ابنِ آدم سردار کاہنوں کے حوالے

Eastern View of Jerusalem

Son of Man in hands of Chief Priests

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan Aug 20, 1891

نور افشاں مطبوعہ ۲۰اگست ۱۸۹۱ ء

دیکھو ہم یروشلیم کو جاتےہیں اور ابنِ آدم سردار کاہنوں اورفقیہوں کے حوالے کیاجائےگا ۔ اوروہ اُس پر قتل کا حکم دیں  گئے ۔ اور اُسے  غیر قوموں کے حوالے کریں گئے ۔ کہ ٹھٹھو ں میں  اُڑادیں ، اورکوڑے ماریں اور صلیب پر کھینچیں ۔پروہ تیسرے دن جی اُٹھےگا(متی ۲۰: ۱۸ ۔۱۹ )۔

 مسیح کا مرنا اورجی اُٹھنا متی کی انجیل سےلے کر مکاشفات کی کتاب تک ایسا صاف اور مفصل بیان ہو اہے جوکہ ان دونوں میں ذرہ بھر شک وشبہ کو دخل اور گنجا ئش نہیں ہے ۔ اس میں شک نہیں صرف ان دوباتوں پر ہی دین مسیحی کا سارا دارومداررکھا گیا ہے۔ اگر اُن میں سے ایک بات واقعی اور دوسری غیر واقعی ٹھہرتی تو دین عیسوی مطلق کسی کا م کانہ تھا ۔ لیکن شکر کا مقام ہی کہ مسیح خداوند نے خود اور اُس کے بعد اُ س کے رسولوں نے ان باتوں کا ایسا صاف اور صحیح بیان کیا اورلکھا ہے کہ ایماندار آدمی کے دل میں ااُن کی نسبت کبھی کس طرح کا شک نہ گزارے ۔خداوند جانتا تھا کہ اُس  کے بعد سچائی کے مخالف لوگ کھڑے ہو  ں گے اور اُس کی حیات وممات (زندگی اور موت)کے بارے میں غلط تعلیم دے کر بہتوں کی حقیقی ایمان سے برگشتہ اور راہ نجات سے گمراہ کریں  گئے۔ چنانچہ ایس ہی ہوا کہ آج لاکھوں آدمی موجود ہیں جوہر دوواقعات مذکور بالا میں سے ایک کو قبول کرتے اور دوسرے کو ردکرتے   ہیں ۔یورپ کے بعض مشہور ملحدوں(منکرِخُدا)اوربد عتیوں نے باوجود  یہ کہ اُس عمدیت(قابلِ تعریف) تعلیم اخلاق اور اُس کی نیک چلنی اور راستبازی کے مقر(اقرار کرنے والا)ہوئے ۔لیکن اُس  کے جی اُٹھنے کا انکار کیا ۔ مسلم بھائی اگرچہ اُ س کی معجز نمائی اور عصمت وعظمت کو تسلیم کرتے ۔ مگر اُس کی موت کے قائل نہیں ہیں ۔ اوریہ ایک ایسی بھاری بات ہے کہ جس کی نسبت فی زمانہ(ہر دور،ہر زمانہ) علمائے محمد یہ میں باہم بڑی بحث و تکرار واقع ہے ۔اور طرح طرح کی تاویلیں اورتفسیریں قرآنی آیات واحادیث کی کررہے ہیں ۔ اورانجیلی بیان سے قرآنی بیان کو مطابق کرنے کی کوشش وفکر میں حیران وسرگردان ہیں ۔ ایک محمدی عالم اپنے خیال میں بہتر سمجھتا ہے کہ قرآنی آیت  (وماقتلوہ وماصلبوہ)اس معنی سے درست ہے کہ مسیح تلوار سے قتل نہیں کیا گیا ۔ اور مصلوب بامعنی استخوان(ہڈی) شکستہ نہیں ہوا ۔ دوسرا قیا س دوڑاتا ہے کہ مسیح  صلیب دیا گیا۔