مولوی غلام نبی کی تفسیر کی تقصیر

Eastern View of Jerusalem

The Reply to the Objection from Mulwai Gulam Nabi

Daniel: Ch-9 Verse,25

By

G. L. Thakur Das

علامہ جی ایل ٹھاکرداس

Published in Nur-i-Afshan Jan 29, 1891

نور افشاں مطبوعہ ۹جنوری ۱۸۹۱ ء

ایک چار وق کے رسالہ مولوی غلام بنی امر تسری نے بعض آدمیوں کے کہنے سے دانی ایل ۲۵:۹ کی تفسیر کی ہے ۔اور ایک جلد بندہ کے پاس بھیجی ہے اور اس میں یہ کو شش کی ہے کہ یہ نبوت عیسیٰ مسیح کے حق میں نہیں ہے اور شروع میں اُن مسیحی عالموں پر عیب دھرا ہے جو بموجب مولوی صاحب کے زعم کے خوامخوا عہد عتیق کی بنوتوں کو مسیح پر عائد کرتے ہیں ۔ مولوی صاحب بھول گئے کہ یہ عادت تو محمدیوں کی ہے محمد صاحب کے لیے پاک کتابوں کی بنوتوں کو جن کا محمد صاحب دے کچھ بھی  تعلق نہیں حضرت کے حق میں بتلایاکرتے ہیں۔ حالانکہ مسیحی عالم بے وجہ کوئی بات نہیں کرتے اس اونی رسالہ مولوی صاحب نے بکوشش تما م مسیحی عالم مفسروں کی تفسیرکے برخلاف اپنی تفسیر پیش کرتے کی ہے جو نہایت  پرقصور ہے اور اُ س کی تفصیریں ناطرین کو تبلائی جاتی ہیں۔چھ صفحوں میں مولو ی صاحب نبوت کا خلا صہ لکھا اور صفحہ ۷اور ۸ میں اُ س کی تفسسیر کی ہے ۔

اؤل:۔مولو ی صاحب کی تفسیر کی تقصیر کا بیان کیاجاتا ہے ۔

قولا:۔دانی ایل بنی ستر برس کی اسیر ی کی تفصیل معلوم کرنا چاہتے تھےاور اُن کی صرف یہی تمنا اور آرزو تھی اور بعد میں جو حضرت جبرائیل نےاُن کو حسب خواہش اور مراد بجائے ستر برسوں کے چاسو نوے برسوں کے حالات اُ ن پر ظاہر کیے تو صاف طور پر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ قید بابل کے ستر طرس جن کی بابت بنی جاننا چاہتے تھے وہ ان چارسونوے برس میں شامل ہے ۔

اقول:۔ یہ درست نہیں ہے کہ بنی قید بابل کے ستر برسوں کی بابت جاننا چاہتا تھ ااور اُس کی صرف یہ آرزوتھی ۔کیونکہ یہ بات تو ہ جانتا تھا اوریر میاہ بنی کی نبوت سے اُس کو یہ عرصہ معلوم تھا ۔ چنانچہ  دانی ایل بنی خود کہتا ہے کہ وارا کے پہلے سال میں دانی ایل نے کتابوں میں اُن برسوں کا حساب سمجھا ۲:۹ یعنی معلو م کیاکہ یا قیم شاہ یہودا کے تیسرے سال سے جو اسیری کا شروع تھاخورس بادشاہ تک ستربرس ہوگئے ہیں اب خدا کے سامنے عرض کرتا ہے کہ میری اور میری قوم کی خطا معاف کر۔ پھر یہ معلوم ہو کہ یہ دارا جس کا دانی ایل بنی ذکر کرتا ہے اپنی سلطنت کے دوسرے ہی سال میں مرگیا تھا اور اُس کا بھتیجا خسرو اُس کا جانشین ہو اور اُن سے اپنی سلطنت کے پہلے سال میں یعنی اُسی سال  میں جسم میں اُس کا چچا مرگیا تھا ہیکل کے دوبارہ تعمیر کرنے کا فرمان صادر کیا ۔(عرزا  ۱:۱ ۔۴ )اس سے ظاہر ہے کہ اسیر ی کے ستر برس چارسونوے برسوں سے پہلے گزرچکے تھے اور اُن میں شامل کرنا مولوی صاحب کا قصور ہے اور بھی معلوم ہوکہ جبرائیل نے بھی چارسونوے برسوں کا آغاز سوقت سے بتلا یا تھا ‘‘جس وقت سے یروشلیم کی دوبارہ تعمیر کرنے کا حکم نکلے’’(۲۵:۹) نہ کہ اُس کی بربادی کہ وقت سے جب اس طرح سے دانی ایل کو معلو م ہواکہ اُس کی دعا سنی گئی اور اسیری کے برسوں کا شمار تو ہو کتابو ں سے سمجھے ہوئے تھا تو اُس  نے یرمیا ہ کی نبوت اسیری کی بابت اور یسعیاہ کی نبوت خورس بادشاہ کی بابت خورس بادشاہ دکھلائیں اور اُس کو بنی اسرائیل کی رہائی پر آمادہ کیا اور اُس نے وہ حکم صادر کیا ۔ جیسا جو سفیس مورخ لکھتا ہے ۔

