مسیح کی عدیم النظیر شخصیت

Eastern View of Jerusalem

Unique Personality of Jesus Christ

 

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan April 16, 1891

نور افشاں مطبوعہ۱۶اپریل ۱۸۹۱ ء

مسیح کی اخلاقی کمالیت کے(کمال کی تعليم) مطابق ظاہر ہے کہ اُس کی شخصیت بھی ایک افضل (بر تر) قوت و طاقت کی شخصیت ہےاُس کی  طاقت خصوصاً  اس تاثیر(اثر)سے جو اُس کے شاگردوں پر ہوئی ظاہر ہے۔ وہ اوسط  ( درميانے) درجہ کے لوگ اور اکثر غریب مچھوے ( مچھلی پکڑنے والے)  تھے۔ جو مطلق (بالکل) گم نام جیتے اور مرتے لیکن اُس کے سبب نامور( مشہور)  ہو گئے۔ اُنہوں نے یسوع پر اثر نہ کیا لیکن یسوع  نےاُن پر ایسا اثر کیا کہ وہ رسول (خدا کی طرف سے بھيجا ہوا) ہونے کے لائق بن گئے ۔ وہ ہی تھا کہ جس نے اُن کی عام دنیوی طبیعت کو تبدیل کر کے جگایا اور جِلایا (ز ندہ کرنا)  اور سرفراز کیا ۔ اُس نے اُ ن میں ایک نئی زندگی ڈالی بلکہ وہ خود اُن کی زندگی تھا۔ اُس نے اُنہیں اپنی اطاعت کرنے کی خواہش اور جان نثار محبت سے معمور و پُر جوش کیا ایسا کہ وہ اُس  کے لئے جینے  کام کرنے اور مرنے کو رضا مند تھے ’’اور خوش تھے کہ ہم اس لائق ٹھہرے کہ اُس کے نام کے لئے بے حُرمت (بے عزت) کئے جائیں ‘‘۔ وہی تھا کہ جس نے اُنہیں اُن کی نفسانی خواہشوں سے چھڑایا اور ایک نہایت روحانی مذہب اور خدا کی بادشاہت کے ادراک (سمجھ) تک عروج کرنے کے قابل کیا۔ اُس نے اُنہیں مغرور اور تنگ یہودیت کی سخت زنجیروں سے چھٹکارادیا اور انسان کے ایک پاک برادرانہ تعلق اور عالمگیر مذہب کا افضل خیال اُنہیں بخشا۔ اُس نے اُنہیں اپنی ہی دلیری اور استقلال (ثابت قدمی) سے معُمور کیا ایسا کہ وہ جو پہلے ڈر پوک اور کمزور تھے۔ ایذا(دکھ)  اُٹھانے اور بے دھڑک بادشاہوں اور حاکموں کے سامنے کھڑے ہونے اور ایک ایسی بہادری سے جو پہلے کبھی ظاہر نہ ہوئی تھی شہیدانہ موت کا سامنا کرنے کے قابل ہو گئے۔ اُس نے اُنہیں ایسی غیر مغلوب(ناقابل شکست)   اور فراوان قوت (کثرت کی طاقت) سے معمور کر دیا کہ جس سے  وہ ایسے لوگ مشہور ہوئے کہ ’’ جنہوں نے جہان کو اُلٹ پُلٹ کر دیا‘‘۔ اور جس سے وہ ایسے عجیب انقلاب( تبدلی)کو دُنیا نے کبھی نہیں دیکھا تھا پیدا کرنے کے قابل ہو گئے۔ جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ اُس نے ایسے عام شخصوں میں ایسی عجیب تاثیر پیدا کی اور اُن کو ایسے شریف و زور آور اشخاص بنا دیئے ہم ضرور اس میں مسیح کی شخصیت کی اعلیٰ طاقت کی ایک دلیل پاتے ہیں۔ مسیحیوں کی پہلی پشت کے ایمان سر گرمی واستقلال کا بیان صرف یہ قیاس کرنے سے ہو سکتا ہے کہ ایک نہایت اعلیٰ شخص مسیحی دین کا بانی تھا ۔ ہاں ایک ایسا شخص جو آدمی سے زیادہ بڑا ہے۔

جب کہ ہم اُس کی ذات و صفات سے گزر کے اُس کی تعلیم پر متوجہ ہوتے ہیں تو ہم ویسی ہی بے مثالی اور نو طرزی  (نيا طريقہ)اس میں بھی پاتے ہیں۔ ہم اس بات کو اُس کے طریقہِ تعلیم ہی میں دیکھتے ہیں۔ وہ اپنی تعلیم میں اکثر تمثیلی صورت (مثالوں سے بات کرنا) کو اختیار کرتا تھا ۔ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ یسوع اوّل اور اکیلا معلم تھا جس نے تمثیلوں کا استعمال کیا کیونکہ بعض اس قسم کی تمثیلی باتیں عہد عتیق اور تالمود(يہودی روايات)  میں بھی پائی جاتی ہیں لیکن صرف وہ ہی ایک اعلیٰ اُستاد ہوا ہے کہ جس نے اس طریقہ کا بڑا استعمال کیا ہے۔ علاوہ ازیں اُ س کے طریقہ پر قدرے عمیق (گہرا)   نظر کرو کہ وہ اپنی صداقتوں کو گزشتہ مقدمات پر عقل دوڑانے سے جیسا کہ آدمی کا دستور ہےنہیں سکھلاتا ہے۔ وہ ماجروں اور شہادتوں کو محنتی مطالعہ فکر سے فراہم کر  نےکے بعد اُس کے بوسیلہ منطق کے معمولی طریقہ کے اُن سے اپنے نتائج نہیں نکالتا ہے۔ وہ صداقت کو بلاواسطہ اور بلا غور و تامل دیکھتا اور جانتا ہے۔  وہ اُس کو سوچنے سے دریافت نہیں کر تا پر اُس کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ بااقتدار ِالہام ( الہام کے اختیار) سے تعلیم دیتا ہے ’’ میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں جو کچھ ہم جانتے ہیں کہتے ہیں اور جو ہم نے دیکھا اُس پر گواہی دیتے ہیں‘‘ ۔ وہ اُس شخص کی طرح جو ہر فرد و بشر کی کیفیت کو ٹھیک جانتا ہے دل اور ضمیر سے بولتا ہے ۔ وہ اکثر سامعین کے ناگفتہ خیال ، شک اور اُ ن کی دلی باتوں کا جواب دیتا ہے اور اس سبب سے اس کے کلمات کبھی کبھی یک بیک ہو جاتے ہیں اور مشکل معلوم ہوتے ہیں وہ فقیہوں کی مانند نہیں لیکن اختیار والے کے طور پر تعلیم دیتا تھا ‘‘۔

