‘‘۔ پر اتنے ہی پر اکتفا(کافی ہونا)نہ ہو ا بلکہ ایوب کو سخت اور بُری طرح سرسے لے کر پاؤں تک جلتے پھوڑے نکلے۔ اور وہ کھجاتے کھجاتے لہولہان ہو گیا۔ اور اس کا تمام بدن لہو سے بھر گیا ۔ اس کی زندگی نہ صرف بیرونی تکلیفات سے ہی رنجیدہ اور غمگین ہو کر از حد دُکھ میں تھی۔ بلکہ خود اس کو ایسی تکلیف تھی کہ جس کا بیان نہیں ہو سکتا ۔ اس پر اور بھی زیادتی یہ ہوئی کہ ایسے دُکھ کے وقت میں تمام اس کے دوست بھی اس کے دشمن ہو گئے۔ یہاں تک کہ خود اس کی عورت بھی اس کے ساتھ ہمدرد نہ رہی ۔ وہ بھی اس کے زخمی دل کو گاہ بگا ہ زیادہ تر رنجیدہ کر دیتی تھی۔

ایوب کا صبر

 لیکن یہ مردِ خدا ایسا صابر رہا۔ اور ہر ایک دُکھ اور تکلیف کو اس نے تنہا ایسا برداشت کیا کہ وہ صابر کہلایا۔ اور ایوب کا صبر دُنیا میں ضرب المثل (مشہور مثال)ٹھہر گیا۔ اگرچہ ایوب نے اپنے رنج و غم کا اندازہ یہاں تک کیا کہ اس نے خود کہا۔ کہ ’’ اے کاشکہ میرا غم تو لاجاتا اور میرا غم ترازو میں ایک ساتھ دھراجاتا ۔ کیونکہ وہ اب سمندر کی ریت سے بھاری ٹھہرتا ‘‘۔ تو بھی اس نے اپنی زبان سے کوئی بُرا کلمہ نہ نکالا ۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے۔ کہ جب آدمی کسی سخت تکلیف یا دُکھ میں گرفتار ہوتا ہے۔ تو  وہ  کُڑ کڑاتا ہے ۔اور اپنے منُہ سے بُری  باتيں  بولتا ہے۔اور خدا پر الزام لگاتا ہے۔ لیکن ایوب نے ایسا نہ کیا۔ بلکہ صبر کے ساتھ اس سب کو کمال برداشت سے سہہ لیا۔ اور خدا کی مرضی پر راضی رہا۔ اس لئے ایوب کا صبر حقیقتاً  ایک عجیب صبرہے۔ اور وہ صابر کہلانے کے لائق ہے۔ وہ ان متذکرہ بالا تکلیفات کو برداشت کرتے وقت یوں کہتا ہے۔ ’’ اگرچہ میں صادق ہوتا ۔ تب بھی اسے جواب نہ دیتا ۔ بلکہ اپنے عدالت کرنے والے سے منت کرتا ‘‘۔

ایوب نے اپنی تکلیف اور دُکھ کے وقت جو باتیں زبان سے نکالیں ۔ وہ نہایت نصیحت آمیز ہیں۔ بعض جگہوں میں اس نے انسان کی زندگی کی کوتاہی پر ایسے کلمات کہے ہیں کہ جن سے اس فانی زندگی کا نقشہ کھینچ کر دکھلا دیاہے۔ اور بعض جگہ روحانی زندگی کی بیش قیمت نعمتوں کا بیان کرتے کرتے بہشت کا عمدہ نقشہ کھینچ کر دکھایا ہے۔ بعض جگہ خدا کی عدالت کا اور بعض جگہ اس کی رحمت کا عجیب اظہار کیا ہے۔ دُکھ کی حالت میں گویا اس کا دل بے پروائی سے کھل گیا۔ اور اس نے دل کی صداقت سے حق باتوں کا اظہار کیا۔ ایوب کی حالت وہ نہ رہی۔ بلکہ پیشتر کے موافق خدا نے اس کو ہر ایک چیز سے مالا مال کیا۔ اتنے ہی لڑکے لڑکیا ں پھر اس کے گھر میں پیدا ہوگئے۔اور اُتنا ہی مال و اسباب۔

ایوب کی حالت کا بدلنا

 بلکہ اس سے بھی زیادہ پھر ہو گیا ۔ اس کے صبرکا پھل میٹھا نکلا ۔ اور اس طرح سے  خدا کابندہ ایوب آزمائش میں پورا نکلا ۔ وہ آج تک خدا کے بندوں کے لئے ایک نمونہ ہے تاکہ وہ بھی اس کی مانند صادق اور کامل ہوں۔ اور اس کا  سا صبر سیکھیں۔(باقی آئندہ)

Leave a Comment