مولویوں کے سوالات

Eastern View of Jerusalem

Objection of Mulwais

 

By

Safdar Ali Bhandara

صفدر علی بھنڈارہ

Published in Nur-i-Afshan Sep 10,1891

نور افشاں مطبوعہ۱۰ستمبر۱۸۹۱ ء

کچھ مہینوں کی بات ہے کہ اتوار کو شام کی نماز کے لیے میں انگلش چرچ میں تھا  کہ ایک بھائی آئے اور بولے کہ منادی کے وقت ایک مولوی صاحب پادری صاحب سے آن بھڑے ہیں ۔ سو پادری صاحب نےآپ کو یا دکیا ہے ۔ میں نے کہا بہت سلام کہو اور یہ کہ مجھے تو معاف فرمائیں میں تو ایسی گفتگوؤں میں کچھ لطف اور فائدہ نہیں دیکھتا ہوں ۔ اور اس لیے جلسوں میں کبھی نہیں جاتا ۔بھائی نے اصرار کیا کہ ضرور چلو ۔ بازار سے دونوں صاحب بنگلہ پرچلے آئے ہیں۔ کھڑے کھڑے ایک بات بتانے کی ہے۔اور بس کہ مولوی صاحب انگریزی نہیں جانتے ۔ اور آپکو معلوم ہےکہ پادری صاحب اُردو نہیں جانتے ۔غرض میں مقام پر پہنچا تو معلوم ہواکہ مولوی صاحب کہتےتھے ۔ کہ تم عیسٰی مسیح  کوخدا کا بیٹا کہتے ہو۔ بھلا تم دکھا تو دوکہ انجیل میں کہاں ایسا لکھا ہے ۔ پادری صاحب نے(انجیل متی باب ۳ آیت کی آیت ۱۷) نکال کردکھا دی تھی ۔کہ (آسمان سے ایک آواز یہ کہتی آئی کہ یہ میراپیارا بیٹا ہے جس میں خوش ہوں) اُس پر مولوی صاحب بولے مجھے اُردو ترجمہ نہیں چاہے ۔اصل کتاب دکھاؤ ۔پادری صاحب اُنہیں اپنےبنگلہ کے پاس لائے  اور یونانی نسخہ دِکھا کر کہتے تھے ۔ کہ دیکھو اصل انجیل یونانی ہے اس میں بھی ایسا ہی لکھا ہے ۔ مولوی صاحب کہتے تھے کہ یہ تو انگریزی ہے ۔ مجھے عبرانی لاکر دکھاؤ ۔ میں کہا آپ کو عبرانی نسخہ پڑھنا ہے تو میرے گھر پر موجود ہے ۔ ابھی تھوڑی دیرمیں لادیتا ہوں۔ اب تومولوی صاحب نے دوسرا پہلو بدلا  بولے معرب کی نماز کا وقت نز دیک ہوچلا ہے اب تو میں نہیں  ٹھہر سکتا ہوں  اور دوسرادن  اور وقت اورمقام مسافر خانہ ٹھہر ا کر چلے گئے ۔ وقت اور مقام معین پرمیں اور پادری صاحب حاضر ہوئے۔ دیرتک انتظار کیا پر مولوی  صاحب تشریف نہ لائے ۔ دیر کے بعد ایک مسلمان یہ پیام لائے کہ مولوی صاحب نہیں آئیں  گے۔جب تک  آپ چٹھی نہ  لکھیں ۔ پادری صاحب نے چھٹی لکھی۔ کچھ عرصہ بعد مولوی سید احمد صاحب موصوف ایک ویکسنٹیرحسن علی اور اگلے دن کےمسلمانوں وغیرہ کالشکر ساتھ لئے تشر یف لائے ۔اب عبرانی بائبل کے نسخہ کا ذکر چھوڑ کراُن کے ہمرا ہی حسن علی نے یہ نئی بات چھڑ دی۔ کہ انجیل میں عیسٰی مسیح کو آدمی اور ابن ِآدم کرکے لکھاہے ۔ خصوصاً( انجیل لوقاکے باب ۱۸ کی آیت۱۸، ۱۹ ) پر بڑا زور دیا ۔ جن  میں مسیح نےفرما یا کہ (تومجھے کیوں نیک کہتاہے ؟ کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا )پہلے تو مجھے کہا گیا کہ منہ کھولوں کہ پادری صاحب اُردو نہیں سمجھتے اور انگریز ی میں ترجمہ سن انگریزی میں جوا ب دیتے تھے ۔ پیچھے مجھے رو ک دیا ۔ کہ آپ سے بحث نہیں ہے صرف ترجمہ کرنے  کی اجازت دی ۔ خلاصہ جس کا یہ تھا کہ کتا بِ مقدس کی تعلیمات ددنوں قسم کی ہیں ۔ اور اُنہیں کے بموجب ہم مسیحیوں کی عقیدیہ ہے کہ  جس طرح خداوند یسوع مسیح کا مل خداتھا۔ ویسا ہی وہ کامل انسان بھی تھا ۔ یہ سنتے ہی اُن دونوں نے اُن کے ساتھ سب مسلمانوں نے غل او رشور مچا یا۔ اور خوب چلائے کہ لواب تو پادری صاحب اور صفدر علی نے قبول کرلیا کہ عیسٰی مسیح صرف انسان تھا ۔حال میں سننے میں آیا کہ ایسی ہی غلط خبر بعض محمدی اخباروں میں چھپادی تھی۔ نقارخانہ میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ اتنے لوگوں کا منہ کون پکڑ سکتا ہے اور کسی کی قلم کو کون روک سکتا  ہے ۔

