دلی آرام

Eastern View of Jerusalem

Comfort of Heart

By

C.H.Luke

سی ایچ لوک

Published in Nur-i-Afshan Nov 5, 1891

نور افشاں مطبوعہ۵نومبر ۱۸۹۱ ء

’’اے تم لوگو جو تھکے اور بڑے بوجھ سے دبے ہو سب میرے پاس آؤ کہ میں تمہیں آرام دوں گا‘‘(متی ۱۱:۲۸ )۔

اے ناظرین یہ میٹھی اور شریں آواز کس کی ہے ؟یہ بے آرام دل کو چین ،غمزدہ کو تسلّی ،نااُمید کو اُمید اور بیکس کو سہار ادینے والی سداکس مہر بان کی ہے؟کیا آپ کےکان میں یہ فرحت بخش اواز کبھی آئی ہے ؟اگر آئی ہے تو کیا آپ کادل اُس کا شنوا(سننے والا) ہواہے ؟کیا آپ نے اس گنا ہ کے عالم میں گناہ کی زیر باری سے تھک کر اوربار عصیاں(گناہوں کا بوجھ) سے زیربارہوکر اپنی حالت زارسےگھبر ا کر خلاصی کی جستجو میں ہوکر اوررہائی کا طالب بن کر اس تسلّی بخش آواز دینے والےکی بابت دریافت کیا ہے ؟کیاآپ کے دل میں اُس مُدعی کے دعوے کا ثبوت ہوچکا ہے اور آپ کے ایمان کا لنگر اس چٹان پر جوز مانوں کا چٹان ہے قائم ہواہے ؟اورکیا اپنے اپنےگناہوں سے توبہ کرکے اوردست بردار ہوکر اس چشمہ فیض سے فیضیاب ہوکر دلی آرام جو گنہگاروں کو ہرگز نصیب نہیں حاصل کیاہے ؟کیا آپ کے دل کو عاقبت(آخرت) کے اندیشے اور دوزخ کے عذاب سےجس سے کہ ہر ایک گنہگار کادل دھڑ کتاہے بے پروائی حاصل ہوئی ہے اور آپ کا خدشہ جاتارہا ؟اورکیا آپ نےروح کا بیانہ حاصل کرےکے بہشت کی ا ُمید کو پالیا ہےاور اب ہمیشہ کی زندگی کے لیے متیقن(یقین کرنے والا) ہوگئے ہو؟اگران تمام باتوں کے جواب میں آپ ہاں کہہ سکتےہوتو درحقیت مبارک ہو ۔کیونکہ گنا ہ اور برائی سے چُھٹ کر اور دوز خ کے عذاب سےرہائی پاکر ہمیشہ کی زندگی کے لائق ٹھہرے ہو ۔ لیکن اگرابھی تک آپ کی طرف سےان کاجواب نفی ہے تو اے پیارے ناظرین میں جوان تمام باتوں کی دریافت کرچکا ہوں اور دلی آرام کا لطف اُٹھا چکا ہوں یہ چند سطریں صرف آ پ ہی کی خاطر لکھتا ہوں ۔ ا س اُ مید پر کہ آپ کے بے آرام دل کو بھی آرام حاصل ہو ۔ اظہر من الشمس (روز روشن کی طرح عیاں)ہے کہ ہر انسان کے دل کی تختی پریہ لکھاہواہے کہ نیکی کرنا موجب جزااوربدی کرنامستوجب(واجب) سزا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ کہ احکام الٰہی کا بجالانا سبب ثواب کا اور اُس کے حکموں کی عدولی باعث عذاب کاہے ؟

میرے پاس آؤ کہ میں تمہیں آرام دوں گا

جب قادرِمطلق مالک کون ومکان نے آدم کو پاک وصاف بنایا تھا اُس کو زند گی کی تمام برکتیں حاصل تھیں پرافسوس کہ اُس نے حکم عدولی کی اور اُن برکتوں کو کھودیا ۔ اور سر کشی(بغاوت) کے سبب سے وہ پہلاآدمی بسبب گناہ کے تکلیف اوردُکھ کاآشنا بنا ۔اور اگرچہ اُس کے گناہ کی سزاموت تھی تاہم رحیم خدا نے ا پنے احکام دے کر اُس کو فر صت عمر کی بخشی اور توبہ اورمعانی کی جگہ چھوڑی ۔ اور اسی طرح پرکل بنی آدم کا بھی یہ ہی حصہ ہے۔ اگر انسان خدا کی شریعت کو جو اُس نے بنی آدم کے لیے عنایت فرمائی تھی جس کو دس (۱۰) احکام کہتے ہیں یا اخلاقی شرع جو سب لوگوں کے دلوں میں ثبت ہی پورے طورپرعمل لائےتو ازسر نو زندگی کی تما م برکتیں حاصل کرسکتا ہے لیکن اگر اُن میں قاصر رہےتو تو مستوجب سزاکا ٹھہرے گا۔ اُس کو عہدِ عمل کہتے ہیں اس عہدِ عمل پر چلنا ازحد مشکل ہوگیا ہے ۔کیونکہ بسبب گناہ کے انسان کا دل ناپاک ہوگیاہے اور پا ک خداکی مرضی کو بجالانا اُس کے لیے ازحد مشکل بلکہ نہ ممکن ہوگیا ہے۔ افسوس کہ بے شمار لوگ اس مشکل بلکہ ناممکن کام کے کرنے کا دم بھر تے ہوئے اپنی بیش قیمت جانوں کو ناحق کھوڈالتے ہیں۔ شریعت کی تکمیل آدمی کے لیے بسبب گناہ کے ایک بڑا بوجھ ہوگئی ہے کہ جس کو وہ اُٹھا نہیں سکتا بلکہ بالکل اُس کے نیچے دباہواہے ۔یہ ٹھیک ایسا ہے کہ جیسے کسی شخص کو طاقت نہیں کہ ایک من بوجھ اُٹھا ئے پردس(۱۰) من اُس کے سررکھا جائے اور وہ بیمار بھی ہو تو کیا وہ اس کو اُٹھاسکے گا ؟نہیں ہر گز نہیں ۔ ایساہی بوجھ شریعت کا ہے۔ جس کو کوئی بھی بشر اُٹھا نہیں سکتا ۔ تھوڑی سی سوچ وفکر والا بھی ضرور اس بات تسلیم کرے گا۔ توپھراے ناظرین کیا آپ شریعت کابھاری بوجھ اُٹھا سکتے ہو؟