اُس نے اُ ن میں ایک نئی زندگی ڈالی بلکہ وہ خود اُن کی زندگی تھا

دوسری اعلیٰ خاصیت مسیح کی تعلیم کی یہ تھی کہ اُس نے آدمیوں کی عین روح ہی پر اثر کرنے کی کوشش کی اُس کا اعلیٰ اور اوّل مقصد انسان کی باطنی ذات تک پہنچنا اور وہاں نئی زندگی اور صداقت کو جمانا تھا۔ حقیقتاً یہ طریقہ بالکل نیا اور مخصوص اُسی کا نہ تھا کیونکہ انبیائے سلف  ( سابقہ نبيوں )نے بھی بکثرت اس طریقہ کا استعمال کیا تھا۔ لیکن ملکِ  فلسطين کے اندر اُس زمانہ میں کہ جس میں مذہب ایک نمائشی ریت و رسم پر منحصر تھا وہ طریقہ اگر بالکل نہیں تو عنقریب عدیم النظیر(بے مثال)  تھا۔ صرف وہ ہی الہٰی استعد اد (خدا کی قدرت)قوت و ہمت رکھتا تھا۔ کہ محض رسمیات کے طریق کو توڑے ۔ اور اُس نے لوگوں کو یہ تعلیم دی کہ مذہب صرف ایک ظاہر ی رسم و دستور نہیں لیکن دل اور روح کی ایک نہایت اندرونی اور حقیقی بات ہے۔ وہ شخص کہ جس کا مذہب صرف ریت و رسوم کا معاملہ ہے سفیدی پھری ہوئی قبر کی مانند ہے جو باہر سے خوشنما لیکن اندر مردہ کی ہڈیوں اور ناپاکی سے بھر ی ہے ۔  اند ر ایک نیا دل ہونا ضرور ی ہے اگر آدمی خدا کی بادشاہت میں داخل ہونا چاہے اُسے ضرو ر ہے کہ نہ صرف پانی سے بلکہ روح سے پیدا ہو۔

جب ہم اُس کی تعلیم کے مضامین پر پہنچتے ہیں تو اس میں بھی اُ س کی الہٰی استعداد کو صفائی سے دیکھتے ہیں ۔ اس بات کو بخوبی ظاہر کرنے کے لئے مسیحی مذہب کی تمام مشہور خاص تعلیموں کا بیان کرنا ضرور ہو تا لیکن اگر ہم چند خاص باتوں کا ذکر کریں تو اس حقیقت کو دل پر نقش کرنے کے لئے کافی ہو گا۔ اُس نے خدا کی بابت نئی طرز کی تعلیم دی اُ س نے اُس کو نہ صرف بادشاہ کے بلکہ باپ کے مثل ظاہر کیا اس سے مراد عام معنی میں باپ سے نہیں ہے کہ جو ہماری ہستی کی اصل ہو جیسا کہ یونانی اور رومی مانتے تھے۔ جب کہ وہ زیو س کو باپ کہتے تھے۔ ہم باپ سے مراد اعلیٰ تر معنی میں رکھتے ہیں جو  کہ بے حد اور کامل باپ کو ہونا چاہئے ۔ وہ اُس کو نہ صرف راستی اور عدالت کا خدا بلکہ رحم اور محبت کا خدا ظاہر کرتا ہے۔ وہ روح سے نئی پیدایش کی اور اپنے لہو کے سبب مفت راستباز ٹھہرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ وہ یہ سکھاتا ہے کہ اسی پر ایمان لانے سے روح کی نجات ہے۔ یعنی وہ سچا ایمان جو اُس کے ساتھ روح کو یکساں کرتا اور اپنے اند ر تمام مسیحی خوبیوں اور افضال کی قوت اور وعدہ کو رکھتا ہے ۔ جب کوئی آدمی اُس کے ساتھ اس رشتہ میں داخل ہوتا ہے تو اُسی دم مفت اور کامل نجات جو خدا کی بخشش ہے  پاتا ہے۔ وہ محبت کو مسیحی زندگی کا خا ص موجب اور اُس کی اعلیٰ و محرک قوت اور اپنے کو اُس زندگی کا مجسم قانون اور نمونہ ظاہر کرتا ہے۔ یہ سب بالکل تازہ اور نو طرز ہے۔ جیسے وہ ہوا جو ابدی پہاڑوں سے چلتی تازہ ہے لوگوں کا اُس کی تعلیم سے دنگ ہونا بجا تھا ۔