اب گزرے جولائی کے شروع یا وسط میں دوایک عز یز مسلمان دوستو ں باتوں باتوں  میں ذکر کیا  کہ کوئی صاحب بہت دور سے آئے ہیں۔ ابھی تو ناگپور میں ٹھہرے ہیں پھریہاں بندہ دینی گفتگوکر نے کو آنے والا ہیں۔بندہ نے عرض کیاکہ مجھے تو معاف ہی رکھیں ۔ اس لیے کہ بار بار کے مذہبی مباحثوں اور مناظر وں  نے ثابت کردکھا یا ہے کہ انجام ایسی گفتگوؤں کا تو تو میں میں یا لولو لا لا کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا ہے ۔جناب پادری صاحب اور مولوی صاحب کی گفتگو ہی کا انجام  دیکھ لو۔ کہ کیا بات تھی اور کیا بات کہہ اُڑائی ۔

اس کے بعد ایک پیر  مرد مسلمان سوداگر کا مٹی سے آکر تذکر ہ کے طور پر کہنے لگے۔ کہ دہلی کے ایک بڑے زبردست مولوی ناگپور میں آئے ہوئے ہیں ۔ شہر میں بڑی دھو م مچائی ہے۔پولیس کے چار کنسٹیبل اُن کے ساتھ ہیں ۔

کچھ دنوں بعد ایک عیسائی بھا ئی ن ے بھی ذکر میں ذکر یہ کیا کہ ناگپور میں کوئی لمبے چوڑے اور بڑے زور و شور سے چلانے اوردھمکا نے والے ایک مولوی آئے ہیں اور لٹھ(ڈنڈا) مار سوال عیسائیوں سے کرتے ہیں َ چنا نچہ بڑ اسوال اُن کا جو ہر عیسائی سے کرتے ہیں یہ ایک نیا سوال ہے کہ (تمہاے خدا کی کتنی جو رواں(بیویاں) ہیں ؟)اور جب کہا گیا کہ بھلا یہ بھی کوئی سوال ہے تو (حزقی ایل کے باب ۲۳  کی آیت ۴ ) سنائی ۔اُن  کی پریچ بازار میں ایسی ہی باتوں سے اور کریہ(قابل ِنفرت) لفظوں سے بھر ہوتی ہے ۔ بہت سے مسلمان بلکہ ہندو بھی اُن کے ساتھ غل شور مچانے میں شامل ہوجاتے ہیں۔ کہ عیسائی مذہب کی مخالفت میں وہ اُن کی ساتھ بھی اپنی ہمدردی ظاہر کرکے اشتعا لک(جوش،تحریک،چنگاری) دیتے ہیں ۔

