روحانی آکسیجن

Eastern View of Jerusalem

Spiritual Oxygen

By

Nasir

ناصر

Published in Nur-i-Afshan Oct 09, 1890

نور افشاں مطبوعہ ۹ اکتوبر٫۱۸۹۰

زمانہ حال میں سائنس کا چراغ گھر گھر روشن ہے۔علم طبیعیات کے رسالے مکتبوں میں پڑھائے جاتے ہیں ۔اس لئے ضرور نہیں کہ ہم اپنے ناظرین کو آکسیجن کی نسبت ابتدائی سبق سکھاناشروع کریں ۔ہر چند اس گیس سے ہر ایک خواندہ شخص کم وبیش واقف ہو گا۔لیکن مذکورۃ الصدر عنوان (یہاں پر دیا گیا عنوان)بہتوں کو حیرت میں ڈالے گا کہ روحانی آکسیجن سے ہماری کیا مراد ہے۔

جن لوگوں سے نیچر کے نظاروں کو نظاروں کو نظر تعمق (غور کرنا)سے دیکھنا سیکھا ہے اُن پر اس قدر روشن ہو ا ہو گا کہ اِن نظاروں کی آڑ میں کوئی اعلیٰ حقا یق پوشیدہ ہیں اور جو لوگ علم معرفت میں پرواز کرتے ہیں اُن کو ہر ایک برگ و گل میں روحانی عالم کی خوبیاں نظر آتی ہیں۔

کیا عالم کے اُستادِعظیم نے جس نے فرمایا کہ مجھ سے سیکھو موجودہ زندگی کی ضروریات اور اشیا کو سامنے رکھ کر روحانی عالم کی راستیاں دنیا کے سامنے پیش نہیں کیں؟ورنہ نوزادگی اور زندہ روٹی اور زندہ پانی جہاں کا نور وغیرہ الفاظ کے معنی ہیں ؟غرض دیدنی اشیا نادیدنی حقائق کا گویا عکس ہیں۔

روحانی آکسیجن سے ہماری مُراد ہے کہ عالم مادی میں آکسیجن گیس اپنے بعض صفات و خواص میں روح القدس سے مشابہ ہے۔البتہ ہم اپنے ناقص علم و عقل کے مطابق جو تشبیہات قائم کریں وہ سوائے مجموعہ چند خیالات ہونے کے قابل سند نہیں ۔جن مشاہدات و معلومات سے اِس تشبیہ کا سلسہ راقم کے دل میں قائم ہوا ناظرین کے پیش کیا جاتا ہے۔

اولاًقابلِ لحاظ ہے کہ زبان عبرانی میں جو لفظ ہوا کے لئے مقرر ہے وہی روح کی معنی میں مستعمل ہوتا ہے۔چنانچہ کتاب پیدایش کے پہلے باب کی دوسری آیت میں بعض مفسرین نے ’’خدا کی روح‘‘کی جگہ’’خدا کی ہوا ‘‘بہتر ترجمہ سمجھا ہے۔بعض دیگر مقامات میں بھی یہ لفظ اسی طرح استعمال کیا گیا ہے۔ہمارے خداوند نے جب روح القدس کی تاثیر کا ذکر کیا تو ہوا کی مثال پیش کی (دیکھو انجیل یو حنا ۸:۳)جس جرمن لفظ سے گیس مستخرج ہے اُس کے اصلی معنی بھی روح کے ہیں ۔

ثانیاًآکسیجن کے صفات و خواص کی کسی قدر مطابقت۔

آکسیجن گیس ہوا میں بغیرکسی کیمیائی آمیزش کے موجود ہے

الف۔آکسیجن بے رنگ نادیدنی بے ذائقہ بے بو ہے غرض ظاہری طور پر نمودار نہیں تو بھی ہر جگہ موجود ہے ویسا ہی روح القدس بھی ظاہر ی حواس کے ذریعہ تمیز نہیں کی جا سکتی انہی صفات سے معلوم ہوتی ہیں (چنانچہ دیکھو ایوب ۹،۸:۲۳اور یرمیاہ ۲۴:۲۳اور رومیوں ۳۳:۱۱۔