ایک اور بے نظیر اور لاثانی بات یسوع کی تعلیم میں وہ مقام ہے جو وہ اپنی موت کو دیتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ وہ اپنی موت کی اس تعلیم کو کہ وہ ایک قربانی اور کفارہ ہے اس قدر کھلا کھلی ظاہر نہیں کرتا جیسا کہ اُس کےرسول کرتے ہیں۔ حقیقت میں ایسا ہونا چاہیے تھا کیونکہ اُس کی موت اب تک وقوع میں نہ آئی  تھی۔ اور اس لئے اُس کے معنی و مطلب کو کماحقہ  ظاہر کرنے کا وقت نہ آیا تھا ۔ تاہم وہ اپنی موت کو ایک از حد ضروری اور نہایت خاص مقام اور زور دیتا ہے۔ اُ س کے مجسم ہونے کا وہ ایک مقصد عظیم تھا۔ وہ ’’ اپنی جان بہتوں کے فدیہ میں دینے کے لئے آیا ‘‘ ۔ یہ ایک الہٰی ضرورت تھی ’’ ضرور ہے کہ ابن آدم صلیب پر اُٹھایا جائے ‘‘ ۔ اُس کا خون ایک سچا کفارہ تھا۔ وہ ’’ بہتوں کے گناہوں کی معافی کےلئے بہایا گیا ‘‘۔ جس سے اُس نے خدا باپ کے ساتھ عہد نجات پر مہر کی۔ ’’ یہ پیالہ وہ نیا عہد ہے جو میرے لہو سے ہے ‘‘۔ اُ س کا جسم اور لہو جو قربانی میں گزرانے گئے بو  جہ اُ ن بڑی صداقتوں اور قوتوں کے جو اُن میں شامل ہیں جہاں کی زندگی ہیں۔ ’’ اگر تم ابن آدم کا گوشت نہ کھاؤ اور اُس کا لہو نہ پیو تو تم میں زندگی نہیں‘‘۔ ہاں اُس کی موت وہ تخم ریزی(بيج ڈالنا) ہے کہ جوایک جلالی کلیسیاء کی روحانی فصل میں اُگنے والی تھی۔ یہ وہ گیہوں کا دانہ ہے جو زمین میں گرتا اور مر کر بہت سا پھل لاتا ہے۔ پھر اس سب کی نمامی اور تاج عشاء کی رسم کیسی بینظیر اور کیسی پُر مطلب ہے ۔ایک رسم جو بلا اختلاف یسوع کے زمانہ تک پہنچتی ہے۔ جس کا مقصد تمام زمانوں میں اُس کی موت کی اعلی قدر و ضرورت کو یاد و ظاہر کرنا تھا۔

ہاں ایک ایسا شخص جو آدمی سے زیادہ بڑا ہے۔

پھر ہم مسیح کی بینظیر(بے مثال)  استعداد کو دیکھتے ہیں جب کہ اُس خاص بادشاہت پر غور کرتے ہیں جس کے قائم کرنے کا اُس نے ارادہ کیا اور جس کو اُس نے واقعی قائم کیا۔ یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ میری رسالت ایک روحانی جماعت یا بادشاہت قائم کرنے کے لئے ہے۔ اُس نے اپنی خدمت شروع کی اور اُس کا نام خدا کی بادشاہت یا آسمان کی بادشاہت رکھا۔ یہ ہی اُس کا پہلا اور پچھلا پیغام تھا کیونکہ وہ اپنی آ خيرر وبکاری(آخری عدالتی پيشی)  کے وقت میں بھی اُ س ہی مضمون کا اشارہ کرتا ہے۔ اس بیان سے اس کی مراد ایک ایسی بادشاہت تھی کہ جس کا بادشاہ خدا ہو اور جس کی بنیاد سچائی پر قائم  ہو اور جس کے قوانین اخلاقی و روحانی ہوں۔ اور جو روحانی و اخلاقی مقاصد کے لئے ہو ۔ یہ بادشاہت اس دُنیا کی نہ تھی۔ لیکن ایک ایسی بادشاہت تھی کہ جس میں آدمی اخلاقی و روحانی باتوں میں باہمی مد د کے لئے متفق ہوں اور سچائی اور راستبازی کی سلطنت کودُنیا میں پھیلائیں۔ وہ ایک بادشاہت تھی جو تمام زمینی سلطنتوں میں آسمانی خمیر کی مانند پھیلے اور تاثیر کرے۔ جیسا کہ زندگی بد ن میں سرایت کرتی یا موسم گرما کی گرمی اور خوشبو ہوا کے درمیان پھیلی ہوئی ہے۔ وہ ایک بادشاہت تھی کہ دُنیا اور زمانہ جس کے صرف بیرونی اضلاع اور آسمان اور ابدیت اُس کے اصلی ملک اور دارالسطنت ۔ اب یہ ایک بالکل نیا اور بینظیر خیال تھا۔ یہ قدیم یہود یانہ الہٰی حکومت کی صرف ایک نقل نہ تھی۔

بالا نتہا وہ اُس سے ایسا علاقہ رکھتی تھی جیسا کہ ایک جلالی مقد س شخص کی روح کا علاقہ اُس کے خاکی بدن سے ہوتا ہے۔ اُس زمانہ کے یہودیوں کی اُس دنیوی رائے اورقیاس سے جو وہ مسیحائی بادشاہت کی نسبت رکھتے تھے۔ اور بجائے نئے یروشلیم کے رومیوں کی جیسی سلطنت کے منتظر تھے وہ بالکل مختلف تھی وہ ایک ایسا خیال تھا جو یونانیوں یا رومیوں کے دل میں اُن کے خیال کی بلند پروازیوں میں بھی کبھی نہ گزرا تھا  کچھ شک نہيں ہو سکتا ہے کہ خدا کی بادشاہت جس کا مسیح نے بیان کیا دُنیا میں ایک نیا اور بینظیر خیال تھا اور وہ اُس مقد س شہر کی مانند جو یوحنا نے رویا میں دیکھا تھا خدا کے پاس سے اُترا (باقی پھر)۔ 