پھر کچھ دنوں بعد معلو م ہواکہ زبردست مولوی صاحب نے ایک چالان ضلع ورؔدھا کے مشنری صاحب کے نام بھجیا ہے ۔ (گویا کہ آپ کو اختیارات پولیس بھی حاصل ہیں )کہ فلا نے مقام اور وقت پرمبا حثہ کےلیے آؤ ۔جہاں کہ بھنڈارہ کے مشنری ڈاکٹر سینڈ یلینڈ بھی جانے کو تیارہوئے۔ مشورہ میں یہ بات قرار پائی کہ مباحثہ تحر یر ی کیاجائے ۔ تاکہ فریقین کو ترجموں کے ذریعہ ایک دوسرے کی بحث سمجھ لینے کا خاطر خواہ وقت اور موقع ملے  اور کسی کو غل شور مچا کےجھوٹی بات مشہہور کرنے کی جرات نہ ہو ۔

پیچھے میں بڑے زور شور کے تپ ولرزہ میں مبتلا ہوااور کچھ خبرنہ پاسکا۔ لیکن ۸ ۔اگست کو سنا کہ بہت سے لوگوں کے غل شور غلط بیانی روکنے کے لیے پادری ڈاکٹر سنیڈ یلنیڈ صاحب نے کہ تحریر ی مباحثہ ہو ۔ مولوی صاحب نے اُسے منظور نہ کرکے زبانی گفتگو چاہی ۔ جس کو پادری صاحب نے نامنظور  کیا ۔اور اس  لیے  جلسہ بر خاست ہو ا اور پادری سینڈ یلینڈ صاحب بھنڈار ہ چلے آئے ۔ پیچھےکسی وقت مولوی صاحب بھی آئے اور مشہور کرتے پھرتے ہیں کہ پادری صاحب نے ورؔدھا میں آپ ہی اقرار کیا تھا  کہ بھنڈارہ میں چل کر تقریری بحث کریں  گے ۔ پر جب میں بھنڈارہ آیا ۔ اور صاحب  سے ملاقات چاہی تو صاحب کا فور(غائب) ہوگئے  اوریہ کہ  وہ تثلیث اور توحید اور تعلمات بائبل پرمیرے سوالوں کے جواب دے عا جز ہوکر ورؔدھا بھنڈار  ہ چلے آئے ہیں۔

بلکہ مولوی صاحب کی تحریر بھی بطور اشتہار جو اُنہوں نے جنا ب پادری صاحب ممد وح(جس کی تعریف کی جائے) کے پاس بھیجی تھی میری نظر سے گزاری  ۔ وہ ذیل میں نقل کی جاتی ہیں ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نحمد ہ نصلی۔

پادری جی سینڈ یلینڈ صاحب نے جھوٹ بولا اور ڈر گئے ۔ ناظرین پر تمکین (طاقت،وقار)پر ہویدا(ظاہر، عیاں) ہو۔

جنا ب پادری سینڈ یلینڈ صاحب نے خووہی مجھ سے ورؔدھا میں اقرار کیا ۔ کہ بھنڈار ہ چل کر ہم تقر یری بحث کریں گے ۔ پر جب  میں بھنڈار ہ میں آیا ۔ اور  میں نے صاحب سے ملاقات چاہی ۔ تو صاؔحب ممد وح کا فورہوگئے ۔ جب میں نے اپنے آنے کی وجہ وعظ میں بیان کی تو صاحب نے چٹھی  اس خوف سے لکھی کہ ہائے اب تو آبرو (عزت)چلی اورپھر یور پیئن صاحبوں کو منہ دکھلانے کی جگہ نہ رہے گی ۔ چھٹی انگریزی میں  لکھ ماری جس کا جواب کمترین نے اُردو میں لکھ کر بھیجا دیا ۔

