طبعیت

Eastern View of Jerusalem

The Temperament in Christianity and Islam

By

Alfred

ایلفریڈ

Published in Nur-i-Afshan Dec 04, 1890

نور افشاں مطبوعہ۔۴دسمبر٫۱۸۹۰

مسیحی طبیعت اور محمدی طبیعت میں بڑا فرق ہے بلکہ مسیحی طبیعت اور دیگر کُل مذاہب کی طبیعت میں آسمان و زمین کا فرق پایا جاتا ہے جو ہر ایک غیر متعصب آدمی بآسانی دیکھ سکتا ہے اور یہ ایک قوی ترین ثبوت ہے کہ مسیحی مذہب خدا کی طرف سے ہی کیونکہ اُسی کی تعلیم نے انسان کو حلیم و فروتن بنایا ہے اور ملائم مزاج اور معاف کرنے والا دل اُس کو یاد ہے۔پر دیگر مذاہب انسان کو طبیعت کی سلیمی حلیمی وفروتنی ہر گزنہیں دے سکتے ہیں اور نہ انسان کی بُری طبیعت کو سُدھار سکتے ہیں۔پس ایسا مذہب جو انسان کی طبیعت کو سُدھار نہ سکے فضول و لاحاصل و باطل و انسانی اختر اع (ایجاد)ہے۔مسیحی مذہب اِنسان کو پاک و راست حلیم و فروتن رحیم و خاکسار و حقجو بناتا ہے) دیکھو متی ۵ :۱۔۱۳،رومیوں ۸:۵۔۹(۔’’کیونکہ وہ جو جسم کےطور پر چلتے ہیں اُن کا مزاج جسمانی ہے پردے جو روح کے طور پر ہیں اُن کا مزاج روحانی ہے۔جسمانی مزاج موت ہے پر روحانی مزاج زندگانی اور سلامتی ہے۔جسمانی مزاج خدا کا دشمن ہے۔جو جسمانی ہیں خدا کو پسند نہیں آ سکتے ‘‘پھر دیکھو رومیوں ۱۲ باب کُل خصوصاً ۹۔۲۱آیتیں اور ۱۳:۷۔۹، افسیوں ۴:۱۷۔۳۲آیت تک وغیرہ۔مذکورہ بالا آیتوں میں طبیعت کی سُدھرائی کے لئے ایسی عمدہ تعلیم ہے کہ بدکارآدمی راستکار (اچھا کام کرنے والا) ہو جائے اور ایسی عمدہ تعلیم دنیا کے کسی مذہب میں نہیں پائی جاتی ہے۔دیکھو جن مُلکوں میں انجیل پہنچی ہو وہاں کے لوگ کیسے مہذب و غیر متعصب بُرائی و فریب و دغا کرنے والے۔خیر خواہِ خلائق (اچھی مخلوق)غریب پَرور و جان نثار اور سلیم الطبع (نرم دل)وغیرہ ہوتے ہیں کہ جن کا مفصل بیان اگر لکھوں تو ایک بڑی کتاب ہو جائے برخلاف اِس کے جن مُلکوں میں انجیل نہیں پہنچی یا جن مُلکوں کے لوگوں نے انجیل کو قبول نہیں کیا اور خصوصاً تُرکستان ، فارس وافغانستان جہاں محمدی طبیعت سرتاج ہو وہاں کے باشندگان کی طبیعت کا اندازہ کر لو دُور کیوں جاتے ہوہندوستان کے دیانتداروں اور خصوصاًمحمدیوں کی طبیعت سے مقابلہ کر کے دیکھ لو اگرچہ مسیحی لوگ اُن سے ملائمی و محبت سے پیش آتے ہیں اُن کی خیر خواہی کرتے و چاہتے ہیں اپنی عبادتوں میں اُ ن کے لئے ہمیشہ دُعائیں کرتے ہیں۔مشن شفاخانوں میں اُن کے بیماروں کی پرورش و علاج کرتے ہیں اُن کے گھروں میں بیمارپُرسی کو جاتے ہیں۔اُن کے غریبوں کو خیرات دیتے ہیں۔پادری صاحبان اُن کے کتنوں کو نوکری دیتے اور دِلواتے ہیں۔اُن کی سفارشیں صاحبان عالی و قاروذی اقتدار(اختیار رکھنے والا) سے کرتے ہیں اُن کے غریب لڑکوں کو مشن سکولوں میں بغیر فیس کے اعلیٰ درجہ کی تعلیم دیتے ہیں غرض ہر طرح اُن کی بھلائی و خیر خواہی کے خواہاں رہتے ہیں تو بھی دیانندیوں اور محمدیوں کی مخالفت اور ضد ہند کے مسیحیوں کے ساتھ اظہر من الشمس (بالکل واضح) ہے۔اِس میں جہاں تک لکھوں سب تھوڑا ہی ہے۔اگر پوچھا جائے کہ کیا کسی دیانندی یا محمدی نے کسی مسیحی کے ساتھ ایسے نیک سلوک کئے ہیں تو اِس کے جواب میں ہر گز کوئی ہاں نہ کہہ سکے گا)۔جب پادری صاحبان اور دیگر مسیحی لوگ بازار میں عبادت و منادی کرتے ہیں تو اُس وقت دیکھو کہ کتنے دیانندی اورخصوصاً محمدی ہٹ دھری و مخالفت و ضد پر جمع ہوتے ہیں ٹھٹھا کرتے ہیں گالیاں دیتے ہیں لعن طعن کرتے ہیں۔کبھی اُن پر خاک اُڑاتے کبھی اُن کو مارتے بھی ہیں کبھی اُن کی کتابیں پھاڑتے ہیں کہاں تک لکھوں غرض کہ مسیحیوں کی عبادت اور کلام خدا کی خدمت میں خلل انداز ہوتے ہیں اور اپنا بُغض و عنادو تعصب حد سے زیادہ ظاہر کرتے ہیں یہ نہ صرف جہلاء کا طریقہ ہے بلکہ خواندہ اور اخبار نویس بھی ایسا ہی برتاؤ کرتے ہیں جن کا یہ فرض تھا کہ ایسے لوگوں کو روکتے۔ایسی طبیعت کی مثال یہاں کافی ہے کہ ایک محمدی شخص جس نے اپنے کو مولوی فرحت اﷲکے نام سے مشہور کیا ہے۔قریب پانچ برس گزر گئے کہ کراچی چرچ مشن میں متلاشی دین بن کرپانچ مہینہ تک تعلیم پاتے رہے پر بسبب کسی علت کے بپتسمہ سے محروم و خارج کئے گئے تب محمدیوں کے واعظ بنے اور وسط ہند تک سفر کیا اور خوب روپے پیسے جمع کئے اب پانچ برس بعد پھر یہاں آئے اور ایک جلد بند کی دوکان میں ایک عیسائی نوکر تھا مولوی صاحب نے کہا کہ یہ کافر ہے اِ س کو موقوف کرو کافر نوکر رکھنا نہ چاہئے یا وہ مسلمان ہو جائے تو بہتر ہے غرض جلد بند نے اُس کو موقوف کر دیا واہ بے طبیعت پر مسیحیوں کی طبیعت دیکھو اگر چہ مخالفوں سے ستائے جاتے مارے جاتے تو بھی صبرو برداشت کو کام میں لاتے ہیں اور اپنی زبان سے بد دُعا بھی نہیں کرتے جو کل اہلِ ہند کے لئے نہایت آسان بلکہ اُن کا خاصّہ ہے جب کوئی شخص مسیحی ہوتا تب ہندوو محمدی کیسا شورو غُل مچاتے اور اُس کو ستاتے اور اُسے مارڈالنے پر آمادہ ہوتے ہیں پر جب کوئی ظاہر پرست مسیحی شخص محمدی ہو جاتا تو مسیحی اُس کی پرواہ بھی نہیں کرتے برعکس اِس کے اُس آدمی کو سمجھاتے اور محبتانہ(محبت کے ساتھ) پیش آتے ہیں۔یہ کیسی طبیعت ہے۔