ہم مسیح کی استعداد اُ س کے مقصد کی عمومیت میں بھی دیکھتے ہیں۔ بلا اعتراض و حجت  (بحث ) ا ُ س کا مقصد تمام بنی آدم کو یکساں شرائط پر اپنی بڑی روحانی سلطنت میں ممبر اور برادر کی طرح شریک کرنے کا تھا۔ کچھ مضائقہ نہیں خواہ وہ کسی قوم یا درجہ کے ہوں۔ خواہ وہ گورے ہوں یا کالے تربیت یافتہ یا ناتربیت ۔ مال دار یا گنگال ۔ فریسی یا صددقی خراج گیر(ٹيکس لينے والے)  یا گنہگار ۔ غلام یا آزاد ۔ اُس کی بادشاہت کی ہم شہریت اور دُنیا و عقبیٰ (دنيا اور آخرت)کے حقو ق میں یکساں سبھوں کے لئے خیر مقد م ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اُس نے اپنے شاگردوں کو دُنیا کی اس روحانی فتح یابی کے لئے یروشلیم سے شروع کرنے کا حکم دیا۔ لیکن اُ س صلیب کے جھنڈے کو سامریہ اور زمین کی حدوں تک پہنچانا تھا۔ یہ دُنیا کھیت تھی اور اُ ن کو تمام دُنیا میں جانا اور ہر ایک مخلوق کو انجیل کی منادی کرنا تھا۔ اور یہ بلند مقصد بالکل نیا تھا۔ اُن ہمعصر یہودیوں کے خیال سے جو غیر قوموں کو کتّوں کی مانند یا ناپاک جانوروں کے موافق سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ اُن کے ساتھ کھانا بھی نہیں کھاتے تھے یہ بات بہت دور تھی ۔ یہ بات یونانیوں کی طبیعت سے جو اور سب قوموں کو وحشی جانتے تھے بالکل مخالف تھی۔ وہ رومیوں کے خیال کی حد سے بھی پرے تھی ۔ کیونکہ رومی شہر ی بمقابلہ مفتوح قوموں کے جو شاہی مجلس اور رومی قوم کی تابعداری کرتی تھیں اپنے تئیں ایک بہت بہتر سمجھتا تھا۔ لیکن یہاں ہم گلیل کے پہاڑوں سے ایک دیہاتی کو پاتے ہیں۔ جس کی وطنی وادیوں میں دُنیا وی عظیم سمندر کا مدوجز ر کبھی نہ بہا تھا اور جس نے اُس  کی مضطرب گرج کے شور کو دور سے بھی بمشکل سناتھا جو ایک دم اس پختہ عالمگیر مقصد کوپیش کرتا ہے یقیناً یہ ایک بلند خیال نیا اور عجیب ہے۔

مسیح کی تجویز میں دوسری عجیب تر صورت یہ ہے کہ وہ اپنے کو اس روحانی ہیکل کے کونے کا پتھر اور اس نئی گروہ کا اصلی مرکز اور دل قرار دیتا ہے ۔ اُس کی شراکت میں داخل ہونے کے لئے لوگوں کو کسی خلاصہ عقائد یا مجموعہ قوانین کی پابندی ضرور  ی نہ تھی۔ لیکن مسیح ہی پر بھروسا رکھنا اور اُ س کے لئے وفا دار رہنا تھا ۔ وہ آدمی کی کمزوری اور احتیاج کو جانتا تھا اور معلوم کیا کہ حقیقی برادر انہ ہمدردی کی مانند اور کوئی چیز اُس کے دل میں تہ نشین اور جاگزین     نہیں ہوتی ہے۔ درحالیکہ لوگ ایک روکھے مجموعہ قوانین کے لئے خواہ وہ کیسا ہی عمدہ ہو کچھ شوق نہیں رکھتے بلکہ شايد اُس سے ہٹتے ہیں۔ تو بھی انسانی ہمدردی کی پرُ جذب رسی اور گہری غم گُسار محبتی خود نثاری سے وہ بُردر کھینچے جاتے ہیں۔ یسوع نے اپنی الہٰی دانائی سے فوراً اُس تمام یونانی اور رومی فلاسفی کی مہلک کمزوری پر فوقیت( برتری)  حاصل کی ۔ اُس کمزوری پر جو خدا کے قانون اور مرضی کے ایک محبتی خالص ہمدرد زندگی میں مجسم نہ ہونے سے اور ایک غم گسار وخود نثار بہادرانہ شہادت کی موت میں ختم نہ ہونے سے تھی ۔ اُس نے اپنے میں ایک قوی مرکز روحانی قوت اور کشش کا مہیا کر کے اس عجیب دعویٰ کے ساتھ اپنے کو اپنے کو پیش کیا  کہ لوگ اُس کو اکیلا نجات دہندہ جان کر اس پر بھروسا رکھیں۔ یکتا بنیاد جان کر اُسی پر اپنے تئیں تعمیر کریں۔ اور نئی روحانی جماعت یا گروہ کا سر اور مرکزجان  کر اُسی سے ملے رہیں۔ المختصر اُس کے ساتھ وفا دار رہنا اُس کی بادشاہت میں شراکت کی شرط تھی  اور اس بات میں وہ تمام قدیم فیلسوفوں سے کلیتاً   ( پورے طور پر) فرق رکھتا تھا۔