وہوندا(اور وہ یہ ہے )

بسم اللہ الرحمن الرحیم

پادری صاحب والامناقب اعلٰی مناصب پادری سینڈ یلینڈ صاحب:۔

احقر العباد خادم ملتِ حقؔا محمد یہ شر ف الحق بعد ماوجب کے عرض کرتاہے  کہ جیسا میرا اور جناب کا ورؔدھا میں بھنڈارہ چل کر تقریر ی مناظرہ کرنےکا اقرارہواتھا ۔ اُسی پر آپ کو قائم رہیں۔ اور رقت(دل بھرآنا) مقام اور وقت مناظرہ کے جو کچھ لکھیں اُردو زبان میں  منشی صفدرعلی صاحب وغیرہ سے  لکھو اکر روانہ فرمادیں ۔ اورمیرے سوالوں تثلیث و توحید اور تعلیمات بائبل کے سوالات سوچ رکھیں ۔ جن کے جوابوں سے آپ عاجز ہو کر ورؔدھا سے بھنڈار ہ تشریف لے آئے تھے آپ کا انگریزی کا خط میرے نزدیک پہنچا نہ پہنچا برابر ہے ۔اُردو میں روانہ فرمایئے ۔ بہت جلد جواب عر یضہ ہذا سے مطلع فرمائے کہ کب اورکہاں مباحثہ ہوگا۔