ب۔آکسیجن گیس ہوا میں بغیرکسی کیمیائی آمیزش کے موجود ہے روح القدس بھیآزاد ہے(دیکھو زبور۱۲:۵۱میں آزاد روح کا ذکر )۔
ہوا میں نائیٹروجن کا ہونا فقط آکسیجن کو پتلاکرنے کی خاطر ہے۔اگرچہ نائیٹروجن کئی ایک اشیا اورخصوصاًانسانی جسم کی ترکیب کے لئے ضرور ہے تو بھی ہوا میں آکسیجن کے ساتھ کیمیائی طور سے ملی ہوئی نہیں ۔چنانچہ تنفس وغیرہ میں اس کے نفی صفات ظاہر ہیں کیا یہاں گناہ کی ہستی کا اشارہ نہیں پایا جاتا جو روح القدس کے کام کے مخالف ہے؟

ج۔آکسیجن شعلہ کو قائم رکھنے والی گیس ہے۔روح القدس بھی روحانی آگ کو قائم رکھتی ہے۔ چنانچہ ۱۔تھسلنیکیوں ۱۹:۵میں ہے روح کو مت بجھاؤ (نیز اعمال ۳:۲میں ’’آگ کی سی زبانیں ‘‘اور عبرانیوں ۷:۱میں ’’خدا کے خادم آگ کا شعلہ ‘‘۔غور طلب ہیں)

د۔ آکسیجن زندگی بخش گیس ہے اور بذریعہ دورانِ خون کے جسم کے ہر حصّہ میں بقدر ضرورت تقسیم کی جاتی ہے ۔خوردبینوں کے ذریعہ دریافت کیاگیا ہے کہ اکثر بخارات اور متعدی امراض خون میں کئی قسم کے خودرو حیوانات کے داخل ہونے سے پیدا ہوتے ہیں اور بعض عالموں کی رائے ہے کہ یہ حیوانات جسم میں سے آکسیجن کھینچ لینے سے امراض پیدا کرتے ہیں۔گویا جسم کی زندگی اس میں ہے کہ اِن ایذا رساں حیوانات کا مقابلہ کرے۔روح القدس بھی حزقی ایل ۱۴:۳۷ میں زندہ کرنے والی روح کہلاتی ہے (کسان کی تمثیل میں ’’چڑیاں‘‘متی ۱۹،۴:۱۳ اور تاریکی کے اقتدار والوں سے جنگ‘‘افسیوں۱۲:۶قابل غور ہیں)۔

ر۔آکسیجن خون کو صاف کرکے زندگی کو بحال اور قائم رکھتی ہے جس وقت یسعیاہ نبی نے قوم بنی اسرائیل کی خستہ حالی کا ذکر کیا اور مسیح کی سلطنت کو پناہ گاہ قرار دیا وہ فرماتا ہے کہ ’’خداوند یروشیلم کا لہو اُس کے درمیان روح عدل اور روح سوزاں سے صاف کرے گا‘‘(یسعیاہ ۴:۴)۔

س۔آکسیجن گیس میں خفیف شعلہ کی روشنی بھی اس قدر تیز ہو جاتی ہے کہ آنکھیں چندھیانے لگتی ہیں یعنی آکسیجن روشن کرنیوالی گیس ہے۔ متی ۳:۲۵، ۴اور یوحنا۲۰:۲، ۲۷سے ظاہر ہے روح القدس بھی روشن کنندہ ہے۔خروج ۲۱:۱۳میں ’’آگ کا ستون ‘‘۔اور مکاشفہ ۵:۴میں ’’آگ کا چراغ ‘‘غور کے لائق ہیں )۔

ص۔آکسیجن سطح زمین پر ہر جگہ کثرت سے موجود ہے۔اُس کے حاصل کرنے میں فقط دم کو اندر کھینچنا کافی ہے۔

اس طرح روح القدس بھی خدا کی بخش ہےاور خدا ہر وقت اس کو دینے کے لئے تیار ہےاوروہ کثرت سے دیتا ہے بشرطیکہ کوئی اُسے خوشی سے قبول کرنا چاہئے(یسعیاہ۱:۵۵ ،یوحنا۳۴:۳)۔

جب ہمارا دم ہوا میں جا ملے گا اور جسم خاک کے نیچے پڑارہئے گا۔اس وقت ہم کو آکسیجن درکار نہیں ہو گی۔لیکن روح القدس جو ہماری روحانی زندگی کو قائم رکھتی ہو ایک ایسے عالم میں بھی ابدالآباد روشنی اور خوشی بخش ہو گی جہان گناہ اور زوال کا سایہ بھی نہیں ۔کیا ہی خطر ناک حالت ہے اُن لوگوں کی جو روح القدس کا سامنا کرتے ہیں۔

اے ناظرین کیا آپ خدا کے اِس مفت انعام کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں؟

Leave a Comment