مرزا غلام احمد قادیانی کا سفید جھوٹ

Eastern View of Jerusalem

White lie of Mirza Ghulam Ahmad Qadiani

By

Rev.Jamil Singh

پادری جمیل سنگھ

Published in Nur-i-Afshan Jun 25, 1891

نور افشاں مطبوعہ ۲۵جون ۱۸۹۱ ء

عرصے سے میرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے شور و شر مچا رکھا تھا کہ اُن کو الہٰام ہوتا ہے۔ پر اُ ن کے الہٰام کی کوئی حقیقت نہ کھلی ۔ جتنی دفعہ الہٰام آپ کو ہو اوہ الہٰام الہٰام نہ ٹھہرا ۔ آج کل آپ لودیانہ میں فرو کش(مقام کرنا) ہیں۔ اور اشتہار پر اشتہار دیتے ہیں۔ کبھی محمدیوں کو اور کبھی عیسائیوں کو۔ کبھی تو دعویٰ ملہم ہونے کا تھا۔ اور اب مسیح ہونے کا فخر دل میں سما گیا ہے۔ لیکن جائے تعجب ہے کہ آپ کا الٰہامی ہونا تو ابھی پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتا تھا کہ آپ نے اُ س سے بڑھ چڑھ کر دعویٰ مثیل مسیح ہونے کا کر     لیا۔ آخر آپ کے دعوؤں کا کوئی ثبوت بھی ہے؟ یا کہ یوں نہیں ’’ چھوٹا منہ بڑی بات‘‘ کے مصداق ہو رہے ہو؟آپ کی کسی بات کا آج تک کوئی ثبوت نہیں ملا۔ بلا ثبوت آپ کے دعوؤں  کا کہاں تک طول کھینچے گا؟ آپ ناحق اپنی سر دردی کرتے ہو اور ضعیف ایمان والوں کو اپنے دھوکے میں لاکر دین و ایمان سے کھوتے ہو ۔ مناسب تو ہے کہ کوئی آپ کی کسی نوشت کی طرف مطلق خیال نہ کرے، کیونکہ آپ کی تحریرات گمراہ اور کافر اور بے دین بنانے  کےلئے کافی سامان رکھتی ہیں۔ اور ہرایک فقرہ راستی سے کو سوں دور اور ایمان سے برگشتہ کرنے کے لئے زہر قاتل سے بھرا ہوا ہے ۔ آپ کی یہ چھیڑ چھاڑ تو دیر سے لگی ہوئی ہے۔ اس سے آپ کو کسی قدر فائدہ تو پہنچ چکا ہے۔ شہرت تو آپ کی بخوبی ہو چکی ہے۔لیکن افسوس کہ آپ نے روزبروز دین و ایمان سے دور و مہجور(جُدا) ہو کر اب نو بت یہاں تک پہنچائی ہے کہ علانیہ جھوٹ کا شیوہ اختیار کر لیا ہے۔ سچ ہے ۔ کہ اگر کوئی اوّل ہی کسی کام سے نہ رُکے تو رفتہ رفتہ اس میں پختہ ہو جاتا ہے اور آخر کو اس کا چھوڑنا مشکل بلکہ دشوار ہو جاتا ہے ۔ چونکہ آپ نے پہلے جھوٹی باتیں بنانے اور اُن کو الہٰامی جتانے کی مشق کر تی تھی ۔ تو اب اس میں ترقی کر لی ہی تھی۔ اب آپ کا بڑ ا آخری جھوٹ ظاہر ہوا کہ مسیح مُردوں میں ہے ۔ آفرین آپ کی ہوشیاری اور چالاکی پر۔ آپ کو تو جھوٹ پر جھوٹ بولنے میں کوئی رُکاوٹ نہیں پر آپ محمدی عالموں کو بھی اپنے ساتھ شامل کرنا چاہتے ہو ۔ آپ نے اپنے اشتہار (مطبوعہ ۲۰ مئی ۱۸۹۱ ء) میں شائع کیا ہے کہ افسوس ہمارے گذشتہ عالموں نے عیسائیوں کے مقابل پر کبھی اس طرف ( یعنی مسیح کو مردہ ثابت کرنے میں ) تو وجہ نہ کی۔ کیوں کرتے وہ آپ جیسے عالم نہ تھے۔ اُن کو آپ کے موافق ایسے ناحق دعوؤں کا مرض نہ تھا۔ وہ احاطہ مسلمانی سے باہر نہ جاتے تھے۔ واہ صاحب واہ ۔ آپ کو خوب سوجھی ۔ ایسی تو نہ آپ سے پہلے کسی علماء کو سوجھی تھی ۔ اور نہ زمانہ حال کے مولوی صاحبان کے خیال شریف میں آتی ہے۔ کیونکہ آپ کی اس بیش قیمت سمجھ کی کچھ وقعت نہیں کرتے ۔ بلکہ اُنہوں نے متفق الرائے ہو کر فتویٰ آپ کی بابت لگایا ہے جو اپنے بخوبی پڑھا ہو گا۔