کتبہ الراجی رحمت ربہ شرف الحق

۲۹ ۔ذالحجہ سنہ روان

اس کا جواب بوجہ خوف طاری ہونے کے پادر ی صاحب سے  نہ ہوسکا۔ اور اس سے پہلی چھٹی کا ترجمہ اُردو بھیج دیا۔ جس کو میں نے اپنے خط کا جواب نہ سمجھ کر واپس کیا۔ اور پادر ی کے ملازم عنایت کو تاکید کی کہ بہت جلد میرے خط جواب لا ۔ پادری صاحب کو پانے پالکواڑی یعنی ورؔدھا کے دن یاد آئے اورگھبراگئے ۔ کہ ایسانہ ہوجیسا وہاں عاجز (بے بس،لاچار)ہوگیا تھا ۔یہاں بھی جواب دینے سے عاجز مشہور ہوجاؤں میرے خط کاکو ئی بھی اُردو یا انگریزی جواب نہ دیا ۔ قریب شام کے ۵ ۔۸ ۔۱۹ کو اپنا پولوسی بہان کا نمونہ دکھلا نے کو اشتہا ر چسپاں کئے اور لکھا کہ مولوی تحریری جواب دینے سے ڈرگیا ہے ۔ جنا ب آپ تو کیا بیچارے ہیں ۔ آپ کے تینوں خدا اورچوتھے وپانچویں معبود پادری عمادالدین وصفدرعلی بھی اگر اکٹھے ہو جائیں  تو خوف کیا چیز ہے ۔ بفضل وحمایت اُس واحد تعالیٰ شانہ کے آپ جو مجھے بار بار جھوٹا لکھتے ہیں آپ خود جھوٹے ہیں ۔ بیشک ہیں ا ب بھی کہتا ہوں کہ آپ میرے سوالوں کا جواب ورؔدھا میں نہ دے سکے ۔ اور اُسی شام کوچلے آئے ۔ اورکہا کہ ہم بھنڈارہ میں تقریری مباحثہ کرے گا۔ میں نے کہا کہ میں ابھی چلوں ۔ لوگوں نے ۔بھلا تمہیں کیا فائد ہ اگرآپ سچے ہوتے تو مردِمیدان بن کر سامنے آتے اورمیرے سوالوں کے جواب دیتے اپنے بڑے مددگار منشی صفدر علی صاحب کوکیوں نہ بلوا لیا ۔ جان رکھئے کہ تحریری مباحثہ کا کبھی اختتام نہیں ہوتا ۔ اُنہیں دوخطوں کے آنے جانے میں آپ نے کیا انصاف کاخون  کیا ۔ اورجناب پولوس مقدس کی طرح کتنے رنگ پلٹے ۔ اور دیانت دارایماندار ی کو ظاہر کیا ۔ اورلکھ دیا مولوی نھے ہماراجواب نہیں دیا۔ چونکہ جناب کوذاتی علمی مادہ توہے ہی نہیں اس لیے تحریر پر ڈالتے ہیں۔ تحریر میں عوام کو کچھ  بھی فائد ہ نہ ہوگا۔ خواص(خاص کی جمع،بڑے لوگ) کو بھی جب ہوگا  کہ جب مباحثہ تما  م ہو ۔ پھر جانبین اقرار کریں کہ ہاں یہ تحریر صحیح ہے ۔ اور چھپ بھی جائے اور چھپ کر سب کے پاس پہنچ جائے ۔ اور اُن کو دینوی کاموں سے فرصت بھی ہو۔ پھر جانبین کہ کتب کاعلم بھی ہو ۔اگر تقر یر ی ہو تو سب کو فائد ہ برابر پہنچ سکتا ہے ۔ اورجو اُس کے ساتھ تحریر بھی ہوتی جائے تو پھر کیا ہی کہنے ہے  ۔جوحاضر نہ ہو اُنہیں اُس سے فائد ہ پہنچے ۔ چونکہ جواب والے مسلمانوں سے زک اُٹھا(شرمندگی اُٹھانا،ہار جانا) چکے ہیں۔لہٰذا وہ بھی پہلےدن یاد آتے ہیں کہ ایک ادنٰی سے مسلمان نے بھرے مجمع میں آپ سے چیں بلوادی ۔ اور مجبوراً آ پ کو مسیح علیہ السلام کوصرف بندہ خداماننا پڑا ۔ پھر یہ بھی آپ کو خیال ہے کہ تحریری میں جب چاہیں گے جو اب دیں گے ۔مسلمانوں کا  یہ خادم کب تک رہےگا۔ چلاہی جائے گا ۔ ہم مشہور کردیں  گے۔ کہ دیکھو  بلا تمام ہونے کے چلاگیا ۔ عیسائی  اورمسلمانوں کےبہتیرے تحریری مناظرے ہوچکے ۔ اب بھی چھپے ہوئے موجود ہیں۔آپ حضرات مانتے کیا ہو ۔کیوں صاحب پہلے مولوی سیدا حمد صاحب وحسن علی صاحب واکسنیٹر سے کیوں زبانی بحث کی تھی ؟منشی صفدر علی صاحب بہادر کدھر سدھا رے نیازنامہ(انکساری اور عاجز ی کی تحریر) یوں ہی آخرت بگاڑنے کو لکھا تھا۔ غور فرمائیے ۔

اُس کے متعد وجواب کس زور شور کے لکھے گئے ۔ آیا کچھ بھی جواب سوائے بیہوشی کے صاحب بہادر کو نصیب ہوا؟ میں تحریر ی مناظر ہ کو بھی تیار ہوں۔ لیکن گھر میں کسی طرح نہ ہوگا ۔ تما م حاضرین کے سامنے اور آپ کی تحریری ہوگی۔ اور پھر سامعین کو بھی سنا کر تحریر مذکور چھپو ادی جائے گئی ۔ لیکن مباحثہ ہر روز چار گھنٹہ سےکم  نہ ہوگا۔ اس  لیے آپ کو اور آ پ کے اعوان وانصار کو آج سے پانچ یوم کی مہلت ہے۔ اپنے تینوں خدا ؤں کو مسلمانوں کے مقابلہ میں مدد پربلالو  ۔ بفضل تعالیٰ یہ بھی مواحدین تم پر غالب رہیں  گے۔ اگر مناظرہ زبانی نہ کیا تو چھپوا کرسکا ٹ لینڈ تک بھیجو ں گا۔

