دینی غیرت

Eastern View of Jerusalem

Religious honor

By

Once Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan November 26,1887

نور افشاں مطبوعہ ۲۶ نومبر ۱۸۸۷ء

دینی غیر ت دینی محبت کا ظہور ہے ۔ اگر اس میں ریاکاری کی بُونہ ہو ۔ اور قابل پسند اور قابل پیر وی کے ہوتی ہے اگر ایسا شخص دھوکا کھانے والا اور دھوکا دینے والا  نہ ہو ۔ کیونکہ دنیا میں ایسے بہت پیشوا اور لوگ ہوئے اور ہیں جن کو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اندھی غیرت کے پھیر میں آئے ہوئے تھے ۔ اس کے بر خلاف و ہ دینی غیر ت بھی ہے خواہ کسی پیشوا میں ہو خواہ پیرؤں میں جو سچائی کے سبب دل میں پیدا ہو جاتی ہے اور سچائی اور صلاحیت کے برخلاف ہر ایک بات بُری معلوم ہوتی ہے ۔ اور ایسے لوگ زندگی کی ہر حالت میں اس دینی غیرت کو اپنے میں قائم رکھتے ہیں ۔آزمائش اور مخالفت اُن کو زیادہ تر سچائی کے لئے غیر ت مند کرتی جاتی ہے ۔

دین عیسوی وہ سچائی اور وہ راہ ہے جس میں کوئی مسافر دھوکا نہیں کھا سکتا ہے

اب چونکہ دین عیسوی وہ سچائی اور وہ راہ ہے جس میں کوئی مسافر دھوکا نہیں کھا سکتا ہے اور ساتھ ہی اور سب راہوں کو دھوکا بتلاتا ہے ۔اس لئے لازم ہے کہ اس کےپیرو ؤں میں سچی غیرت ہو اور لوگ اس تقلید(پیروی ) میں نہ  اپنےتئیں دھوکا دیں اور نہ اوروں کو اپنے تئیں مسیحی آدمی اس طرح دھوکا دے سکتا ہے کہ دل میں دین کی جڑ نہیں اور چند ظاہری باتوں کے سبب اپنے تئیں عیسائی سمجھتا ہے۔ مگر جب ذرا سی آزمائش یا تکلیف اور کسی اور طرح کی دنیاوی کشش زور کرتی ہے ۔ تو وہ تمام دینی  جو ش جو وہ سمجھتا تھا کہ مجھ میں ہی زائل ہو جاتا ہے ۔ ایسی زمانہ ساز حالت سے و ہ نہ فقط ا پنے تئیں دھوکا دیتا ہے بلکہ اوروں کو بھی انجیل مقدس ایسی سرد ایمانی اور ٹھنڈی محبت اور عارضی غیرت کے برخلاف سکھلاتی ہے کہ روح اور راستی سے خدا کی پر ستش کرنی چاہئے دوسرے کو اپنے جیسا پیار کرنا چاہئے سچائی کی پیروی میں اور دین داری میں ثابت قدمی کی تاکیدکرتی ہے۔

کئی ایک باتیں میں جو عیسائیوں کی روحانی زندگی پر اثر کرنے والی ہیں ۔ ترقی کی طرف نہیں مگر دینی سُستی کو دلوں میں پید ا کرنے والی ہیں ۔

