عہد جدید کیونکر فراہم کیا گیا ؟

Eastern View of Jerusalem

How did we get the Gospel?

By

Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan Dec 18, 1890

نور افشاں مطبوعہ۱۸دسمبر٫۱۸۹۰

وہ کون سی بات ہے جو اِس کتاب میں اور دوسری کتابوں میں فرق و امتیاز کرتی ہے؟یہ کس کی کتا ب ہے؟کس نے اس کو بنایا؟اس امر میں بے دین لوگوں کے عجیب خیالات ہیں ۔ایک اخبار میں ایک بے دین شخص کا لکھا ہوا ایک آرٹیکل ہماری نظر سے گزرا جس میں لکھا تھا کہ ’’۳۲۵ ؁ء میں نائیس (نقایہ)کی کونسل نے عہد جدید کو مرتب کیا۔اُن لوگوں کے پاس بہت اناجیل اور نامجات (خطوط)اصلی اور جعلی موجود تھے ۔جن میں کوئی تفریق وتمیز نہ کر سکتا تھا ۔پس انہوں نے اُن سبھوں کو فرش پر رکھ دیا اور دُعا مانگی کہ اصلی حصّے کی کمیونین ٹیبل (جس میز پر پاک شراکت کا سامان رکھا جاتا ہے) پر چلے جائیں اور جعلی فرش پر پڑے رہیں ۔یہ وہ طریقہ تھا جس سے موجودہ عہد جدیدمرتب کیا گیا‘‘۔یہ وہ قِسم خوراک ہے جس کو بے دین لوگ نگلتے اور ہضم کرتے ہیں کیونکہ آج کل اکثر بے دین لوگوں کی تصنیفات میں جنہیں وہ لوگ شائع کرتے ہیں یہ بیان پایا جاتا ہے ۔راقم آرٹیکل کہتا ہے کہ یہ بیان پپیاس کی سند پر قائم ہے جو کہ ایک قدیم مسیحی بشپ تھا۔لیکن اگر اُس روایت کو تسلیم کیا جائے تو یہ مشکل واقع ہو گی کہ پاپیاس نے نائیس  (نقایہ) کی کونسل کے انعقاد سے ایک سو پچاس برس قبل وفات پائی اور مدفون ہوا ۔پس بے دینوں نے یہ خبر بدروحوں سے پائی ہو تو تعجب نہیں۔ایچ ایل ہیسٹنگس صاحب فرماتے ہیں کہ ’’میرے پاس ایک مختصرلائبریری ہے ‘‘(یہ پچیس جلدیں ہیں جن میں قریب بارہ ہزار صفحے اُن مختلف مصنفوں کی تحریر ہیں جنہوں نے ان کو ۳۲۵ ؁ء سے پیشتررکھا تھا جبکہ نائیس (نقایہ)کی کونسل فراہم ہوئی۔اِن کتابوں میں اکثر مقدس نوشتوں کے اقتباسات بھرے ہوئے ہیں ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن مصنفوں کے پاس وہ ہی کتابیں تھیں جو اب ہمارے پاس ہیں ۔انہوں نے وہ ہی آیات اقتباس کیں جواب ہم کیا کرتے ہیں۔ انہوں نے انہیں اناجیل و نامجات (خطوط) سے اقتباس کئے جس نے ہم اقتباس کرتے ہیں اوریجن جس نے نائیس کی کونسل سے سو برس پیشتراپنی کتاب لکھی اُس میں عہد جدیدکی سب کتابوں سے ۷۵۴۵حوالے اقتباس کئے ہیں۔ٹرٹولین نے ۲۰۰ ؁ء میں عہد جدیدکی کتابوں سے ۳۰۰۰سے زیادہ اقتباس کئے ہیں ۔کلیمنٹ نے ۱۹۴ ؁ء میں۰ ۳۸آئیتیں اقتباس کیں اور ارینیس نے ۸ ۱۷ ؁ء میں ۷۶۷آیات اقتباس کیں۔پولی کارپ جو ۱۶۵ ؁ء میں شہید ہوا اور جس نے چھیالیس (۴۶)برس مسیح کی خدمت کی اُس نے ایک خط میں ۳۶ آیات اقتباس کیں۔جسٹن مارٹر نے ۱۴۰ ؁ء عہد جدید سے اقتباس کئےاور اُن بُت پرست بے دین مصنفوں کا تو جیسا کہ سِلبیس جو ۱۵۰ ؁ء میں ہوا اور پور فری جو ۳۰۴ ؁ء میں تھا کیا ذکر ہے جنہوں نے مہینوں وہ آیات اقتباس کیں جو ہمارے یاس کے موجودہ پاک نوشتوں میں پائی جاتی ہیں اور اُن کے حوالے دئیے جاتے ہیں۔سکاٹ لینڈکے لارڈ ہیلس نے فی الحقیقت اُن مسیحی فادروں کی تصنیفات کو جو آخرصدی سیوم تک گزرے تھے تلاش کر کے اُن میں بجز گیارہ آیات کے کُل عہد جدید کو اقتباسات میں بھرا ہوا پایا جو اب تک جا بجا مشتہر ہیں ۔پس اگر نائیس (نقایہ)کی کونسل کے وقت عہد جدید کی تمام جلدیں مفقودہو جاتیں تو اُن قدیم مسیحی فادروں کی تصنیفات میں سے عہد جدید کی کتاب ازسرِنو تیار ہو سکتی تھی جنہوں نے اُس سے اقتباس کیا جیسا کہ فی زمانہ ہم اُس کتاب سے آیات اقتباس کرتے ہیں اور جو اس پر ایسا ہی ایمان رکھتے تھے جیسا کہ ہم ایمان رکھتے ہیں۔نائیس (نقایہ)کی کونسل نے عہد جدیدمیں ایک نقطہ یا شوشہ کی کمی بیشی مطلق نہیں کی۔یہ کتاب مسیح کے رسولوں سے جو اُس کے لکھنے والے تھے تواترکے ساتھ مومنین کو پہنچی اور نہایت حفا ظت وہوشیاری کے ساتھ محفوظ رکھی گئی اور نائیس  (نقایہ)کی کونسل کے انعقاد سے پہلے علی العموم مسیحی کلیسیاؤں میں پڑھی جاتی تھی۔پس بے دینوں کے تو ہمات و شکوک اُس کی اصلیت کی صداقت کے حق میں ذرّہ بھر وقعت نہیں رکھتے اور مطلق قابل توجہ نہیں ہیں۔