۵ ۔اگست ۹۱ء  رقیمہ شرف الحق

دوسرے دن یعنی ۹ ۔اگست کو اتوار تھا ۔ جب نو بجے صبح کو مرہٹی نماز کے بعد عبادت خانہ سے ہم باہر بر آمدہ میں نکلے ۔ تو بہت سے لوگ جوق  جوق ضلع سکول کی طرف سے جہاں شرف الحق صاحب بازار میں منادی کررہے تھے ۔ پادری سینڈ یلینڈ صاحب کے پاس آئے ۔اور صاحب نے ایک انگر یزی تحریر دکھائی اور اصل  اورا اُ س کا ترجمہ مرہٹی میں سنا۔ جو تحریر کو وردھا کے معززاور معتبر لوگوں نے پادری صاحب  موصوف کی تحریر کے جواب میں

 ۸ ۔اگست ۹۱ ءکو لکھ کر بھیجی تھی۔ اور جس کا ترجمہ نیچے لکھا جاتا ہے ۔

وردھا ۸ ۔اگست ۹۱ء   ہم بڑی خوشی سے ظاہر کرتے ہیں کہ

 اول کہ ڈاکٹر پادری سینڈ یلینڈ صاحب نے  کوئی اقرار مولوی شرف الحق کے ساتھ نہیں کیا تھا کہ وہ کوئی زبانی گفتگوبھنڈارہ میں کریں گے  ۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ محض تحریری  مباحثہ  کرنا چاہتے  ہیں ۔

 اُن مولوی صاحب نے تین سوال ڈاکٹر پادری سینڈ یلینڈ صاحب سے تثلیث وتوحید اور اُسی تعلیم کی مضمون کی بابت نہیں کئے ۔ اُنہوں نے ایک سوال سے زیادہ نہیں کیا اور و ہ بھی اس مضمون کی بابت نہ تھا۔

دستخط :۔

بابو ایم گو پتا بیر سٹر ایٹ لاوپر یسڈنٹ ڈسٹر کٹ کونسل

راؤد امور درنیل کنٹھ کھیرے بی اے ۔بی اے آر پلیڈ ر ۔

راؤ واسو دیوو نا یک پرایچنی پریسیدنٹ میونسپل کمیٹی وسکر ٹری ڈسٹرکٹ کونسل ،پلیڈر۔ راؤ کیشور اؤ کاولے پلیڈر ۔

