ہمیشہ کی زندگی کی باتیں

Eastern View of Jerusalem

Words of the Eternal Life

By

Allama G.L.Thakur Dass

علامہ جی ایل ٹھاکرداس

Published in Nur-i-Afshan Jun 18, 1891

نور افشاں مطبوعہ ۲۵جون ۱۸۹۱ ء

شمعون پطرس نے اُ سے جواب دیا کہ’’ اے خداوند ہم کس کے پاس جائیں ہمیشہ کی زندگی کی باتیں تو تیرے پاس ہیں۔ اور ہم تو ایمان لائے اور جان گئے ہیں کہ تو زندہ خدا کا بیٹا مسیح ہے‘‘( یوحنا ۶: ۶۹،۶۸ )۔ دریائے طبریاس کے پار جب کہ ایک بڑی بھیڑ خداوند کے اعجازی کاموں کی شہرت سُن کر اُ س کی تعلیم سننے اور اُ سکی کرامتوں کو دیکھنے کے لئے فراہم ہو گئی تھی۔ تو لوگوں کو بحالت گر سنگی دیکھ کر خداوند کو اُ ن پر رحم آیا۔ اور پانچ روٹیوں اور دو چھوٹی مچھلیوں کو برکت دے کے تخمیناً پانچ ہزار آدمیوں کو سیر کر دیا تھا۔ پس بہت سے لوگ جو صرف شکم بندہ تھے یہ جان کر کہ یسوع کی پیروی میں بلامشقت روٹی ہمیں ہمیشہ ملتی رہی گی ۔ اُ س کو اپنا بادشاہ اور اُ ستاد بنانے اور اُ س کے محکوم و شاگرد ہونے پر مستعد و آمادہ ہو گئے۔

لیکن خداوند نے اُ ن کے مطلب و مقصد سے واقف ہو کر جب اُ نہیں یہ نصیحت کی کہ تم فانی خوراک کے لئے نہیں ۔ بلکہ اُ س کھانے کے لئے زیادہ تر محنت و فکر کرو جو ہمیشہ کی زندگی بخشتا اور ابد تک ٹھہرتا ہے۔ اور وہ خوراک تمہیں ابن آدم کی کفارہ آمیز موت سے اور اُ س کے پاک جسم کی قربانی سے صرف حاصل ہو سکتی ہے۔ اسی لئے اُ س نے صاف طور پر کہا کہ ’’میں وہ زندہ روٹی ہوں جو آسمان سے اُ تری ۔ اگر کوئی شخص اس روٹی کو کھائے تو ابد تک جیتا رہے گا۔ اور روٹی جو میں دوں گا میرا گوشت ہے جو میں جہاں کی زندگی کے لئے دوں گا۔ میرا گوشت فی الحقیقت کھانے اور میرا لہوفی الحقیقت پینے کی چیز ہے ‘‘۔ مگر شکم پر ست (پیٹ کے پوجاری)اشخاص ان باتوں کا مطلب نہ سمجھے۔ اور نہ آج کل ایسے لوگوں کی سمجھ میں یہ بات آتی ہے۔ اور جیسا اُ س وقت بہت لوگ ان باتوں کو سخت کلام جان کر بولے۔ کہ ’’ کون ان باتوں کو سُن سکتا ہے‘‘۔ اور اس کی پیروی کو بے سود جان کر اُلٹے پھر گئے۔ ویسا ہر زمانہ میں ہوتا رہا۔ اور اب بھی اکثر ہوتا ہے۔ کیونکہ نفسانی آدمی دنیوی و جسمانی چیزوں کو روحانی و غیرفانی چیزوں سے زیادہ پسند کرتے ۔ اور اگر دُنیوی و جسمانی اشیاء کے حاصل ہونے میں مسیح سے اُ نہیں کوئی صورت نظر نہ آئے۔ ( اگرچہ وہ سب کچھ سخاوت کے ساتھ دیتا ہے) تو وہ فوراً اُس کو چھوڑ کر طریق ہلاکت میں چلنے کو پسند کرتے ہیں۔ لیکن جو ابدی زندگی کے طالب صادق ہیں اور فانی و دنیوی چیزوں پر زیادہ دلدادہ نہیں ہیں۔ وہ بہر حال پطرس کے ہم زبان ہو کر کہیں گے۔ کہ ’’ اے خداوند ہم کس کے پاس جائیں ہمیشہ کی زندگی کی باتیں تو تیرے پاس ہیں ‘‘۔ کون ایسے بد بخت لوگوں کی بُری حالت کا اندازہ کر سکتا ہے؟

مسیحی شاعر نے درست کہا ہے۔

تیرے د ربخشش سے جو محروم چلا جائے

شامت ہی اس کی نہیں تقصیر کسی کی

ہمیشہ کی زندگی کی باتیں تو تیرے پاس ہیں

فی الحقیقت ایسے لوگ نہ ادھر کے رہتے نہ اُدھر کے ۔ اور اپنی غم آلودہ و پُر افسوس زندگی دلی بے آرامی و ندامت کے ساتھ بسر کرکے موت کے وقت عمیق و بے حد یاس وہراس میں اس دنیا سے گذر جاتے اور ابدی ہلاکت میں پڑ کے جہنم کو آباد کرنے ہیں۔ جہاں کی آگ کبھی نہیں بجھتی اور کیڑا کبھی نہیں مرتا ہے۔