’’یہ کس کی کتا ب ہے؟‘‘

حال میں ایک کتاب موسوم بہ’’مسیحی شہادتوں کے مشاہدات ‘‘جناب پادری الگزینڈرمیر ڈی ڈی مقیم ایڈنبر نے زبان انگریزی میں شائع کی ہے جس میں مصنف عالی و دماغ نے نہایت درجہ کی تحقیق و تفتیش کے ساتھ مسیحی دین کی صداقتوں کو علمی و تواریخی طور پر ثابت کیا ہےاور صاحب موصوف کی اجازت سے ہم نے اُس کے پانچ بابوں کا اُردو میں ترجمہ اور پہلا باب بعنوان ’’مسیحیت اور علم طبعی ‘‘سال رواں کے شروع میں بعد تصیح ونظرثانی اجمیرمشن پر یس سے شائع ہوا لیکن بوجہ عربی ٹیپ میں چھاپے جانے کی زیادہ ترمطبوع خاص وعام نہ ہوا۔اب مشنری صاحبان راجپوتانہ نے ہماری درخواست پر باقی چار بابوں کا ترجمہ ہمارے پاس بھیج دیا ہے جن کو ہم چاہتے ہیں کہ بذریعہ نورافشاں تھوڑا تھوڑا کر کے نمبروارہدیہ ناظرین کریں اور یقین کرتے ہیں کہ اس سے اُردو خواں مسیحیوں کو خصوصاً اور غیر اقوام کوعموماً فائدہ کثیر حاصل ہوگا۔