مسیحی طبیعت اورمحمدی طبیعت میں بڑافرق ہے

پھر محمدی تعلیم دشمنوں کو مارنے اور بدلہ لینے کو سکھاتی ہے دیکھو سورہ توبہ کُل اور بقرہ ر کوع ۲۴آیت۱۹۰۔۱۹۷تک مسیحی تعلیم دشمنوں کو پیار کرنے کو سکھاتی ہے دیکھو متی ۵: ۴۴۔۴۸ اور رومیوں ۱۲:۲۰۔۲۱آیت۔پھر محمدی طبیعت بہت سی جو رواں رکھنے اور اُن کو نکال دینے کی طرف مائل رہتی ہے پر مسیحی طبیعت بہت جورؤں سے نفرت کرتی ہے۔ہر سال دیکھا جاتا ہے کہ ہندو اور محمدیوں میں فلاں عید و تیوہار پر فساد ہوا پر کبھی سُننے میں آیا ہے کہ مسیحیوں نے کبھی ایسے موقعہ پر فساد کیا ہے !اِس سے دیکھا جاتا ہے کہ کن کی طبیعت فاسِد ہے۔ایسوں کی بابت انجیل مقدس میں لکھا ہے۔کوئی نیکوکار نہیں ایک بھی نہیں اُن کا گلا کھُلی ہوئی قبرہے۔اُن کے ہونٹوں میں سانپوں کا زہر ہے اُن کے منہ میں لعنت و کڑواہٹ بھری ہے اُن کے قدم خون کرنے میں تیز ہیں اُن کی آنکھوں کے سامنے خدا کا خوف نہیں دیکھ (رومیوں ۳: ۱۰۔۲۰)۔

غرض جو مذہب انسان کو خیال و قول و فعل میں راست پاک و غیر متعصب نہیں بنا سکتا وہ فی الحقیقت باطل مذہب ہے پس مسیحی مذہب کے سوا جتنے مذاہب دنیا میں مُروج ہیں سب باطل مذہب ہیں کیونکہ اُن کی تعلیم سے انسان کی طبیعت نہیں سُدھرتی ہے پس ایسے مذہب سے ہر گز انسان کا فائدہ نہیں۔وہ سب انسانی ایجاد ہیں خداوند یسوع فرماتا ہے کہ’’درخت پھل ہی سے پہچانا جاتا ہے۔ اَے سانپ کے بچّو تُم بُرے ہو کر کیونکراچّھی باتیں کہہ سکتے ہو کیونکہ جو دِل میں بھرا ہے وُہی مُنہ پر آتا ہےاچّھا آدمی اچّھے خزانہ سے اچّھی چیِزیں نِکالتا ہے اور بُرا آدمی بُرے خزانہ سے بُری چیزِیں نِکالتا ہےاور مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ جو نِکمیّ بات لوگ کہیں گے عدالت کے دِن اُس کاحِسا ب دیں گےکیونکہ تُو اپنی باتوں کے سبب سے راستباز ٹھہرایا جائے گا اور اپنی باتوں کے سبب سے قُصوروار ٹھہرایا جائے گا‘‘ (متی۳۳:۱۲۔۳۷)۔

یہ یاد رکھو کہ صرف مسیحی مذہب انسان کو پاک و راست و مہذّب و غیر متعصب بنا تا ہے۔

Leave a Comment