مورخ جوسیفس

قولا:۔

سات ہفتے یعنی ۴۹ بت س پر جو مسیح آتا ہے اور بیت المقدس کی تعمیر کاحکم دیتا ہے وہ خورس فارس کا بادشادہ ہے۔

اقوال :۔ اس نبوت میں تویہ ذکر نہیں ہے لیکن مسیح شہزادہ چارسونوے برس پ آتا ہے ۔ اور پھر یہ خورس بادشاہ بنوت والے پہلے ہفتے کے شروع میں ہی یعنی چارسو نوے برس کا وہ شروع ہے نہ کہ پہلے ہفتے کے تمام ہونے پر آتا ہے ۔ اوریہ وہ مسیح نہیں ہوسکتا جس کے ظہور تک نبی کو کہاگیا کہ ۶۹ ہفتے اور  پھر ۶۲ ہفتے ہیں ۔ یہ غلطی آپ کی پہلی غلطی کا نتیجہ ہے ۔

قولا:۔مگر ۴۹ برس مخلصی نہیں پائی تھی کیونکہ بنی اسرائیل نے تکالیف و مصائب سے بالکل مخلصی  نہیں پائی تھی کیونکہ بنی نے ستر سال نبوت میں طاہر کئے تھے ۔اس  واسطے اب انہیں ۲۱ برس کی تکلیف اور برداشت کرنی تھی۔اگرچہ خورس نے اُن کو خانہ خدا کی تعمیر کا حکم دیدیا تھا مگر اُن کے اس نیک کام میں اُن کے مخالفوں نے ہر ح ڈالا تھا ۔ دیکھو عزرا نبی کا باب اؤل پس اس طرح سے یرمیاہ نبی کے ستر برس پورے ہوجاتے ہیں۔

اقول :۔کیاخوب پورے ہوجاتے ہیں ۔ آپ کی تفسیر سے تو اسیری کے ستر برس اسیری کے برس قایم نہیں ہوتے بلکہ اُن کے اپنے ملک میں ہیکل اور شہر کی تعمیر میں اور مخلالفوں کو ہٹانے میں صرف ہوئے ۔ اس حال یہ تو بابل کی اسیری کے ستر برس نہ ہوئے جن کی یرمیاہ نبی خبر دیتا ہے کہ یہ ساری سرزمین دیرانہ اورحیرانی کا باعث ہواجائے گی ۔ اور یہ قومیں  ستر برس تک بابل کے بادشاہ کی غلامی کے گی (۲۵:۱۱)چنانچہ وہ بابل میں رہے تھے اور جب خورس کاحکم نکلا تب اپنے ملک میں آئے تھے ۔دیکھو عزرا ۲۱:۱ اور ۲۔ تورایخ  ۲۰:۳۱ ،۲۱