عہد جدید کی صحت کی قدیم تواریخی گواہی کا بیان

مضمون ذیل کا مقصد عہد جدید کی صحت کے لئے قدیم تواریخی گواہی کا ایک مختصر اور صاف بیان کرنا ہے کہ عہد جدید کی خاص کتابوں کو اصل اور صحیح قبول کرنے کے لئے ہم کیا تواریخی شہادت رکھتے ہیں؟لہٰذا یہ مضمون اندرونی سے نہیں لیکن صرف بیرونی شہدت سے متعلق ہے۔ یہ میدان جو ہمارے سامنے ہے بڑاوسیع ہے۔ اور صرف ایک عام طریقہ میں ہماری موجودہ حدود کے اندر اس پر بحث کی جاسکتی ہے۔ پس ضروری ہے کہ بغیر دقیق باتوں کے مفصل بیان کرنے کے ہم ذیل کے خاص دلیلوں کو مختصر طور پر بیان کرنے پر اکتفا کریں۔ دین عیسوی محض ایک عقلی مذہب نہیں جس کو انسانی عقل ان سامانوں کے جو خلقت میں اس کے سامنے پڑے ہیں ایجاد کرسکے لیکن بخلاف اس کے وہ ایک ایسا مذہب ہے جو بلند تر طبقہ سے خلقت کے اوپر اترتا ہے کہ گری ہوئی ابتر خلقت کی اصطلاح کرے یعنی وہ ایک فوق الخلقت الہام ہے وہ الہام جو آسمانی طبقہ سے اترتا ہے اور اس لئے اس کے مضامین صرف کتابوں یا زبانی روایات سے معلوم ہوسکتے ہیں۔ علی الخصوص وہ ایک ایسا مذہب ہے جو اپنی بنیاد بعض بڑی فوق الخلقت حقیقتوں میں رکھتا ہے جیسے کہ مسیح کا تجسم زندگی ، عمل، موت، قیامت اور صعود لیکن یہ حقیقتیں اگرچہ فوق الخلقت ہیں لیکن اس وجہ سے کہ وہ گزشتہ ماجرے ہیں ہم کو صرف کتاب یا زبانی روایت سے تواریخی شہادت سے معلوم ہوسکتے ہیں۔ ہم لوگوں کو جو اس انیسویں صدی میں ہیں واجب ہے کہ زبانی روایت کو نظرانداز کریں اور اپنی توجہ کتابوں کی شہادت پر محدود کریں۔ لیکن چونکہ دین عیسوی کے تواریخی ماجرے اور ظاہر کی ہوئی صداقتیں عہد جدید میں مندرج ہیں۔ پس سوال یہ ہے کہ عہد جدید کو حواریوں کے زمانہ کی اصل اور صحیح تصنیف قبول کرنے کے لئے ہم کونسی تواریخی شہادت رکھتے ہیں۔

یہ امر غالب ہے کہ اکثر مسیحی اپنے زمانہ کی کلیسیائی عام شہادت پر عہد جدید کو صحیح اور معتبر قبول کرتے ہیں وہ ادھر ادھر دیکھتے اور دنیا میں ایک جماعت موجود پاتے ہیں جو عیسائی کلیسیا کہلاتی ہے۔ وہ بہت سے ملکوں میں پھیل گئی ہے اور وہ بہت مختلف یعنی پروٹسٹنٹ رومن کیتھولک گریگ یا یونانی ،ارمینین، سیرین اور کوپٹک وغیرہ فرقوں میں موجود ہے۔ مگر یہ فرقے باہم کیسے ہی مختلف ہوں اور بعض اوقات ان کی باہمی مخالفت کیسی ہی سخت ہو لیکن ایک بات میں سب متفق ہیں یعنی وہ عہد جدید کو حواریوں اور ان کے رفیقوں کی اصل تصنیف قبول کرتے اور اپنی بنیاد عظیم اور مستند عہد جان کر اس پر بھروسا رکھتے ہیں اور یہ متحدہ شہادت ان تقسیموں کی وجہ سے جو کلیسیا میں موجود ہیں کسی طور سے کمزور نہیں لیکن بوجہ غیر تمند حریفوں کی گواہی ہونے کے وہ بہت زیادہ مضبوط ٹھہرتی ہے۔