اُن باتوں میں سے ایک ملازمت ہے اگرچہ ملازمت اپنے آپ میں بُری نہیں تاہم اس کو بُرائی کا موجب یا موقع بنالیا جاتا ہے ان دنوں ملازمت دو طرح کی ہے ۔ ایک مشن کی دوسری سرکاری ۔ اور ہمارے مسیحی بھائی اکثران دو قسموں کی طرز پر اپنی اپنی زندگی گذراتے ہیں ۔ ملازمت مشن میں دین داری اور روحانی ترقی دکھلانی پڑتی ہے ۔ خوف کا بہت زور معلوم ہوتا ہے ۔ مگر خوف کاہیکا(کس کا)؟ بدچلنی کے سبب ملازمت سے بر طرف ہونے کا اور جب یہ نوبت پہنچتی ہے تو وہ خوف مٹ جاتا ہے ۔ اور اُس مصنوعی دین داری میں بھی فرق آجاتا ہے۔ انجیل تو ایسی سزاؤں کا نہیں کرتی ۔ لیکن مشنوں میں تو اس کا رواج ہے ۔ خبر پھر وہ چند روزہ غیرت ملازمت کے ساتھ ہی چلی جاتی ہے ۔ اس بے جڑ دین داری کو لے کر وہ دوسری قسم کے عیسایئوں میں جا ملتا ہے ۔جو سرکاری ملازمت میں ہوتے ہیں ۔ یہاں و ہ خوف نہیں ہوتا جو ملازمت مشن میں ہے ۔بلکہ آزادگی کا علاقہ ہے اس آزادگی میں پڑکر بے لگام ہوجاتے ہیں ۔ روحانی زندگی کو کوئی نہیں پوچھتا ۔دین داری کی پیر وی کرنا مشن کے ملازموں کا کام سمجھا جاتا ہے ۔ اپنے حلقہ کے فرائض ادا کرنا کافی سمجھا جاتا ہے ۔ ہم اپنی ڈیوٹی پر جاتے ہیں ۔ابھی اپنی ڈیوٹی سے آئے ہیں ۔ یہ خیال زبان زد ہو رہا ہے ۔ خداوند خالق کے حکموں کی چند اں پر وا نہیں کرتے ۔ اور یوں علم سیکھ کر جاہلوں سے بھی زیادہ کمینہ پن دکھلاتے ہیں ۔ کیونکہ عجیب بے پروائی کے ساتھ شراب پیتے ، حرامکاری کرتے، غیبت کے لئے منہ کھولتے ،نفریں قسم کے باطل وسوسوں میں پڑجاتے ہیں ۔ اگر خدا کے گھر کی غیرت ہو تو یہ لوگ (ہمارے مسیحی بھائی ) اپنے جسموں کو خدا کی ہیکل کہے گئے ہیں ۔ اس طرح نفسانی بے اعتدالیوں (حد سے آگے بڑھنے)سے خراب نہ کریں بلکہ وہاں سے ہر قسم کے گناہ کی خریدو فروخت کا نکال ڈالیں ۔ بڑے شرم اور افسوس کی بات ہے اگر ہم کو اپنے جسموں کے لئے اتنی بھی غیرت نہیں ۔ جب تک خدا کے گھر میں یہ خرید و فروخت ہے تو کیونکہ دل میں روحانی بازار قائم ہو سکتا ہے۔ اگر مسیحی بھائی آزادگی کی نسبت مقدس رسول کی ہدایت پر عمل کریں تو حقیقت میں احکام الہٰی کی غیرت زندگی کی ہر حالت میں مقدم رہے گی ۔ اور خوف والی دین داری بھی بے خوف ہو جائے گی یعنی ’’اپنے تیئں آزاد جانو پر اپنی آزادی کو بدی کا پردہ نہ کرو بلکہ اپنے تیئں خدا کے بندے جانو‘‘ ۔ (۱: پطرس ۲:۱۶)

دوسری بات ناواقفی ہے ۔ یعنی کلام الہٰی سے  پہلے ناواقف ہونا کچھ عجیب نہیں ۔ لیکن پھر نا واقف رہنا بڑا عجیب ہے

(۱)

کیونکہ کلام الہیٰ وہ چشمہ ہے جہاں سے ہماری روحانی زندگی کے متعلق ہر ایک بات حاصل ہو سکتی ہے ۔ اُس میں ہماری روحانی خوراک کے لئے آسمانی اور زندہ روٹی موجود ہے ۔ اس حال میں اگر کوئی انسان اس سے ناواقف ہو یا نا واقف رہے ۔ تو کیوں کر وہ اپنے فرائض کو پہچان سکتا اور عمل کر سکتا ہے ۔

(۲)

یہی ناواقفی ہے جو بڑے بڑے عالموں کو بھی بے دین کرتی ہے اور روحانی زندگی سے محروم رکھتی ہے ۔ ایسے لوگ روحانی نعمتوں سے کمزور رہ کر  جلد بے ایمان ہو جا تے ہیں اور وہ بھی ذرا سی تحریک سے ۔

(۳)

 یہ نا واقفی دلو ں میں دینی جوش سچائی کے ساتھ پیدا نہیں ہونے دیتی ۔بلکہ سابقہ محبت اور غیرت کو کم کرتی رہتی ہے۔ روحانی زندگی سے بے پروا کردیتی ہے ۔ جس کی انجیل مقدس تاکید کرتی ہے ۔

(۴)

 معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری ملازمت میں اور دیگر دنیاوی دھندوں میں یہ ایک خصوصیت ہے کہ لوگ کلام الہٰی سے  کم واقف ہوں  نہ صرف دیسی عیسائیوں بلکہ ولائتی عیسائیوں میں بھی یہ کسر عام معلوم ہوتی ہے ۔ اور یہ ایک بڑا بھاری سبب ہے ان لوگوں میں خدا کا خوف اور دینی محبت کم ہوتی ہے۔ ذہنی تحریک سے بڑی بڑی خطائیں کرتے اور ان کے لئے کبھی پشمان نہیں ہوتے راستبازی کی ترقی جو کلام الہٰی طلب کرتا ہے اُنہیں نا گوار گذرتی ہے۔ ملازمت مشن میں بھی اس کسر کا بہت پھیلاؤ معلوم ہوتا ہے ایسے لوگ بھی مشنوں میں ہیں جو کلام الہٰی کو پڑھنے تک نہیں ۔ اور اس کے سمجھنے اور اُس پر غور کرنے اور عمل کرنے کا تو کیا ذکر ۔ اس سبب سے لوگ عوماً انجیل مقدس کے منشاء سے ناواقف رہتے اور بے طرح جھگڑے اور بدکاریاں کرتے اور ہمدردی اور محبت کو نزدیک نہیں آنے دیئے ۔ لیکن اگر کلام سے واقف ہوں اور اس کو پڑھتے رہیں تو روحانی زندگی کے قانون معلوم کرتے رہیں یہ بات اُن کے دلوں پر قابض رہے کہ ’’اگر تمہاری راستبازی فقیہوں اور فریسوں کی راستبازی سے زیادہ نہ ہو تو تم خدا کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتے ‘‘۔ ہاں یہ بات ہمیشہ یاد  رہاکرے کہ دین عیسوی کوئی مجہول (نامعلوم)دین نہیں رسموں اورر یتوں ظاہری کا دین نہیں لیکن روحانی زندگی کا دین ہے ۔ حتیٰ کہ مسیحی زندگی کس طرح مجہول زندگی نہیں ہو سکتی ۔ پس چاہئے کہ بیرونی صحبتیں ہماری دینی غیرت کو مات نہ کر پائیں  بلکہ زندگی کی ہر حالت میں اکیلے ہوں خواہ دو کیلے بھائیوں میں خواہ بیدنیوں میں ۔مشن میں ہوں خواہ سرکار میں ہمیشہ گناہ سے نفرت کریں ۔ اور روحانی زندگی کے لئے غیرت مندہوں یاد ہے کہ ہمارا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر ایک میں یہ دینی جوش نہیں ہے بلکہ اس آئینہ میں ہر ایک کو اپنی صورت بُری معلوم نہ ہو گی ۔ لیکن صرف اُنہیں کو جو ایسے بد صورت ہیں آپس کی ترقی کے واسطے یہ آگاہی اور نصیحت ہے غلط شائستگی نہ کہ سچی شائستگی ایک بیرونی چیز ہے جو ہماری دینی غیرت کو خراب کرتی ہے ۔ لوگوں کا خیال زمانہ کی شائستگی کی طرف رہتا ہے ۔ کیا پڑھیں ، کیا پہنیں ، کس طرح رہائش رکھیں ۔ آج کل شغل ہو رہا ہے وہ بھی یورپ کی تقلید پر۔ ہم نہیں کہتے کہ یہ بُرا ہے ۔ لیکن یہ کہتے ہیں ۔ کہ یہی شائستگی نہیں ہے۔ یہ پوری  شائستگی نہیں ہے ۔یہ نصف شائستگی ہے اور  دنیاوی ۔ہم لوگوں کو صرف اس کی پیروی میں رہنے سے دوسری اور اعلیٰ شائستگی سے یعنی روحانی زندگی سے بے پروا رہنا پڑتا اور چونکہ یہ شائستگی ہمار ا سارا وقت اور زور لے لیتی ہے ۔ اس لئے ہم کو دوسر ے کی نسبت ہونا پڑتا ہے۔ سو خبر دار ہونا چاہئے کہ یہ شائستگی ہماری روحانی زندگی اور دینی محبت کو زائل اور ٹھنڈا نہ کرنے پائے ۔دین عیسوی خود سچی شائستگی کا ساتھ دیتا ہے مگر ہمیں نازکی نیم  شائستگی سے چوکس رہنا چاہئے ۔ دعا مانگتے رہیں اور کوشش کرتے رہیں کہ ہم کامیاب رہیں ۔

 خداوند فضل کرے ۔آمین

Leave a Comment