قولا:۔ اور آخری ہفتہ میں جو مسیح یہودیوں کےکی پانچاطررومیوں کے مقابل میں مارا جائے ۔ وہ اگر یفا تھا جو ٹھیک نبوت کے موافق جب کہ طیطوس رومی نے بیت لمقدس پرحملہ اورچڑھائی کی تو وہ ہفتہ کے بیچ مارا گیا اور اُس  سےدن قوم یہود دنیا کی مختلف جگہوں میں تتر بیر ہوگئی تھی اور بغیر بادشاہ کے چھوڑی گئی تھی ۔

اقول:۔ نبوت کی کلا  م میں لکھا یہ لکھا ہے کہ مسیح بادشاہ قتل کیاجائے گا اور بعد اُس کے جو بادشاہ  آئے گا اُس کے شہر اور  مقدس کو غارت کرے گے ۔اب معلو م ہوکہ کئی ایک اگر پاتھے اور یہ قوم کے ادومی اور مذہب یہودی رکھتے تھے ااور رومیوں کے ماتحت تھے ۔ اُن  میں سے آخر کانام ہیر ود اگر پاتانی تھاجو طیطس بادشاہ کےزمانہ میں موجود تھا ۔۵۱ءشہنشاہ کلوڈبو س  نے اُس  کو اُس کے چچا کے علاقہ کا لسس پر حکم کیا اور بعد اُس کے فلپ ار لسانیوس کی چوتھائیاں بھی اُس کے ماتحت کردیں اور بادشاہ کاخطاب دیا  چنانچہ لوقا بھی اُسے اگرپا بادشاہ لکھتا ہے (اعمال ۲۵:۱۳) بعد اُس کے نیرو بادشاہ نے اُس کی بادشاہت میں اور کئی ایک شہر زیادہ کردیئے اور وہ بڑی شان شوکت دکھانے لگا۔(تواریخ یوسیفس انٹی کوئٹی کتاب ۱۹۔۲۰ اور جنگ یہود دوسری اور چوتھی )آخری رومی لڑائی میں رومیوں کی طرف سے یروشلیم کی بر بادی کے بعد وہ برنیکے کے ساتھ روم میں جارہا اور ۱۰۰

میں بڑا جان بادشاہ کےعہد میں مرگیا ۔(بائبل ڈکشنری سمتھ )مولوی صاحب  وہ اگر پا جو طیطوس کے حملہ کے وقت یہودیوں کابادشا ہ تھا  حملہ کے ایام میں مار انہیں گیا بلکہ بہت برسوں کے بعد روم میں سوا تھ اور اُس کے مرنے سے بہت سے عرصہ پیشتر ہیگل اور یروشلیم برباد ہوگئے تھے ۔اوریہودی تتر بتر کردیئے گئے تھے ۔ اورپھر وہ یہودیوں کی پانچا طر اور رومیوں کے مقابل میں نہیں ماراگیا تھا ۔کیونکہ آخری لڑائی میں رومیوں کی طرف تھا ۔ اور ابتدا میں بھی اُ س  نے یہودیوں کی بہت منع کیاتھا ۔ کہ رومیوں سےلڑا ئی نہ کریں اور رومیوں ی سلطنت کا زدرا اور رومیوں  کی بہادر انہ کاروئیاں ان سے بیان کی تھیں تاکہ یہودی اُ ن سے لڑائی کرنے سے باز آجائےمگر اُنہوں نے اُس کی نہ مانی تھی ۔ اوریہودیوں کے سردار جو جو رومیوں سے لڑتے رہے وہ جان اور سائیمن تھے۔ شہر وغیر ہ  کو غارت کرکے طیطس ان دونوں کو گرفتار کرکے روم میں لے گیا تھا (تواریخ یو سیفس جنگ یہود کتاب دوسری اور چوتھی ) آپ اگرپا یعنی دوسرے مسیح کا کہیں پتا نہیں لگتا اور نہ باتیں درست ہیں جو آپ نے اُس کی بابت لکھی ہیں ۔

دوم:۔

ایسی غلط رتفسیر کرکے مولوی صاحب اپنی تحقیق پیش کرتے ہیں کہ یہ نبوت مسیح عیسیٰ کے حق میں نہیں ہے اور دوجوہات زپیش کی  ہیں جو بجائے تحقیق کے کوتہ اندیشی کا ثبوت ہیں ۔چنانچہ :۔