متفرق کلیسیاؤں کی متحد گواہی کی عام بنیاد پر مسیحی لوگ اکثر کرکے عہد جدید کی کتابوں کو اصل اور صحیح قبول کرتے ہیں۔اس صورت میں کوئی بات خلاف عقل نہیں ہے لیکن نہایت معقول ہے۔ یہ ٹھیک ویسی ہی بنیاد ہے کہ جس بنیاد پر لوگ اکثر گزشتہ تواریخی ماجروں اور کتابوں کو جو زمانہ ہائے بعید سے ہم تک پہنچے ہیں قبول کرتے ہیں اگر ہم کسی اوسط درجہ کے آدمی سے سوال کریں کہ تم ایسے تواریخی ماجروں کو جیسا کہ محاربہ کابل یا جنگ پلاسی یا سکندر اعظم یا لوتھر کی زندگی کے مقدم ماجروں کو کس واسطے قبول کرتے ہو؟ تو غالباً یہ جواب دے گا کہ میں ان باتوں کو عام مورخوں کی تحریک کی بنیاد پر قبول کرتا ہوں۔ اگر ہم سوال کریں کہ تم کس بنا پر سکندر نامہ کو نظامی کی اور گلستان کو سعدی کی اور دفتر کو ابو الفضل کی تصنیف قبول کرتے ہو تو وہ غالباً یہ ہی جواب دے گا کہ میں اس لئے قبول کرتا ہوں کہ ان کو علی العموم اہل علم نے ایسا قبول کیا ہے۔ یہ ایک معقول جواب ہے اور صرف یہ ہی جواب ہے جو لوگ بکثرت بلکہ تعلیم یافتہ لوگ بھی دے سکتے ہیں پس بطریق اولیٰ مسیحی بھی عہد جدید کی کتابوں کو کلیسیا کی متفق گواہی کی علی العموم بنیاد پر قبول کرتے ہیں اور یہ بنیاد جہاں تک کہ اس کی حد ہی بالکل ایک معقول بنیاد ہے۔

جب ہم دریافت کرتے ہیں کہ گواہی کی کیا خاصیت ہے اور اس کا کیا معقول بیان ہوسکتا ہے تو ضرورت یہ جواب ہوگا کہ وہ خصوصاً تواریخی شہادت کا مقدمہ ہے یعنی وہ اسی قسم کی گواہی ہے جیسی وہ کہ جس کی بنا پر ہم کسی دوسری کتاب یا تواریخی ماجرے کو جو گزشتہ زمانہ سے ہم تک پہنچے ہیں قبول کرتے ہیں۔ اس لئے یہ وہ مسئلہ نہیں ہے جس کے ساتھ ہم طبعی کچھ سروکار رکھتا ہو کیونکہ وہ بالکل اسکے جائز احاطہ سے باہر ہے۔ مطابق ان قاعدوں کے جو پہلے مطالعہ میں بیان کئے گئے علم طبعی تواریخی نکتہ دانی کی قلمرو سے ٹھیک اس قدر کم سروکار رکھتا ہے جس قدر کہ تواریخی نکتہ دانی علم طبعی کی قلمرو سے رکھتی ہے۔علم طبعی مثلاً علم ترکیب زمین ایسے تواریخی ماجروں کی نسبت جیسا کہ محاربہ کابل یا جنگ پلاسی ہی کچھ بھی نہیں کہتا ہے پھر علم طبعی مثلاً علم ہیت کچھ مقرر نہیں کرتا ہے کہ آیا فی الحقیقت سکندر نامہ نظامی کی یا گلستان سعدی کی او ردفتر ابو الفضل کی تصنیفات ہیں۔ایسے سوالوں کی نسبت وہ کچھ نہیں ٹھہراتا ہے کیونکہ وہے بالکل اس کے احاطہ سے باہر ہیں اور تواریخی نکتہ دانی کے بالکل مختلف احاطہ میں ہیں۔ اسی طریقہ پر علم طبعی عہد جدید کی کتابوں کی صحت و غیر صحت کے حق میں کچھ نہیں کہتا ہے۔ وہ ایک ایسی تحقیق ہے جو تواریخی نکتہ دانی اور شہادت کے صیغہ سے جو بالکل ایک مختلف صیغہ ہے علاقہ رکھتی ہے۔