اُس کا خون ایک سچا کفارہ تھا

 جب ہم اُن خاص وسیلوں پر جو اُس نے آدمیوں کو اپنی بادشاہت میں لانے کے لئے اختیار کئے غور کرتے ہیں۔ تو ہم مسیح کی تجویز کی عجیب نوطرزی بہت ہی صفائی سے دیکھتے ہیں۔ اس کے جنگ کے ہتھیار جسمانی نہ تھے۔ اُس نے لوگوں کو مجبور کرنے کے لئے صرف طبعی طاقت کا استعمال نہیں کیا۔ نہ وہ انسانی سازش یا تدبیروں کو کام میں لایا۔ اُس نے لوگوں کو دولت اور حکومت و نامورّی کی اُمید کا لالچ نہیں دیا۔ نہ اُس نے نفسانی لذّتوں کی ترغیب سے انہیں پھُسلایا ۔ اُ س نے آدمیوں کی قوت مُدرکہ(عقل اورذہن کی قوت)کو ۔ مغلوب کرنے والی دلیل و حجت سے شکست دینے کے طریقہ کو بھی اختیار نہیں کیا ۔ لیکن اُ س نے ایک نہایت عجیب اور نئے طریقہ کو جو شایانِ خدا تھا اختیار کیا۔ جو آدمیوں کی مخالفت کو مغلو ب کرنے اور اُ ن کے دلوں کو محبت سے پگھلا نے کا طریقہ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر کوئی قوت اس کام کو انجام دے سکتی اور آدمیوں کو واقعی رضا مند کر سکتی تو وہ خود نثار محبت کی قوت ہے۔ آدمیوں کے لئے وہ اس محبت کو اپنی تمام زندگی میں اور خاص کر اُ ن کے لئےصلیب پر دُکھ اُٹھانے میں دکھلاتا ہے۔ اُ س نے اس محبت کو ظاہر کیا ۔ جب کہ وہ اپنی خطاؤں اور گناہوں میں مردہ تھے  اور نادانی و بے فکر ی سے اپنے پاؤں تلے اس کو روندتےتھے۔ وہ اس محبت کو انتہا تک دکھاتا رہا ۔ یہ محبت وہ زور آور قوت تھی جس سے اُس نے سخت اور پتھریلے دل کو توڑنا چاہا اور حقیقت میں اُس کو توڑ کر پگھلاتا ہے۔ انسانی دل جو دلیّلوں اور دھمکیوں اور جسمانی دُکھوں کا سامنا کرتا  بلکہ ایسی باتوں سے زیادہ سخت ہو جاتا ۔ محبت کا مطيع  (تا بع)  بن جاتا ہے۔ وہ آدمیوں کے دلوں کو اپنی محبت کی طاقت و زور سے ۔ خصوصاً اُس محبت کے زور سےجو صلیب پر ظاہر و عیاں کی گئی۔ مغلوب کرکے ۔ اُ س  کوابدی رسیوں سے باندھتا اور اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اُس کی ہی بادشاہت دُنیا میں ایک بڑی بادشاہت یا جماعت ہے۔ جس کا بڑا بھید، خالص اور خود نثار محبت کی طاقت ہے اور یقیناً ہم اس میں کچھ نئی اور عجوبہ الہٰی بات  پاتے ہیں۔

پھر یہ امر بھی قابل لحاظ ہے کہ جب یسوع اپنے گلیلی کو ہستانی گھر سے نکلا اور بیابانی آزمائش ہو چکی۔ اس وقت سے اُس کی تجویز تیار و مکمل تھی۔ یہ نہایت ناد ربات ہے کہ کسی شخص نے جو دُنیا میں بڑے کاموں کے لئے مشہور ہوا۔ شروع سےاپنے سب کاموں کی کامل تجویز کی ہوا ور بلا تبدیل اُ س کو انجام دیا ہو۔ یہ اور بھی زیادہ نادر ہے جب کہ تجویز کچھ نئی اور بینظیر ہو اور سب سے نادر اور عجیب تر  جبکہ ہر طرف سےمخالفت ہو۔ لیکن یسوع کا یہ ہی حال تھا۔ وہ صریحاً(کھلم کھلا)    اپنی کامل اور ٹھہرائی ہوئی تجویز کے ساتھ بیابان سے آیا ۔ ٹھیک اسی تجویز پر اپنی زندگی بھر مستقل رہا  اور اپنی موت میں بھی اُسی پر قائم رہا۔ اُس کی زندگی دُنیا کے درمیان ایک سیدھا سلسلہ تھا جو صلیب تک  اور صلیب اور موت کی تاریکی سے گزر کر اُ س کی روحانی بادشاہت کے تقرر تک پہنچا ۔ یہ زندگی انسانی زندگیوں سے کیسی مختلف ہے جو ایک مستقل ارادہ کی سیدھی شاہراہ کی مانند نہیں اور نہ ایک مقرری اور جلالی انجام کو پہنچاتی ہیں۔ مگر متلاطم ِسمندر میں ایک خالی کشتی کی حرکت سے مشابہ ہے۔ یہ سیدھی شاہراہ جو ایک مقررہ اور جلالی تمامی تک پہنچتی ہے اُن سے کیسی مختلف ہے(باقی پھر)۔

یہ بھی بخوبی سمجھنا چاہیے کہ یہ سب نئی اور بینظیر باتیں مسیح میں ایک مختلف قسم کے ذخیرہ کی طرح نہیں پائی جاتیں بلکہ وہ اس میں ایک حقیقی شخصیت اور زندگی میں متحد و متفق ہیں۔ فی الحقیقت یسوع کی عظیم خصوصيتوں میں سے یہ ایک حقیقت ہے کہ اس میں نہ صرف نہایت مختلف صفتیں موجود ہیں بلکہ ایک موافق اور ہم وزن کلیت میں شامل ہیں۔ اس میں نہایت طاقت ،نہایت حلم کے ساتھ اور نہایت مضبوطی نہایت ملائمیت کے ساتھ ملی ہوئی ہيں۔ اس کا ہاتھ ایسا قوی اور زبردست  ہے کہ وہ سب سے بڑے عالموں کو   سنبھالتا ہےاور تو بھی ایسا ملائم ہے کہ وہ شکستہ وخستہ دل کے زخموں کو باندھ سکتا ہے۔ اس میں نہایت اعلیٰ عدالت، نہایت اعلیٰ رحمت کے شیریں نور سے رونق پاتی نہایت خالص صداقت نہایت خالص محبت کے ساتھ دست بدست رہتی ہے۔ اس میں نہایت پیوستہ یگانگت خدا کے ساتھ اور نہایت ہمدردی پر گناہ غمگین (گناہ پر غم زدہ ) آدمی کے ساتھ متفق ہیں۔ اگرچہ وہ اپنی شاہراہ پر سیدھا اپنی اعلیٰ منزل مقصود کی طرف ۔ مخالفت اور تکلیف کے پیچ  و تاب (بے قراری) کے درمیان چلتا ہے۔ تاہم اُس کو راہ کے کنارے پھولوں پر نگاہ کرنے اور بچوں کو اپنی گود میں لے کے اُنہیں برکت دینے کے لئے فرصت ہے۔ وہ ایسے عجیب دعویٰ پیش کرتا ہے کہ کسی محض انسان کے لئے ایسا کرنا مسخر ا  پن (مذاق)اور کفر کی بات ہے۔ تو بھی اُ س کا مزاج نہایت غریب اور فروتن ہے۔ اس میں کچھ ایسی بات ہے جو ریاکار اور سخت دل گنہگار کو خوف زدہ کرتی ۔ لیکن تائبوں ( توبہ  کرنے والوں) اور شکستہ دلوں کو اُ س کی طرف کھینچتی ہے۔ اس میں رحمت اور سچائی ملی ہوئی ہیں۔ صداقت اور سلامتی نے ایک دوسری سے بوسہ لیا ہے۔ جیسے دھنک کے مختلف رنگ مل کر  صا ف  اور  بےرنگ روشنی میں شامل ہوتے ہیں ویسے ہی مسیح کی شخصیت میں مختلف خوبیاں اور صفتیں متفق ہو کے ہم کو کامل پاکیزگی کی خالص روشنی بخشتی ہیں ۔ اُس کی شخصیت نہ صرف حقیقی اور عمدہ ہے۔ لیکن نہایت ہم وزن اور موافقت کی شخصیت ہے ۔