قولا :۔چونکہ آیت ۲۵ میں لفظ مسیح دو دفعہ آیا ہے  اور نیز اُس کے مارے جانے کا بھی ذکر ہے لہذا عیسائی حضرت کی پیش خبری اور دنیا کےلیے اُس کے کفار ہونے کی نبوت اس سے اقتباس کرتے ہیں ۔ میری تحقیق اور سمجھ میں صحیح نہیں ہے کیونکہ اگر لفظ مسیح سے عیسی ٰ مراد لیاجائے  اس واسطے کہ اطلاق ان پر ہی آیا ہے اور تویہ تب ہوسکتا ہے کہ جب بائبل میں دیگر انبیا علیہ السلام اور نبی اسرائیل کے غیر قوم بادشاہوں پر اُس کا طلا ق نہ آیا ہو۔

اقول:۔ اسی کوآپ کو اپنی تحقیق کہتے ہیں؟ کیاا س لیے  کہ لفظ مسیح اور لوگو پر بو لا گیا ہے اور عیسیٰ پر بھی بو لا گیا ہے اس واسطے عیسیٰ وہ مسیح نہیں ؟ ہر ایک موقعہ کا خیال کرنا چاہے چونکہ ۱۔سموئیل۱۲:۱۶ داؤد کو مسیح کہا گیاہے توکیا اس لیے دانی ایل ۲۵:۹  میں داود سے مراد ہوگی ۔ جس کے کل حالات بنوت کےساتھ ملتے ہوں وہی مسیح ہے جس  کی دانی ایل نبی خبر دیتا ہے ۔اُن سب حالات کاحال ابھی آ پ کو بتلا تاہوں ۔

قولا :۔اور تورایخی طور پر بھی جب دیکھا جاتا ہے تو اُس سے بھی یہ نبوت حضرت مسیح پر کسی صورت میں  نہیں جم سکتی کیونکہ اس میں دومسیحیوں کا ذکر ہی جن میں باسٹھ ہفتوں یعنی ۴۳۴   برسو ں کا فرق ہے ۔

اقول :۔ یہ ایک اور تحقیق ہی پھلےدو مسیح بتلائے ہیں اور کیاکرتے ایسی تحقیق کے ایسے ہی نتیجے ہونےتھے آپ کی بات کے مطابق ایک مسیح ۶۹ ہفتوں کے بعد اور دوسرا ۶۲ ہفتوں کے بعد آنا چاہیے تھا ۔اور آپ دومسیح بتلائے بھی  ہیں۔ایک خورس جس کی بابت آپ کی غلطی درست کی گئی ہی اور بتلایا گیا ہے کہ وہ صدر ورحکم کے شروع میں تھا نہ کہ ۶۹یا ۶۲ ہفتوں کے بعد جیسا نبوت طلب کرتی ہے اور دوسر ے مسیح یعنی اگرپا کا حا ل بھی بتلا یا گیا ہے اور اُا س نبوت کو پھر دیکھے کیونکہ اُس میں ایک ہی  مسیح کا ذکر ہے ۔ حکم نکلنے سے ۶۹ ہفتوں پر مسیح آیاہے اور اُس کی تفصیل یو  ں کی گئی تھی کہ ابتدائی سات ہفتے ہیکل اور شہر وغیر ہ کی تعمیر کےلیے ہیں اور شہر کی تعمیر کے ہونے کے ۶۲ ہفتوں بعد مسیح کے آکر قتل کیا جائے گا۔ ۶۲ ہفتوں کا شروع حکم نکلنے سے نہیں لیکن شہر کی تعمیر کے تما ہونے سے ہے لہذادونوں آیتوں میں ایک ہی مسیح کا ذکر ہے جو خسردادر اگرپا کے سواہے ۔

سوم:۔اب میں آپ کو اس بات کا ثبوت دکھاتا ہوں جس سے ظاہر ہوگا کہیہ نبوت سوائے یسوع مسیح کے اور کسی پر  جم نہیں سکتی ۔