عہد جدید کی صحت کا بیان

یہ ایک آسان امر تو ہے کہ ہم موجودہ صدی سے شروع کرکے اپنے عہد جدید کا سراغ پچھلی صدی سے صدی تک لگا دیں تا وقتیکہ ہم قدیم کلیسیا تک پہنچ جائیں۔ لیکن یہ ایک تکیف دہ اور بالکل بلا ضرورت کام ہوگا۔ پس ہم عہد جدید کے تین بہت پرانے قلمی نسخوں کی مدد سے جو لطیف پروردگاری سے ہمارے زمانہ تک پہنچے ہیں چودہ یا پندر ہ صدی کے اوپر ایک چوکڑی بھرتے ہیں۔ اپنی تحقیقات کی اس منزل پر ہم اس سے بہتر نہیں کرسکتے کہ ان معزز اور لائق گواہوں کو ادائے شہادت کے لئے طلب کریں۔

’’یہ کس کی کتا ب ہے؟کس نے اس کو بنایا؟‘‘

ان گواہوں کو محکمہ میں بلانے سے پیشتر یہ مناسب ہوگا کہ بطور تمہیں کچھ بیان کریں۔ فی الحقیقت چھاپے کے فن کے ایجاد ہونے سے پیشتر اور کتابوں کی مانند عہد جدید صرف قلمی کتابت سے نقل کیا جاتا تھا۔ کتابوں کو قلم سے لکھنے کا یہ کام اگلے زمانوں کی تاریکی کے اندر مسیحی زاہدوں کا ایک خاص پیشہ بن گیا تھا اور ان کی صنعت کے خوبصورت اور مزین نمونے بحفاظت ہمارے زمانہ تک پہنچے ہیں۔ وہ کتابیں جو یوں لکھی جاتی تھیں قلمی نسخے کہلاتی ہیں۔ بالفعل عہد جدید کے قلمی نسخوں کی بہت جلدیں ہیں جو بہت قدیم زمانوں سے ہمارے وقت تک پہنچی ہیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قدیم یونان کی معتبر تصنیفات کی بہت کتابیں ہمارے زمانہ تک محفوظ رکھی گئی ہیں جو ایک مختصر کتب خانہ بنانے کے لئے کافی ہیں۔ لیکن ٹشنڈراف ایک جرمنی عالم جس کی وفات کے تھوڑے دن گزرے اور جو بہ نسبت ہمارے زمانہ کے کسی آدمی کے عہد جدید کے پرانے قلمی نسخوں کا زیادہ علم رکھتا تھا یوں بیان کرتا ہے کہ ”مشیت الٰہی نے عہد جدید کے لئے بہ نسبت تمام یونانی قدیم کتابوں کے بڑی قدامت کے ثبوت زیادہ پہنچائے ہیں“۔ فی الواقع وہ اس مقام پر قلمی نسخوں کے علاوہ کلیسیا کے قدیم مصنفوں کے اقتباسوں اور ترجموں کا اشارہ کرتا ہے۔ یہ حقیقت جس کا ایسا پرزور بیان ہوا ہے ایک نہایت اعلیٰ قدر کی ہے اور ہمارے ایمان کو مضبوط کرنے کے لئے ایک وسیلہ جان کے چاہے کہ اس کو اپنے دلوں پر گہری نقش کریں۔ اس سے ظاہر ہے کہ بائبل کے عالموں کے پاس بہ افراط سامان ہے جس سے ایک معتبر یونانی عہد جدید جمع کرسکیں۔

تین قدیم نسخوں میں سے پہلا جس کو ہم گواہ طلب کرتے ہیں وہ ہے جو الیگزینڈرین کہلاتا ہے اس نے یہ نام اس وجہ سے پایا ہے کہ وہ سترہویں صدی میں مصر کے شہر اسکندریہ سے جہاں غالباً وہ لکھا گیا لایا گیا تھا۔ وہ شہر لندن کے عجائب خانہ میں محفوظ ہے۔ وہ عمدہ بڑے حروف میں قلم سے لکھا گیا ہے۔ عالموں میں سے اس پر اتفاق ہے کہ وہ چودہ سو برس کا لکھا ہوا ہے۔ پس وہ ایک ہی چوکڑی میں ہمیں قریب ۴۵۰ءتک واپس لے جاتا ہے وہ بالکل پورا نہیں ہے کیونکہ دنی اور پرانا ہونے کے باعث کس قدر بگڑ گیا ہے۔ لیکن اس میں عہد جدید کی سب کتاوں کے حصے ہیں اور نہایت صاف صاف ہم پر ظاہر کرتا ہے کہ ۴۵۰ءکے قریب کلیسیا کے ساتھ میں یہ ہی عہد جدید تھا جو اب ہمارے ہاتھ میں ہے۔