بر طبق (مطابق)اُ س کے جو ا بھی  اُوپر بیان ہوا ہے۔ یہ صاف ظاہر ہے کہ ہم بالا مکان مسیح کی شخصیت کو محض طبعی قوتوں اور معمولی تواریخی ماجروں کا ثمرہ خیال نہیں کر سکتے ہیں۔ محض طبعی و جوہات سے اُ س کی ذات کا بیان خاطر خواہ طور سے کرنے میں ہر ایک کوشش آج تک ناکام رہی ہے۔ کوئی کیمسٹری ( کیمیاء گری ) اُس کو محض خاکی عناصر میں تفریق کرنے میں تاہنوز( ابھی تک)   کامیاب نہیں ہوئی۔ جو کچھ انسان کی نسبت سچ ہی ابن آدم کی نسبت بہت ہی زیادہ سچ ہے۔ علم اجسام کے جاننے والے انسانی بدن کو اُ س کے مفرد حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں کہ اس میں اس قدر آکسيجن  اس قدر ہائيڈروجن اس قدر نا ئيٹرروجن اس قدر کا ربن ،اس قدر لائیم اس قدر فاسفورس وغیرہ ہے۔ وہ یہ آمیزش جو وزن و ہ پیمان کی نسبت ٹھیک ہو ہمارے سامنے پیش کر سکتے اور جو نہیں ہم اس مجموعہ پر نظر کرتے ۔ وہ فتح مند انہ کہہ سکتے ہیں’’ لویہ آدمی ہے یہ کلیّت ہے اور اُ س کی بابت اب کوئی بھید کی بات نہیں ہے‘‘۔ لیکن ہم ہزار دفعہ کہتے کہ نہیں۔ اس میں زندگی نہیں روح نہیں ہے۔ یہ آدمی نہیں ہے ۔ یہ خاک کا ڈھیر انسان کا جسم بھی نہیں ہےاور درحالیکہ کوئی محض دنیوی کیمسٹری انسان کا بیان نہیں کر سکتی تو وہ مسیح کا بیان بہت ہی کم کر سکتی ہے جو نہ صرف انسان بلکہ عمانویل ہے ۔ بے ایمان نکتہ چین یہ ظاہر کرتے ہوئے اُس کا بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہ یسوع میں اس قدر یہود یانہ خدا پرستی اور اخلاق میں سے اس قدر یونانی شائستگی اور روشنی سے۔ اس قدر  عالمگیر رومی سلطنت کی تربیت سے مجتع (جمع کيا ہوا)  ہے۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ جب اُنہوں نے اس قدر ذکر کیا تو بس وہ مسیح کا بیان کر چکے اور اُ س کو عجیب کے خطاب سے بالکل محروم کر دیا لیکن اس سب کےبعد وہ اعلیٰ اور الہٰی شخصیت ہمارے آگے ویسی ہی عجوبہ اور بے بیان کھڑی ہے اور انسانی فہم و حکومت کی بلیغ  (انتہائی)  کوششوں کو جو اُ س کو محض طبعی اجزا ء میں تفریق کرنے یا محض طبعی وجوہات سے اُس کا بیان کرنے ميں کی جاتی ہیں حیران کرتی ہے۔

مگر شايد یہ عجیب شخصیت ایک مطلق جعل اور بناوٹ ہو؟ لیکن یہ خیال بھی جیسا کہ ابھی ہم نے دیکھا ہے ناجا ئز ہے۔یہ کوئی بناوٹی قصہ نہیں بلکہ تواریخ ہے اگر یہ جھوٹا قصہ ہوتا توضرور یہ ایک بڑی طبیعت کا ایجاد ہوتا۔ لیکن بجائے اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بہت مختلف خاصیتوں کے مختلف مصنفوں سے پیش کیا گیا ہے۔ جو سب کے سب متفرق بیانات لکھتے ۔ تاہم وہ ایک ہی کلیت میں متفق ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں یسوع کے غریب پیرو ایسے مصنوعی قصہ کو ایجاد کرنے اور اس کو بظاہر انجام دینے کے لئے بالکل ناقابل تھے۔ ایسا کرنے کے لئے سکاٹ یا شیکسپئر کے فہم و حکمت سے اعلیٰ تر فہم و حکمت درکار ہوتی۔  لیکن اُ ن میں کوئی سکاٹ یا شیکسپئر نہ تھا۔ روزیو کہتا ہے کہ ’’ بہ نسبت اس کے کہ انجیلی مسیح کی مانند ایک شخص ہوا ہو۔ یہ زیادہ تر ناقابل قیاس ہے۔ کہ انجیل کو گھڑنے میں کئی ایک آدمی متفق ہوئے ہوں۔ اس  ميں سچائی کے ا یسے بڑے ، ایسےعجیب ، ایسے بالکل بے مثل نشان ہیں۔ کہ اُس کا موجد(ايجاد کرنے والا)  اُ س کے مذکورہ مسیح سے عجیب تر شخص ہو گا‘‘۔ پار کر کہتا ہے کہ ’’ جعلی نیوٹن بنانے کے لئے ایک نیوٹن درکار ہے۔ کون آدمی ایک یسوع کی بناوٹ کر سکتا تھا؟ کوئی نہیں ۔ لیکن ایک یسوع ‘‘۔ جے ۔ ایس مل کہتا ہے کہ ’’ اُن باتوں کو جو یسوع سے منسوب ہیں۔ کون اُ س کے شاگردوں میں سے یا اُن کے اولین نو مرید و ں میں سے ایجا د کرنے یا اس زندگی اور چال چلن کو جو اناجیل میں ظاہر کیا گیا خیال کرنے کے قابل تھا؟ البتہ گلیل کے مچھوے نہیں  نہ مقد س پولس ۔ پھر اولین مسیحی مصنفوں کا تو کیا ذکر ہے‘‘۔ ضرور ہے کہ جعل اور بناو ٹ کے خیال کو ہم مطلق بے ثبات ( نا پائیدار) جان کے ترک کریں‘‘ ۔