اس قسم کے بدبخت لوگوں میں سے ایک شخص کا حال ابھی ہم نے سنا ہے۔ جس کی نسبت اخبار عام (مطبوعہ ۵جون میں بحوالہ ٹریبیون ایک طویل آرٹیکل بعنوان ’’ عیسائی کا پھر ہندو ہو جانا ‘‘ )شائع ہو ا ہے۔ اس شخص کا نام تلسی داس باعبدالمسیح ۔ مقیم ڈیرہ غازی خان ہے جو قریب دس(۱۰) برس ہوئے عیسائی ہو گیا تھا۔ اور اب پھر ہندؤں میں آملا ہے۔ گنگا پر جا کے  پرایشچت (توبہ)کرکے اُ س نے وہاں کے پنڈتوں سے شدہ (پاک) ہونے کا ضروری سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔ اور پھر ڈیرہ غازی خان میں واپس آیا۔ اور وہاں کے برہمنوں سے درخواست کی کہ اُ س کو برادری میں شامل کیا جائے۔ لیکن وہاں کےلوگوں نے منظور نہ کیا۔ بلکہ برعکس اس کے پرانے فیشن کے لوگوں نے ایک بڑا جوش اُ س کے خلاف پیدا کر دیا ۔ لہذا تلسی داس نے آریہ سماج سے مدد مانگی جس نے کھلے بندوں اسے شامل کر لیا۔

اخبار عام کا خیال اس شخص کو ہندو بنانے کے خلاف ہے۔ اور جو کچھ ہندو مذہب کے قیود و قوانین کی نسبت ایسے معاملات میں اس نے لکھا وہ بالکل درست ہے۔ہم اخبار مذکور کے کل بیان کو لکھنا نہیں چاہتے ۔ مگر اُ س کے چند فقرات کا انتخاب کرنا کافی سمجھتے ہیں۔ تاکہ ہندؤں کے مذہب کی صورت اور ایسے اشخاص کی قابل افسوس حالت ناظرین کے ذہن نشین ہو سکے چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ ’’ اب اتنے عرصہ کے بعد پھر ہندؤں میں شمار ہونے کو آپ کے دھان میں پانی پھر آیا اور پر ایشچت کی ٹھہرائی ۔ جس پنڈت کے ایسے عیسائی کو بعد ہندو ہونے کی اجازت دی اور بے ستہانکا لی ہے بالکل خلاف دھرم شاستر کارروائی کی ہے اور کوئی پکا ہندو اُ س کے فتوے کو راست قبول نہیں کر سکتا ۔ ایسا کوئی پر ایشچت ہندو دھرم شاستروں میں نہیں ہے‘‘۔ نیو فیشن کے لوگ مصلحت وقت کے خیال سے ایسے لوگوں کو پھر شامل کر لینا موحب ترقی قوم سمجھیں ۔ لیکن اولڈ فیشن کے لوگ یعنی نیو فیشن والوں کے باپ دادا کسی سایہ دار درخت کی حفاظت کے لئے اُ س کسی پتے یا ٹہنی کو کاٹ کر پھینک دینا اس سے بہتر سمجھتے ہیں کہ ایسی شاخیں جن کو گھُن یا کیڑا لگا ہوا ہے اور جس کی بوسیدگی سارے درخت کو نقصان پہنچا ئے گی۔ پھر اس میں پیوند کی جائیں ۔ کیا آپ کو یقین ہے کہ گنگا جی کے پنڈتوں کا فرمان خدائی ہے۔ جو ایک پاپی کو قلم کے دو حرفوں سے پوتر (پاک) کر سکتا ہے؟ کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ ہر دوار کے پنڈت کے پاس چٹھی    >لے جا کر اس کی ہدایت میں سر منڈو ا کر آپ کے سب پاپ دھوئے گئے؟ آپ کے اس رویہ سے کئی خطرناک مثالیں ہندو مذہب کے لئے ’’ اولڈ فیشن ‘‘ والوں کے نزدیک پیدا ہونے گی ۔ ہم کبھی خیال نہیں کر سکتے کہ پنڈت تلسی رام جی نے کون سے وجوہات سے اور کون سے دھرم شاستر سے ایک ایسے ہندو کے شدہ ہونے کی بےوستہا۔ ( فتویٰ) دی ہے۔ جو دس (۱۰)پندرہ(۱۵) برس کھلم کھلا عیسائیوں میں شامل رہا۔ مکروہ کھانا کھایا۔ ہندؤں اور اُ ن کے پنڈتوں کو گالیاں دیں۔ اور اب پھر سب کچھ کر کے ہندؤں میں جنہیں چور اور غلام بتلایا جاتا ہے شامل کرنے کی ناجائز کوشش کی جاتی ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ بقول عام ’’ نیو فیشن والے ‘‘ یعنی آریہ دیانندی گنگا میں کسی پاپی کو شدہ(پاک) کرنے کی طاقت کے ہرگز معتقد(پیرو) نہیں ہیں۔ لیکن چونکہ ان کا دستور العمل مصلحت وقت اور حکمت عملی پر ابتداء سے رہا ہے کسی ایسے شخص کو شدہ ہونے کے لئے پھر بھی گنگا میں اشنان کرنے اور وہاں کے پنڈوں سے جنہیں وہ پو پ کا خطاب حقارتاً دیتے ہیں ہندؤں میں گھسٹنے پر نیک خیال سے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ کیا یہ دیانت کی بات ہے؟ ہرگز نہیں ہم اخبار عام کے ہمرائے ہو کر بلا تامّل کہہ سکتے ہیں کہ ایسے کہو چل لٹوؤں کےشامل کرنے سے ہندو سوسائٹی ۔ اور نہ دیانندی فرقہ کی ترقی و سر سبزی ظاہر و ثابت ہو گی ۔ بلکہ یہ ایک منجملہ دیگر بواعث و وجوہات کے اُ ن کے تنزل دا دبار کا صریح نشان ہے۔ ہم اس مضمون پر زیادہ لکھنا چاہتے لیکن فی الحال اتنے ہی پر اکتفا کرتے ہیں۔ 

Leave a Comment