اُس وقت سید فرید ایک مختار کا رشرف الحق صاحب کی طرف سے آئے ۔ اورمجھ سے بولے کہ مولوی صاحب نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ۔ اور کہا ہے کہ آپ سے ملاقات چاہتا ہوں ۔ اور اگر ایسا ہوتو ہم کو بھی دونوں کی گفتگو سننے سے فائد ہ ہوگا ۔ بندہ نے اُنہیں جواب دیا کہ اُن باتوں کو چھوڑ کر جو وہ علانیہ بر سر بازار کہا کرتے ہیں صرف اُس تحر یر کو دیکھ کرکہتا ہوں جو ا ُنہوں  نے جناب پادری سینڈ یلینڈ صاحب کے پاس( ۵ ۔اگست) کو بھیجی ہے کہ اس تحریر کے کچے خط اور نا درست املا اور انشا سے بہتر توہمارے اُردو کے اسکول کے چھو کرے(لڑکے) لکھتے ہیں۔ مولوی ہونا اور دہلی کی زبان دانی تو دورہے  ۔ اسی طرح اُن کی وہ تحریر شائستہ ہے ۔ اس واسطے پہلے آ پ کےمولوی صاحب ایک دوبرس ہمارے اُردو کے سکول میں پڑھیں اورکہیں بھلے آدمیوں کی صحبت اختیار کرکے  بھلمنسات(خوش مزاجی) سیکھیں تب وہ بھلے آدمیوں کی ملاقات اور اُن سے بات چیت کرنے کے قابل ہوں گے ۔ اُس پر سنا ہے کہ وہ اور ان کے  ساتھ کے بھنڈارہ کے متعصب مسلمان ۔بہت اُچھلے کودے اور غصہ میں بھر بھر کر حسب معمو ل بہت کچھ  بھلابُرا کہا  اوراب تک کہہ رہے ہیں ۔کیا اس سبب سےکہ مینڈھوں ی لڑائی نہیں ہوئی ؟ لیکن مسیح کی غریب بھیڑیں مینڈھوں کی لڑائی لڑنا نہیں چاہتیں ۔یا کیا  اس سبب سے کہ مرغوں کی سی لڑائی نہیں ہوسکی ؟ لیکن مسیح کے غریب کبوترایسی لڑائی سے ناآشنا ہیں ۔ یا کیا اس سبب سے کہ جس وقت بڑے زبردست مولوی صاحب دوچار سو محر م کے غازی ساتھ لیے تیار کھڑے تھے ۔ اور ہم بھی ڈھیٹروں اور چماروں(چمڑابنانے والوں) کو جو اُس وقت محر می شیر ۔بندر ۔ لنگور اور ریچھ کا لشکر تیار تھا ساتھ لے  کر مقابلہ کو حاضر نہیں ہوئے ۔ لیکن مسیحی بندوں کو حکم ہے کہ ہر ایک دنگہ اور فساد سے دوررہیں۔یاکیا اس سبب سے کہ جناب پادری صاحب نےمولوی صاحب کی خلاف گوئی ۔ یاکیا اس سبب سے کہ اُن کی بڑی تعلّی(بلندی) اورنا شائستہ کلام کرنا اُنہیں کی تحریر سے ظاہر کی[1]؟ لیکن اُنہوں نے آپ ہی زور اور زبردستی کرکے ان باتوں کے بتانے میں ہمیں مجبور کیا ۔ نہیں  تو بانیک وبد خلق خدا کا رندار یم ۔یاکیا اس سبب سے کہ اُنہیں ایک کی بارزبانی جھوٹی باتیں مشہور کرنے کا موقع ہاتھ نہیں لگا؟ لیکن سچ کو ظاہر کرنا ۔ اور ا ُس کو ایک جھوٹی خبر ۔ اور الزام سے پاک و صاف کرنا ۔ مسیحیوں پر فرض اور اُن کے ہی سچے دین کی علامت اور بنیاد ہے۔

جیسے شرف الحق  صاحب  نےاس طرح کے تین چار مولوی صاحب مدارس کی طرف پھررہےہیں  اوریہ سب کے سب اور اُن کے سواکتنے ہی دوسرے محمدی پریچر (مبلغ)جا بجا(جگہ جگہ) اسی طرح کی منادی کرنے میں بے لگامی اوربدکلامی کو کام میں لاتے ہیں اور مسیحی منادی کرنے والوں ۔ اور دوسرے عیسائیوں کے حق میں جو منہ میں آتا ہے کہتے ہیں۔ اورمسیحی مذہب اورخدا کی برحق کتابوں کی نسبت ناشائستہ کلام کرتے ہیں ۔ میر ی دانست میں اے مسیحی بھائیو ایسے لوگوں سے گفتگو کرنا بالکل بے فائد ہ ہے ۔ اور محض تضیع(ضائع کرنا) اوقات ہے ۔ اس لیے وہ جہاں کہیں جائیں  اور جو چاہیں بُرابھلاکہیں اور غل شور مچائیں خاموش رہو ۔ اور خدا وند خدا سے اُن کی واسطے بھی دُعا ئےخیر کرو۔ اُس کے فضل سے دور نہیں کہ آخر کو یہی لوگ توبہ کریں ۔ اور اس نیک بندے اورہمارے بھائی بن جائیں ۔ آمین


[1] ۔اس تحریر کے خط کی خامی تو اصل کے دیکھنے سے ظاہر ہوتی ہے ۔لیکن املا اور انشا کی فاش غلطیاں اور کلام کی ناشائستگیاں ان الفاظ اور عبارات کے ملاحظہ سے نمایاں ہیں ۔جن پر خط کیا گیا ہے اور جو نقل مطابق اصل منقولہ بالا میں موجود ہیں۔

Leave a Comment