لیکن اگر یہ ایک مصنوعی قصہ نہیں ہے تو مسیح کی کامل اخلاقی خاصیت اس نتیجہ کو قبول کرنے پر ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس کے دعوے پختہ بنیاد پر قائم تھے۔ وہ ضرور بالکل وہی ہو گا۔ جیسا ہونےکا اُس نے دعویٰ کیا  کوئی اورقیاس اخلاقاً غیر ممکن ہے۔ جیسا ہونے کااُس نے دعویٰ کیا وہ ضرور و يسا ہو گا۔ یا وہ ایسا پکا فریبی ہو گا کہ دُنیا نے کبھی نہیں دیکھا ہاں ایک ایسا فریبی کہ جس کا اعلیٰ مقصد دُنیا سے تمام فریب وریا کاری کو دور کرنا تھا۔ جب کہ اُ س نے جو حق ہے۔ جو ہمیشہ سچائی کی تاکید کرتا ہے اور جو فروتنی کی واقعی اصل ہے آسمان سے اُترنے ، خدا کا بیٹا ہونے،الہٰی مقرر کیا ہو ا مسیحا۔ جس کے قبضہ میں آسمان و زمین کا سار ا اختیار ہے ہونے کا دعویٰ کیا  یقیناً یا تو یہ دعویٰ سچا ہو گا۔ ورنہ ضرور وہ ایک بڑی دیوانگی یا دھوکا ہو گا۔ دیوانگی کا قیاس تو مطلق غیر ممکن ہے اور فریب کا بھی کم غیر ممکن نہیں۔ کیا یہ قابل قیاس ہے کہ وہ شخص جس کا اخلاقی چلن ایسا اعلیٰ تر ہے کہ ایسا دُنیا نےکبھی نہیں دیکھا ۔ جیسا مسیحیت کے مخالفوں نے بھی تسلیم کیا ہے۔ ایک ایسے پکےفریب کی زندگی برابر جیا ہو ؟ کیا یہ ممکن الفہم (سمجھ آسکتا ہے)ہے کہ ایک فریبی نے ایسے ایک اعلیٰ اخلاق کے قاعدہ کو جیسا کہ ہم مسیح کی تعلیم میں پاتے ہیں تجویز کیا اور مقر ر و مشتہر( مشہور) کیا ہو؟  کیا یہ ہو سکتا ہے کہ اُس نے ہر طرح کے سخت فریب اور ریاکاری کا استعمال کیا ہو۔ تا کہ روئے زمین سے ہر طرح کے فریب و ریاکاری اور گناہ کو ہمیشہ کے لئے دُور کرے؟ اگر ایسا ہو تو شعاب کا لطیفہ ضرور صادق (سچا) ٹھہرے گا۔ اور یسوع تمام مسیحی زمانوں میں بعلز بول کی مدد سے دیوؤں کو نکالنے والا ہوا ہو گا۔ لیکن یہ ہو نہیں سکتا ۔ فطرتاً کوئی چیز اپنی اصلی خاصیت کے بالکل برخلاف عمل نہیں کر سکتی ہے۔ گرمی پانی کو نہیں جما سکتی نہ کشش ِزمین پتھر کو اُٹھا سکتی  اور نہ کامل صداقت کا آدمی ہمیشہ فریب اور ریاکاری کی زندگی ۔