لیکن جب کہ اُس  میں کچھ جان باقی تھی اُسے صلیب سے اُتار کے دفن کردیا ۔ اور شاگرد اُس کی لاش کو نکال لے گئے ۔ اور وہ چنگا بھلا ہوکر پھرکسی پھر کسی بیماری میں مبتلا ہوکر فوت گیا  ۔اور( انی متوفیک )یہی معنی رکھتا ہے۔ تیسرا شخص صرف ونحو(وہ علم جس میں لفظوں کا جوڑتوڑ اور ان کے بولنے برتنے کا قاعدہ بیان کیا جائے)کوا پنے سہارے کےلیے پیش کرکے لفظ متوفی کو وفات سے مشتق بتلاکے حقیقت پر پردہ ڈالنے اور مسیح کی وفات کے واقعہ کو ٹالنے کی کوشش کرتا ہے  ۔لیکن کوئی بات نہیں آتی ۔ اور یہ معما(مخفی ،وہ بات جو بطور رمز بیان کی جائے)جوں کاتوں قائم رہتا ہے ۔ سچ تویوں ہے کہ محمدیوں کے دلوں میں آج کل اس مسئلہ ی بابت طرح طرح کے خیال پید اہورہے ہیں  اور وہ نہیں  جانتے کہ اس سنگِ تصادم (لڑائی کی وجہ)کو ہٹاکر کیونکر اپنے لیے کوئی راہ نکالیں ۔اس میں شک نہیں کہ مصنفِ قرآن نے اس مسئلہ اہم کی نسبت مفصل ذکر نہیں لکھا اور ایک چیستان (پہیلی،بُجھارت)کہہ کے یونہی چھوڑدیا  کہ عقل مند اورہوشیار آدمی خود اُ س  کاپھل دریافت کرلیں گے ۔ لیکن اس معاملہ میں کتب احادیث نے ایسا لوگوں کو کش مکش میں پھنسا دیا کہ قرآنی مختصر لیکن واقعی بیان کی صحیح سمجھ میں وہ ہر طرف ڈانواں ڈول پھررہے ہیں ۔اگر قرآنی تعلیم کے مطابق مسیح کے ولادت، موت اورپھر جی اُٹھنے کا بیان صرف سادہ طور پر (سور ۃمریم) کی اس آیات ذیل سے معلوم کرکے ۔ پھر اس کی تفسیر وتفصیل کے لیے انجیل مقدس میں تلاش کر یں۔ تواُس کی ولادت اورموت وحیات کا مفصل ومطول(طویل) بیان اُس میں پائیں  گے ۔ اوریوں اس خلجان(خلش،فکر) سے رہائی حاصل کرنا ایک آسان امرہوگا ۔( سور ۃمریم آیت ۳۳) میں یوں لکھا ہے (وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوۡمَ وُلِدۡتُّ وَ یَوۡمَ اَمُوۡتُ وَ یَوۡمَ اُبۡعَثُ حَیًّا )۳۳)یعنی سلام ہی مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا ۔ جس دن میں مروں ۔ اور جس دن میں اُٹھوں زندہ ۔اب اگران تینوں باتوں یعنی اُس کی ولادت ،موت اور زندہ اُٹھنے کابیان مفصل دیکھنا اورمعلوم کرناچاہتے تواناجیل اربعہ اورنامجات و مکاشفات (خطوط اور مکاشفہ)میں ہرایک حق جوپڑھ کے اپنی دلی تسلی وتشفی حاصل کرسکتا ہے ۔حدثیوں میں ان باتوں کی تلاش بے فائدہ ہے ۔قرآن نے اُ س کی ولادت اورموت اور پھر جی اُٹھنے کا مختصر بیان کر دیا۔ اب چاہے کہ انجیل کے مفصل بیان کو ان باتوں کے لیے دیکھیں اور تمام شکوک وشہبات رفع ہوجائیں گے ۔

Leave a Comment