اولا:۔اس نبوت میں مسیح موعود کا پتا دیا گیا جو آنے والا تھا۔ یادرہے کہ وہ انبیا اورنبی اسرائیل کے بادشاہ اورغیر قوموں ے بادشاہ خبیر لفظ مسیح کا بولا گیا تھا (اُن حوالوں میں جو مولوی صاحب نے پیش کئے ہیں ۔ا۔سموئیل ۱۵:۱ ،زبور ۱۵:۱۰۵ ،یسعیا ہ ۲۴ آخری آیت  اور ۱:۲۵ ) وہ سب کے سب وہ مسیح نہیں ہوسکتے جس کی صاف بات یہ ہی کہ نبوت میں یہ لفظ کسی موعود پر بولاگیا ہے ھو ہنوز   نہیں آیاتھا مگر ۴۹ برسو ں پر آئے گا۔ جس طرح جبرائیل نے دانی ایل   کوشہر کی تعمیر کے اُس حکم کا پتا دیا جس کی یسعیا ہ ۲۸:۴۴ میں خبر تھی اور اس سے دانی  ایل کو جتایا کہ اُس کی دعا سنی گئی ااور اُس کی تسلی ہوئی ۔ اس طرھ دانی ایل کو ایک موعود کا پتا دیتا ہے  جس کی نبیوں نے خبر دی تھی مگر دانی ایل کو اُس کا خیال نہ تھا۔ اور اُس موعود کو لفظ مسیح سے سے بیان کرتا ہے ۔چنانچہ اسد نبوت کے متصل خبر یں اس موعود کی بابت تھیں وہ یسعیا ہ اور میکا ہ نبیوں میں ہیں جو بابل کی اسیری سے پہلے گزارے جس کو یسعیا ہ ۶:۹۸ میں سلامتی کا شہزادہ لکھتا ہے اور باب ۴۲ میں اس کو میر ا بندہ ۔ میرا برگزید ہ جس  سے  میراجی راضی ہے ‘‘بیان کرتا ہے اور پھر باب ۱۳:۵۲ وغیرہ میں اس بندہ کا  پھر ذکر کرتا ہے اور باب ۵۳ میں اُس کی مصیبت اورموت اور کفارہ اور شفاعت کا بیان کرتا ہے ۔میکا ہ نبی نے ۲:۵ میں اُس بابت یہ خبر دی ہوئی تھی کہ اے بیت الحم افرتا ہر چند کہ تو یہودا کے ہزاروں میں شامل ہونے کےلیے چھوٹا ہے۔کہ تو یہودا کے ہزاروں میں شامل ہونے کےلیے چھوٹا ہے تو بھی تجھ میں سے وہ شخص نکل کےمجھ پاس آئے گا جو اسرائیل میں حاکم ہوگا اور اُس کا نکلنا قدیم سے ایام الازل سے ہے پس اس قدیم موعو د کی جبرائیل دانی ایل کو خبر دیتا ہے اوراُس کو مسیح کہتا ہے اس  لیے کہ وہ مقر ر ہوچکا تھا ۔مگر ہنوز اُس کے آنے میں چارسو برس باقی تھے ۔

ثانیا ً:۔

تاریخی طورپر یہ نبوت فقط مسیح پرجم سکتی ہے اور کسی پرنہیں  سو معلوم ہو کہ ہیکل اور شہر کی تعمیر کے لیے تین دفعہ حکم نکلے تھے اور چوتھی دفعہ اُ سکے تعمیر ہوجانے کے بعد نحمیا ہ کو حکم ملاتھا ۔ پہلا خورس نےدوسرا دارا نے اور تیسرا ارٹازرکسیہ بادشاہ نے دیا تھا ۔ (عزرا ۶:۱ ،۷ وغیر ہ اور بات)۷ اور ۱۶:۴ یہ مذکوز ہے کہ اُنہوں نے اسرائیل کے خدا کے حکم کے مطابق ااور فار س کے بادشاہ خورس اور دارا اور ارٹازرکسیز کے حکم کے مطابق تعمیر کی اور کام تمام کیا  ۔‘‘یعنی وہ حکم خورس سے شروع ہوکے اٹا ز کسنیر کے وقت میں پورے طور پر عمل میں آیا جب اُس نے عزرا کاہن کو نبی اسرائیل کا ناظم کرکے بھیجا اور خدا کے گھر کو ہرطرح سے آراستہ کرنے اورملک میں حاکم اورقاضی مقر ر کرنے کا حکم دیا (باب ۷)اب بموجب علم تواریخ ڈاکٹر ہیلز صاحب یہ حکم مسیح سے پیشتر ۴۵۷ ء میں ہوا اور ۳۳ء تک جس میں خدا وند مسیح مصلوب ہو ا۔ ٹھیک ۴۹۰ برس ہوتے ہیں ۔ اس  لیے یہ نبوت مسیح عیسیٰ پر جمتی  ہے ۔