کیا آپ اس سے تھک نہیں گئے ہو ؟اگریہ حال ہے تواس نااُمید ی میں ایک اُمید ہے جو گناہ گار کو ملتی ہے کہ خدا ن کا کلام مجسم ہو اور فضل اور راستی سے پھر پور ہوکر ہمارے درمیان رہا۔ اوراب جوااُس پر ایمان لائے  وہ ہلاک  نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے  ۔ اس مضمون کی سرخی اُسی نجات دہندے کی دلکش اورتسلّی بخش آوازہے جس نے گناہ گاروں کے عوض اپنی جان قربان کردی ۔ اور شریعت کو پورا کرکے عدل میں رحمت کی راہ گناہ گاروں کے لیے کھول دی ۔ اس لیے اب تما م لوگوں کو خواہ کسی فر قے یامِلّت کے ہوں اس بوجھ سے چھڑانے کے لیے بلاتا ہے ۔ ہاں وہ گناہ گاروں کو گناہ سے موت سے دوزح سے اور خدا کی لعنت سے رہائی دینے کے واسطے باآواز بلند پکار کے بُلاتا ہے ۔تم  تھکے ہو میں تم کو آرام دوں گا۔ صرف آؤ۔یہ آرام اس دنیا کی چند روز ہ زندگی کا بے قیام آرام نہیں بلکہ روح کا ابدی آرام ہے جولازوال ہے ۔ جواس سے غافل رہے اُس کو خون اُس کی گردن پر۔ نجات کا دروازہ کھلا ہے ۔ سب کچھ تیار ہے ۔ کچھ دیر نہیں ۔ صرف آنے کی دیر ہے ۔آؤاور نجات مفت لےلو۔ دل کا آرام جو دُنیا کی عیش وعشرت عزت و دولت مال وغیر کسی شے سے حاصل نہیں ہوسکتا ۔ اب اس وقت زندگی کے مالک سے ملتا ہے جو ہاتھ پھیلا ئے ہوئے ہم تم سب کو پیا ر سے بلاتا ہے ۔ اپنے فائد ے کے واسطے نہیں بلکہ ہمارے فائد ے کے واسطے ۔ اب یہ آواز دھیمی، حلیم اور پیاری اور ترس کی آواز ہے لیکن کب تک ؟آپ کے لیے جب تک کہ آپ کودم قائم ہے دُنیا کے لیے جب تک  کہ یہ آسمان اورزمین برقرار ہیں لیکن وقت مقررہ کے بعد جب کہ آپ کا سفر یہاں ختم ہو جائے گا ۔ اورموت کا سمن(حاضرعدالت ہونے کا تحریری حکم) مل جائے گایہ آواز پھر سُنائی نہ دے گی ۔ اور دُنیا کوبھی نہ سُننے میں آئے گی ۔ کیونکہ عناصر جل کر گزار ہوجائیں گے ۔ اُس وقت کے بعد یہ آواز دہندہ عدالت کے تخت پر بیٹھ جائے گا ۔ اور آواز کے نہ سننے والوں کو جنہوں نے سن کر اپنے کان بھاری اوردل موٹے کرلیے سخت اورخوفناک آواز سے فتویٰ ِدوزخ کادے گا۔

اے ناظرین وقت کوغنیمت سمجھ کر اس ناپائید ار (قائم نہ رہنے والی)زندگی کو ہیچ و پوچ(قابل نفرت) جا ن کر آیند ہ زندگی اُس کی برکتوں اور دلی آرام اور روح کے اطمینان کو حاصل کرنے کے لیے اس آواز کے شنواہوجو کہتی ہے ’’اے تم لوگوجو تھکے اور بڑے بوجھ سے دبے ہوسب میرے پاس آؤ کہ میں تمہیں آرام دوں  گا‘‘۔

Leave a Comment