یہ بادشاہت اس دُنیا کی نہ تھی

ہم مکرر(دوبارہ)  اس حقیقت پر زور دینا چاہتے ہیں کہ مسیح کی بینظیر شخصیت اور چال چلن کا بیان کرنے کو محض انسانیت کے سوا کچھ زیادہ مطلوب ہے۔ وہ صراحتاً (کھلم کھلا)  اُ س کی حقیقی الوہیت کوپاک نوشتوں کی تعلیم کے مطابق ظاہر کرتے ہیں کیونکہ اس میں شک نہیں ہو سکتا کہ اناجیل اور نامجات۔  اُ س کو یکساں انسان سے زیادہ  بلکہ فی الحقیقت خدا بتلاتے ہیں۔ اس میں بھی بمشکل ہو سکتا ہے کہ وہ خود اپنے الہٰی ہونے۔ اعلیٰ تر معنی میں خدا کا بیٹا ہونے کا  بہ اطمینان دعویٰ کرتا ہے۔ ایسا کہ اگر وہ فی الحقیقت الہٰی نہیں ہے تو وہ یا تو ضرور فریبی یا سرگرم فریب خوردہ ہو گا ۔ تمام عہد جد ید کے مطابق کو ئی اور رائے بخبر اُس کی حقیقی الوہیت کے درست نہ ٹھہر ے گی ۔ اس قیاس پر کہ وہ صرف ایک انسان محض ہے۔ وہ ممکن الفہم نہ ہوگا۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے یونیٹرین  اور بے ایمان لوگ بھی بعض اوقات کشادہ دل میں ہیں۔ امریکہ کا ایک مشہور یونیٹرین کہتا ہے کہ ’’ عام مسیحی جیسا کہ انہوں نے پاک نوشتوں کی تفسیر کی ہے اور کرتے  ہیں سچے ہیں ‘‘۔ اورجیسا کہ ہم نے ابھی کہا ہے مسیح کی شخصیت ۔ چلن ۔ زندگی اور اثر اُس کی حقیقی الوہیت کے ساتھ۔ متفق ہوتے اور اُ ن کے بیان کے لئے اُس کی الوہیت کاقیاس مطلوب ہے۔ فکر اور ہمدردی کے ساتھ اُن پر غور کرنے میں ۔ ہم بالطبع معلوم کرتے ہیں کہ وہ ٹھیک ایک ایسا چلن ، زندگی اور اثر ہيں جن کو ہم ضرور خیال کر سکتے کہ وہ خدائے ِمجسم سے متعلق ہیں۔ جب ہم یسوع کو یہ  کہتا ہو ا سنتےہیں کہ  ’’میں اور باپ ایک ہیں ‘‘ ،’’ جس نے مجھ کو دیکھا ہے با پ کو دیکھا ہے‘‘ اور ایسی ہی اورباتیں  تو ہم معلوم کرتےہیں کہ اُ س کی زندگی اور اُس کے دعوؤں میں کمال موافقت اور مطابقت ہے۔ متفرق ثبوت کرنے والی آیتوں کے سلسلہ کے علاوہ اُس کی زندگی ، چلن اور اثر یکساں ہم کو اس کی الوہیت کی تعلیم تک پہنچاتے ہیں۔ ہم معلوم کرتے ہيں کہ روزیو نے برحق کہا کہ ’’اگر سقراط کی زندگی اور موت ایک دانا آدمی کی ہے تو مسیح کی زندگی اور موت ایک خدا کی ہے اور اگر مسیح الہٰی شخص ہے تو مسیحیت بھی الہٰی ہے کیونکہ اس کی اصل اور قلب مسیح ہے۔

پس مسیح کے حق میں ہمارا ایسا فیصلہ ہے کہ ہم اُ س میں ایک فوق الخلقت (مخلوقات سے بلند)شخصیت پاتے ہیں۔ خود کامل پاکیزگی کی۔ واقعی حقیقت ہی میں ۔ ہم اس کو ثابت دیکھتے ہیں کیونکہ کامل پاکیزگی ایک شے ہے۔ جو طبقہ خلقت میں  نہیں پائی جاتی ہے۔ وہ کچھ شے ہے۔ جو صاف عالم بالا سے آتی ہے اور وہ اعلیٰ معنی میں فوق الخلقت ہے ۔ وہ بہ نسبت فوق الانسان دانائی یا طاقت کے ۔ یعنی  طبعی  معجزات کرنے کی طاقت بھی ایک بلند ترفوق الخلقت ہے۔ وہ اس ميں اُس قدر اعلیٰ تر ہے۔ جس قدر صرف عقلی اور طبعی چیزوں سے اخلاقی اعلیٰ تر ہیں ۔ لیکن یہ کامل پاکیزگی ہم یسوع ہی میں پاتے ہیں  اور فقط یہ ہی  نہيں بلکہ ہم اُ س میں ایسی استعداد ، ایسی معموری  اور تجویز کی اوّل سے آخر تک ایسی تمامی استقلال ، انسان اور استقبال کا ایسا ادراک پاتے ہیں ۔ جس انسانی حکمت و دانائی سے بڑھ کر۔ حکمت و دانائی پر اشارہ کرتے ہیں ۔ جیسے اُس کے معجزات انسانی طاقت سے بڑھ کر طاقت پر دلالت (ثبوت)کرتے ہیں۔ یا یوں کہیں کہ ہم اس میں سہ گنا فو ق الخلقت  یعنی فوق الخلقت طاقت  و حکمت  اور پاکیزگی پاتے ہیں۔ جو اُس کی فوق الخلقت اصل پر جس پر اُن کی بنیاد ہی اشارہ کرتی ہے۔ اس کے مطابق اس کی بینظیر شخصیت محض دنیوی کیمیاء گری یا تبدیلی حالت کا ثمرہ نہیں ہو سکتے۔ ایک چشمہ جو اتنا زیادہ اُونچا چڑھتا ہے۔ ضرور اُ س کی اصل زمین کی بلند ترین چوٹیوں سے پرے آسمانوں کے آسمان میں ہو گی۔ جیسا کیمیا ء گر ی تھوڑی سی تفریق سے نتیجہ نکال سکتا ہے۔کہ بعض پتھر شہابی چیز ہیں اور ایک بلندطبقہ سے زمین پر اُترے ہیں۔ویسے ہی یسوع کی شخصیت  کی تشريح ظاہر کرتی ہے کہ وہ آدم ثانی۔ خداوند آسمان سے ہے۔ جیسا کہ آفتاب اپنی ہستی،افضل رونق اور قوت کو روشنی گرمی  اور کشش کے وسیلہ ظاہر و ثابت کرتا ہے ۔ ویسا ہی مسیح اپنے کو بوسیلہ افضل تر آسمانی روشنی اور جلال ۔ اور اپنی ذات کی قوتِ جاذبہ  سےآفتاب ِصداقت ثابت کرتا ہے۔  اُ س کی خدا کے شایان عظمت ، سلطنت ، عالم الغیبی ، خود مختاری ، پاکیزگی ، عدالت، نیکی،  دانائی اور قدرت  نہ صرف کافی اور حقیقی نور اور شہادت ہے بلکہ اعلیٰ ترین نور اور شہادت ہے اس پر نظر کرنے میں ہم دیکھتے ہیں کہ  وہ نہ فقط ایک حقیقت  بلکہ فوق الخلقت حقیقت ہاں ایک الہٰی شخص ہے۔ بالآخر مسیح جیسا کہ اناجیل میں دکھایا گیا  خود اپنا اور اپنے فوق الخلقت  اور الہٰی مذہب کا بہتر ین ثبوت ہے۔

Leave a Comment