ثالثا ً:۔

نبوت میں یہ کہا گیا ہے کہ پہلے مسیح ماراجائے گا اور بعد اُس کے بادشاہ جو آئے گا سوا اُس کے لوگ شہر اورمقدس کو غارت کریے گے۔وغیر ہ ۔ اب یہ حادثہ مسیح مصلوب کے بعد وقوع میں آیا ۔ چنا نچہ یہودیوں نے عروج مسیح کے تھوڑے ہی برسو ں میں بعد نا اتفاق شروع کردی اور آخر یہاں تک نوبت پہنچی کہ ‘‘اُجاڑ نے والی مکروہات ’’ یر وشلیم پر دھری گئی ار بالکل غارت ہوگیا ۔ اریہودیوں کی قربانی اور ہدیہ بھی موقوف ہوئے ۔ چونکہ یہ تباہی مسیح یسوع کے مارے جانے کے بعد ہو ئی اور اسی واقعہ کے متصل ہوئی یہ نبوت خد اوند یسوع مسیح پر صادق آتی ہے اور کسی پر نہیں ۔

رابعاً:۔

اس نبوت کے مطابق یہودی لوگ اسی زمانہ میں مسیح کے آنے کے منتظر تھے جیسا کہ انجیل متی ۳:۱۱ اوریوحنا ۴۱:۱ اور ۲۵:۴ سے ظاہر ہے یہودیوں کی طالمود سے بھی ظاہر ہے کہ لوگ اسی زمانہ میں مسیح کی انتطار کرتے تھے ۔‘‘دنیا کی پیدائش کے چار ہزار دوسو کانوے برسوں کے بعد ازدہوں کی لڑائیاں اورجوج اور ماج کی لڑ ائیاں ختم ہو جائے گئی اورباقی زمانہ مسیح کے دن ہونگے ’’(انتخاب تولمود وغیرہ باب ۱۳ مولفہ ہرشن صاحب )یہودی ربی عموما ً اس زمانہ کو جس میں یسوع مسیح نے ظہور  فرمایا تھا کہ غیر قومیں بھی  اس بات کی انتظار ی کر تی تھیں ااور بعض غیر قوم عالم یہودیوں کی انتظاری شہادت دئیے ہیں ۔ چنانچہ ماسٹیس مور خ اپنی توایخ کی پانچویں کتاب اور ۱۳ با ب میں لکھتا ہے کہ ‘‘بہتیرے یہ سمجھتے ہیں کہ کاہنوں کے قدیم نوشتوں میں ہی کہ عین اُسی وقت مشرق غالب ہوگا اور یہودیوں کو حکومت ملے گی ۔’’اور سیوٹونی ان مورخ وسپاسئیں بادشاہ کی سوانح عمری میں ایسا ہی لکھتا ہے ۔