دوسرا قدیم قلمی نسخہ جس کی گواہی ہم پیش کرتے ہیں ویٹیکن نسخہ ہے۔ اس کو یہ نام اس لئے دیا گیا کہ وہ شہر روم میں بمقام وٹیکن پوپ کی لائبریری میں محفوظ ہے۔ الیگزینڈرین نسخہ کی مانند وہ بڑے حروف میں لکھا گیا ہے اگرچہ وہ حروف اس قدر خوش خط نہیں ہیں تاہم وہ کس قدر زیادہ پرانا ہے اور پندرہ سو برس سے زیادہ کا ہے ۔ پس وہ فوراً قریب ۳۵۰ءتک واپس لے جاتا ہے۔ لیکن افسوس کہ وہ پورا نہیں ہے۔ مکاشفات اور بعض چھوٹےخطوط اس میں نہیں ہیں لیکن وہ صاف اس حقیقت پر گواہی دیتا ہے کہ عموماً قدیم زمانہ کا عہد جدید ایسا ہی تھا جیسا کہ اب ہمارے ہاتھ میں موجود ہے۔

تیسرا قلمی نسخہ جس کو ہم گواہ لاتے ہیں مذکورہ ہر دو نسخوں سے زیادہ تر مفید ہے۔ یہ وہ ہی جو عالموں میں سینیٹک نسخہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کا یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کہ وہ سینا پہاڑ پر سینٹ کتھرین کی پرانی خانقاہ میں ۱۸۵۹ءمیں دریافت ہوا۔ ٹشنڈراف جرمنی عالم جس کا آگے اشارہ ہو قلمی نسخوں کی تلاش میں مشرق کو ایک سفارت پر بھیجا گیا تھا جہاں اس کو پروردگاری سے اس قدیم خانقاہ میں اس انمول خزانہ کو پانے کی ناموری حاصل ہوئی۔ اس کے دریافت ہونے کے متعلق عجیب بیانات ہیں۔ لیکن ہم ان کو فی الحال قلمبند نہ کریں گے۔ وہ اس کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ اور اب وہ نسخہ سینٹ پٹرس برگ کی شاہی لائبریری میں محفوظ رکھا ہوا ہے۔ وہ تینوں نسخوں میں نہایت خوش خط ہے اور قریب پندرہ سو برس کا ہے اور غالباً ۳۵۰ءکے قریب لکھا گیا ہے۔ اس میں عہد جدید پورا ہے او رکیوں ہمیں نہایت صاف گواہی دیتا ہے کہ اس قدیم زمانہ کا عہد جدید ٹھیک ایسا ہی تھا جیسا کہ اب ہمارے پاس موجود ہے۔

ہم نے ان تین معزز گواہوں کو عیسوی ممالک کے تین دارالسطنتوں سے طلب کیا ہے۔ پہلا لندن سے جو پروٹسٹنٹ تعلیم کا دارالسلطنت ہے۔ دوسرا روم سے جو رومن کیتھولک تعلیم کا درالسلطنت ہے اور تیسرا سینٹ پیٹرس برگ سے جو یونانی کلیسیا کا درالسلطنت ہے۔اور ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی گواہی نہایت صاف ہے۔ وہ نہ صرف صاف ہے بلکہ کامل اتفاق رکھتی ہے اور دلالت کرتی ہے کہ ۳۵۰ءکے قریب یعنی وفات کے یوحنا کے ۲۵۰ برس بعد قدیم کلیسیا کے ہاتھ میں یہ ہی عہد جدید تھا جو ہمارے ہاتھ میں ہے۔

Leave a Comment