کچھ ضرور ت نہیں کہ آپ کے لئے پورا پورا ثبوت اس امر کا لکھا جائے کہ خداوند یسوع مسیح زندہ ہو کر آسمان پر تخت نشین ہے۔ لیکن کچھ تھوڑا سا لکھنا چاہتا ہوں ۔ زمانوں سے اس بات کا سچا ہونا ثابت ہوتا آیا ہے اور اس میں کچھ شک و شبہ نہیں کیا گیا کہ خداوند یسوع مسیح زندہ میں پھر آنے والا ہے۔ نہ صرف عیسائی اس بات کے قائل ہیں بلکہ غیر اقوام بھی خصوصاً محمدی ۔ کیونکہ قرآن میں بار بار مسیح کے زندہ آسمان پر جانے کا ذکر ہے۔ اگرچہ اس بیان میں اور بائبل کے بیان میں اختلاف ہے پر مسیح کے زندہ آسمان پر جانے میں پورا اتفاق ہے اور کسی محمدی کو اس میں کلام نہیں۔ بلکہ تمام مسلمان صاحبان از ابتدائے مسلمانی یہ ہی ایمان رکھتے رہے ہیں کہ حضرت مسیح زندہ آسمان پر گئے اور جسم انسانی میں وہاں موجود ہیں۔ پر برعکس اُس کے آپ جو عجیب قسم کے محمدی ہیں برخلاف قرآن و محمدی اعتقاد کے ناجائز اشتہار دیتے ہیں کہ مسیح ابن مریم فوت ہو چکا۔ اور (سورہ النحل آیت ۲۱) کی ایک آیت نقل کرکے موٹے حرفوں میں الفاظ (اَمۡوَاتٌ غَیۡرُ اَحۡیَآءٍ) پر بڑا زور دیا ہے جس کا مطلب ہے کہ مردے ہیں نہیں زندہ ۔ اگرچہ ہم مسیحی قرآن کی آیتوں کو تصدیق نہیں سمجھتے۔ مگر چونکہ ایک مسلمان ایک آیت کو بے مطلب اور بے فائدہ استعمال کرتا ہے اُ س کے لئے اتنا کہنا کافی ہے کہ اگر مسیح کی نسبت بھی یہ خیال ہے کہ وہ مُردہ ہے اور زندہ نہیں تو پھر اُن قرآنی آیات کا کیا مطلب ہے کہ جن میں صاف و صریح لکھا ہے کہ مسیح نہیں مرا۔ دیکھو( سورہ النساء رکوع ۲۲ ؛سورہ  آل عمران رکوع۶؛سورہ ۱ لمائدہ رکوع ۱۶ ، رکوع ۲)۔

میرزا صاحب سنئے تمام حواری جو مسیح کے زندہ ہونے کے وقت چشم دیدہ گواہ تھے اس بات کی گواہی بڑے زور و شور سے اُن لوگوں کے رو برو دیتے رہے کہ جن کے سامنے یہ واقعات وقوع میں آئے تھے کہ خداوند یسوع مسیح زندہ ہو کر آسمان پر چلا گیا ۔ اور ۱۸۹۱ء برس ہو چکے کہ تمام مسیحی ہر ملک کے اس ہی ایمان پر قائم رہے اور ہیں لیکن آپ اس صدی کے آخر میں مخالف مسیح بلکہ منکر مسیح ظاہر ہوئے ہیں ۔ اور حالانکہ خداوند مسیح آسمان پر القادر کے دہنے ہاتھ سر فرار ہے مگر تعجب کہ آپ اُس کو مُردوں میں ڈھونڈتے ہو۔ مسیح کے جی اُٹھنے کے بعد کئی ایک عورتیں اس قبر کو دیکھنے گئیں کہ جس میں یسوع دفن کیا گیا تھا۔ لیکن فرشتوں نے اُن عورتوں سے کہا کہ ’’تم کیوں زندہ کو مُردوں میں ڈھونڈتی ہو وہ یہاں نہیں بلکہ جی اُٹھاہے ‘‘( لوقا ۲۴: ۵)۔ میں بھی آپ سے اس وقت یہ ہی کلمے کہتا ہوں کہ اے میرزا صاحب آپ کیوں زندہ کو مُردوں میں ڈھونڈتے ہو؟ اس وقت اُن لوگوں نے اُس دیکھا اور وہ ایمان لائے کیونکہ وہ فرصت اور توبہ کا وقت تھا۔ اور کیونکہ وہ وقت قیامت کا نہ تھا۔ آپ بھی خداوند مسیح کو دیکھو گے پر قیامت کے دن۔ اُس وقت آپ کیا کرو گے؟ وہ تو جس طرح اُوپر گیا ہے پھر آئے گا( اعمال ۱: ۱۱ )۔پر عدالت کے واسطے آئے گا۔ جس کے اب آپ مخالف ہیں اُس ہی کو روز  حشر کی عدالت سپر د ہوئی ہے۔ آپ ایسی مخالفت اب کر کے اُ س کی عدالت سے کیونکر بچ نکلوگے۔ خدا آپ کو ہدایت کرے کہ آپ اپنے توہمات سے رہائی پائیں اور حق بات کو جان کر جھوٹ سے تائب ہوں ۔ اور حق پر آجائیں۔

Leave a Comment