خا صاًْ:۔

اس نبوت کی مسیح یسوع نے دو طرھ سے اپنے اوپر صادق ٹھہر ایا ہے پہلے اس طو ر سے کہ سب نبیوں اور توریت نےیوحنا کے وقت تک آگے کی خبر دی متی ۱۱:۱۳ اور پیشیر اس سے کہ یروشلیم کی بر بادی کی خبر دی وہ اپنے قتل کئے جانے کی خبر دیتا ہیے کہ دیکھو ہم  یر وشلیم کو جاتے ہیں اور ابن آدم سردار کاہنوں اور فقہوں کے حوالے کیاجائے گا ۔ اور وہ اس پر قتل کا حکم دے گئے۔ وغیر ہ متی ۱۸:۲ ۔۱۹ اور ایسا ہی ہوا ۔ پھراس خبر کے بعد یروشلیم کی بربادی کی اُس خبر کو جس کا دانی ایل نے بیا ن کیا قربیا ً اُنہیں لفظوں میں اور پھر زیادہ تفصل کے ساتھ ییش کرتا ہے ۔ اے یر وشلیم اے یر وشلیم ۔۔۔۔۔ میں نے کتنی بار چاہا کہ تیرے لڑکو ں کو جس طرح مرغی اپنے بچوں کو پروں تلے اکٹھے کرتی ہے جمع کروں پر تم نہ چاہا دیکھو تمہارے لیے ویراں چھوڑا جانا ہے ۔۔۔۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ یہاں ایک پتھر پتھر پر نہ چھوٹیگا جو گرایا نہ جائےگا ۔۔۔۔۔۔پس جب تم اس ویران کرنے والی مکروہ چیز کو جس کی خبر دانی ایل بنی نےدی پاک جگہ میں کھڑے دیکھو گے ۔(جو پڑھے سو سجمھ لے )تب جو یہودیہ میں ہوں پہاڑ و ں پربھا گ جائیں وغیر ہ ۔ ۔۔۔۔۔کیونکہ اس وقت ایس بڑی مصیبت ہوگی کہ دنیا کے شروع سے اب تک نہ ہوئی بلکہ نہ کبھی ہوگی ۔ متی باب ۲۴،۲۳ اسسلسلہ میں اُن آگا ہ کرتاہے ‘‘ اگرکوئی تم سے کہے کہ دیکھو مسیح یہاں ہے یادہاں ہے تو اُسے ماننا ’’وغیرہ کیونکہ مسیح خداوند اُن کو بتلا چکا تھا کہ وہ مسیح جو آنے والا تھا میں ہی ہوں۔یوحنا ۴۹:۱ ،۲۶،۲۵:۴ ‘‘عورت نے اُس سے کہا میں جو تجھ سے بولتا ہوں وہی ہوں’’ غرضکہ نبوت کے زمانہ کے مطابق مسیح یسوع اپنے تیئں وہی مسیح فرار دیتا ہے ۔اور اپن مارے جانے کی خبر دیتا ہیاور پھر مارجاتاہے ۔اور مسیح کے مارے جانے کے بعد جو حادثہ یہودیوں اور یر وشلیم پر نبوت کے مطابق آنے والا تھا اُس کا زمانہ بھی اپنے بعد بتلا تاہے اور ویسا ہی ہوا ۔ شہر اور ہیکل اورلوگ غارت ہوئے اور قربانی وغیرہ بھی موقوف ہوئیں ۔دانی ایل نبی کی نبوت میں اسات کا سبب نہیں بیان ہواکہ مسیح کے قتل کئے جانے کے بعد یر وشلیم وغیر ہ کیوں غارت کئے جائے گئے لیکن مسیح خداوند نے اس متروک سبب کو ظاہر کیا کہ یروشلیم نھ اپنی سلامتی کے دن نہ جانے اگرچہ بارہا مسیح نے اُس کے بچا نے کی کوشش کی ۔ پس یہودیوں کا اپنے مسیح سے بے ایمان رہنا اصلی سبب اُن کی تباہی کا تھا ۔ تعجب ہی کہ مولوی صاحب نے شہر اورمقدس کا زمانہ تو آخری ہفتہ میں مانا ہی مگر اس کے ماقبل اہفتے میں مسیح کے ظہور اورموت کو ایسے نامعقول طور سے ٹالنے کی کوشش کی ہے کیونکہ مسیح کا قتل کیاجا نا اور یہودیوں کی تباہی دونوں ستر ہفتوں کے آخیرکے واقعات میں پس مسیح کے اقوال اور دیگر حالات سے صاف ثابت  ہے ہی کہ دانی ایل نبی نبوت صرف مسیح یسوع پر صادق ٹھہرتی ہےاور اسی کے حق میں تھی ۔

Leave a Comment